مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شدت میں ازسرِنو اضافہ کیوں؟‏

شدت میں ازسرِنو اضافہ کیوں؟‏

شدت میں ازسرِنو اضافہ کیوں؟‏

تقریباً ۴۰ سال پہلے،‏ یہ خیال کِیا جاتا تھا کہ ملیریا،‏ زرد بخار اور ہڈی‌توڑ بخار زمین کے بیشتر خطوں سے ختم ہو چکا ہے۔‏ مگر پھر ایک غیرمتوقع بات واقع ہوئی—‏حشرات سے پھیلنے والی بیماریاں ازسرِنو شروع ہونے لگیں۔‏

لیکن کیوں؟‏ ایک بات تو یہ ہے کہ جن حشرات میں یہ جراثیم ہوتے ہیں وہ ان پر قابو پانے والی جراثیم‌کش ادویات اور دیگر ادویات کے عادی ہو جاتے ہیں۔‏ اس کی وجہ یہ ہے کہ جراثیم‌کش ادویات اور دیگر ادویات کا بہت زیادہ استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ کتاب مسکیٹو بیان کرتی ہے،‏ ”‏بیشتر غریب گھرانوں میں،‏ لوگ دوا کو تھوڑی مقدار میں اور صرف عارضی طور پر استعمال کرتے ہیں اور باقی بعد کیلئے رکھ دیتے ہیں۔‏“‏ ایسے نامکمل علاج سے طاقتور جراثیم انسان کے جسم میں ہی رہ جاتے ہیں اور اپنی نسل میں افزائش کرتے رہتے ہیں۔‏

آب‌وہوا میں تبدیلی

حشرات سے پھیلنے والی بیماریوں کے ازسرِنو شروع ہونے کی اہم وجہ ماحول اور معاشرے میں تبدیلی ہے۔‏ اسکی اصل وجہ آب‌وہوا میں عالمگیر تبدیلی ہے۔‏ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ عالمی پیمانے پر ماحول کے گرم ہو جانے سے موجودہ سرد علاقوں کی آب‌وہوا میں بھی بیماری پھیلانے والے حشرات کی تعداد میں اضافہ ہو جائیگا۔‏ اس بات کے کچھ ثبوت ہیں کہ شاید یہ پہلے سے ہی واقع ہو رہا ہے۔‏ سینٹر فار ہیلتھ اینڈ دی گلوبل انوائرنمنٹ،‏ ہاورڈ میڈیکل سکول کا ڈاکٹر پال آر.‏ایپس‌ٹن بیان کرتا ہے:‏ ”‏حشرات اور حشرات سے لگنے والی بیماریوں (‏بشمول ملیریا اور ہڈی‌توڑ بخار)‏ کی آجکل افریقہ،‏ ایشیا اور لاطینی امریکہ میں بہت بڑے پیمانے پر اطلاعات مِل رہی ہیں۔‏“‏ کوسٹاریکا میں ہڈی‌توڑ بخار کوہستانی علاقے تک پہنچ گیا ہے جو کچھ عرصہ پہلے بحراُلکاہل کے ساحل تک محدود تھا لیکن اب پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔‏

گرم موسم اس میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔‏ بعض علاقوں میں یہ دریاؤں کو تالاب بنا دیتا ہے جبکہ دیگر مقامات پر بارشیں اور سیلاب گندے پانی کے اکٹھا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔‏ دونوں صورتوں میں کھڑا پانی مچھروں کی افزائش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‏ گرم موسم مچھروں کی افزائشِ‌نسل کے عمل کو بھی مختصر کر دیتا ہے جس سے اُنکی پیدائش کی شرح بڑھ جاتی ہے اور یوں مچھروں کے زندہ رہنے کا دورانیہ طویل ہو جاتا ہے۔‏ گرم موسم میں مچھر زیادہ فعال ہوتے ہیں۔‏ گرم درجۂ‌حرارت مچھر کے گٹ کو بھی متاثر کرتا ہے اور بیماری پھیلانے والے جراثیم کی افزائش کی شرح کو بڑھا دیتا ہے اور یوں ایک ہی ڈنک سے انفیکشن میں مبتلا ہو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ دیگر تشویشناک پہلو بھی ہیں۔‏

بیماری کا مطالعہ

انسانی معاشرے میں تبدیلی حشرات سے پھیلنے والی بیماری پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔‏ اسکی وجہ سمجھنے کیلئے ذرا حشرات کے کردار کا بغور جائزہ لیں۔‏ بیشتر بیماریوں میں ایک حشرہ بیماری کی منتقلی کے مختلف ذرائع میں سے ایک ہو سکتا ہے۔‏ ایک جانور یا پرندہ اپنے جسم پر حشرے کو اُٹھانے یا جراثیم کو اپنے خون میں پرورش پانے دینے سے بیماری منتقل کرنے میں شامل ہو سکتا ہے۔‏ اگر ایسے جراثیم والا کوئی پرندہ یا جانور بچ جاتا ہے تو وہ بیماری کا مخزن بھی بن سکتا ہے۔‏

لائم ڈزیز پر غور کریں جو ۱۹۷۵ میں دریافت ہوئی اور جسکا نام لائم،‏ کونیک‌ٹی‌کٹ،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ پر رکھا گیا جہاں یہ سب سے پہلے نظر آئی تھی۔‏ ہو سکتا ہے کہ لائم ڈیزز کا سبب بننے والا بیکٹیریا سو سال پہلے یورپ سے آنے والے بحری جہازوں پر چوہوں اور مویشیوں کے ذریعے شمالی امریکہ پہنچا ہو۔‏ ایک چھوٹا سا آئزوڈس چچڑ اس بیماری سے متاثرہ جانور کا خون پیتا ہے اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے یہ بیکٹیریا اُس کے گٹ میں رہتا ہے۔‏ جب یہ چچڑ کسی دوسرے جانور یا انسان کو کاٹتا ہے تو یہ اس بیکٹیریا کو اُس شخص کے خون میں منتقل کر دیتا ہے۔‏

شمال‌مشرقی ریاستہائےمتحدہ میں،‏ لائم ڈزیز ایک علاقائی بیماری ہے اور یہ کافی عرصے سے وہاں موجود ہے۔‏ لائم ڈزیز کا ماخذ بیکٹیریا سفید پاؤں والے چوہے میں پایا جاتا ہے۔‏ خاص طور پر نشوونما پانے والے چچڑ چوہیوں پر پلتے ہیں۔‏ بالغ چچڑ ہرن پر بسیرا کرتے ہیں جہاں اُنہیں خوراک کے علاوہ ساتھی بھی مل جاتا ہے۔‏ خون سے بھر جانے کے بعد مادہ چچڑ انڈے دینے کیلئے زمین پر گر جاتی ہے جن میں سے لاروا نکل کر اس عمل کو ازسرِنو شروع کر دیتا ہے۔‏

حالات میں تبدیلی

انسانوں میں بیماری پھیلائے بغیر بھی جراثیم کافی عرصہ تک جانوروں اور انسانوں کیساتھ رہے ہیں۔‏ مگر حالات میں تبدیلی ایک علاقائی مرض کو وبائی مرض میں تبدیل کر سکتی ہے جو وہاں رہنے والے بیشتر لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔‏ لائم ڈزیز کے سلسلے میں کیا چیز تبدیلی کا باعث بنی تھی؟‏

ماضی میں،‏ شکاری جانوروں نے ہرن کی افزائش روکنے سے ہرن کے چچڑ اور انسانوں میں رابطے کو کافی محدود رکھا تھا۔‏ جب اوائلی یورپیوں نے کھیتی‌باڑی کی غرض سے جنگلات کو کاٹ ڈالا تو ہرن کی آبادی کافی بڑھ گئی اور ہرن کے شکاری بھی آ گئے۔‏ مگر ۱۸ ویں صدی کے دوران،‏ زراعت کے مغرب کی طرف بڑھ جانے سے بہت سے کھیت ویران ہو گئے اور جنگلات نے بڑھنا شروع کر دیا۔‏ ہرن واپس آ گئے مگر اُنکے قدرتی شکاری واپس نہ آئے۔‏ لہٰذا،‏ اُنکی نسل بڑی تیزی سے پھیل گئی اور اُنکے ساتھ ساتھ چچڑوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔‏

کچھ عرصہ بعد،‏ لائم ڈزیز بیکٹیریا پیدا ہو گیا اور اس سے پہلے کہ یہ انسانوں کیلئے خطرے کا باعث بنتا اس نے کئی عشروں تک ان میں بسیرا کِیا۔‏ تاہم،‏ جب جنگلات کے کناروں پر آبادکاری شروع ہوئی تو بڑی تعداد میں بچے اور بالغ چچڑوں کے نرغے میں آنے لگے۔‏ چچڑ انسانوں کو بھی چپکنے لگے اور یوں لائم ڈزیز انسانوں میں پھیل گئی۔‏

