کپڑوں اور بناؤسنگھار کے متعلق میری سوچ مجھے سچے مذہب کو قبول کرنے سے روک رہی تھی
کپڑوں اور بناؤسنگھار کے متعلق میری سوچ مجھے سچے مذہب کو قبول کرنے سے روک رہی تھی
ایلین برمبگ کی زبانی
مَیں نے بچپن سے ہی اولڈ آرڈر جرمن بپٹسٹ بردرن چرچ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ فرقہ ایمش اور مینونائٹ فرقے سے ملتا جلتا ہے۔ بردرن تحریک کا آغاز 1708ء میں جرمنی میں ہوا۔ اِس تحریک کا مقصد لوگوں کو روحانی طور پر جگانا تھا۔ ”دی اِنسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن“ کے مطابق اِس تحریک کا آغاز اِس سوچ سے ہوا کہ ”اِنسانیت کو مسیح کی خوشخبری کی ضرورت ہے۔“ اِسی سوچ کی وجہ سے مختلف ملکوں میں کامیاب مشنری مہمیں چلائی گئیں۔
سن 1719ء میں ایک چھوٹا سا گروہ الیگزینڈر میک نامی شخص کی پیشوائی میں امریکہ کی ایک ریاست میں آیا جسے اب پینسلوانیا کہا جاتا ہے۔ اُس وقت کے بعد سے کئی مذہبی گروہ بنے اور ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ ہر گروہ الیگزینڈر میک کی تعلیمات کو اپنے طریقے سے بیان کرتا تھا۔ ہمارے چرچ کے تقریباً 50 رُکن تھے۔ ہمیں بائبل پڑھنے اور چرچ کے رُکنوں کے باضابطہ فیصلوں کی پابندی کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔
میرے خاندان کی کم سے کم تین پُشتیں اِسی چرچ کی تعلیمات کو مانتی رہیں اور اِن کے مطابق چلتی رہیں۔ مَیں 13 سال کی عمر میں بپتسمہ لے کر باقاعدہ طور پر اِس چرچ کا حصہ بن گئی۔ مَیں نے بچپن سے یہی سیکھا تھا کہ گاڑی، ٹریکٹر، ٹیلیفون، ریڈیو یا بجلی سے چلنے والی کوئی بھی چیز اپنے پاس رکھنا یا اِسے اِستعمال کرنا غلط ہے۔ ہمارے چرچ کی عورتیں سادہ لباس پہنتی تھیں، بال نہیں کٹواتی تھیں اور ہمیشہ سر ڈھانک کر رکھتی تھیں۔ اور مرد داڑھی رکھتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ دُنیا کا حصہ نہ ہونے میں یہ شامل ہے کہ ہم نئے نئے فیشن کے کپڑے نہ پہنیں، میکاپ نہ کریں اور زیور وغیرہ نہ پہنیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب گُناہ تھا اور غرور کی نشانی تھی۔
ہمیں بائبل کا گہرا احترام کرنا سکھایا گیا تھا جو کہ ہمارے لیے روحانی کھانا تھا۔ ہم ہر روز ناشتے سے پہلے جمع ہوتے تھے اور میرے ابو بائبل کا ایک باب پڑھتے تھے اور پھر اِس پر تھوڑی بات کرتے تھے۔ پھر جب ابو دُعا کرتے تھے تو ہم سب گُھٹنوں کے بل جھک جاتے تھے۔ اِس کے بعد امی دُعائےربانی پڑھتی تھیں۔ مجھے ہمیشہ اپنی صبح کی عبادت بہت اچھی لگتی تھی کیونکہ ہم سب گھر والے مل کر خدا کے کلام کی باتوں پر غور کرتے تھے۔
ہم امریکہ کی ریاست اِنڈیانا کے ایک قصبے میں ایک فارم پر رہتے تھے جہاں ہم فرق فرق قسم کی چیزیں اُگاتے تھے۔ ہم اِن چیزوں کو تانگے پر ڈال کر قصبے میں لے جاتے تھے اور پھر گلی میں یا گھر گھر بیچتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ محنت سے کام کرنا خدا کی خدمت کرنے میں شامل ہے۔ اِس لیے ہم بڑی لگن سے کام کرتے تھے۔ لیکن ہم اِتوار کے دن مشقت والا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم کھیتوں میں کام کرنے میں اِتنے مصروف ہو جاتے تھے کہ خدا کی عبادت پر دھیان رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔
شادی اور گھریلو زندگی
سن 1963ء میں جب مَیں 17 سال کی تھی تو جیمز سے میری شادی ہو گئی۔ وہ بھی اولڈ بردرن چرچ کے ایک رُکن تھے۔ جیمز کا خاندان بھی کئی پُشتوں سے اِسی فرقے کا حصہ تھا۔ اُن کے پردادا اور پردادی اِس فرقے کے رُکن بنے تھے۔ ہم دونوں خدا کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ صرف ہمارا فرقہ ہی سچا ہے۔
سن 1975ء تک ہمارے چھ بچے ہو چُکے تھے اور 1983ء میں ہمارا ساتواں اور آخری بچہ پیدا ہوا۔ ربیقہ ہماری اِکلوتی بیٹی تھی۔ ہم بڑی محنت سے کام کرتے تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ہم نے اپنے بچوں کو بھی بائبل کے وہ اصول سکھانے کی کوشش کی جو ہم نے اپنے امی ابو اور اپنے فرقے کے دوسرے رُکنوں سے سیکھے تھے۔
ہمارے فرقے کے رُکنوں کے نزدیک ایک شخص کے کپڑے اور اُس کا حلیہُ بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ کوئی بھی شخص یہ نہیں جان سکتا کہ ایک شخص کے دل میں کیا ہے۔ اِس لیے ہم سمجھتے تھے کہ ایک شخص کے کپڑوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اندر سے کیسا اِنسان ہے۔ اِس لیے اگر چرچ کی کوئی رُکن بالوں کے مختلف سٹائل بناتی تھی تو اِسے غرور کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اگر ایک شخص کے سادہ سے کپڑوں کا پرنٹ بہت بڑا ہوتا تھا تو اِس سے بھی یہ لگتا تھا کہ وہ شخص مغرور ہے۔ کبھی کبھار اِس طرح کی باتیں بائبل کی تعلیمات سے زیادہ اہم بن جاتی تھیں۔
قید کی سزا
میرے دیور جیسی نے بھی بچپن سے ہی اولڈ بردرن چرچ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن 1960ء کے دہے کے آخر میں اُنہیں فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کرنے کی وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا۔ قید کے دوران وہ یہوواہ کے گواہوں سے ملے۔ وہ لوگ بھی یہی مانتے تھے کہ جنگ میں حصہ لینا بائبل کے اصولوں کے خلاف ہے۔ (یسعیاہ 2:4؛ متی 26:52) جیسی کو یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کے مختلف موضوعات پر بات کر کے بہت اچھا لگا اور اُنہوں نے دیکھا کہ اُن لوگوں میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ بائبل کا بہت زیادہ مطالعہ کرنے کے بعد اُنہوں نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ ہم اُن کے اِس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔
جیسی نے میرے شوہر کو بھی وہ باتیں بتائیں جو اُنہوں نے سیکھی تھیں اور اِس بات کا بھی بندوبست کِیا کہ جیمز کو باقاعدگی سے ”مینارِنگہبانی“ اور ”جاگو!“ رسالے ملتے رہیں۔ اِن رسالوں کو پڑھنے کی وجہ سے بائبل میں جیمز کی دلچسپی بہت بڑھ گئی۔ جیمز کے دل میں ہمیشہ سے خدا کی خدمت کرنے کی خواہش تھی لیکن وہ خود کو خدا سے دُور محسوس کرتے تھے۔ اِس لیے اُنہیں ہر اُس چیز میں دلچسپی تھی جس کے ذریعے وہ خدا کے قریب جا سکتے تھے۔
ہمارے چرچ کے بزرگ ہماری حوصلہافزائی کرتے تھے کہ ہم ایمش، مینونائٹ اور دوسرے اولڈ بردرن چرچوں کے رسالوں کو پڑھیں۔ لیکن ہمیں لگتا تھا کہ یہ مذہب دُنیا کا حصہ ہیں۔ میرے ابو یہوواہ کے گواہوں کے سخت خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہمیں ”مینارِنگہبانی“ اور ”جاگو!“ رسالے بالکل نہیں پڑھنے چاہئیں۔ اِس لیے جب مَیں نے جیمز کو یہ رسالے پڑھتے دیکھا تو مَیں تھوڑا پریشان ہو گئی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ جھوٹی تعلیمات نہ اپنا لیں۔
