اصل میں ہمارے کتنے حواس ہیں؟
اصل میں ہمارے کتنے حواس ہیں؟
”ہم بِلاحیلوحجت اور اتنی اثرآفرینی سے اپنے ماحول کیساتھ پیوستہ ہو جاتے ہیں کہ نہایت سادہ حس کے پسِپردہ جاریوساری وسیع عمل کو سمجھنا مشکل ہے۔“—سنسری ایگزوٹیکا—انسانی ادراک سے بعید دُنیا۔
تصور کریں کہ آپ شہر سے باہر ایک پُرسکون سڑک پر سائیکل چلا رہے ہیں۔ جب آپ پیڈل مارتے ہیں تو آپ کے ٹانگوں میں موجود حاسے آپ کو اپنی رفتار برقرار رکھنے کے لئے صحیح دباؤ ڈالنے کے قابل بناتے ہیں۔ آپکے توازن برقرار رکھنے والے اعضا آپکو سیدھا رکھتے ہیں، آپکے نتھنے خوشبو سونگھتے ہیں: آپکی آنکھیں گردوپیش کے مناظر سے لطفاندوز ہوتی ہیں؛ آپکے کان پرندوں کی چہچہاہٹ پر لگے ہوتے ہیں۔ پیاس لگتی ہے تو آپکی انگلیاں پانی کی بوتل تھام لیتی ہیں جنہیں آپکی انگلیوں میں موجود حساسے مدد دیتے ہیں۔ آپکی ذائقے اور ٹھنڈے اور گرم کی حس آپ کو مشروبات کے درجۂحرارت اور ذائقے سے روشناس کراتی ہے۔ آپکی جِلد اور جسم پر موجود بالوں سے جڑے حواس بتاتے ہیں کہ ہوا کتنی تیز ہے اور آپکی آنکھوں کیساتھ ملکر یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کتنا تیز جا رہے ہیں۔ آپکی جلد آپکو درجۂحرارت اور ہوا میں موجود نمی کی مقدار سے بھی مطلع کرتی ہے جبکہ وقت سے آپکی واقفیت آپکو یہ بھی تباتی ہے کہ آپ اندازاً کب سے سڑک پر ہیں۔ انجامکار، اندرونی حواس آپکو آرام کرنے اور کھانے پر مجبور کرتی ہے۔ جیہاں، واقعی زندگی حواس کی بیمثال ہمآہنگی کا نام ہے۔
محض پانچ حواس؟
سائیکل پر ایسے سفر کے دوران، کتنے حواس سرگرمِعمل ہوتے ہیں—کیا محض روایتی حواسِخمسہ: دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کے حواس؟ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق، یہ حواسِخمسہ قدیم مفکر ارسطو نے شمار کئے تھے جسکا ”اثر اتنا دیرپا ہے کہ آج بھی بیشتر لوگ حواسِخمسہ ہی کا ذکر کرتے ہیں گویا اَور کوئی حس نہیں۔“
تاہم، بریٹینیکا کے مطابق جِلد کی حساسیت سے متعلق تحقیقات نے ”یہ ظاہر کِیا ہے کہ انسانی حواس پانچ سے زیادہ ہیں۔“ یہ کیسے ممکن ہے؟ بعض کام جو چھونے کے زمرے میں آتے تھے آج اُنہیں علیٰحدہ حواس کہا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، درد کے حاسے میکانکی، حرارتی اور کیمیائی قوتوں کے درمیان تفریق کرتے اور ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ دیگر حواس خارش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ شہادت تجویز کرتی ہے کہ ہمارے پاس کمازکم دباؤ کے دو طرح کے حواس ہیں—ایک کم دباؤ والا اور دوسرا گہری تحریک دینے والا ہے۔ ہمارے بدن میں اَور بھی بہت سے اندردنی حواس ہیں۔ اُنکا کیا کام ہے؟
اندرونی حواس
اندرونی حواس ہمارے بدن کے اندر واقع ہونے والی تبدیلیوں کا سراغ لگاتے ہیں۔ وہ بھوک، پیاس، تھکن، اندرونی درد، سانس اور رفعحاجت جیسی ضروریات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہماری حیاتیاتی نمود کے مطابق، اندرونی حواس ہمیں دن کے آخر پر تھکاوٹ اور اگر ہم نے ہوائی سفر کِیا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی تھکان محسوس کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ درحقیقت، چونکہ ہم شعوری طور پر وقت گزرنے کو ”سمجھ“ سکتے ہیں لہٰذا یہ کہا جاتا ہے کہ وقت کی بابت آگہی کو بھی حواس کی فہرست میں شامل کِیا جا سکتا ہے۔
ہمارے اندر جوفی حس یا توازن کی حس بھی ہے جو کہ ہمارے اندرونی کان میں موجود ہوتی ہے۔ یہ کششِثقل، تیز رفتاری اور گردش کیلئے جوابی عمل دکھاتی ہے۔ نیز ہمارے اندر عضلاتی حس بھی ہے جو ہمیں پٹھوں میں کھچاؤ اور بند آنکھوں کیساتھ بھی ہمارے ہاتھ پاؤں کی حرکت اور حالت کا اندازہ لگانے کے قابل بناتی ہے۔
بِلاشُبہ، صرف انسان ہی حواسی قوتوں سے لیس نہیں ہیں۔ جانوروں میں بھی مختلف حواس پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض ایسے حیرانکُن ہیں کہ وہ انسانوں میں بھی نہیں ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم اِن میں سے چند ایک پر غور کرینگے۔ ہم اپنا اور ایسی منفرد خصوصیات کا بھی بغور جائزہ لینگے جو انسانوں کو زمینی مخلوقات میں سب سے ممتاز بناتی ہیں۔
[صفحہ ۴ پر بکس/تصویر]
انسانی لمس ایک حیرتانگیز حس
انسانی ہاتھ میں بالخصوص چھونے کی عمدہ حس ہے۔ سمتھسونیئن رسالے کے مطابق، محققین نے دریافت کِیا ہے کہ ہمارا ہاتھ تین مائیکرون اُونچے نقطے کو بھی محسوس کر سکتا ہے۔ (انسانی بال کا قطر ۵۰ سے ۱۰۰ مائیکرون ہوتا ہے۔) تاہم، ”نقطے کی بجائے کسی چیز کی بناوٹ کو استعمال کرتے ہوئے، محققین نے دریافت کِیا ہے کہ ہاتھ ۷۵ نینومیٹر اُونچی کھردری سطح کو محسوس کر سکتا ہے“ جبکہ نینومیٹر ایک مائیکرون کا ہزارواں حصہ ہے! ایسی غیرمعمولی حساسیت کا دارومدار ہر انگلی کی پور میں موجود ۰۰۰،۲ حاسوں پر ہے۔
ہماری چھونے کی حس ہماری صحت اور فلاحوبہبود کے سلسلے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یو.ایس. نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ بیان کرتا ہے، ”کسی دوسرے شخص کا لمس ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جو درد کو کم اور ذہن کو صاف کر سکتے ہیں۔“ بعض کا خیال ہے کہ جب کوئی بچہ دوسروں کے مشفق لمس سے محروم ہو جاتا ہے تو اُسکی نشوونما رُک جاتی ہے۔
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
;J. G. Heck/The Complete Encyclopedia of Illustration :Eye
;ear and inner ear: © 1997 Visual Language
,The Anatomy of Humane Bodies :hand
with figures drawn after the life by some
. . . of the best masters in Europe
Oxford, 1698, William Cowper