تغیرپذیر دُنیا میں بیماری

مذکورہ‌بالا بیان اُن مختلف طریقوں میں سے صرف ایک پر بات کرتا ہے جو بیماری اختیار کرتی ہے اور جس طرح انسان اس کے پھیلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔‏ ماہرِماحولیات یوجین لنڈن اپنی کتاب دی فیوچر اِن پلین سائٹ میں بیان کرتا ہے:‏ ”‏تقریباً تمام کی تمام جدید بیماریوں کے واپس آنے میں انسانی مداخلت کا بڑا کردار ہے۔‏“‏ چند دیگر مثالیں:‏ جدید سفر کی رفتار اور مقبولیت بھی جراثیم اور ان سے متاثرہ اشخاص کو دُنیا میں ہر جگہ لیجا سکتی ہیں۔‏ چھوٹی اور بڑی مخلوق کے ٹھکانوں کو نقصان پہچانا بھی حیاتیاتی تنوع کا خطرہ پیش کر سکتا ہے۔‏ ”‏آلودگی ہوا اور پانی کو متاثر کرتی ہے،‏“‏ لنڈن لکھتا ہے،‏ ”‏اور یہ جانوروں اور انسانوں دونوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔‏“‏ ڈاکٹر ایپس‌ٹن کے خلاصے میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:‏ ”‏اصل بات یہ ہے کہ انسان کی ماحولیاتی نظام سے چھیڑچھاڑ نے عالمی مدافعتی نظام کو کمزور کر دیا ہے اور جراثیم کیلئے حالات کو زیادہ سازگار بنا دیا ہے۔‏“‏

سیاسی عدمِ‌استحکام جنگوں کا باعث بنتا ہے جو ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچاتی اور اُن تنظیموں کو نقصان پہنچاتی ہیں جو صحت کا خیال رکھتی اور خوراک فراہم کرتی ہیں۔‏ اس کیساتھ ساتھ بائیوبولیٹن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے:‏ ”‏غذائیت کی کمی کا شکار اور ناتواں پناہ‌گزینوں کو اکثر ایسے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے جہاں صفائی کی نامناسب صورتحال لوگوں کو بیشمار بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‏“‏

معاشی عدمِ‌استحکام انسانوں کو ملک کے اندر اور ملک سے باہر دونوں جگہوں پر نقل‌مکانی کیلئے مجبور کرتا ہے۔‏ ”‏جراثیم پُرہجوم مقامات پسند کرتے ہیں،‏“‏ بائیوبولیٹن بیان کرتا ہے۔‏ جب شہروں کی آبادی بڑھتی ہے تو ”‏اکثر بنیادی تعلیم،‏ غذا اور ویکسین دینے کے پروگرام جیسے صحتِ‌عامہ سے متعلق اقدام نہیں اُٹھائے جاتے۔‏“‏ بہت زیادہ آبادی سے بھی پانی،‏ سویج اور گندگی ختم کرنے کے نظام پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے جس کی وجہ سے صفائی‌ستھرائی اور حفظانِ‌صحت کا خیال رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایسی حالتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو کیڑےمکوڑوں اور دیگر بیماری منتقل کرنے والی چیزوں کی افزائش کا باعث بنتی ہیں۔‏ بہرکیف،‏ صورتحال مایوس‌کُن نہیں جیساکہ اگلا مضمون بیان کریگا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر عبارت]‏

‏”‏تقریباً تمام کی تمام جدید بیماریوں کے واپس آنے میں انسانی مداخلت کا بڑا کردار ہے“‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

ویسٹ نائل وائرس کا ریاستہائےمتحدہ پر حملہ

بنیادی طور پر مچھروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا ویسٹ نائل وائرس سب سے پہلے ۱۹۳۷ میں یوگینڈا میں اور بعدازاں مشرقِ‌وسطیٰ،‏ ایشیا،‏ اوشنیا اور یورپ میں دریافت ہوا تھا۔‏ مغربی نصف کرۂارض میں یہ ۱۹۹۹ تک دریافت نہیں ہوا تھا۔‏ تاہم،‏ اُس وقت سے لیکر،‏ ریاستہائےمتحدہ میں ۰۰۰،‏۳ مریض رپورٹ کئے گئے ہیں اور ۲۰۰ اشخاص کی اموات کی اطلاع ملی ہے۔‏

