مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جانوروں کے حیرت‌انگیز حواس

جانوروں کے حیرت‌انگیز حواس

جانوروں کے حیرت‌انگیز حواس

خوراک کی تلاش میں سرگرداں چوہا تاریکی میں خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔‏ لیکن یہ سانپ کی چوہے کے جسم سے نکلنے والی حرارت کو ”‏محسوس“‏ کرنے کی خصوصیت نہیں رکھتا اور یہی مُہلک ثابت ہوتا ہے۔‏ ایک چھوٹی مچھلی شارک کے تالاب میں ریت کے نیچے چھپی ہے جبکہ بھوکی شارک مچھلی اسی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے۔‏ شارک اس مچھلی کو تو نہیں دیکھ سکتی لیکن شارک اچانک رُک کر ریت میں اپنی ناک ڈال کر کچھ سونگھ کر اپنے شکار کو ہڑپ کر لیتی ہے۔‏

واقعی سانپ اور شارک ایسے جانوروں کی مثالیں ہیں جو ایسے مخصوص حواس سے لیس ہوتے ہیں جو انسانوں میں نہیں ہوتے۔‏ اسکے برعکس،‏ بعض جانوروں کے حواس ہمارے حواس سے ملتےجلتے ہیں مگر ہمارے حواس سے زیادہ تیز ہوتے ہیں۔‏ آنکھیں اسکی اچھی مثال ہیں۔‏

وہ چیزیں دیکھنے والی آنکھیں جو انسان نہیں دیکھ سکتے

ہماری آنکھیں برقی مقناطیسی طیف کے محض ایک چھوٹے سے حصے کی حد تک رنگ دیکھ سکتی ہیں۔‏ مثلاً،‏ ہماری آنکھیں زیریں سُرخ اشعاع نہیں دیکھ سکتیں جو سُرخ روشنی سے بڑی ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ سانپ کی آنکھوں اور نتھنوں کے درمیان دو چھوٹے سے اعضا ہوتے ہیں جو زیریں سُرخ اشعاع کو بھانپ لیتے ہیں۔‏ * لہٰذا،‏ وہ تاریکی میں بھی گرم خون والے اپنے شکار پر صحیح طور سے حملہ کر سکتے ہیں۔‏

دیدنی اشعاع کے بنفشی سرے کے بعد بالائےبنفشی اشعاع ہوتی ہیں۔‏ انسانی آنکھیں تو بالائےبنفشی اشعاع کو دیکھ نہیں سکتیں،‏ جبکہ بہت سے جانور،‏ پرندے اور حشرات اِنہیں دیکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ شہد کی مکھیاں آسمان کی تلاش میں برقی بالائےبنفشی اشعاع کو دیکھکر گھنے بادلوں میں چھپے سورج کی سمت میں اُڑتی ہیں۔‏ بہتیرے پھول‌دار پودے ایسے نمونے پیش کرتے ہیں جو صرف بالائےبنفشی میں ہی دیکھے جا سکتے ہیں اور بعض پھولوں میں تو ”‏نیکٹر مارکنگ“‏ کے نام سے ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جو حشرات کیلئے رس کی نشاندہی کرنے کیلئے بالائےبنفشی کے بالکل برعکس روشنی کا انعکاس کرتا ہے۔‏ بعض پھل اور بیج بھی اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے خود کو پرندوں سے متعارف کراتے ہیں۔‏

پرندے چونکہ بالائےبنفشی کی حدود میں دیکھتے ہیں اور یہ روشنی اُن کے پَروں کو زیادہ ضوفشاں بنا دیتی ہے لہٰذا پرندے ہماری نسبت ایک دوسرے کو زیادہ رنگین نظر آتے ہیں۔‏ ایک ماہرِطیوریات نے کہا کہ وہ ”‏اتنی گہرائی تک دیکھ سکتے ہیں جسکا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏“‏ بالائےبنفشی اشعاع کو دیکھنے کی صلاحیت بعض شاہین اور شکروں کو جنگلی یا کھیتوں کے چوہے تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ بائیوسائنس رسالہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏نر جنگلی چوہوں کے پیشاب اور فضلے میں ایسے کیمیاوی اجزا ہوتے ہیں جو بالائےبنفشی کو جذب کرتے اور پیشاب سے راستہ بناتے جاتے ہیں۔‏“‏ لہٰذا پرندے ”‏آسانی سے ایسے مقامات کا تعیّن کر سکتے ہیں جہاں چوہے بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں“‏ اور یوں اُنہیں پکڑنے کیلئے وہاں اپنی کوششوں کو تیز کر دیتے ہیں۔‏

پرندوں کی نظر اتنی تیز کیوں ہوتی ہے؟‏

پرندے حیرت‌انگیز بصارت رکھتے ہیں۔‏ کتاب آل دی برڈز آف دی بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انکی آنکھ کے اندورنی حصے میں جس عضلے پر شبِیہ بنتی ہے اُس میں دیگر جانداروں کی نسبت بصری خلیے زیادہ ہوتے ہیں۔‏ بصری خلیوں کی تعداد آنکھ کے دُور ہی سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت کا تعیّن کرتی ہے۔‏ اگرچہ انسان کی آنکھ میں فی مربع ملی‌میٹر کے حساب سے کوئی ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ بصری خلیے ہوتے ہیں،‏ توبھی بیشتر پرندوں میں یہ تعداد تین گُنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ شاہین اور شکروں اور عقابوں میں یہ تعداد ایک ملین فی‌مربع یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔‏“‏ علاوہ‌ازیں،‏ بعض پرندوں میں دونوں آنکھوں میں بصارت کے اضافی حصے ہوتے ہیں جو اُنہیں فاصلے اور رفتار کے حوالے سے اعلیٰ سمجھ عطا کرتے ہیں۔‏ پرندے جو اُڑنے والے حشرات کا شکار کرتے ہیں اُنہیں بھی ایسی ہی صلاحیت سے نوازا گیا ہے۔‏

پرندوں کے عدسے بھی غیرمعمولی طور پر حساس ہوتے ہیں جو اُنہیں تیزی سے چیزوں کو دیکھنے کے قابل بناتے ہیں۔‏ ذرا تصور کریں کہ اگر سب کچھ واضح نظر نہ آتا ہو تو جنگلوں بالخصوص گھنے جنگلوں میں پرواز کتنی خطرناک ہوگی۔‏ جی‌ہاں،‏ پرندوں کی آنکھ بنانے میں کیا ہی حکمت پنہاں ہے!‏ *

برقی حس

جس مچھلی اور شارک کے منظر کا شروع میں ذکر کِیا گیا تھا وہ دراصل شارک کے ایک سائنسی مطالعے کے دوران رونما ہوا تھا۔‏ ماہرین یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا شارک اور ستارہ مچھلی جاندار مچھلیوں سے خارج ہونے والی معمولی سی برقی قوت کو محسوس کر سکتی ہے یا نہیں۔‏ * یہ دریافت کرنے کیلئے اُنہوں نے شارک کے تالاب کے ریتلے فرش میں برقیرے چھپا دئے اور مناسب مقدار میں ولٹیج دی۔‏ نتیجہ؟‏ جونہی شارک برقیرے کے قریب پہنچی اس نے بڑے غصے سے اس پر حملہ کِیا۔‏

شارک میں غیرمتحرک برقی وصول‌یابی پائی جاتی ہے؛‏ وہ برقی قوت کو محسوس کرتی ہیں جیسے کان غیرمتحرک طور پر آواز کو سنتا ہے۔‏ مگر برق‌دار مچھلی میں متحرک برقی وصول‌یابی ہوتی ہے۔‏ چمگادڑ کی طرح جو صوتی اشارے دیتی اور آواز کی بازگشت کو بھانپ سکتی ہے،‏ یہ مچھلیاں بھی اپنی انواع کے مطابق برقی لہریں یا ارتعاش خارج کرتی ہیں اور پھر مخصوص حساسوں کی مدد سے وہ اِن میں واقع ہونے والے انتشار کو دریافت کر لیتی ہیں۔‏ * پس برق‌دار مچھلی مشکلات،‏ امکانی شکار یا ساتھی کی شناخت کر سکتی ہے۔‏

