مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نقل کرنے میں کیا خرابی ہے؟‏

نقل کرنے میں کیا خرابی ہے؟‏

نوجوان لوگ پوچھتے ہیں ‏.‏ .‏ .‏

نقل کرنے میں کیا خرابی ہے؟‏

‏”‏سب جانتے ہیں کہ نقل کرنا غلط ہے مگر یہ آسان کام ہے۔‏“‏—‏۱۷ سالہ جمی۔‏

کیا آپ کبھی امتحان کے دوران اپنے ہم‌جماعت کے پرچے پر نظر ڈالنے کی آزمائش میں پڑے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ تنہا نہیں ہیں۔‏ بارھویں جماعت کی طالبہ جینا اپنے ہم‌جماعتوں کے دیدہ‌دلیری کیساتھ نقل کرنے کے میلان کی بابت بتاتے ہوئے کہتی ہے:‏ ”‏وہ اپنی کامیابی پر شیخی بگھارتے ہیں۔‏ اگر آپ نقل نہیں کرتے تو وہ آپکو بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں!‏“‏

ریاستہائےمتحدہ کے ایک سروے کے دوران،‏ اپنی جماعت میں بہترین طالبعلموں کی شہرت رکھنے والے نوجوانوں کا ۸۰ فیصد نقل کرنے کو تسلیم کرتا ہے اور انکا ۹۵ فیصد کبھی گرفت میں نہ آنے کی وجہ سے ”‏اس میں بڑی کامیابی“‏ کا دعویٰ کرتا ہے۔‏ بیس ہزار سے زائد مڈل اور ہائی سکولوں کے طالبعلموں کا سروے کرنے کے بعد،‏ اخلاقیت کا جوزف‌سن انسٹیٹیوٹ اس نتیجے پر پہنچا:‏ ”‏دیانتداری اور ایمانداری کے سلسلے میں حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔‏“‏ ماہرینِ‌تعلیم اس بات سے حیران ہیں کہ نقل کرنا کسقدر عام ہو گیا ہے!‏ سکول کے ڈائریکٹر گیری جے.‏ نائلز کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ”‏نقل نہ کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔‏“‏

جب سکول اور گھر میں پڑھائی لکھائی کی بات آتی ہے تو بہتیرے والدین اپنے بچوں سے دیانتداری کی توقع کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ افسوس کی بات ہے کہ اکثر نوجوان نقل کرنے سے اپنی دیانتداری کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔‏ وہ کونسے نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں؟‏ بعض نوجوان نقل کرنے کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں؟‏ آپکو اس سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟‏

اعلیٰ درجے کی نقل

جدید نقل کرنے والے کسی بھی طرح کے پُرفریب طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ جب نقل کرنے کی جدید تکنیکوں کا موازنہ سکول سے باہر لکھنے پڑھنے کے کام یا امتحانات میں نقل کرنے کے طریقوں سے کِیا جاتا ہے تو یہ بہت معمولی نظر آتے ہیں۔‏ اِن میں پیجرز کا استعمال شامل ہے جو کال کرنے والوں کی طرف سے امتحانی سوالوں کے جواب موصول کرتا ہے؛‏ کال‌کیولیٹرز کا استعمال ہے جن میں پہلے سے ”‏اضافی“‏ معلومات موجود ہوتی ہیں؛‏ کپڑوں میں چھپائے جانے والے چھوٹے کیمرے جنہیں دوسری جگہ موجود مددگار کو سوال بتانے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے؛‏ ایسے آلات جو قریب ہی موجود ہم‌جماعتوں کو پیغامات منتقل کرتے ہیں؛‏ نیز انٹرنیٹ کی سائٹس جن میں کسی بھی مضمون کے مکمل پرچے موجود ہوتے ہیں!‏

ماہرِتعلیم نقل کی بابت اس بڑھتے ہوئے رُجحان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ آسان کام نہیں۔‏ بہرصورت،‏ نقل ہے کیا ہر طالبعلم یا اُستاد اس پر متفق نہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب طالبعلموں کی ٹیمیں کسی پروجیکٹ پر کام کرتی ہیں تو منصفانہ مدد اور بددیانت سازباز میں فرق زیادہ واضح نہیں ہو سکتا۔‏ پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو دوسروں سے سارا کام کرانے کیلئے اجتماعی کوشش سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‏ مقامی کالج کا طالبعلم یوجی بیان کرتا ہے کہ ”‏بعض طالبعلم بہت سُست ہوتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں کرتے لیکن اُنہیں بھی اُتنے ہی نمبر ملتے ہیں۔‏ میرے خیال میں یہ بھی نقل کرنا ہے!‏“‏

وہ کیوں نقل کرتے ہیں؟‏

ایک سروے کے مطابق طالبعلموں کی طرف سے تیاری کی کمی نقل کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‏ دیگر سکول میں مقابلہ‌بازی کی فضا یا والدین کی حد سے زیادہ توقعات سے مجبور ہو کر سوچتے ہیں کہ اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‏ ایک ۱۳ سالہ لڑکا سیم بیان کرتا ہے کہ ”‏میرے والدین کیلئے گریڈز ہی سب کچھ ہیں۔‏ وہ پوچھتے ہیں،‏ ریاضی کے پرچے میں تمہارے کتنے نمبر آئے ہیں؟‏ انگریزی کے پرچے میں تمہارے کتنے نمبر آئے ہیں؟‏ مگر مجھے ان باتوں سے سخت نفرت ہے!‏“‏