بیشتر متاثرین کو اس بیماری کے حملہ‌آور ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا جبکہ بعض فلو جیسی علامات ظاہر کرتے ہیں۔‏ لیکن بعض این‌سف‌لائٹس اور اسپائنل میں‌نن‌جائٹس جیسی سنگین بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ ویسٹ نائل وائرس کا ابھی تک کوئی خاص علاج یا ویکسین نہیں ہے۔‏ بیماری کی روک‌تھام اور تدارک کیلئے یو.‏ایس.‏ سینٹرز آگاہ کرتے ہیں کہ ویسٹ نائل وائرس متاثرہ شخص سے اعضا کی منتقلی یا انتقالِ‌خون لینے سے بھی ہو سکتا ہے۔‏ ریوٹرز نیوز سروس برائے ۲۰۰۲ بیان کرتا ہے کہ ”‏ابھی تک خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ویسٹ نائل وائرس کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہے۔‏“‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

CDC\James D. Gathany

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر بکس/‏تصویر]‏

آپ اپنا دفاع کیسے کر سکتے ہیں؟‏ چند مشورے اور احتیاطیں

صحتمند رہنے کی بابت تجاویز حاصل کرنے کیلئے جاگو!‏ نے دُنیابھر میں حشرات سے لگنے والی بیماریوں سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے بات‌چیت کی۔‏ ممکن ہے آپ اپنے علاقے میں اُنکی مشورت کو مفید پائیں۔‏

صفائی—‏آپکا اوّلین دفاعی قدم

اپنا گھر صاف رکھیں

‏”‏کھانا محفوظ کرنے والے برتنوں کے علاوہ کھانے کو بھی پیش کئے جانے کے وقت تک ڈھانپ کر رکھیں۔‏ گرے ہوئے کھانے کو فوراً اُٹھا دیں۔‏ رات کو برتن گندے نہ چھوڑیں اور نہ ہی کوڑا صبح کیلئے رکھ چھوڑیں۔‏ اسے ڈھانپ دیں یا دبا دیں کیونکہ حشرات اور چوہے وغیرہ رات ہی کو خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں۔‏ نیز مٹی کے فرش پر کنکریٹ کی ایک تہہ گھر کو صاف اور حشرات سے پاک رکھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔‏“‏—‏افریقہ۔‏

‏”‏حشرات کو دعوت دینے والے پھل اور دیگر چیزیں گھر سے دُور رکھیں۔‏ بکریاں،‏ سؤار،‏ مرغیاں گھر سے دُور رکھیں۔‏ باہر بنے ہوئے بیت‌اُلخلا کو ڈھانپیں۔‏ مکھیوں سے بچانے کیلئے جانوروں کے فضلے کو فوری طور پر زمین میں دبا دیں یا چونے سے ڈھانپ دیں۔‏ اگر پڑوسی ایسا نہیں بھی کرتے توبھی آپ حشرات پر بڑی حد تک قابو پا سکتے اور اچھا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔‏“‏—‏جنوبی امریکہ۔‏

‏[‏تصویر]‏

خوراک اور کوڑے کو کھلا رکھنا کیڑےمکوڑوں کو اپنے گھر دعوت دینے کے مترادف ہے

ذاتی صفائی

”‏صابن آسانی سے خریدا جا سکتا ہے لہٰذا اپنے ہاتھ اور کپڑے اکثر دھوئیں بالخصوص جب آپ دوسرے لوگوں یا جانوروں کے پاس سے آتے ہیں۔‏ مُردہ جانوروں کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔‏ اپنے مُنہ،‏ ناک اور آنکھوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔‏ کپڑے خواہ صاف ہی کیوں نہ ہوں اُنہیں باقاعدگی سے دھوئیں۔‏ تاہم،‏ بعض خوشبوئیں حشرات کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں لہٰذا خوشبودار صابن اور دیگر مصنوعات سے گریز کریں۔‏“‏—‏افریقہ۔‏

