مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک حادثے نے کیسے میری زندگی بدل دی

ایک حادثے نے کیسے میری زندگی بدل دی

ایک حادثے نے کیسے میری زندگی بدل دی

از سٹین‌لی اوم‌بیوا

سن ۱۹۸۲ میں ایک تیزرفتار گاڑی مجھ سے ٹکرا گئی۔‏ علاج کے بعد بھی وقتاًفوقتاً میری گردن اور سینے کے درمیان ایک سرکی ہوئی ہڈی میں درد کے باوجود مَیں اپنی روزمرّہ کارگزاریوں میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔‏ تاہم،‏ ۱۵ سال بعد،‏ مجھے اپنی زندگی کے ایک ایسے تجربے کا سامنا ہوا جس سے میرے ایمان کی سخت آزمائش ہوئی۔‏

حادثے سے پہلے اور کسی حد تک بعد میں بھی مَیں تندرست‌وتوانا رہا۔‏ مَیں ورزش کے ایک اچھے معمول سے مستفید ہوتا تھا جس میں ہفتے کے آخر پر چھ سے آٹھ میل جاگنگ کرنا،‏ سکواش کھیلنا اور سخت جسمانی کام کرنا شامل تھا۔‏ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہالز کے علاوہ نیروبی،‏ کینیا میں ایک بڑے اسمبلی ہال کی تعمیر میں بھی مدد کی جہاں ہم رہتے تھے۔‏

اس کے بعد ۱۹۹۷ میں،‏ میرے سینے کی تکلیف متواتر اور شدید ہونے لگی۔‏ ایک طبّی معائنے نے ظاہر کِیا کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں سے ایک اپنی جگہ سے ہٹ گیا تھا اور میرے حرام‌مغز پر دباؤ ڈال رہا تھا۔‏ یہ اُس حادثے کا نتیجہ تھا جس کا ذکر شروع میں کِیا گیا ہے۔‏

میری صحت کے بگڑ جانے سے پہلے مَیں نے ایک سیلزمین کی نوکری حاصل کر لی۔‏ اس میں خاندانی صحت کے لئے بیمے کا بندوبست بھی شامل تھا۔‏ کاروباری دُنیا میں میری کامیابی کے امکانات روشن نظر آتے تھے۔‏ تاہم ۱۹۹۸ کے وسط میں میرے سینے سے لیکر میرے پاؤں تک کا حصہ بالکل سُن ہونے لگا۔‏ دن‌بدن میری صحت گِرتی گئی۔‏

اس کے کچھ دیر بعد مَیں نوکری اور اس کیساتھ منسوب تمام مراعات سے محروم ہو گیا۔‏ ہماری دو بیٹیاں،‏ سلویا اور ویل‌ہیل‌مینا اُس وقت ۱۳ اور ۱۰ سال کی تھیں۔‏ میری نوکری چھوٹ جانے کے بعد ہمارا گزارا میری بیوی جوئس کی تنخواہ پر ہوتا تھا۔‏ نئے حالات کے پیشِ‌نظر ہم نے اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں ردوبدل پیدا کِیا۔‏ یوں ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوئے۔‏

منفی احساسات

مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ میری سنگین حالت نے مجھے منفی،‏ خودغرض اور چڑچڑا بنا دیا تھا۔‏ بعض‌اوقات مَیں غصے اور تلخی سے معمولی باتوں پر نااتفاقی ظاہر کرتا تھا۔‏ مَیں ہمیشہ مایوس رہتا تھا۔‏ خاندان کے سب افراد دباؤ کا شکار تھے۔‏ میری بیوی اور بیٹیاں ایک نئی صورتحال کا سامنا کر رہی تھیں جس کی بابت اُنہیں کچھ پتا نہیں تھا۔‏

بعض‌اوقات مَیں سمجھتا تھا کہ میرے ایسے احساسات جائز ہیں۔‏ میرا وزن بڑھنے لگا۔‏ مَیں رَفع‌حاجت کے سلسلے میں سنگین مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔‏ مَیں اکثر شدید مایوسی میں ڈوبا رہتا تھا۔‏ مجھے آنکھوں میں آنسو لئے کسی کونے میں بیٹھا دیکھنا عام بات تھی۔‏ بعض‌اوقات مَیں نامعقول حد تک غصے میں آ جاتا تھا۔‏ مَیں جانتا تھا کہ اس صورتحال سے نپٹنے کا میرا طریقہ ٹھیک نہیں۔‏

