دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
دھمکیآمیز پیغام
لندن کا دی گارڈین بیان کرتا ہے کہ ”ہر چار نوجوانوں میں سے ایک کمپیوٹر یا موبائل فون کے ذریعے دھمکیوں کا نشانہ بنتا ہے۔“ برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے نیشنل چلڈرنز ہوم (اینسیایچ) نے بیان کِیا کہ ۱۱ سے ۱۹ سال کے ۱۶ فیصد نوجوانوں کو ”اُنکے موبائلز پر دھمکیآمیز پیغامات ملے“ جبکہ مزید ۱۱ فیصد کو انٹرنیٹ چیٹ روم یا ای-میل کے ذریعے دھمکایا گیا۔ اینسیایچ کا کہنا ہے کہ بچے ”یا تو کسی سے کچھ نہیں کہتے اور چپچاپ سب برداشت کرتے رہتے ہیں یا پھر ایسے لوگوں کو اپنا ہمراز بناتے ہیں جو خود مؤثر طور پر اس مسئلے کو حل کرنا نہیں جانتے۔“ یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو دھمکیوں کو برداشت کرنے کی بجائے کسی ذمہدار، قابلِبھروسا شخص کو بتانا چاہئے کہ کیا ہو رہا ہے؛ فوننمبر اور ای-میل ایڈریس دینے میں احتیاط برتنی چاہئے اور اگر ضروری ہو تو اسے تبدیل کر لینا چاہئے۔ دی گارڈین کے مطابق اینسیایچ کا مشورہ یہ ہے کہ ”اگر آپ پریشانکُن پیغامات محصول کرتے ہیں تو وقت اور تاریخ نوٹ کرکے پولیس کو مطلع کریں۔“
”ناطق“ پودے
جرمنی کی بون یونیورسٹی کی اطلاقی طبیعیات کے شعبے کے محققین نے ایک ایسا لیزر مائیکروفون ایجاد کِیا ہے جو پودوں کی آواز ”سن“ سکتا ہے۔ مائیکروفون دباؤ کے تحت پودوں سے خارج ہونے والی اتھیلین گیس سے پیدا ہونے والی صوتی لہروں کو محسوس کر لیتا ہے۔ بون یونیورسٹی کا سائنسدان ڈاکٹر فرینک کوہنمان بیان کرتا ہے: ”پودہ جتنا زیادہ دباؤ محسوس کرتا ہے ہم مائیکروفون پر اُتنے ہی زوردار سگنل حاصل کرتے ہیں۔“ ایک معاملے میں بظاہر ایک صحتمند کھیرا ”عملاً چیخ رہا تھا۔“ قریبی جائزے نے ظاہر کِیا کہ وہ ”پھپھوندی کے حملے کا شکار تھا جبکہ علامات ابھی آنکھوں سے اوجھل تھیں۔“ درحقیقت، پھپھوندی کے داغ آٹھ یا نو دن کے بعد نظر آتے ہیں اور کسان کو بھی تب ہی پتہ چلتا ہے۔ لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”پودوں کی آواز سننے سے ابتدا ہی میں کیڑوں اور بیماری کا کھوج لگانا ممکن ہونا چاہئے۔ پھل اور سبزیوں کے دباؤ سے واقفیت ذخیرہاندوزی اور نقلوحمل میں بھی مؤثر مدد ہو سکتی ہے۔“
نکوٹین اور بچوں کی اموات
فرنچ روزنامہ لی فیگارو بیان کرتا ہے کہ فرانس اور سویڈن میں محققین نے یہ دریافت کر لیا ہے کہ سگریٹنوشی سے بچوں کی اچانک موت کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے۔ جانوروں کے مطالعوں نے آشکارا کِیا ہے کہ نکوٹین کا اثر نیند کے دوران تنفّسی نظام پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ رپورٹ بیان کرتی ہے، ”نیند کے دوران آکسیجن کی کمی کے باعث باربار سانس لینے میں رکاوٹ دراصل قلبی اور تنفّسی عمل کی رفتار کو متاثر کر سکتی ہے۔ لیکن اگر اس حفاظتی عمل کو اُلٹ دیا جائے تو آکسیجن کی کمی اور زیادتی میں شدت سانس بند ہونے پر منتج ہو سکتی ہے۔