مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اپنا چھاتا لینا نہ بھولیں!‏“‏

‏”‏اپنا چھاتا لینا نہ بھولیں!‏“‏

‏”‏اپنا چھاتا لینا نہ بھولیں!‏“‏

برطانیہ سے اویک!‏ کا رائٹر

برطانیہ کے لوگ عام طور پر اپنے ساتھ چھتری رکھتے ہیں۔‏ کسی کو بھی اِس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کب بارش ہو جائے،‏ اِسلئے گھر چھوڑتے وقت ہم ایکدوسرے کو یاددہانی کراتے ہیں کہ ”‏اپنا چھاتا لینا نہ بھولیں!‏“‏ لیکن اِسکے بعد وہ بس،‏ ٹرین یا کسی دُکان میں بھول آتے ہیں۔‏ * یہ درست ہے کہ ہم اپنی چھتری کو معمولی خیال کرتے ہیں کیونکہ ہم کسی بھی وقت نئی خرید سکتے ہیں۔‏ لیکن ہمیشہ چھتری کو اتنا معمولی خیال نہیں کِیا گیا۔‏

ایک امتیازی تاریخ

ابتدائی چھتریوں کا بارش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‏ انکا تعلق اہم اشخاص کے مرتبے اور عظمت سے تھا۔‏ اسور مصر،‏ فارس اور انڈیا سے ہزارہا سال پرانے مجسّمے اور تصاویر حاکموں کو سورج کی گرمی سے بچانے کیلئے خادموں کے ہاتھوں میں چھتریوں کو پکڑے دکھاتی ہیں۔‏ اسور میں صرف بادشاہ ہی چھتری رکھ سکتے تھے۔‏

تاریخ میں اور بالخصوص ایشیا میں چھتری طاقت کی علامت ہے۔‏ ایک حکمران کے مرتبے میں اضافے کا اندازہ اُسکی چھتریوں کی تعداد سے ہوتا تھا جیسےکہ ایک برمی بادشاہ کو چوبیس چھتریوں کا مالک کہا جاتا تھا۔‏ بعض‌اوقات چھتریوں کی منازل بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی تھیں۔‏ چین کے حاکم کی چھتری چار منزلہ تھی اور سیام [‏تھائی‌لینڈ کا سابقہ نام]‏ کے بادشاہ کی چھتری سات یا نو منزلہ تھی۔‏ آجکل بھی بعض شرقی اور افریقی ممالک میں چھتری طاقت کی علامت ہے۔‏

مذہبی چھتریاں

شروع ہی سے چھتری کا تعلق مذہب سے ہے۔‏ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ نٹ دیوی چھتری کی طرح اپنے جسم سے ساری زمین کو ڈھانپے رکھتی ہے۔‏ لہٰذا لوگ پناہ حاصل کرنے کیلئے اپنی چلتی پھرتی ”‏چھتوں“‏ کے نیچے چلتے ہیں۔‏ انڈیا اور چین میں لوگوں کا خیال تھا کہ کھلی چھتری محرابی چھت کی نمائندگی کرتی ہے۔‏ ابتدائی بدھسٹ اسے بدھا کی علامت کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اُنکے مندروں کے گنبد بھی اکثر چھتری‌نما ہوتے ہیں۔‏ چھتریاں ہندو مذہب میں بھی نمایاں ہیں۔‏

چھتریوں کا رواج ۵۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ تک یونان تک پھیل چکا تھاجہاں اُنہیں مذہبی تہواروں پر دیوی دیوتاؤں کے مجسّموں کے اُوپر رکھا جاتا تھا۔‏ اتھینے کی عورتیں اپنے سروں کو چھتریوں سے سورج سے بچانے کیلئے خادموں کی مدد لیتی تھیں مگر بہت کم آدمی ایسا کرتے تھے۔‏ یونان سے یہ رسم روم تک پھیل گئی۔‏

رومن کیتھولک چرچ بھی اپنی مخصوص ضیافتوں میں چھتری استعمال کرتے تھے۔‏ پوپ پیلے اور سرخ دھاریدار ماڈل استعمال کرتا تھا جبکہ کارڈینل اور بشپ قرمزی یا سبز استعمال کرتے تھے۔‏ قدیم رومی گرجوں میں آج بھی پوپ کی کرسی پر پاپائی رنگ کی اومبریلون یا چھتری لگی ہوتی ہے۔‏ ایک پوپ کی وفات اور دوسرے پوپ کے منتخب کئے جانے کے درمیانی وقت میں چرچ کے سربراہ کے فرائض انجام دینے والا کارڈینل بھی اس وقت کے دوران اپنی شخصی نمائندگی کیلئے اومبریلون رکھتا ہے۔‏