بعض کے معاملے میں،‏ اچھے گریڈز حاصل کرنے کا مستقل دباؤ نقل کرنے کا باعث بنا ہے۔‏ کتاب دی پرائیوٹ لائف آف دی امریکن ٹین‌ایجر بیان کرتی ہے:‏ ”‏نظام میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ سیکھنے کا عمل تسکین بخشنے کی بجائے کامیابی حاصل کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے جسکی وجہ سے بعض‌اوقات دیانتداری کو بھی داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔‏“‏ طالبعلموں کی اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے۔‏ بہرکیف کوئی بھی ٹیسٹ یا نصاب میں فیل ہونا نہیں چاہتا۔‏ ہائی سکول کا طالبعلم جمی کہتا ہے،‏ ”‏بعض لوگ تو فیل ہونے سے واقعی بہت ڈرتے ہیں۔‏ اگر اُنہیں جواب آتا ہے توبھی وہ محض اسلئے نقل کرتے ہیں کہ کہیں اُنکا جواب غلط نہ ہو جائے۔‏“‏

نقل کیلئے اپنی دیانتداری کو قربان کرنے کیلئے تیار لوگوں کی بڑی تعداد بھی اسے بےضرر ظاہر کر سکتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں بعض‌اوقات تو یہ بظاہر مفید دکھائی دیتی ہے۔‏ سترہ سالہ گریگ کہتا ہے،‏ ”‏کل مَیں نے اپنے ایک ہم‌جماعت کو ٹیسٹ میں نقل کرتے دیکھا۔‏ آج جب پرچہ واپس ملا تو اُس کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔‏“‏ بہتیرے اپنے دوستوں میں نقل کرنے کے عام رواج سے بھی بھٹک جاتے ہیں۔‏ یوجی کہتا ہے،‏ ”‏بعض طالبعلم محسوس کرتے ہیں کہ اگر دوسرے ایسا کر رہے ہیں تو مجھے بھی یہی کرنا ہوگا۔‏“‏ مگر کیا یہ سچ ہے؟‏

ایک پُرفریب عادت

نقل کا موازنہ چوری سے کریں۔‏ بہتیرے لوگ چوری کرتے ہیں تو کیا یہ حقیقت اسے قابلِ‌قبول بنا دیتی ہے؟‏ اگر آپکا پیسہ چوری ہو رہا ہو تو آپ یقیناً اس بات سے متفق نہیں ہونگے!‏ نقل کے ذریعے ہم وہ چیز حاصل کر رہے ہوتے ہیں جسکے ہم حقدار نہیں بلکہ شاید ہم دیانتداروں سے ناجائز نفع اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۸‏)‏ ٹامی جو حال ہی میں ہائی سکول سے فارغ ہوا ہے کہتا ہے،‏ ”‏یہ بالکل صحیح نہیں۔‏ دراصل آپ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مَیں یہ جانتا ہوں جبکہ آپ نہیں جانتے۔‏ پس آپ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔‏“‏ اس سلسلے میں واضح طور پر کلسیوں ۳:‏۹ میں بائبل کا نقطۂ‌نظر بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولو۔‏“‏

نقل کرنا ایک ایسی بُری عادت بن سکتا ہے جس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔‏ ”‏نقل کرنے والے یہ سیکھ جاتے ہیں کہ پاس ہونے کیلئے اُنہیں پڑھنے کی ضرورت نہیں،‏“‏ جینا کہتی ہے،‏ ”‏اسلئے وہ نقل کرنے پر ہی بھروسا کرتے ہیں،‏ لہٰذا عملی زندگی میں بھی وہ کچھ نہیں جانتے۔‏“‏

گلتیوں ۶:‏۷ میں درج اُصول نہایت معقول ہے:‏ ”‏آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔‏“‏ سکول میں نقل کرنے کے نتائج میں مجروح ضمیر،‏ دوستوں کے اعتماد کا فقدان اور کچھ نہ سیکھنے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے عمل میں رکاوٹ شامل ہے۔‏ جان‌لیوا کینسر کی طرح ایسا فریب زندگی کے دیگر حلقوں پر بھی اثرانداز ہو کر آپکے انتہائی عزیز رشتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‏ یقینی طور پر یہ خدا کیساتھ آپکے رشتے پر اثرانداز ہوگا جو فریب کو پسند نہیں کرتا۔‏—‏امثال ۱۱:‏۱‏۔‏

جو لوگ نقل کرتے ہیں وہ محض خود کو بیوقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۹‏)‏ اپنے کاموں سے وہ قدیم یروشلیم کے بدعنوان حاکموں کی طرح بن رہے ہوتے ہیں:‏ ”‏ہم نے جھوٹ کو اپنی پناہ‌گاہ بنایا ہے اور دروغ‌گوئی کی آڑ میں چھپ گئے ہیں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۲۸:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ نقل کرنے والا اپنے اس فعل کو خدا سے نہیں چھپا سکتا۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۳‏۔‏