حفاظتی اقدام

مچھروں کی افزائش کے مقامات ختم کریں

پانی کے ٹینک اور ٹب ڈھانپ کر رکھیں۔‏ پانی کیلئے کھلے مُنہ والے برتن نہ رکھیں۔‏ پودوں میں پانی کھڑا ہونے نہ دیں۔‏ چار دن سے زیادہ عرصے تک ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔‏—‏جنوب‌مشرقی ایشیا۔‏

حشرات سے بچیں

حشرات کے خوراک کھانے کے پسندیدہ اوقات اور مقامات سے بچیں۔‏ حاری علاقوں میں سورج جلد غروب ہو جاتا ہے،‏ لہٰذا روزمرّہ کے بیشتر کام تاریکی میں کئے جاتے ہیں جب حشرات زیادہ سرگرمِ‌عمل ہوتے ہیں۔‏ جب حشرات سے پھیلنے والی بیماری زوروں پر ہو تو آپ کا باہر کھلی جگہ پر سونا اور بیٹھنا اس میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ کر دیتا ہے۔‏—‏افریقہ۔‏

‏[‏تصویر]‏

مچھر والے علاقے میں باہر سونا بھی مچھروں کو دعوت دینا ہے

ایسا لباس پہنیں جس سے بدن پوری طرح ڈھک جائے بالخصوص جب آپ جنگل میں ہیں۔‏ اپنے کپڑوں اور جِلد کو کیڑےمار دوا لگائیں مگر لیبل پر لکھی ہوئی ہدایات پر عمل کریں۔‏ باہر وقت گزارنے کے بعد اپنے اور اپنے بچوں کے جسموں پر کاٹنے کے نشانات کا جائزہ لیں۔‏ اپنے پالتوں جانوروں کو صحتمند اور کیڑوں سے پاک رکھیں۔‏—‏شمالی امریکہ۔‏

کھیتوں میں رہنے والے جانوروں کیساتھ کم سے کم تعلق رکھیں کیونکہ اُنکے ذریعے حشرات انسانوں میں بیماری منتقل کر سکتے ہیں۔‏—‏وسطی ایشیا۔‏

اپنے خاندان کے تمام افراد کیلئے ایسی مچھردانیاں استعمال کریں جن میں کیڑےمار ادویات لگی ہوتی ہیں۔‏ کھڑکیوں وغیرہ میں پردے ڈالیں۔‏ چھجوں کے نیچے ایسی جگہیں بند کر دیں جہاں کیڑےمکوڑے جمع ہو سکتے ہیں۔‏ ایسے حفاظتی اقدامات میں پیسہ خرچ ہو سکتا ہے،‏ لیکن اگر آپکو بچے کو ہسپتال لیجانا پڑتا ہے یا اگر گھر کا کمانے والا بیمار پڑ جاتا ہے تو آپکو زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑینگے۔‏—‏افریقہ۔‏

‏[‏تصویر]‏

کیڑےمار ادویات اور مچھردانیاں دوا اور ہسپتال کے بلوں سے ارزاں ہیں

اپنے گھر میں ایسی جگہیں نہ رہنے دیں جہاں کیڑےمکوڑے چھپ سکتے ہیں۔‏ دیواروں اور چھت پر چونا کریں اور تمام دراڑیں اور سورخ بند کریں۔‏ کچی چھتوں کے اندر کی طرف کپڑا لگائیں جس پر کیڑےمار ادویات چھڑکی گئی ہیں۔‏ دیواروں پر زیادہ چیزیں نہ لٹکائیں جیسے تصاویر،‏ کپڑے اور دیگر ایسی چیزیں جن میں کیڑےمکوڑے چھپ سکتے ہیں۔‏—‏جنوبی امریکہ۔‏

بعض لوگ حشرات اور چوہوں کو گھر میں مہمان خیال کرتے ہیں۔‏ مگر ایسا نہیں ہے!‏ اُنہیں گھر میں داخل نہ ہونے دیں۔‏ کیڑےمار ادویات استعمال کریں مگر ہدایات کے مطابق۔‏ مکھی‌مار یا مکھی جال استعمال کریں۔‏ کچھ نہ کچھ حل ضرور نکالیں:‏ ایک عورت نے کپڑے کی ایک ٹیوب بنائی اور اُسے ریت سے بھر کر دروازے کے نیچے سوراخ پر رکھ دیں تاکہ حشرات اندر داخل نہ ہو سکیں۔‏—‏افریقہ۔‏