دربستہ قُطب‌نما

ذرا تصور کریں کہ اگر آپکے بدن دربستہ قُطب‌نما سے لیس ہوتے تو زندگی کیسی ہوتی۔‏ بھٹک جانا یقیناً کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوتا!‏ شہد کی مکھیوں اور ٹراؤٹ مچھلی سمیت کئی جانداروں کے جسم کے اندر سائنسدانوں نے مقناطیسی لوہے کے مائیکروسکوپ ذرّات یا سنگِ‌مقناطیس ایک قدرتی مقناطیسی جُز دریافت کِیا ہے۔‏ جن خلیوں میں یہ ذرّات ہوتے ہیں وہ عصبی نظام سے جڑے ہوتے ہیں۔‏ پس شہد کی مکھیوں اور ٹراؤٹ نے مقناطیسی توانائی کو دریافت کر لینے کی صلاحیت کا اظہار کِیا ہے۔‏ درحقیقت،‏شہد کی مکھیاں چھتا بنانے اور رفتار اور منزل کا تعیّن کرنے کیلئے زمین کی مقناطیسی توانائی استعمال کرتی ہیں۔‏

محققین نے سمندر کی تہہ میں بیٹھے ہوئے مواد میں رہنے والے بیکٹیریا کی اقسام میں مقناطیسی لوہا دریافت کِیا ہے۔‏ جب اس مواد کو ہلایا جاتا ہے تو زمین کی مقناطیسی توانائی مقناطیسی لوہے پر کام کرتی اور بیکٹیریا کو اسطرح صف‌بستہ کرتی ہے کہ وہ واپس سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتے ہیں۔‏ ورنہ وہ مر سکتے ہیں۔‏

نقل‌مکانی کرنے والے بہت سے جانور جن میں پرندے،‏ کچھوے،‏ سامن اور ویلز شامل ہیں وہ بھی شاید مقناطیسی حس رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ وہ صرف اسی حس پر انحصار نہیں کرتے بلکہ سمت اور منزل کا تعیّن کرنے کیلئے مختلف حواس کو استعمال کرتے ہیں۔‏ مثلاً،‏ سامن اپنی جائےپیدائش تلاش کرنے کیلئے اپنی تیز حس‌شامہ کو استعمال کرتی ہے۔‏ یورپی مینا سورج کی مدد سے اور بعض پرندے ستاروں کی مدد سے اپنی منزل اور سمت کا تعیّن کرتے ہیں۔‏ تاہم سنسری ایکزوٹیکا—‏اَے ورلڈ بی‌آنڈ ہیومن ایکپیرئنس کتاب میں نفسیات کا پروفیسر ہاورڈ سی.‏ ہیوز بیان کرتا ہے،‏ ”‏صاف ظاہر ہے کہ ہم قدرت کے ایسے سربستہ رازوں کو سمجھنے سے کوسوں دُور ہیں۔‏“‏

مشتاق کان

انسانوں کے مقابلے میں بہت سے جانداروں کی سننے کی حس بہت حیران‌کُن ہے۔‏ ہم ۲۰ سے ۰۰۰،‏۲۰ ہرٹز (‏فی سیکنڈ چکر)‏ تک کی آوازیں سُن سکتے ہیں اور کتے ۴۰ سے ۰۰۰،‏۴۶ ہرٹز اور گھوڑے ۳۱ سے ۰۰۰،‏۴۰ ہرٹز کے درمیان آوازیں سُن سکتے ہیں۔‏ ہاتھی اور پالتو چوپائے ۱۶ ہرٹز تک کی زیر صوتی (‏انسانی صوت سے کم تعدد)‏ کی آوازیں سُن سکتے ہیں۔‏ کم تعدد کی آوازوں کے دُور تک سفر کرنے کی وجہ سے ہاتھی دو یا اس سے بھی زیادہ میل دُور تک رابطہ کر سکتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ہم زلزلے اور موسمی خرابیوں میں زیر صوتی آواز خارج کرنے والے جانوروں کو تبدیلیوں کی قبل‌ازوقت خبر دینے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔‏

حشرات میں بھی سننے کی مختلف خاصیتیں ہیں بعض میں انسانی کان سے ۱۶ گُنا زیادہ بالا صوتی جبکہ دیگر میں زیر صوتی خصوصیت ہوتی ہے۔‏ بعض حشرات کان کی پتلی اور چپٹی جھلی کی مدد سے سنتے ہیں جو سر کے علاوہ جسم کے ہر حصے پر ہوتی ہے۔‏ دیگر نازک بالوں کی مدد سے سنتے ہیں جو نہ صرف آواز بلکہ ہوا میں انسانی ہاتھوں کی معمولی سی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز کو بھی سُن سکتے ہیں۔‏ یہ حساسیت واضح کرتی ہے کہ مکھیوں کو مارنا کیوں اتنا مشکل ہے!‏

ذرا کسی حشرے کے پاؤں کی چاپ سننے کا تصور کریں!‏ سننے کی ایسی حیران‌کُن صلاحیت صرف اُڑنے والے واحد ممالیہ چمگادڑ کو حاصل ہے۔‏ بلاشُبہ،‏ تاریکی میں منزل اور سمت کا تعیّن کرنے اور صدائےبازگشت یا صوتی لہروں کے انعکاس کے ذریعے حشرات کو پکڑنے کیلئے چمگادڑوں کو خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ * پروفیسر ہیوز کہتا ہے:‏ ”‏ہماری جدیدترین آبدوز میں نصب انتہائی پیچیدہ صوتی لہروں کے انعکاس کے نظام کی بابت سوچیں۔‏ اب ذرا تصور کریں کہ یہی نظام ایک چھوٹی سی چمگادڑ بھی استعمال کرتی ہے جو بڑی آسانی سے آپکی ہتھیلی پر پوری آ سکتی ہے۔‏ جو بھی حساب‌کتاب ایک چمگادڑ کو فاصلے،‏ رفتار اور حشرے کی خاص قسم کا تعیّن کرنے کے قابل بناتا ہے وہ آپکے انگوٹھے کے ناخن سے بھی چھوٹے دماغ میں کِیا جاتا ہے!‏“‏

صوتی لہروں کے انعکاس کا دارومدار حاصل‌کردہ اشاروں پر ہونے کی وجہ سےایک حوالہ‌جاتی کتاب کہتی ہے کہ چمگادڑوں کو ”‏اپنی آواز کے زیروبم پر اتنا عبور حاصل ہوتا ہے کہ شاید ایک گلوکار بھی اُن سے حسد کرنے لگے۔‏“‏ * بعض اقسام کی ناک پر موجود جلد کی تہوں کے ذریعے،‏ چمگادڑیں آواز سے شعاعی وائرلیس کا کام بھی لے سکتی ہیں۔‏ یہ سب کچھ آواز کی لہروں کے اخراج اور انکی بازگشت پر منحصر ایک ایسے پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہے جو انسانی بال کے برابر اشیا کی بھی ”‏صوتی شبِیہ“‏ پیدا کر سکتا ہے!‏

چمگادڑوں کے علاوہ،‏ دو قسم کے پرندے—‏ایشیا اور آسٹریلیا کی کوہی ابابیل اور حاری امریکہ کے آئل‌برڈ بھی—‏صوتی لہروں کے انعکاس کے اُصول پر عمل کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس صلاحیت کو محض تاریک غاروں کا تعیّن کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں جہاں وہ بسیرا کرتے ہیں۔‏

سمندر پر صدائےبازگشت

دندانی وہیل بھی صدائےبازگشت کے اُصول پر عمل کرتی ہیں،‏ اگرچہ سائنسدانوں نے ابھی تک یہ دریافت نہیں کِیا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔‏ ڈالفن کا آواز کی لہروں کا اخراج مختلف آوازوں کیساتھ شروع ہوتا ہے جنکی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ حلق کی بجائے نتھنوں سے نکلتی ہیں۔‏ چربی والے عضلات کا بلب جو ڈالفن کے ماتھے پر ہوتا ہے آواز کو ایسے شعاعی وائرلیس میں تبدیل کر دیتا ہے جو جانور کے سامنے ایک خاص علاقے کو ”‏تابناک“‏ بنا دیتی ہے۔‏ ڈالفن اس بازگشت کو کیسے سنتی ہیں؟‏ عام خیال کے برعکس ڈالفن اپنے کانوں سے جڑے نچلے جبڑے اور درمیانی کان کیساتھ جڑے دیگر اعضا کی مدد سے سنتی ہے۔‏ واضح طور پر،‏ اس حصے میں چربی کی وہی قِسم ہوتی ہے جو ڈالفن کے ماتھے پر ہوتی ہے۔‏

ڈالفن کی صدائےبازگشت کی کلک بڑی حد تک گابر فنکشن ریاضی اُصول کی طرح ہوتی ہے۔‏ ہیوز کے مطابق،‏ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ ڈالفن کی کلک ”‏ایک مثالی صدائےبازگشت کے سگنل کی طرح ہوتی ہے۔‏“‏

ڈالفن کی کلک محض ایک سرگوشی سے ۲۲۰ ڈیسی‌بلز کے تڑاقے کے برابر آواز نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‏ یہ کتنا پُرزور ہوتا ہے؟‏ اُونچا راک میوزک ۱۲۰ ڈیسی‌بلز پیدا کر سکتا ہے اور توپ سے ۱۳۰ ڈیسی‌بلز کی آواز سنائی دے سکتی ہے۔‏ طاقتور صدائےبازگشت سے لیس ڈالفن ۴۰۰ فٹ کے فاصلے پر پڑے تین انچ کے گیند کو بھی دریافت کر سکتی ہیں اور ساکت پانی میں تو اَور بھی دُور سے معلوم کر سکتی ہیں۔‏

جب آپ جانداروں میں موجود حیرت‌انگیز حواس پر غور کرتے ہیں تو کیا آپ حیرت اور مؤدبانہ خوف سے معمور نہیں ہو جاتے؟‏ فروتن اور فہیم لوگ عموماً ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جو کہ اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کیسے وجود میں آئے۔‏ سچ ہے کہ ہمارے حواس بعض جانوروں اور حشرات کے مقابلے میں بہت کم تیز ہیں۔‏ تاہم،‏ صرف ہم ہی کائنات میں موجود چیزوں کو دیکھ کر تحریک پاتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں؟‏ نیز ہم کیوں جانداروں کی بابت محض علم حاصل کرنے کی بجائے اُن کے تخلیق کے مقصد پر غور کرنے اور اُن میں اپنے مقام کی بابت جاننے کے خواہاں ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 تقریباً ۱۰۰ قسم کے سانپ ہیں جس میں امریکہ کا زہریلا سانپ،‏ چکی ناگ اور پانی کے سانپ کی ایک قسم (‏ایگ‌کس‌ٹروڈون)‏ شامل ہیں۔‏

^ پیراگراف 10 قارئین جو ارتقاء اور ذہین خالق کے مابین تضاد کی بابت پڑھنے میں شوق رکھتے ہیں وہ یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب لائف—‏ہاؤ ڈِڈ اِٹ گٹ ہیئر؟‏ بائے ایولوشن اور بائے کریئیشن؟‏ پڑھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 12 پانی کے نیچے انسانوں سمیت تمام جاندار معمولی سی مگر قابلِ‌شناخت برقی قوت خارج کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 13 جس برق‌دار مچھلی کا ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں وہ بہت معمولی سی توانائی پیدا کرتی ہے۔‏ اُسے اُس برق‌دار مچھلی کیساتھ خلط‌ملط نہیں کِیا جا سکتا جو بہت زیادہ توانائی پیدا کرتی ہے جیسےکہ برق‌دار مچھلی اور بام مچھلی جو شکار کو پکڑنے یا حملہ‌آور ہونے کے لئے تیار رہتی ہیں۔‏ برق‌دار بام مچھلیاں گھوڑے کو بھی مار سکتی ہیں!‏

^ پیراگراف 21 چمگادڑ کا خاندان تقریباً ۰۰۰،‏۱ اقسام پر مشتمل ہے۔‏ اس عام نظریے کے برعکس کہ سب کے پاس اچھی نظر تو ہے مگر سب صوتی لہروں کے انعکاس کو استعمال نہیں کرتے۔‏ بعض چمگادڑ جیسےکہ فروٹ چمگادڑ تاریکی میں دیکھنے کی اپنی حیرت‌انگیز بصارت کو خوراک تلاش کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 22 چمگادڑیں ۰۰۰،‏۲۰ سے لیکر ۰۰۰،‏۲۰،‏۱ ہرٹز یا اس سے بھی تیز رفتار کیساتھ پیچیدہ سگنل بھیجتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر بکس/‏تصویر]‏

حشرات سے خبردار رہیں!‏

کتاب سنسری ایکزوٹیکا—‏اَے ورلڈ بی‌آنڈ ہیومن ایکپیرئنس بیان کرتی ہے کہ ”‏ہر روز شام ڈھلنے کیساتھ ہی سان اینٹونیو،‏ ٹیکساس [‏یو.‏ایس.‏اے.‏]‏ کی قریبی پہاڑیوں میں ایک حیران‌کُن واقعہ رُونما ہوتا ہے۔‏ دُور سے آپ شاید اسے زمین کی گہرائی سے اُٹھتا ہوا ایک سیاہ بادل ہی سمجھیں۔‏ تاہم یہ دھوئیں کا بادل نہیں جو سرِشام ہی آسمان پر چھا جاتا ہے بلکہ یہ میکسیکو کی بغیر دُم کی ۲۰ ملین چمگادڑیں ہیں جو بریکن غار سے نکل کر آئی ہیں۔‏“‏

ایک حالیہ اندازہ کے مطابق،‏ بریکن غار سے نمودار ہونے والی اِن چمگادڑوں کی تعداد ۶۰ ملین ہے۔‏ رات کو آسمان پر ۰۰۰،‏۱۰ فٹ کی بلندی تک جاتے ہوئے وہ اپنے مرغوب حشرات کا شکار کرتی ہیں۔‏ اگرچہ آسمان پر چمگادڑوں کی بالاصوتی چیخ‌وپکار ہوگی توبھی اس سے کسی قسم کی ابتری نہیں پھیلتی کیونکہ اِن ممالیہ میں سے ہر ایک اپنی آواز کو پہچاننے کے انتہائی پیچیدہ نظام سے لیس ہوتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

بریکن غار

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy Lise Hogan

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

بغیر دُم کی میکسیکن چمگادڑ—‏صدائےبازگشت

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Merlin D. Tuttle, Bat Conservation International, Inc ©

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

شہد کی مکھیاں—‏بصارت اور مقناطیسی حس

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

سنہری عقاب—‏تیز نظر

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

ستارہ ماہی—‏برقی حس

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

مینا—‏تیز نظر

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

سامن—‏سونگھنے کی حس

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.U.S. Fish & Wildlife Service, Washington, D.C

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

کچھوا—‏غالباً مقناطیس حس رکھتا ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

شارک—‏برقی حس

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

ہاتھی—‏دھیمی سے دھیمی آواز کو سننا

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

کتا—‏اُونچی آواز کو سننا

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

ڈالفن—‏صدائےبازگشت