یہوواہ کے گواہوں کی مسیحی کلیسیا کے ایک بزرگ کے طور پر،‏ مَیں نے اکثر اپنے ساتھی مسیحیوں کو کسی بھی تکلیف کے لئے یہوواہ کو ذمہ‌دار نہ ٹھہرانے کی نصیحت کی تھی۔‏ اس کے باوجود مَیں نے کئی بار خود سے یہ سوال کِیا—‏’‏یہوواہ نے میرے ساتھ ایسا کیوں ہونے دیا؟‏‘‏ اگرچہ مَیں نے ۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳ جیسے صحائف کی مدد سے دوسروں کو تقویت اور تسلی دی تھی توبھی مَیں محسوس کرتا تھا کہ میرے حالات ناقابلِ‌برداشت ہیں!‏

ایک پیچیدہ طبّی مسئلہ

اچھے علاج کی تلاش چیلنج‌خیز ثابت ہوئی۔‏ مَیں ایک ہی دن میں فیزیوتھراپسٹ،‏ ہاتھ‌پاؤں کی بیماریوں کے معالج اور اکوپنکچریسٹ کے پاس جایا کرتا تھا۔‏ اس سے میری تکلیف عارضی طور پر کم ہو جاتی تھی۔‏ مَیں نے کئی ڈاکٹروں سے رجوع کِیا جن میں ایک ہڈیوں کا ڈاکٹر اور ایک نیوروسرجن بھی شامل تھا۔‏ ان سب کی ایک ہی رائے تھی:‏ تکلیف کم کرنے اور سرکے ہوئے مہرے کو نکالنے کے لئے جراحی ضروری تھی۔‏ مَیں نے اپنے بائبل پر مبنی عقائد کی وجہ سے ان طبّی ماہرین کو واضح طور پر سمجھایا کہ مجھے کسی بھی حالت میں خون نہیں دیا جانا چاہئے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

پہلے سرجن نے بیان کِیا کہ وہ میری پیٹھ سے جراحی کا آغاز کریگا۔‏ تاہم یہ عمل خطرناک ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ سرجن اس جراحی میں خون کے استعمال نہ کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتا تھا۔‏ مَیں دوبارہ اُس کے پاس نہ گیا۔‏

دوسرے سرجن نے کہا کہ وہ میری گردن کے ذریعے میری ریڑھ کی ہڈی کا جائزہ لیگا۔‏ یہ عمل خطرناک معلوم ہوتا تھا۔‏ اگرچہ اُس نے میرے خون نہ لینے پر کوئی اعتراض نہیں کِیا تھا توبھی وہ بہت کم معلومات دینے کے بعد جلدازجلد یہ جراحی کرنا چاہتا تھا۔‏ مَیں اُس کے پاس بھی نہ گیا۔‏

تاہم،‏ مَیں مقامی ہسپتال رابطہ کمیٹی میں خدمت کرنے والے یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے ایک ہمدرد ڈاکٹر کو تلاش کرنے کے قابل ہوا۔‏ اس تیسرے سرجن کا مشورہ دوسرے سرجن کے مشابہ تھا جس میں گردن میں ایک شگاف بنانا شامل تھا۔‏ اُس نے واضح کِیا کہ خطرے کے امکانات بہت کم ہیں۔‏

جراحی کے عمل کی بابت واضح تفصیلات سن کر مَیں ڈر گیا۔‏ سب سے زیادہ خوفزدہ کر دینے والی بات یہ تھی کہ یہ جراحی دل اور پھیپھڑوں جیسے نازک جسمانی اعضا کے گرد ہونے والی تھی۔‏ کیا مَیں اس جراحی کے بعد زندہ رہونگا؟‏ واقعی،‏ ایسے منفی خیالات نے میرے وسوسوں کو مزید بڑھا دیا۔‏