‏[‏تصویر]‏

حشرات کو ہمارے مہمان نہیں ہونا چاہئے۔‏ اُنہیں باہر نکالیں!‏

احتیاطی ادویات

مناسب غذا،‏ آرام اور ورزش کے ذریعے اپنی قوتِ‌مدافعت کو برقرار رکھیں۔‏ بہت زیادہ تناؤ سے بچیں۔‏—‏افریقہ۔‏

مسافر:‏ اپنے آپکو تازہ‌ترین صورتحال سے آگاہ رکھیں۔‏ عوامی صحت کے مراکز اور حکومت کی انٹرنیٹ سائٹس پر معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔‏ سفر کرنے سے پہلے آپ نے جس علاقے میں جانا ہے اُسکے مطابق احتیاطی اقدام اُٹھائیں۔‏

اگر آپ بیمار ہیں تو

فوراً علاج کرائیں

بیشتر بیماریاں ایسی ہیں جنکی تشخیص اگر شروع میں ہی ہو جائے تو علاج آسان ہوتا ہے۔‏

غلط تشخیص سے خبردار رہیں

ایسے ڈاکٹر تلاش کریں جو حشرات سے لگنے والی اور حاری بیماریوں سے بخوبی واقف ہیں۔‏ ڈاکٹر کو تمام علامات بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کہاں کہاں سے ہو کر آئے ہیں۔‏ اگر ضروری ہو تو اینٹی‌بائیوٹکس استعمال کریں اور علاج مکمل کرائیں۔‏

‏[‏تصویر]‏

حشرات سے لگنے والی بیماریاں دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ اپنے ڈاکٹر کو مکمل معلومات بتائیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Globe: Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

کیا حشرات ایچ‌آئی‌وی پھیلاتے ہیں؟‏

ایک عشرے کی تحقیق‌وتفتیش کے بعد،‏ ماہرِحشریات اور طبّی سائنسدانوں کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مچھر یا دوسرے کیڑے ایچ‌آئی‌وی یعنی ایڈز کا وائرس منتقل کرتے ہیں۔‏

جہانتک مچھر کا تعلق ہے تو اسکے مُنہ کے حصے یکطرفہ سرنج کی طرح نہیں ہوتے جن سے خون دوبارہ جسم کے اندر جا سکے۔‏ اسکی بجائے،‏ مچھر ایک حصے سے خون چوستے ہیں جبکہ دوسرے سے لعاب خارج کرتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ مونگو زمبیا میں،‏ ڈسٹرکٹ ہیلتھ مینجمنٹ ٹیم کا ایچ‌آئی‌وی اسپیشلسٹ تھامس ڈماسو بیان کرتا ہے کہ مچھر کا نظامِ‌ہضم خون کو مختلف اجزا میں تقسیم کر دیتا ہے جس سے وائرس ختم ہو جاتا ہے۔‏ ایچ‌آئی‌وی اس حشرے کے فضلے میں نہیں پایا جاتا۔‏ نیز ملیریا کے جرثومے کے برعکس،‏ ایچ‌آئی‌وی مچھر کے لعابی غدود میں داخل نہیں ہوتا۔‏

ایچ‌آئی‌وی سے متاثر ہونے کیلئے ایک شخص کو مختلف جراثیموں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‏ اگر مچھر کے خوراک کھانے کے عمل میں کوئی خلل پڑ جائے تو اُس کے مُنہ پر لگے رہ جانے والے خون کی مقدار بہت ہی کم ہوتی ہے۔‏ ماہرین کے مطابق،‏ اگر ایچ‌آئی‌وی پازیٹو خون سے بھرے ہوئے مچھر کو کھلے زخم پر لگایا جائے توبھی اس سے ایچ‌آئی‌وی انفیکشن نہیں ہوگا۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

CDC\James D. Gathany

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

ہرن کے چچڑ (‏گول تصویر میں بڑا دکھایا گیا ہے)‏ انسانوں میں لائم ڈزیز منتقل کرتے ہیں

بائیں سے دائیں:‏ بالغ مادہ،‏ بالغ نر اور نمف،‏ سب کے سب اپنے اصل سائز میں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

CDC :All ticks

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

سیلاب،‏ ناقص صفائی اور انسانی نقل‌مکانی حشرات سے لگنے والی بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتی ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏(FOTO UNACIONES)‎from U.S. Army‎