سورج اور بارش سے بچنے کے لئے

آجکل ہم بارش سے بچانے والی چھتری اور سورج سے بچانے والی آفتابی کے مابین فرق کر سکتے ہیں مگر اصل میں ان دونوں میں سے کسی کا بھی بارش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‏ انگریزی لفظ ”‏امبریلا“‏ لاطینی امبرا سے مشتق ہے جسکا مطلب ہے ”‏سائبان“‏ یا ”‏سایہ“‏ اور اصطلاح ”‏پیراسول“‏ ایسے الفاظ سے نکلا ہے جو ”‏محفوظ رکھنا“‏ اور ”‏سورج“‏ کا مطلب رکھتے ہیں۔‏ یہ شاید چینی یا قدیم رومی عورتیں تھیں جنہوں نے بارش سے بچاؤ کیلئے اپنے کاغذی سائبانوں کو تیل اور موم لگانا شروع کِیا تھا۔‏ تاہم،‏ یورپ میں آفتابی یا بارش سے محفوظ رکھنے والی کسی چیز کا تصور نہیں تھا جبتک کہ ۱۶ ویں صدی میں اطالوی اور بعدازاں فرانسیسی لوگوں نے اسکے استعمال کو دریافت نہ کِیا۔‏

اٹھارویں صدی تک برطانیہ میں عورتوں نے چھتری کا استعمال شروع کر دیا تھا جبکہ آدمیوں نے اسے اُٹھانے سے انکار کِیا کیونکہ وہ اسے عورتوں سے منسوب کرتے تھے۔‏ صرف کافی‌ہاوس کے مالکان اسے اپنے گاہکوں کو گاڑی سے نیچے اُترتے وقت سایہ مہیا کرنے کیلئے چھتری استعمال کرتے تھے۔‏ پادری بھی بارش کے دوران تدفین کی خدمات انجام دینے کیلئے چرچ کے صحنوں میں اسے استعمال کرنا مفید پاتے ہیں۔‏

سیاح اور فلاحی کاموں کیلئے مشہور جوناس ہین‌وے نے انگلینڈ میں چھتری کی تاریخ کو بدل ڈالا تھا۔‏ ایک روایت کے مطابق وہ پہلا آدمی تھا جس نے لندن میں سرِعام چھتری اُٹھانے کی جرأت کی تھی۔‏ اُس نے سمندر پار لوگوں کو سفر کے دوران چھتری استعمال کرتے دیکھ کر اس بات کا عزم کِیا کہ وہ گھوڑےبانوں کے ناراض ہونے کے باوجود جو اُس پر راہ چلتے گندا پانی پھینکتے تھے ایسا کریگا۔‏ تیس برس تک ہین‌وے اور اُسکی چھتری اکٹھی نظر آئیں اور ۱۷۸۶ میں اُسکی وفات تک آدمی اور عورتیں دونوں چھتریاں استعمال کر رہے تھے۔‏

اُن دنوں بارش سے بچاؤ کیلئے چھتری کا استعمال واقعی ایک چیلنج تھا۔‏ ایسی چھتریاں بڑی،‏ بھاری اور بےڈھنگی ہوتی تھیں۔‏ اُنکی چکنی سطح یا کنوس کے کور اور بید یا ویل‌مچھلی کی ہڈیوں سے بنی تاریں گیلے ہونے پر انہیں کھولنا مشکل بنا دیتی تھیں اور وہ ٹپکتی بھی رہتی تھیں۔‏ تاہم،‏ اُنکی مقبولیت بڑھتی گئی بالخصوص جب بارش کے دوران چھتری خریدنا سستا اور گاڑی کرایے پر لینا مہنگا ہوتا تھا۔‏ چھتریاں بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کی دُکانوں میں اضافہ ہوتا گیا اور ایجاد کرنے والوں نے اسکے ڈیزائن کو بہتر بنانے پر توجہ دینا شروع کر دی۔‏ سموئیل فاکس نے ۱۹ ویں صدی کے وسط میں ایک پیراگون ماڈل تیار کِیا جسکا ہلکا مگر سٹیل کا مضبوط فریم تھا۔‏ سلک،‏ کاٹن اور چکنی سطح والے کپڑے نے پُرانے وزنی کپڑے کی جگہ لے لی۔‏ جدید چھتری کی ابتدا ہو چکی تھی۔‏

فیشن میں اضافہ

اب چھتری انگلینڈ میں فیشن‌پرست خواتین میں بہت مقبولیت حاصل کر چکی تھی۔‏ بدلتے فیشن کو منعکس کرنے کیلئے اُسکی نازک چھتری بڑی ہونے کیساتھ ساتھ شوخ‌رنگ سلک اور ساٹن سے بننے لگیں۔‏ یہ اکثر اُنکے لباس سے مطابقت رکھتی اور مختلف طرح کے ربن اور لیسوں اور بوز اور جھالروں اور پروں سے آراستہ ہوتی تھی۔‏ بیسویں صدی میں کوئی ایسی نازک مزاج حسینہ نہیں تھی جو اپنے رنگ‌وروپ کو بچانے کیلئے چھتری استعمال نہ کرتی ہو۔‏

تاہم،‏ ۱۹۲۰ کے دہے میں سورج سے جلد بھوری کرنے کا رواج چل پڑا اور انجام‌کار چھتری غائب ہوتی گئی۔‏ اب وہ دَور آ گیا جب ایک معزز شخص بغیر یونیفارم کے ہیٹ اور کالی چھتری لے کر چلنے لگا جو بوقتِ‌ضرورت عالی‌نسب چال کیلئے چھڑی کا کام بھی دینے لگی تھی۔‏

دوسری عالمی جنگ کے بعد،‏ نئی ٹیکنالوجی نے مارکیٹ میں چھتری کے نئے اور بہتر ڈائزین متعارف کروائے جیسےکہ ٹیلسکوپک فولڈنگ ماڈل،‏ نیز واٹرپروف نائلون،‏ پولی‌ایسٹر اور پلاسٹک کورز۔‏ چند ایسی دکانیں بچی تھیں جو ہاتھ سے مہنگی چھتریاں تیار کرتی تھیں۔‏ مگر آجکل فیکٹریاں بڑی تعداد میں اور ہر رنگ میں سستی چھتریاں تیار کرتی ہیں جو بڑے بڑے گالف اور صحن کو ڈھکنے والے سٹائل سے لیکر چھ انچ کے ماڈل تک ہیں جوکہ بڑی صفائی سے آپکے پرس میں بند ہو سکتی ہے۔‏

اگرچہ ایک وقت تھا جب اسے ایک پُرتعیش اور اعلیٰ معیار کی علامت خیال کِیا جاتا تھا مگر اب چھتری بڑی آسانی سے دستیاب اور بوقتِ‌ضرورت کہیں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔‏ یہ موسم کے اعتبار سے دُنیا میں ہر جگہ بڑی اچھی چیز ہے اور جوں‌جوں دھوپ سے بچنے کے سلسلے میں آگاہیاں موصول ہوتی ہیں بعض ممالک میں سورج سے بچاؤ کیلئے اسکا استعمال دوبارہ فیشن میں آ گیا ہے۔‏ پس جب آج آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو آپ بھی یہ آواز سنینگے:‏ ”‏اپنا چھاتا لینا نہ بھولیں!‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 چھتری کیلئے عامیانہ برطانوی زبان میں لفظ ”‏برولی“‏ استعمال کِیا جاتا ہے جوکہ غیرادبی ہے۔‏ اِسکے مساوی امریکی لفظ ”‏بم‌برشوٹ“‏ کبھی‌کبھار ہی استعمال ہوتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

چھتری خریدنا اور اسکی حفاظت کرنا

آپکو مضبوطی اور سہولت کے مابین انتخاب کرنا ہے۔‏ آسانی سے بند ہو جانے والی چھتری ایک بڑی سی جیب میں رکھی جا سکتی ہے،‏ اُسکی تاریں کم ہونگی مگر وہ تیز ہوا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‏ اسکے برعکس،‏ چھڑی والی چھتری شاید مہنگی تو ہو مگر یہ زیادہ دیرپا اور ہر طرح کے موسم کا مقابلہ کر سکتی ہے۔‏ واقعی اچھی چھتری کافی سال نکال سکتی ہے۔‏ آپ جس بھی قِسم کا انتخاب کرتے ہیں اسے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ کبھی گیلی کو بند نہ کریں بلکہ اسے اچھی طرح خشک ہونے دیں۔‏ اسے اسکے کور کے اندر بند رکھنا اسے صاف اور گرد سے بچائیگا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

ایک خادم اسوری بادشاہ پر سایہ کئے ہوئے ہے

چھتری تھامے ہوئے قدیم یونان کی ایک خاتون

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

J. G. Heck‏/The Complete Encyclopedia of Illustration ‏:Drawings

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

۱۹۰۰ کی آفتابی

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Culver Pictures