مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ایڈز کبھی ختم ہوگی؟‏ مگر کیسے؟‏

کیا ایڈز کبھی ختم ہوگی؟‏ مگر کیسے؟‏

کیا ایڈز کبھی ختم ہوگی؟‏ مگر کیسے؟‏

کچھ عرصہ سے بیشتر افریقی ممالک میں ایڈز کی وبا کو تسلیم کرنے سے انکار کِیا جا رہا ہے۔‏ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بعض لوگ بات بھی کرنا نہیں چاہتے۔‏ تاہم،‏ حالیہ برسوں میں،‏ بالخصوص نوجوانوں کو اس موضوع پر تعلیم دینے کی کوشش کرنے کے علاوہ اس پر صاف‌گوئی سے بات کرنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے۔‏ اِن کاوشوں کو بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‏ لوگوں کا طرزِزندگی اور رسم‌ورواج بہت پُختہ ہے جس میں تبدیلی لانا مشکل ہے۔‏

طبّی ترقی

جہاں تک طبّی میدان کا تعلق ہے تو سائنسدان یچ‌آئی‌وی کی بابت کافی کچھ جان گئے ہیں اور اُنہوں نے ایسی ادویات تیار کر لی ہیں جن سے بہتیروں کی زندگیاں طویل ہو گئی ہیں۔‏ کم‌ازکم تین دافعی ادویات کے مرکب کو بہترین علاج قرار دیتے ہوئے مؤثر طور پر استعمال کِیا جا رہا ہے۔‏

اگرچہ یہ علاج تو نہیں توبھی یہ ادویات ترقی‌یافتہ ممالک میں ایچ‌آئی‌وی سے متاثرہ اشخاص کی شرحِ‌اموات کو کم کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں۔‏ بہت سے لوگ ترقی‌پذیر ممالک کو یہ ادویات فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اِن ادویات کے مہنگا ہونے کی وجہ سے،‏ اِن ممالک کے بیشتر لوگوں کیلئے انہیں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔‏

اس بات سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے:‏ کیا مالی منافع انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہے؟‏ اس صورتحال کو برازیل کے ایچ‌آئی‌وی/‏ایڈز پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پاؤلو ٹی‌زیرا نے بھی تسلیم کِیا کہ ”‏محض نفع کی خاطر ہم زندگی‌بخش ادویات فراہم نہ کرنے سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگا سکتے۔‏“‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏مَیں نہایت فکرمند ہوں کہ معاشی مفادات کو اخلاقی اور انسانی پاس‌ولحاظ سے زیادہ عزیز نہیں رکھنا چاہئے۔‏“‏

بعض ممالک نے بڑی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے استثنائی حقوق کو بالائےطاق رکھتے ہوئے بعض جنرک ادویات کو کم قیمت کے ساتھ برآمد کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ * ساؤتھ افریقن میڈیکل جرنل بیان کرتا ہے کہ ایک سروے کے مطابق،‏ ”‏[‏جنرک ادویات]‏ کی کم سے کم قیمت معیاری یوایس قیمتوں سے ۸۲ فیصد کم پائی گئی تھی۔‏“‏

علاج میں رُکاوٹیں

کچھ عرصہ بعد،‏ بڑی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ترقی‌پذیر ممالک کو بہت کم قیمت پر ایڈز کی ادویات دینا شروع کر دیں۔‏ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ادویات استعمال کرنے کے قابل ہونگے۔‏ تاہم،‏ ترقی‌پذیر ممالک کو ایسی ادویات فراہم کرنے کیلئے کئی بڑی بڑی رُکاوٹوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔‏ اِن میں سے ایک دوائی کی قیمت ہے۔‏ بہت ہی سستی ہونے کے باوجود،‏ یہ ادویات حاجتمند لوگوں کی اکثریت کیلئے مہنگی ہیں۔‏