“ محققین کا خیال ہے کہ حمل کے دوران سگریٹنوشی کرنے والی ماں کے خون سے نکوٹین کے مسلسل بچے میں منتقل ہونے کی وجہ سے انسانوں کے اس حفاظتی عمل میں نقص پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ”نیند کے دوران تنفّسی عمل میں خلل پیدا ہوتا ہے اور یوں بچے کی اچانک موت ہو سکتی ہے۔“ لی فیگارو کہتا ہے، ”سگریٹنوشی فرانس میں زندگی کے پہلے سال کے دوران اموات کی بنیادی وجہ ہے۔“
”شہوتانگیز“ پاپ کلچر
پولینڈ کا ہفتروزہ پولیٹیکا بیان کرتا ہے، فیشن، ایڈورٹائزنگ، میڈیا اور شوبز کے ذریعے، ”موجودہ پاپ کلچر بڑی تیزی سے جنس کے لئے انسانی کشش سے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔“ ڈیزائنرز کے مطابق، ”فیشن شہوتانگیزی کو ہوا دیتا ہے اور شہوتانگیزی فیشن کو ہوا دیتی ہے۔“ دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ’جتنی زیادہ آپ نمائش کرینگے اُتنی ہی جلدی آپ توجہ کا مرکز بنیں گے۔‘ یونیورسٹی آف وارسا کی ثقافتی علامات کی ماہر ڈاکٹر ایوا سزکزینا بیان کرتی ہے کہ اشتہاربازی میں جنس اور شہوتانگیزی ایک ”کمرشل کو یادگار بناتی“ اور یوں زیادہ فروخت کا سبب بنتی ہے۔ وہ مزید کہتی ہے، ”کیا چیز شہوانی تحریص دے سکتی ہے اس کی حدود کو خاطرخواہ حد تک باذوق بنا دیا گیا ہے۔“ پولیٹیکا کے مطابق، تجربے نے ظاہر کِیا ہے کہ پیسے کے لئے ایڈورٹائزر ہر حد کو پار کر لینگے۔
انڈیا کے میڈیا میں افزائش
نیشنل ریڈرشپ سٹڈیز کونسل کے منعقدکردہ ایک سروے کے مطابق، انڈیا میں تین سال کے اندر یعنی سن ۱۹۹۹ سے لیکر ۲۰۰۲ کے دوران اخبار پڑھنے والوں کی تعداد ۱۳۱ ملین سے ۱۵۵ ملین ہو گئی ہے۔ مُلک کی مطبوعات اور اخبار، رسالے اور دیگر جرائد کے مجموعی قارئین ۱۸۰ ملین ہیں۔ تاہم، انڈیا کی ایک بلین آبادی میں سے ۶۵ فیصد کے خواندہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کی کافی گنجائش ہے۔ ٹیلیویژن دیکھنے والوں کی تعداد ۶.۳۸۳ ملین جبکہ ریڈیو سننے والوں کی تعداد ۶.۶۸۰ ملین کو پہنچ گئی ہے۔ سن ۱۹۹۹ میں ۴.۱ ملین کے مقابلے میں اب ۶ ملین سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ تین سال کے اندر ۳۱ فیصد اضافے کے ساتھ اب انڈیا کے تقریباً نصف گھر کیبل اور سیٹلائٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
اغوا میں اضافہ
میکسیکو کا دی نیوز بیان کرتا ہے کہ ”پندرہ سال پہلے [میکسیکو میں] اغوا کے واقعات شاذونادر ہی سننے میں آتے تھے۔ مگر ۱۹۸۰ کے دہے میں جرائم بڑھ گئے اور ۱۹۹۴ اور ۱۹۹۵ کے دوران معاشی بدحالی میکسیکو میں بنیادی تبدیلیوں پر منتج ہوئی اور یوں اغوا اور دیگر جرائم نے فروغ پانا شروع کر دیا۔“ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سب کو اغوا کئے جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ دی نیوز بیان کرتا ہے، ”کنواری لڑکیوں کو ۵۰۰ ڈالر کے تاوان کے لئے اغوا کر لیا جاتا ہے؛ ایک کالج کے طالبعلموں نے سکول کے لئے پیسے جمع کرنے کی خاطر ایک ۱۲ سالہ ٹیجیوآنا لڑکی کو اغوا کر لیا؛ علاوہازیں بعض لوگ اپنے خاندان یا اپنی کمپنیوں سے رقم حاصل کرنے کے لئے خود کو جانبوجھ کر اغوا کروا لیتے ہیں۔ اغوا کے واقعات اب روزمرّہ کا معمول بن گئے ہیں۔ میکسیکو کے کلچر نے اب ایسا روپ دھار لیا ہے کہ یہاں فوراً ہی تاوان ادا کر دیا جاتا ہے اور شاذونادر ہی پولیس کو مطلع کِیا جاتا ہے۔“ متاثرین، تحفظ فراہم کرنے والے اداروں اور کورٹ ریکارڈ کے مطابق، حقیقت تو یہ ہے کہ ”اکثر پولیس ہی اغوا کے واقعات میں ملوث ہوتی ہے اور ایک ناقص اور بدعنوان عدالتی نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ اُنہیں کبھی گرفتار نہیں کِیا جائیگا۔“
لسانی مہارتوں میں تنزلی
ایک جاپانی روزنامچہ دی یومییوری شمبن بیان کرتا ہے، ”پرائمری، مڈل اور ہائی سکول کے طالبعلموں میں سے تقریباً ۲۰ فیصد شوقیہ کتابیں پڑھتے ہیں اور مڈل اور ہائی سکول کے ۸۰ فیصد اساتذہ محسوس کرتے ہیں کہ طالبعلموں کی جاپانی زبان میں مہارت بتدریج کم ہو رہی ہے۔“ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل پالیسی ریسرچ کے محققین نے ”پرائمری سکول سے لیکر ہائی سکول کے دوسرے سال کے ۱۲۰،۲ طالبعلموں اور پرائمری، مڈل اور ہائی سکول کے ۲۵۹ اساتذہ“ کا سروے کِیا۔ اُنہوں نے دریافت کِیا کہ ”پڑھائی کرنے کی کمی نے طالبعلموں کے پڑھنے کی صلاحیت، ذخیرۂالفاظ اور لکھنے کی مہارتوں کو متاثر کِیا ہے۔“ سروے کئے جانے والے اساتذہ کی اکثریت نے یہ الزام لگایا کہ ایسے بالغوں میں طالبعلموں سے رفاقت رکھنے والے اساتذہ بھی شامل ہیں جن میں پڑھنے کی عادات کی کمی کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ”ویڈیو گیمز بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔“
حادثاتی اموات کی نسبت فضائی آلودگی کی شرحِاموات زیادہ ہے
ارتھ پالیسی انسٹیٹیوٹ کی شائعکردہ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”دی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اب ہر سال تین ملین لوگ فضائی آلودگی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ یہ اُن ایک ملین لوگوں سے تین گُنا زیادہ ہے جو گاڑیوں کے حادثات میں مرتے ہیں۔“ حکومتیں حادثاتی اموات کو کم کرنے کے لئے سخت محنت کر رہی ہیں لیکن رپورٹ بیان کرتی ہے، ”وہ اُن اموات کی طرف کم توجہ دیتے ہیں جو لوگوں کے محض کار چلانے سے واقع ہوتی ہیں۔ دل کے امراض اور آلودہ ہوا میں سانس لینے سے تنفّسی بیماری سے اموات کی شرح آٹوموبائل کے حادثات، تیز روشنیوں اور سائرن سے ہونے والی اموات کی شرح کے برابر ہے۔ ہوا کو آلودہ کرنے والی چیزوں میں کاربن مونو آکسائڈ، اوزون، سلفر ڈائیآکسائڈ، نائٹروجن آکسائڈز اور پارٹیکولیٹس شامل ہیں جوکہ سب کی سب کوئلے اور گیس کے جلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔“