نقصاندہ گفتگو سے گریز کریں
بائبل کا نقطۂنظر
نقصاندہ گفتگو سے گریز کریں
”ایک ہی مُنہ سے مبارکباد اور بددُعا نکلتی ہے۔ اَے میرے بھائیو! ایسا نہ ہونا چاہئے۔“—یعقوب ۳:۱۰۔
ہماری قوتِگویائی ایسی لاثانی صفت ہے جو ہمیں جانوروں سے فرق کرتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بعضاوقات زبان سے گستاخانہ، ملحدانہ، تحقیرآمیز اور فحش باتیں نکلتی ہیں جو جسمانی زخموں سے بھی زیادہ تکلیفدہ ہوتی ہیں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“—امثال ۱۲:۱۸۔
بہتیرے لوگ آجکل قسمیں کھاتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ سکولوں میں بھی بچے انتہائی گندی زبان استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جذباتی تناؤ دُور کرنے کے لئے دوسروں
کو چوٹ پہنچانے والی باتیں کرنا مفید ہوتا ہے۔ سیاسیات کے ایک طالبعلم نے لکھا: ”جب عام الفاظ ہمارے جذبات کی شدت کو ظاہر کرنے میں قاصر رہتے ہیں تو فحشکلامی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔“ کیا مسیحی تکلیفدہ باتوں کی بابت ایسا ہی غیرسنجیدہ رُجحان رکھتے ہیں؟ خدا اس کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے؟بیہودہگوئی اور ٹھٹھابازی سے گریز کریں
بیہودہگوئی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیا آپ کے لئے یہ جاننا کوئی حیرت کی بات ہوگی کہ لوگ ۰۰۰،۲ سال پہلے رسولوں کے زمانے میں بھی گندی زبان استعمال کرتے تھے؟ مثال کے طور پر، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کلسیوں کی کلیسیا میں بعض لوگ غصے میں بہت ہی گندی زبان استعمال کرتے تھے۔ شاید وہ بدلہ لینے کی خاطر جانبوجھ کر دوسروں پر حملہ کرنے یا دُکھ پہنچانے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ اسی طرح، آجکل بھی لوگ غصے میں آکر بہت گندی زبان بولتے ہیں۔ لہٰذا، کلسیوں کے نام پولس کا خط آج ہمارے زمانے کے لئے بھی عملی ہے۔ پولس نے لکھا: ”اب تم بھی ان سب کو یعنی غصہ اور قہر اور بدخواہی اور بدگوئی اور مُنہ سے گالی بکنا چھوڑ دو۔“ (کلسیوں ۳:۸) مسیحیوں کو غصے اور گندی زبان سے پرہیز کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس کا غصے سے گہرا تعلق ہے۔
یہ سچ ہے کہ بعض لوگ کسی پر حملہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے گندی زبان استعمال نہیں کرتے۔ اکثر بِلاسوچےسمجھے ہی مُنہ سے گندے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ اس طرح بُرے الفاظ ہماری روزمرّہ گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بعض لوگ تو گندی زبان استعمال کئے بغیر بات ہی نہیں کرتے۔ علاوہازیں، اکثر ہنسیمذاق کے لئے بھی گندی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ کیا ایسے گندے ہنسیمذاق کو کماہم اور معمولی خیال کرنا چاہئے؟ مندرجہذیل پر غور کریں۔
بیہودہ ٹھٹھابازی کا مقصد دوسروں کا دل لبھانا ہوتا ہے۔ آجکل اس کا دارومدار جنس پر ہے۔ خود کو مہذب سمجھنے والے لوگوں کو بھی ایسی زبان بہت اچھی لگتی ہے۔ (رومیوں ۱:۲۸-۳۲) پس یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ فطرتی اور غیرفطرتی جنسی رُجحانات بہتیرے پیشہور کامیڈین کا موضوعِگفتگو ہوتے ہیں۔ ایسے بیہودہ مذاق فلموں، ٹیلیویژن اور ریڈیو کے پروگراموں میں بھی عام ہیں۔
بائبل بیہودہ ٹھٹھابازی کی بابت خاموش نہیں ہے۔ پولس رسول نے افسس کے مسیحیوں کو لکھا: ”تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔ اور نہ بےشرمی اور بیہودہگوئی اور ٹھٹھابازی کا کیونکہ یہ لائق نہیں بلکہ برعکس اس کے شکرگذاری ہو۔“ (افسیوں ۵:۳، ۴) واقعی، فحشکلامی اس کے مقصد سے قطعنظر خدا کو ناپسند ہے۔ یہ بُری ہوتی ہے۔ یہ نقصاندہ ہوتی ہے۔
تلخکلامی خدا کو ناپسند ہے
نقصاندہ گفتگو میں گندے اظہارات کے علاوہ اَور بھی بہت کچھ شامل ہے۔ طعنوتشنیع، تمسخر اور تنقید بھی بہت تکلیف پہنچاتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب زبان سے خطا کرتے ہیں کیونکہ ہم طنز اور غیبتگوئی کے ماحول میں رہتے ہیں۔ (یعقوب ۳:۲) سچے مسیحیوں کو کسی بھی طرح بُری زبان کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ بائبل واضح کرتی ہے کہ یہوواہ خدا ہر طرح کی نقصاندہ گفتگو کو رد کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، بائبل میں دوسرا سلاطین کی کتاب ایسے بچوں کی بابت بتاتی ہے جنہوں نے الیشع نبی کا تمسخر اُڑایا تھا۔ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ وہ اُسے ”چڑا کر کہنے لگے چڑھا چلا جا اَے گنجے سر والے! چڑھا چلا جا اَے گنجے سر والے!“ یہوواہ ان بچوں کے دل پڑھ سکتا اور اُن کے بُرے محرک کو دیکھ سکتا تھا اس لئے اُس نے اس بدکلامی کو بہت سنجیدہ خیال کِیا۔ سرگزشت مزید واضح کرتی ہے کہ خدا نے اس بدکلامی کی سزا میں ۴۲ لڑکوں کو ہلاک کر ڈالا۔—۲-سلاطین ۲:۲۳، ۲۴۔
