کیا حالات کبھی بہتر ہونگے؟
کیا حالات کبھی بہتر ہونگے؟
آجکل صحت کا عالمی ادارہ اور دیگر گروہ بیماریوں سے خاص تحفظ فراہم کرنے اور ان پر قابو پانے کے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ مختلف ادارے حشرات سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے نئی نئی ادویات اور طریقوں کی بابت تحقیق اور معلومات کی تشہیر کر رہے ہیں تاکہ اس مسئلے سے نپٹا جا سکے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی تحفظ کو ممکن بنانے کی خاطر آگاہی فراہم کرنے کیلئے بہت کچھ کِیا جا سکتا ہے۔ تاہم، لوگوں کا تحفظ عالمی پیمانے پر بیماری کی روکتھام کے مترادف نہیں ہے۔
بہتیرے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیماری پر قابو پانے میں کامیابی کا انحصار عالمی تعاون اور اعتماد پر ہے۔ پولٹزر کی انعامیافتہ رپورٹر لاری گیرٹ اپنی کتاب دی کمنگ پلیگ—نیولی ایمرجنگ ڈزیز اِن اے ورلڈ آؤٹ آف بیلنس میں لکھتی ہے، ”گلوبلائزیشن میں تیزرَو اضافہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر جگہ رہنے والے انسان اپنے ماحول کو پڑوسیوں، صوبوں، ممالک یا نصف کرۂارض تک محدود نہ رکھیں۔ خوردبینی جرثومے (مائیکروبز) اور اُنکے ساتھی حشرات انسانوں کی مقررکردہ مصنوعی حدود کو نہیں پہچانتے۔“ ایک مُلک میں کسی بیماری کا پھوٹ نکلنا فوری طور پر پڑوسی ممالک بلکہ پوری دُنیا کیلئے تشویش کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض حکومتیں اور لوگ کسی بھی قِسم کی مداخلت کیلئے ہوشیار رہتے ہیں حتیٰکہ سرحد پار سے آنے والی بیماری کی روکتھام کے پروگراموں سے بھی چوکنے رہتے ہیں۔ علاوہازیں، سیاسی کوتاہبینی اور معاشی طمع اکثر متحدہ بینالااقوامی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کیا بیماری کے خلاف انسان کی جدوجہد میں جرثومے سبقت لے جائینگے؟ مصنف یوجینی لنڈن کا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے، وہ مزید بیان کرتا ہے: ”اب بہت دیر ہو چکی ہے۔“
اُمید کی وجہ
سائنسی اور تکنیکی پیشقدمیاں بیماری کے خلاف جنگ میں بہت پیچھے ہیں۔ علاوہازیں، حشرات سے لگنے والی بیماریوں کا مسئلہ بِلاشُبہ انسانی صحت کو لاحق بیشتر خطرات میں سے صرف ایک ہے۔ مگر اُمید کی وجہ ہے۔ اگرچہ ابھی سائنسدان جانداروں کے مابین پیچیدہ تعلقات کو سمجھنا شروع ہوئے ہیں، تاہم وہ زمین کے خود کو بحال رکھنے کی خوبی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارے سیارے میں ایسا عمل موجود ہے جسکی مدد سے اسکا قدرتی نظام اپنا توازن بحال کر سکتا ہے۔ مثلاً صاف زمین پر ازخود اُگنے والے پودے جنگلات کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور جرثوموں، حشرات اور جانوروں کے مابین تعلقات وقت کیساتھ ساتھ مستحکم ہوتے جاتے ہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قدرت کا پیچیدہ اور دلچسپ ڈیزائن ایک خالق یعنی خدا کی طرف توجہ دلاتا ہے جس نے ابتدا میں زمین کے اندر یہ تمام قوتیں رکھی تھیں۔ بیشتر سائنسدان خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمین کی تخلیق کے لئے کوئی نہ کوئی اعلیٰ ذیشعور ہستی ذمہدار ہے۔ جیہاں، سنجیدہ مفکر خدا کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتے۔ بائبل خالق یہوواہ خدا کو قادرِمطلق اور شفیق کہتی ہے۔ وہ ہماری خوشی میں انتہائی دلچسپی رکھتا ہے۔
بائبل یہ بھی واضح کرتی ہے کہ پہلے آدمی کے جانبوجھ کر گُناہ کرنے کی وجہ سے انسان ناکاملیت، بیماری اور موت کے تابع ہیں۔ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ ہم ہمیشہ تکلیف اُٹھاتے رہینگے؟ جینہیں! خدا کا مقصد زمین کو ایک فردوس بنانا ہے جہاں انسان چھوٹی بڑی ہر طرح کی مخلوقات کیساتھ ملجُل کر رہ سکے گا۔ بائبل ایسی دُنیا کی خبر دیتی ہے جہاں انسان کو چھوٹے سے چھوٹے کیڑے یا بڑے سے بڑے جانور سے کسی قِسم کا خطرہ نہیں ہوگا۔—یسعیاہ ۱۱:۶-۹۔
بِلاشُبہ، معاشرتی اور موحولیاتی طور پر ایسی حالتیں برقرار رکھنے کیلئے انسان کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ خدا نے آدمی کو مقرر کِیا کہ زمین کی ”نگہبانی کرے۔“ (پیدایش ۲:۱۵) آنے والے فردوس میں، انسان مکمل طور پر خالق کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے فرمانبرداری کیساتھ اس کام کو انجام دیگا۔ پس ہم اُس دن کے منتظر رہ سکتے ہیں جب ”وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴۔