مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نفرت کی زنجیروں سے آزاد

نفرت کی زنجیروں سے آزاد

نفرت کی زنجیروں سے آزاد

از جوسی گومز

مَیں ستمبر ۸،‏ ۱۹۶۴ کو جنوبی فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے روگنک میں پیدا ہوا۔‏ میرے والدین اور دادا پردادا شمالی افریقہ میں الجیریا اور مراکو میں پیدا ہونے والے انڈالوزین جپسی تھے۔‏ جپسی تہذیب کے مطابق ہمارا خاندان بھی بہت بڑا تھا۔‏

میرا والد نہایت متشدّد شخص تھا اور میرے بچپن کی یادوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ میری ماں کو کتنی بُری طرح مارا کرتا تھا۔‏ ایک وقت آیا کہ میری ماں نے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا جو جپسیوں میں شاذونادر ہی واقع ہوتا ہے۔‏ وہ میرے بھائی،‏ بہن اور مجھے ساتھ لیکر بیلجیئم چلی گئی جہاں ہم نے اگلے آٹھ سال تک پُرسکون زندگی گزاری۔‏

تاہم حالات بدل گئے۔‏ ہم اپنے باپ سے ملنا چاہتے تھے لہٰذا ماں ہمیں فرانس لے آئی اور ایک بار پھر میرے والد سے صلح کر لی۔‏ باپ کیساتھ رہنا میرے لئے ایک بار پھر چیلنج‌خیز ثابت ہوا۔‏ بیلجیئم میں ہم ہر جگہ ماں کیساتھ جایا کرتے تھے۔‏ مگر میرے والد کے خاندان میں،‏ مردوں کی رفاقت صرف مردوں سے ہوتی تھی۔‏ اُن کی مردانہ ذہنیت یہ تھی کہ سب حقوق مردوں کے ہوتے ہیں اور عورتوں کی محض ذمہ‌داریاں ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک دن جب مَیں کھانے کے بعد اپنی آنٹی کی مدد کرنا چاہتا تھا تو میرے انکل نے مجھ پر الزام لگایا کہ مَیں ہم‌جنس‌پسند ہوں۔‏ اُسکے خاندان میں برتن دھونا صرف عورتوں کا کام تھا۔‏ انجام‌کار،‏ ایسی غیرمتوازن سوچ میری سوچ پر بھی اثرانداز ہوئی۔‏

زیادہ وقت نہ گزرا کہ میری ماں ایک بار پھر میرے والد کے تشدد کا نشانہ بننے لگی۔‏ کئی بار جب ہم نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو والد کے مکوں اور گھونسوں سے بچنے کیلئے ہمیں کھڑکی سے کودنا پڑتا تھا۔‏ میری بہن کی بھی پٹائی ہوتی تھی۔‏ نتیجتاً مَیں زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے لگا۔‏ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا۔‏

ایسا وقت آیا کہ مَیں اپنے متشدّد مزاج کی وجہ سے مشہور ہو گیا۔‏ مجھے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا بہت پسند تھا۔‏ بعض‌اوقات مَیں جان‌بوجھ کر دوسرے نوجوانوں کو اشتعال دلاتا لیکن چند ایک ہی جوابی‌عمل دکھانے کی کوشش کرتے بالخصوص اسلئےکہ مَیں اکثر چاقو یا زنجیر اپنے پاس رکھتا تھا۔‏ کچھ ہی عرصہ بعد مَیں نے گاڑیاں چوری کرنا اور پھر اُنہیں فروخت کرنا شروع کر دیا۔‏ کئی مرتبہ تو مَیں اُنہیں آگ لگا دیتا اور پھر آگ بجھانے والوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔‏ اسکے بعد مَیں نے دُکانوں اور گوداموں کو لوٹنا شروع کر دیا۔‏ مجھے کئی مرتبہ گرفتار بھی کِیا گیا۔‏ پس مَیں ہر مرتبہ مدد کیلئے خدا سے دُعا کرتا تھا!‏

جی‌ہاں،‏ مَیں خدا پر ایمان رکھتا تھا۔‏ جب ہم بیلجیئم میں تھے تو مَیں ایک مذہبی سکول جایا کرتا تھا۔‏ لہٰذا مَیں جانتا تھا کہ جوکچھ مَیں کر رہا ہوں وہ غلط ہے۔‏ اسکے باوجود،‏ خدا پر میرے ایمان نے میرے چال‌چلن کو متاثر نہیں کِیا تھا۔‏ میرا خیال تھا کہ جب مَیں گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہوں تو میرے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‏

سن ۱۹۸۴ میں،‏ مجھے ۱۱ مہینوں کے لئے مارسیلز میں باؤمی‌ٹیز کے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔‏ وہاں مَیں نے اپنے بدن کے مختلف حصوں پر نقش کھدوائے۔‏ ایک نقش کی عبارت یہ تھی،‏ ”‏نفرت اور انتقام۔‏“‏ قید میں اصلاح کی بجائے مَیں نے اپنے اندر اختیار اور معاشرے کیلئے نفرت کو جڑ پکڑنے دیا۔‏ تین مہینے بعد ہی رہائی پانے کے باوجود،‏ مجھ میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ نفرت بھر گئی تھی۔‏ تاہم ایک حادثے نے میری زندگی یکسر بدل دی۔‏

انتقام لینا میرا مقصد بن گیا

میرے خاندان کا ایک دوسرے جپسی خاندان سے جھگڑا ہو گیا۔‏ میرے چچاؤں اور مَیں نے فیصلہ کِیا کہ ہم مسئلہ حل کرنے کیلئے اُنکا مقابلہ کرینگے۔‏ دونوں خاندان ہتھیاروں سے لیس تھے۔‏ جب بحث چل نکلی تو اسکے نتیجے میں میرے انکل پریری اور میرے والد کے ایک کزن کو گولی لگ گئی اور وہ چل بسے۔‏ مَیں اتنا پاگل ہو گیا کہ بندوق لیکر گلی میں کھڑا ہوکر غصے میں زورزور سے چلّانے لگا۔‏ میرے ایک انکل نے میری بندوق چھین لی۔‏

انکل پریری کی موت نے مجھے غمزدہ کر دیا جسے مَیں باپ کی طرح سمجھتا تھا۔‏ جپسی دستور کے مطابق مَیں ماتم کرتا رہا۔‏ کئی دن تک مَیں نے نہ تو شیو کی اور نہ ہی گوشت کھایا۔‏ مَیں نے ٹیلیویژن دیکھنے یا موسیقی سننے سے بھی انکار کر دیا۔‏ مَیں نے اپنے انکل کی موت کا بدلہ لینے کا عہد کِیا لیکن میرے رشتہ‌داروں نے مجھے بندوق اُٹھانے سے منع کِیا۔‏

اگست ۱۹۸۴ میں،‏ مجھے فوج میں بھرتی کروا دیا گیا۔‏ بیس سال کی عمر میں میرا اندراج اقوامِ‌متحدہ کی طرف سے لبنان بھیجی جانے والی امن فوج میں ہو گیا۔‏ مَیں نے مارنے یا مرنے کے خطرے کو قبول کر لیا تھا۔‏ اُس وقت مَیں بہت زیادہ حشیش پیتا تھا۔‏ مجھے چوکس رکھنے کے علاوہ یہ نشہ ایسا محسوس کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ کوئی مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‏

لبنان میں ہتھیار حاصل کرنا بہت آسان تھا لہٰذا مَیں نے اپنے انکل کا بدلہ لینے کیلئے فرانس اسلحہ بھیجنے کا فیصلہ کِیا۔‏ مَیں نے مقامی باشندوں سے گولیوں سمیت دو پستول خریدے۔‏ مَیں نے اُنہیں کھول کر دو ریڈیوز کے اندر چھپا کر اپنے مُلک بھیج دیا۔‏

اپنی فوجی ملازمت کے ختم ہونے سے صرف دو ہفتے پہلے،‏ مَیں اور میرے دو ساتھی بغیر چھٹی کے غیرحاضر ہو گئے۔‏ جب ہم واپس لوٹے تو ہمیں قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔‏ جیل میں ایک دن مجھے بہت غصہ آ گیا اور مَیں نے گارڈ پر حملہ کر دیا۔‏ مَیں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی غیرجپسی یعنی پائو مجھے حقارت سے دیکھے گا۔‏ اگلے ہی دن ایک افسر سے میرا جھگڑا ہو گیا۔‏ میری باقی کی فوجی ملازمت پوری ہونے تک مجھے لی‌آنز میں مونٹ‌لک جیل بھیج دیا گیا۔‏

مَیں نے قید میں رہائی پائی

مونٹ‌لک جیل میں پہلے ہی دن میری ملاقات ایک خوش‌مزاج نوجوان سے ہوئی۔‏ مجھے پتا چلا کہ وہ یہوواہ کا ایک گواہ ہے اور اپنے کچھ ہم‌ایمان ساتھیوں سمیت ہتھیار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جیل میں ہے۔‏ اس سے مَیں پریشان ہو گیا۔‏ مَیں اسکی بابت مزید جاننا چاہتا تھا۔‏

مجھے معلوم ہوا کہ یہوواہ کے گواہ خدا سے سچا پیار کرتے ہیں اور اُن کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں نے مجھے بیحد متاثر کِیا۔‏ پھر بھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔‏ بالخصوص مَیں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا مُردے خواب میں زندوں کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں جیساکہ بیشتر جپسی یقین رکھتے تھے۔‏ ایک گواہ جین پال نے مجھے کتاب آپ زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں میں سے بائبل مطالعہ کرنے کی پیشکش کی۔‏ *

مَیں نے ایک ہی رات میں پوری کتاب پڑھ ڈالی اور جوکچھ مَیں نے پڑھا اُس نے میرے دل پر اثر کِیا۔‏ یہاں قید میں مجھے حقیقی آزادی مل گئی تھی!‏ جب مجھے قید سے رہائی ملی تو مَیں بائبل مطبوعات سے بھرا بیگ لیکر گاڑی پر سوار ہو کر سیدھا گھر چلا گیا۔‏

اپنے علاقے میں یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کرنے کے لئے مَیں مارٹیگ کے کنگڈم ہال پہنچا۔‏ ایرک نامی نوجوان کُل‌وقتی خادم کی مدد سے مَیں نے بائبل مطالعہ جاری رکھا۔‏ چند ہی دنوں میں مَیں نے تمباکونوشی بند کر دی اور جرم کی دُنیا میں اپنے سابقہ ساتھیوں سے ملنا چھوڑ دیا۔‏ مَیں امثال ۲۷:‏۱۱ کی مطابقت میں کام کرنا چاہتا تھا جو کہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏ یہوواہ میرے لئے ایک ایسا شفیق باپ بن گیا جسے مَیں خوش کرنا چاہتا تھا۔‏

تبدیلی لانے کا چیلنج

میرے لئے مسیحی اُصولوں پر عمل کرنا آسان نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ مَیں نے دوبارہ منشیات کا استعمال شروع کر دیا جو کئی ہفتوں جاری رہا۔‏ مگر سب سے بڑا مسئلہ میرے لئے انتقام لینے کی خواہش پر قابو پانا تھا۔‏ ایرک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے پاس ہر وقت بندوق ہوتی ہے اور مَیں ابھی تک اپنے انکل کے قاتل سے انتقام لینے کی منصوبہ‌سازی کر رہا ہوں۔‏ مَیں نے کئی راتیں اپنے دُشمنوں کی تلاش میں گزار دیں۔‏

جب مَیں نے ایرک کو اسکی بابت بتایا تو اُس نے مجھے واضح طور پر بتایا کہ اگر مَیں اسلحہ اُٹھائے رکھتا ہوں اور انتقام لینے کی جستجو میں لگا رہتا ہوں تو مَیں خدا کے ساتھ اچھا رشتہ قائم نہیں کر سکوں گا۔‏ اب مجھے انتخاب کرنا تھا۔‏ مَیں نے رومیوں ۱۲:‏۱۹ میں درج پولس کی نصیحت پر غور کِیا:‏ ”‏اَے عزیزو!‏ اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو۔‏“‏ اس صحیفے اور متواتر دُعا نے مجھے اپنے جذبات پر قابو پانے میں مدد دی۔‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲‏)‏ انجام‌کار مَیں نے اسلحہ رکھنا چھوڑ دیا۔‏ ایک سال تک بائبل مطالعہ کرنے کے بعد،‏ مَیں نے دسمبر ۲۶،‏ ۱۹۸۶ میں یہوواہ خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں بپتسمہ لیا۔‏

میرے خاندان کا ردِعمل

مَیں نے اپنے چال‌چلن میں جو تبدیلیاں کیں اُس سے متاثر ہو کر میرے والدین نے بھی بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏ اُنہوں نے دوبارہ شادی کر لی اور میری ماں نے جولائی ۱۹۸۹ میں بپتسمہ لیا۔‏ وقت کیساتھ ساتھ خاندان کے دیگر لوگوں نے بھی بائبل پیغام کیلئے مثبت جوابی‌عمل دکھایا اور یہوواہ کے گواہ بن گئے۔‏

اگست ۱۹۸۸ میں،‏ مَیں نے کُل‌وقتی خادم بننے کا فیصلہ کِیا۔‏ اسکے بعد مجھے اپنی کلیسیا میں ایک نوجوان بہن کاٹیا سے محبت ہو گئی۔‏ جون ۱۰،‏ ۱۹۸۹ میں ہم نے شادی کر لی۔‏ ہمارا شادی کا پہلا سال کچھ زیادہ اچھا نہیں گزرا تھا کیونکہ مجھے ابھی تک عورتوں کی بابت اپنے رویے میں ردوبدل کی ضرورت تھی۔‏ میرے لئے ۱-‏پطرس ۳:‏۷ کے الفاظ کا اطلاق کافی مشکل تھا جو شوہروں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں کہ اپنی بیویوں کی عزت کریں۔‏ بارہا مجھے اپنے تکبّر پر قابو پانے اور اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کیلئے دُعا کرنی پڑتی تھی۔‏ آہستہ آہستہ سب کچھ بہتر ہونے لگا۔‏

میرے انکل کی موت مجھے ابھی تک پریشان کرتی ہے اور اکثراوقات جب مَیں اُسکی بابت سوچتا ہوں تو مجھے اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رہتا۔‏ اُسکے قتل سے متعلق یادیں میرے اندر شدید جذبات کو ہوا دیتی ہیں۔‏ اپنے بپتسمے کے بعد بھی،‏ کئی سال تک مجھے ڈر تھا کہ دُشمن خاندان کے کسی فرد کو دیکھ کر میرا ردِعمل کیسا ہوگا۔‏ اگر وہ مجھ پر حملہ کرتے ہیں تو مَیں کیا کرونگا؟‏ میرا ردِعمل کیسا ہوگا؟‏ کیا میری پُرانی انسانیت مجھ پر حاوی ہو جائیگی؟‏

ایک دن مَیں نے ایک قریبی کلیسیا میں عوامی تقریر پیش کی۔‏ وہاں مَیں نے پیپا کو دیکھا جو کہ اُس شخص کی رشتہ‌دار تھی جس نے میرے انکل کو قتل کِیا تھا۔‏ مَیں مانتا ہوں کہ اُسے دیکھتے ہی میری حقیقی مسیحی شخصیت آزمائش کا شکار ہو گئی۔‏ مگر مَیں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔‏ بعدازاں،‏ پیپا کے بپتسمے کے دن مَیں نے اُسے گلے لگایا اور یہوواہ کی خدمت کرنے کے اُسکے فیصلے کو سراہا۔‏ مَیں نے سب کچھ بھلا کر اُسے روحانی بہن کے طور پر قبول کر لیا۔‏

مَیں ہر روز یہوواہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے نفرت کی زنجیروں سے آزاد ہونے میں مدد دی۔‏ یہوواہ کے رحم کے بغیر مَیں آج کہاں ہوتا؟‏ اُسکا شکر ہے کہ مَیں خوشحال خاندانی زندگی گزار رہا ہوں۔‏ نیز میرے پاس مستقبل کیلئے اُمید ہے کہ نئی دُنیا نفرت اور تشدد سے پاک ہوگی۔‏ مجھے خدا کے اسِ وعدے کی تکمیل پر پورا بھروسا ہے:‏ ”‏تب ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُن کو کوئی نہ ڈرائیگا کیونکہ ربُ‌الافواج نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے۔‏“‏—‏میکاہ ۴:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

لبنان میں ۱۹۸۵ میں یواین کی امن بحال رکھنے والی فوجوں کیساتھ

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیٹیا اور اپنے بیٹوں ٹمیو اور پریری کیساتھ