نومبر ۲۵،‏ ۱۹۹۸ میں نیروبی میں میری چار گھنٹوں کی جراحی کامیاب رہی۔‏ اس جراحی میں میرے پیڑو کی ہڈی کا ٹکڑا بھی نکالا گیا۔‏ اس ٹکڑے کو مخصوص شکل دیکر دوبارہ اُسی جگہ دھاتی پلیٹ اور پیچ‌دار کیلوں کی مدد سے جوڑا گیا۔‏ یہ عمل مددگار ثابت ہوا۔‏ تاہم اس سے میرے تمام مسائل حل نہیں ہوئے تھے۔‏ مجھے چلنےپھرنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‏ میرا جسم اب بھی اکثر سُن ہو جاتا ہے۔‏

مثبت رُجحان

جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا،‏ مَیں نے اپنی بیچارگی پر افسوس کرنے اور پریشان ہونے میں کافی وقت ضائع کِیا تھا۔‏ حیرانی کی بات ہے کہ طبّی عملے کے بہتیرے ارکان میرے صبر اور مثبت رُجحان کی تعریف کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟‏ وہ جانتے تھے کہ شدید تکلیف کے باوجود مَیں خدا پر اپنے ایمان کی بابت ان سے بات‌چیت کِیا کرتا تھا۔‏

اگرچہ بعض‌اوقات میری حالت غصے اور تلخی کا باعث بنتی تھی توبھی مَیں نے یہوواہ پر توکل رکھا۔‏ وہ میری تمام مشکلات میں ہمیشہ میرے ساتھ رہا یہانتک کہ کبھی‌کبھار مجھے اپنے رویے پر ندامت ہوتی تھی۔‏ مَیں نے ایسے صحائف پڑھنے اور ان پر غور کرنے کا پُرزور عزم کِیا جو میری صورتحال کے لئے تسلی‌بخش ثابت ہو سکتے تھے۔‏ ان میں سے چند مندرجہ‌ذیل ہیں:‏

مکاشفہ ۲۱:‏۴‏:‏ ‏”‏[‏خدا]‏ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏“‏ ایک نئی دُنیا کی بابت بائبل کے وعدے پر غور کرنا جہاں آنسو اور تکلیف ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائینگے واقعی تسلی‌بخش ثابت ہوا۔‏

عبرانیوں ۶:‏۱۰‏:‏ ‏”‏اسلئےکہ خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تم نے اُس کے نام کے واسطے .‏ .‏ .‏ ظاہر کی۔‏“‏ اگرچہ اب مَیں جسمانی طور پر بہت کم کام کر سکتا تھا توبھی مجھے یقین تھا کہ یہوواہ اُس کی خدمت کرنے کی میری کوششوں کو عزیز رکھیگا۔‏

یعقوب ۱:‏۱۳‏:‏ ‏”‏جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔‏“‏ یہ بات کسقدر سچ ہے!‏ اگرچہ یہوواہ نے مجھے تکلیف برداشت کرنے کی اجازت دی تھی توبھی وہ ہرگز اس کا ذمہ‌دار نہیں تھا۔‏

فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏:‏ ‏”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھیگا۔‏“‏ دُعا نے ذہنی سکون حاصل کرنے میں میری مدد کی جس کی مجھے اشد ضرورت تھی اور یوں مَیں معقول طور پر اپنی صورتحال سے نپٹنے کے قابل ہوا۔‏

مَیں نے یہ صحائف مصیبت‌زدہ لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کے لئے استعمال کئے تھے!‏ تاہم مجھے احساس ہوا کہ اُس وقت مَیں ان کی قدروقیمت کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا تھا۔‏ اسقدر بیمار ہونے کے بعد مَیں فروتنی کو سمجھنے اور یہوواہ پر پورا بھروسا رکھنے کے قابل ہوا۔‏

دیگر تسلی‌بخش ذرائح

بہتیرے لوگ مسیحی برادری کے مشکل وقت میں ایک ستون اور سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی قدر نہ کرنا کتنا آسان ہے!‏ بیشک وہ شاید ایک حد تک مدد کرنے کے قابل ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔‏ یہ بات میرے معاملے میں سچ تھی۔‏ انہیں ہسپتال میں بعض‌اوقات صبح‌سویرے اپنے بستر کے قریب دیکھنا ایک عام بات تھی۔‏ اُنہوں نے میرے طبّی اخراجات ادا کرنے میں میری مدد کرنے کی بھی پیشکش کی۔‏ مَیں ان تمام لوگوں کا نہایت شکرگزار ہوں جنہوں نے میری حالت کو سمجھتے ہوئے مدد پیش کی۔‏