ایک دوسرا مسئلہ دوائی کی مناسب مقدار حاصل کرنا ہے۔‏ ایسی بہت سی گولیاں ہیں جنہیں مخصوص وقت پر بِلاناغہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اگر اُنہیں صحیح وقت پر نہیں کھایا جاتا یا علاج میں خلل پڑ جاتا ہے تو یہ ایچ‌آئی‌وی کی ادویات کے بےاثر ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ افریقی حالات کے تحت دوائی کی مناسب مقدار لینا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں خوراک،‏ پینے کے صاف پانی کا فقدان ہے اور بہت کم طبّی سہولیات کی کمی ہے۔‏

علاوہ‌ازیں،‏ جو لوگ دوا لے رہے ہیں اُنکا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے۔‏ اگر دوائی کا اثر کم ہو جاتا ہے تو اس کے مرکب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اس کیلئے تجربہ‌کار طبّی عملے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے درکار ٹیسٹ بھی خاصے مہنگے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ اس دوائی کے مُضر اثرات بھی ہیں،‏ نیز وائرس کے دوا کو بےاثر کرنے والے اجزا بھی بڑھنے لگتے ہیں۔‏

جون ۲۰۰۱ میں،‏ یواین جنرل اسمبلی میں ایڈز پر ہونے والے خصوصی اجلاس میں ترقی‌پذیر ممالک کی مدد کیلئے ایک عالمگیر فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔‏ اس کیلئے اندازاً ۷ بلین سے ۱۰ بلین ڈالر درکار تھے۔‏ اس فنڈ کیلئے جن عطیات کا وعدہ کِیا گیا تھا وہ ابھی تک اپنے ہدف سے کافی کم ہیں۔‏

سائنسدان ایک ویکسین تیار کرنے میں کامیابی کی بڑی اُمید رکھتے ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف ویکسین پر تجربہ کِیا جا رہا ہے۔‏ اگر یہ کاوشیں کامیاب رہی تو پھر ویکسین تیار کرنے،‏ اسکا تجربہ کرنے اور عام استعمال کیلئے اسے بےضرر قرار دینے میں کئی سال لگ جائینگے۔‏

برازیل،‏ تھائی‌لینڈ اور یوگینڈا جیسے کئی ممالک کو علاج کے اِن پروگراموں کے سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‏ برازیل میں مقامی طور پر تیارکردہ ادویات کے استعمال سے ایڈز سے ہونے والی اموات کی شرح نصف ہو گئی ہے۔‏ بوٹسوانا جیسا چھوٹا مُلک بھی اپنے مالی وسائل کی بدولت اپنے مُلک کے سب لوگوں کو ادویات اور صحت کیلئے ضروری سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏

ایڈز کی شکست

ایک اہم پہلو سے ایڈز دیگر وباؤں سے مختلف ہے:‏ اس سے بچا جا سکتا ہے۔‏ اگر لوگ بائبل کے بنیادی اُصولوں کی پیروی کرنے کیلئے تیار ہیں تو وہ تمام نہیں تو کئی صورتوں میں اس سے بچ سکتے ہیں۔‏

بائبل کے اخلاقی معیار بالکل واضح ہیں۔‏ غیرشادی‌شُدہ اشخاص کو جنسی تعلقات سے گریز کرنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸‏)‏ شادی‌شُدہ لوگوں کو اپنے بیاہتا ساتھی کا وفادار رہنا چاہئے اور زناکاری سے بچنا چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۴‏)‏ خون سے پرہیز کرنے کے سلسلے میں بائبل کی نصیحت پر دھیان دینا بھی ایک شخص کیلئے تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۲۹،‏ ۳۰‏۔‏

جو لوگ پہلے سے اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ یہ جان کر کہ خدا نے مستقبل میں بیماری سے پاک دُنیا کا وعدہ کِیا ہے اور پھر خدائی تقاضوں کے مطابق زندگی تبدیل کرنے سے خوشی اور تسلی پا سکتے ہیں۔‏

بائبل یقین‌دہانی کراتی ہے کہ انجام‌کار بیماری سمیت انسانوں کی تمام تکالیف ختم ہو جائینگی۔‏ ہم اِس وعدہ کی بابت مکاشفہ کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں جہاں لکھا ہے:‏ ”‏پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُنکے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔‏ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔‏ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