اسرائیلی لوگوں نے ”خدا کے پیغمبروں کو ٹھٹھوں میں اُڑایا اور اُس کی باتوں کو ناچیز جانا اور اُس کے نبیوں کی ہنسی اُڑائی یہاں تک ۲-تواریخ ۳۶:۱۶) اگرچہ یہوواہ کا غضب اپنے لوگوں کی بُتپرستی اور نافرمانی کی وجہ سے بھڑکا تھا توبھی غور کیجئے کہ بائبل خدا کے نبیوں کا تمسخر اُڑانے کا بھی واضح طور پر ذکر کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ایسے طرزِعمل کو بالکل پسند نہیں کرتا۔
کہ [یہوواہ] کا غضب اپنے لوگوں پر ایسا بھڑکا کہ کوئی چارہ نہ رہا۔“ (بائبل مسیحیوں کو نصیحت کرتی ہے: ”کسی بڑے عمررسیدہ کو ملامت نہ کر۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۱) اس اُصول کا اطلاق سب کے ساتھ ہمارے برتاؤ پر ہوتا ہے۔ بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ”کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۲۔
ہونٹوں کو قابو میں رکھنا
بعضاوقات، کسی پر زبانی حملہ کرنے کی آزمائش بہت شدید ہو سکتی ہے۔ جب کوئی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے تو وہ دوسرے شخص کی اُس کے سامنے یا پیٹھ پیچھے بےعزتی کرنا جائز سمجھتا ہے۔ لیکن مسیحیوں کو ایسی آزمائش کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ امثال ۱۰:۱۹ بیان کرتی ہے: ”کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔“
خدا کے فرشتے اس سلسلے میں اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔ وہ نوعِانسان کی تمام غلطیوں سے واقف ہیں۔ اگرچہ فرشتے انسان سے زیادہ طاقتور ہیں توبھی وہ ’یہوواہ کے احترام میں‘ انسانوں کو ملامت نہیں کرتے۔ (۲-پطرس ۲:۱۱) یہ جانتے ہوئے کہ خدا تمام کی خطاؤں سے واقف ہے اور معاملات درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، فرشتے اپنے ہونٹوں پر قابو رکھتے ہیں۔ مقرب فرشتے میکائیل نے تو ابلیس کو بھی لعنطعن کے ساتھ نالش نہ کی۔—یہوداہ ۹۔
مسیحی بھی فرشتوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بائبل کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں: ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔ جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔ اَے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [یہوواہ] فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دونگا۔“—رومیوں ۱۲:۱۷-۱۹۔
دلچسپی کی بات ہے کہ ہمارا لہجہ اور آواز بھی ہماری بات کو تکلیفدہ بنا سکتی ہے۔ شوہر اور بیوی اکثر ایک دوسرے پر چلّا کر باہمی دُکھ کا باعث بنتے ہیں۔ بہتیرے والدین اپنے بچوں پر چلّاتے ہیں۔ تاہم، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے ہمیں چلّانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل تلقین کرتی ہے: ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قِسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔“ (افسیوں ۴:۳۱) بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کہ ساتھ نرمی کرے۔“—۲-تیمتھیس ۲:۲۴۔
صحتبخش باتیں
آجکل بدکلامی چونکہ بہت عام ہے اس لئے مسیحیوں کو اس نقصاندہ اثر سے بچنے کے لئے خاص حکمتِعملی کے ساتھ چلنا ہوگا۔ بائبل اچھی حکمتِعملی یعنی اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کا ذکر کرتی ہے۔ (متی ۷:۱۲؛ لوقا ۱۰:۲۷) پڑوسی کے لئے حقیقی فکرمندی اور محبت ہمیں ہمیشہ صحتبخش باتیں کرنے کی تحریک دیگی۔ بائبل کہتی ہے: ”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“—افسیوں ۴:۲۹۔
نیز، خدا کا کلام ذہننشین کرنا بھی ہمیں نقصاندہ گفتگو سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ پاک صحائف کا مطالعہ ”ساری نجاست“ کو دُور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ (یعقوب ۱:۲۱) واقعی، خدا کا کلام ہمارے دلودماغ کو تقویت بخشتا ہے۔