نقل نہ کریں!‏

بیشتر صورتوں میں نوجوان نقل کرنے کیلئے سخت جدوجہد کرتے ہیں جسے وہ دیانتداری کیساتھ تعلیم حاصل کرنے کیلئے استعمال کر سکتے تھے۔‏ جیسےکہ ۱۸ سالہ ایبی بیان کرتی ہے،‏ ”‏جتنی جدوجہد وہ نقل کرنے کیلئے کرتے ہیں اگر وہ پڑھنے کیلئے کریں تو وہ بہت بہتر ثابت ہونگے۔‏“‏

واقعی نقل کرنے کی آزمائش بڑی شدید ہو سکتی ہے۔‏ مگر آپکو اس اخلاقی خطرے سے بچنا چاہئے!‏ (‏امثال ۲:‏۱۰-‏۱۵‏)‏ آپ کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے یاد رکھیں کہ آپ سکول سیکھنے کیلئے جاتے ہیں۔‏ سچ ہے کہ ایسے حقائق جمع کرنے کا فائدہ بہت کم ہے جنہیں آپ شاید کبھی استعمال نہیں کرینگے۔‏ مگر سیکھنے کے عمل کو نظرانداز کرنے سے،‏ ایک شخص نئی باتیں سیکھنے اور علم کا عملی استعمال کرنے کی صلاحیت کو زنگ لگاتا ہے۔‏ حقیقی سمجھ بغیر کوشش کے حاصل نہیں ہوتی اس کیلئے کچھ کرنا پڑتا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏سچائی کو مول لے اور اُسے بیچ نہ ڈال حکمت اور تربیت اور فہم کو بھی۔‏“‏ (‏امثال ۲۳:‏۲۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ آپکو مطالعے اور تیاری کو سنجیدہ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔‏ جمی کہتا ہے،‏ ”‏آپکو اپنا کام خود کرنا چاہئے۔‏ آپ یہ جان کر پُراعتماد محسوس کرینگے کہ آپکو جواب آتے ہیں۔‏“‏

یہ سچ ہے کہ کبھی‌کبھار شاید آپکو سب جواب نہ آتے ہوں اور اس وجہ سے آپکے نمبر کم آئیں۔‏ اسکے باوجود،‏ اگر آپ اپنے اُصولوں پر مصالحت نہیں کرتے تو شاید آپ سمجھ سکیں کہ بہتری لانے کے لئے آپ کو کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‏—‏امثال ۲۱:‏۵‏۔‏

متذکرہ یوجی یہوواہ کا ایک گواہ ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے کہ جب اُسکے ہم‌جماعت اُس پر نقل کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ کیا کرتا ہے:‏ ”‏سب سے پہلے تو مَیں اُنہیں یہ کہتا ہوں کہ مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں۔‏ اس سے مجھے بڑی مدد ملی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ ایماندار لوگ ہیں۔‏ اگر کوئی ٹیسٹ کے دوران مجھ سے جواب پوچھتا ہے تو مَیں صاف انکار کر دیتا ہوں۔‏ بعدازاں مَیں وضاحت کرتا ہوں کہ مَیں کیوں ایسا نہیں کرتا۔‏“‏

یوجی عبرانیوں کے نام پولس رسول کے بیان سے بھی اتفاق کرتا ہے:‏ ”‏ہم ہر بات میں نیکی [‏دیانتداری]‏ کیساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ آپکا دیانتداری کے اعلیٰ معیاروں کی پابندی کرنا اور نقل کرنے کیلئے مصالحت سے انکار کرنا آپکے اچھے گریڈز کو اصلی قدروقیمت کا حامل بناتا ہے۔‏ آپ سکول سے آ کر اپنے والدین کو ایک بہترین تحفہ دیتے ہیں،‏ جی‌ہاں مسیحی راستی کا عمدہ ریکارڈ۔‏ (‏۳-‏یوحنا ۴‏)‏ اس سے بڑھ کر آپ نیک ضمیر قائم رکھتے ہوئے یہ جان کر خوش ہو سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ خدا کے دل کو شاد کر رہے ہیں۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

لہٰذا،‏ نقل کرنا خواہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو،‏ اس سے گریز کریں!‏ ایسا کرنے سے آپ دوسروں کیساتھ اور سب سے بڑھ کر سچائی کے خدا یہوواہ کیساتھ اچھا رشتہ قائم رکھیں گے۔‏—‏زبور ۱۱:‏۷؛‏ ۳۱:‏۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر عبارت]‏

نقل کرنے والا اکثر یہ دیکھنے میں ناکام رہتا ہے کہ وہ درحقیقت چوری کر رہا ہے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر عبارت]‏

نقل کرنا اکثر بددیانتی کے دیگر سنگین کاموں پر منتج ہوتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۹ پر عبارت]‏

نقل کرنے والا خدا سے نہیں چھپ سکتا

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

امتحان سے پہلے مناسب تیاری آپکو پُراعتماد بنائیگی