ہماری مقامی کلیسیا کے گواہ جانتے ہیں کہ اب مَیں ایک حد تک کام کر سکتا ہوں۔‏ اس وقت مَیں ایک صدارتی نگہبان کے طور پر خدمت کرتے ہوئے مسیحی بزرگوں کی ایک مددگار جماعت کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔‏ مَیں منادی کے کام میں کبھی بےقاعدہ نہیں ہوا۔‏ اپنی بیماری کے سنگین مراحل میں بھی مَیں نے دو اشخاص کی یہوواہ کے لئے اپنی زندگی مخصوص کرنے میں مدد کی۔‏ ان میں سے ایک نیروبی میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں بطور خادم خدمت کر رہا ہے۔‏

میرے پاس اب بھی اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں جو میری بیماری کے دوران میرے ساتھ ساتھ رہی۔‏ اُس نے میرے غصے،‏ غیرمستقل‌مزاجی،‏ غیرمعقولیت اور مایوسی کو برداشت کِیا۔‏ اُس نے میرے آنسوؤں اور درد میں مجھے تقویت اور تسلی دی۔‏ مصیبت کا سامنا کرتے ہوئے اُس کی مضبوطی اور عزم مجھے آج بھی حیران کرتا ہے۔‏ وہ ہمیشہ ایک ”‏دوست“‏ ثابت ہوئی ہے۔‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷‏۔‏

ہماری بیٹیوں نے میری صورتحال کو برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔‏ جہانتک ہو سکے وہ میری مدد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‏ وہ میری ضروریات کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر میری مدد کرتی ہیں اور اپنی ماں کی غیرموجودگی میں میرا خیال رکھتی ہیں۔‏ سلویا ”‏میری لاٹھی“‏ ثابت ہوئی ہے اور جب مَیں کمزور محسوس کرتا ہوں تو گھر پر چلنےپھرنے میں وہ میری مدد کرتی ہے۔‏

سب سے چھوٹی بیٹی مینا کی بابت کیا ہے؟‏ مجھے وہ وقت یاد ہے جب ایک بار مَیں گھر میں گِر گیا اور اُٹھ نہ سکا۔‏ گھر پر صرف وہی موجود تھی۔‏ اپنی پوری طاقت سے اُس نے مجھے اُٹھایا اور میرے کمرے تک لے گئی۔‏ اُسے اب بھی یقین نہیں آتا کہ اُس نے یہ کیسے کِیا۔‏ دلیری کی یہ مثال میرے ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئی ہے۔‏

اس حادثے سے پہنچنے والی چوٹ کو برداشت کرنا میری زندگی کی سب سے کٹھن جنگ ثابت ہوئی ہے۔‏ مَیں یہ جنگ اب بھی لڑ رہا ہوں۔‏ میری زندگی اور ایمان کو کسی دوسری چیز نے اس حد تک نہیں آزمایا۔‏ مَیں نے فروتنی،‏ معقول‌پسندی اور ہمدردی کی بابت بہت کچھ سیکھا ہے۔‏ یہوواہ پر پورے بھروسے اور اعتماد نے مجھے اس مسئلے سے نپٹنے کے قابل بنایا ہے۔‏

مَیں نے پولس رسول کے الفاظ کی صداقت سیکھی ہے:‏ ”‏ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تاکہ یہ حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے معلوم ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ مَیں ”‏نئے آسمان اور نئی زمین“‏ کی بابت خدا کے وعدے سے بیحد تسلی حاصل کرتا ہوں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ دُعا ہے کہ یہوواہ اس نئی دُنیا تک پہنچنے میں میری مدد کرنا جاری رکھے کیونکہ مَیں ابھی بھی کمزور ہوں اور اپنی طاقت سے بہت کم کام کر سکتا ہوں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

اپنے خاندان کیساتھ مسیحی کارگزاری میں حصہ لینے سے برداشت کرنے میں میری مدد ہوئی ہے