یہ یقین‌دہانی صرف اُن لوگوں کیلئے نہیں جو مہنگا علاج کروا سکتے ہیں۔‏ مکاشفہ ۲۱ باب کے نبوّتی وعدے کی تصدیق یسعیاہ ۳۳:‏۲۴ میں کی گئی ہے:‏ ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏ اُس وقت زمین پر رہنے والے تمام لوگ خدا کے قوانین کی فرمانبرداری کرتے ہوئے کامل صحت سے لطف‌اندوز ہوں گے۔‏ لہٰذا،‏ ایڈز کی مُہلک پیش‌قدمی—‏نیز دیگر تمام بیماریاں—‏ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائینگی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 جنرک ادویات ایسی ادویات کی نقل ہوتی ہیں جنہیں تیار کرنے کا حق دوسری فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو بھی ہوتا ہے۔‏ ہنگامی صورتحال میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ممبر ممالک قانونی طور پر پیٹنٹ ادویات تیار کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۹،‏ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

مجھے اسی علاج کی تلاش تھی

مَیں جنوبی افریقہ میں رہتی ہوں اور میری عمر ۲۳ سال ہے۔‏ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب مجھے پتہ چلا کہ مَیں ایچ‌آئی‌وی سے متاثر ہوں۔‏

جب ڈاکٹر نے مجھے یہ بتایا تو مَیں اپنی والدہ کیساتھ مشورہ حاصل کرنے والے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔‏ یہ میری زندگی کی سب سے افسوسناک خبر تھی۔‏ مَیں انتہائی پریشان تھی اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔‏ مَیں نے سوچا شاید لیبارٹری والوں سے غلطی ہوئی ہے۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہوں یا کیا کروں۔‏ مَیں رونا چاہتی تھی مگر میرے آنسو بالکل خشک ہو چکے تھے۔‏ ڈاکٹر نے میری ماں کیساتھ ادویات اور دیگر چیزوں کی بابت گفتگو شروع کر دی مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔‏

مَیں نے سوچا کہ شاید مَیں نے پڑھائی کے دوران یونیورسٹی سے جراثیم اُٹھا لئے ہیں۔‏ مَیں کسی ایسے شخص سے بات کرنا چاہتی تھی جو میری حالت کو سمجھ سکتا مگر مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آ رہا تھا۔‏ میرے اندر مایوسی اور ناکارہ ہونے کے احساسات نے جنم لے لیا۔‏ اگرچہ میرا خاندان میری دلجوئی کر رہا تھا مگر مَیں نااُمید اور خوفزدہ تھی۔‏ دیگر نوجوانوں کی طرح میرے بھی بہت سے خواب تھے۔‏ میری تعلیم مکمل ہونے اور ڈگری حاصل کرنے میں صرف دو سال رہ گئے تھے مگر اب تو یہ اُمید بھی ختم ہو گئی تھی۔‏

مَیں نے تجویزکردہ ادویات استعمال کرنا اور ایڈز کے مشیروں کے پاس جانا شروع کر دیا مگر اسکے باوجود مَیں مایوسی کا شکار تھی۔‏ مَیں نے خدا سے دُعا کی کہ مجھے مرنے سے پہلے سچی مسیحیت سے واقف کرائے۔‏ مَیں پینٹیکاسٹل چرچ کی رُکن تھی مگر وہاں سے کوئی بھی مجھے ملنے کیلئے نہیں آیا تھا۔‏ مَیں یہ حقیقت جاننا چاہتی تھی کہ مرنے کے بعد مَیں کہاں جاؤنگی۔‏

اگست ۱۹۹۹ کے اوائل میں،‏ یہوواہ کے دو گواہ ہمارے دروازے پر آئے۔‏ اُس روز میری طبیعت بہت خراب تھی مگر اس کے باوجود مَیں اُن کیساتھ بیٹھک میں بیٹھنے کے قابل ہوئی۔‏ دو خواتین نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ وہ لوگوں کو بائبل کا مطالعہ کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔‏ اپنی دُعاؤں کا جواب حاصل کرنا کسقدر تسلی‌بخش تھا۔‏ مگر اس وقت تک مَیں اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ میرے لئے دیر تک پڑھنا یا توجہ دینا ممکن نہیں تھا۔‏

تاہم،‏ مَیں نے اُنہیں بائبل مطالعہ کرنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کِیا اور اُنہوں نے میرے ساتھ اسکا بندوبست بنا لیا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ یہ وقت آنے سے پہلے ہی مَیں شدید ڈیپریشن کی وجہ سے نفسیاتی ہسپتال پہنچ گئی۔‏ تین ہفتے تک زیرِعلاج رہنے کے بعد مجھے چھٹی مل گئی اور مَیں یہ جان کر بہت خوش تھی کہ گواہ مجھے بھولی نہیں تھیں۔‏ مجھے یاد ہے کہ اُن میں سے ایک میری خیریت معلوم کرنے کیلئے وقتاًفوقتاً مجھ سے رابطہ کرتی تھی۔‏ جسمانی طور پر مَیں قدرے بہتر ہو گئی تھی لہٰذا سال کے آخر میں،‏ مَیں نے بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا۔‏ اپنی غیریقینی حالت کی وجہ سے یہ میرے لئے آسان نہیں تھا۔‏ مگر جو بہن میرے ساتھ مطالعہ کر رہی تھی وہ کافی سمجھدار اور صابر تھی۔‏

بائبل میں سے یہوواہ اور اُسکی خوبیوں کی بابت پڑھنے کے علاوہ،‏ مَیں اس بات سے بہت حیران تھی کہ اُسے جاننے اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے کا کیا مطلب ہے۔‏ زندگی میں پہلی بار مجھے انسانی تکالیف کی وجہ سمجھ میں آئی تھی۔‏ مَیں خدا کی بادشاہت کی بابت سیکھ کر بہت خوش تھی جو بہت جلد انسانی حکومتوں کی جگہ لینے والی ہے۔‏ اس نے مجھے اپنی طرزِزندگی کو یکسر بدلنے کی تحریک دی۔‏

درحقیقت یہی وہ علاج تھا جسلی مجھے تلاش تھی۔‏ یہ جاننا کسقدر تسلی‌بخش تھا کہ یہوواہ ابھی بھی مجھے پیار کرتا اور میری فکر رکھتا ہے!‏ پہلے مَیں یہ سوچتی تھی کہ خدا کو مجھ سے نفرت ہے اور اسی وجہ سے مجھے یہ بیماری لگی ہے۔‏ مگر مَیں نے سیکھا کہ مشفقانہ طور پر یہوواہ نے یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کی بنیاد پر گُناہوں کی معافی کا بندوبست کِیا ہے۔‏ اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ خدا ہماری پروا کرتا ہے جیسےکہ ۱-‏پطرس ۵:‏۷ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُسکو تمہاری فکر ہے۔‏“‏

ہر روز بائبل کا مطالعہ کرنے اور کنگڈم ہال میں مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے سے،‏ مَیں یہوواہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‏ اگرچہ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا مگر مَیں دُعا میں اپنی ساری پریشانیاں یہوواہ کے سامنے رکھ دیتی ہوں اور اُس سے طاقت اور اطمینان کے کئے درخواست کرتی ہوں۔‏ میرے پاس خوش ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کلیسیائی اراکین میری مدد کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔‏

مَیں مقامی کلیسیا کیساتھ بشارتی کام میں باقاعدہ حصہ لیتی ہوں۔‏ مَیں روحانی طور پر دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں بالخصوص اُنکی جو میرے جیسی صورتحال میں مبتلا ہیں۔‏ مَیں نے دسمبر ۲۰۰۱ میں بپتسمہ لیا۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

خدا کی بادشاہت کی بابت جاننا میرے لئے باعثِ‌مسرت تھا

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

بوٹسوانا میں ایڈز کی بابت مشورت فراہم کرنے والی ٹیم

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

فردوسی زمین پر،‏ سب لوگ کامل صحت سے لطف‌اندوز ہونگے