جیمز کے ذہن میں کافی عرصے سے اولڈ بردرن چرچ کے کچھ عقیدوں کے حوالے سے کچھ سوال تھے۔ اُنہیں لگتا تھا کہ یہ عقیدے بائبل سے میل نہیں کھاتے، خاص طور پر یہ تعلیم کہ اِتوار کے دن مشقت والا کوئی بھی کام کرنا گُناہ ہے۔ مثال کے طور پر اولڈ بردرن چرچ میں یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ اِتوار کے دن اپنے جانوروں کو پانی پلانے کی تو اِجازت ہے لیکن کھیت میں سے جنگلی پودے اُکھاڑنے کی نہیں۔ ہمارے چرچ کے بزرگ جیمز کو بائبل سے اِس تعلیم کی وجہ نہیں بتا پائے۔ آہستہ آہستہ میرے دل میں بھی ایسی تعلیمات کے حوالے سے شک پیدا ہونے لگا۔
ہم ایک عرصے سے یہی مانتے آئے تھے کہ اولڈ بردرن چرچ خدا کا چُنا ہوا چرچ ہے اور ہم جانتے تھے کہ اگر ہم اِسے چھوڑیں گے تو ہمیں کیا کچھ سہنا پڑے گا۔ اِس لیے ہمیں اولڈ بردرن چرچ کو چھوڑنا کافی مشکل لگا۔ لیکن ہمارا ضمیر ہمیں اِس چیز کی اِجازت نہیں دیتا تھا کہ ہم ایک ایسے مذہب سے جُڑے رہیں جو ہمارے خیال سے پوری طرح سے بائبل کی تعلیمات پر نہیں چل رہا تھا۔ اِس لیے 1983ء میں ہم نے چرچ کو خط لکھا اور اِس میں اولڈ بردرن چرچ کو چھوڑنے کی وجوہات بتائیں۔ اِس میں ہم نے یہ بھی لکھا کہ اِس خط کو کلیسیا کے سامنے پڑھا جائے۔ اِس کے بعد ہمارا نام چرچ سے خارج کر دیا گیا۔
سچے مذہب کی تلاش
اِس کے بعد ہم نے سچے مذہب کی تلاش شروع کر دی۔ ہم ایک ایسے مذہب کی تلاش کر رہے تھے جس کی تعلیمات بائبل سے میل کھاتی ہوں اور جس کے رُکن خود بھی وہ کام کرتے ہوں جن کی تعلیم وہ دوسروں کو دیتے ہوں۔ ہمیں لگتا تھا کہ ہمیں کوئی ایسا مذہب نہیں ملے گا جو جنگوں میں حصہ نہ لیتا ہو۔ لیکن ہم ابھی بھی ایسے مذہب میں دلچسپی رکھتے تھے جس کے رُکن سادہ لباس پہنتے ہوں اور سادہ زندگی گزارتے ہوں کیونکہ ہمیں لگتا تھا کہ یہ اِس بات کی نشانی ہے کہ ایک ایسا مذہب دُنیا کا حصہ نہیں ہوگا۔ اِس لیے 1983ء سے 1985ء تک ہم نے ملک کے مختلف حصوں کا سفر کِیا اور مختلف فرقوں کا جائزہ لیا جیسے کہ مینونائٹ، کویکر اور دوسرے ایسے فرقوں کا جن کے رُکن سادہ زندگی گزارتے تھے۔
اِسی عرصے کے دوران یہوواہ کے گواہ امریکہ کی ریاست اِنڈیانا کے قریب ہمارے فارم پر ہم سے ملنے آنے لگے۔ ہم اُن کی بات سنتے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ ہم سے بات کرتے وقت بائبل کا ترجمہ ”کنگ جیمز ورشن“ ہی اِستعمال کریں۔ مجھے یہ بات اچھی لگتی تھی کہ یہوواہ کے گواہ جنگوں میں حصہ نہیں لیتے۔ لیکن میرے لیے اُن کی باتوں کو قبول کرنا مشکل تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ اگر وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ دُنیا سے الگ رہنے کے لیے سادہ کپڑے پہننا ضروری ہے تو اُن کا مذہب سچا نہیں ہو سکتا۔ میرا خیال تھا کہ جو لوگ سادہ کپڑے نہیں پہنتے، وہ مغرور ہوتے ہیں۔ میرا ماننا تھا کہ چیزیں اور پیسہ ایک شخص کو مغرور بنا دیتے ہیں۔
جیمز نے یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہ میں جانا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے کچھ بیٹوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ میرے شوہر نے مجھے ساتھ چلنے کے لیے کہا لیکن مَیں نے منع کر دیا۔ پھر ایک دن اُنہوں نے مجھ سے کہا: ”اگر آپ اُن کی ساری تعلیمات سے اِتفاق نہیں بھی کرتی تو بھی ایک بار میرے ساتھ چل کر دیکھیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔“ اصل میں اِس بات نے جیمز کے دل کو چُھو لیا تھا۔
آخرکار مَیں نے اپنے شوہر کے ساتھ جانے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن مَیں بڑی محتاط تھی۔ جب مَیں عبادتگاہ میں گئی تو مَیں نے سادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ٹوپی سے سر ڈھانکا ہوا تھا۔ ہمارے کچھ بیٹے ننگے پاؤں تھے اور اُن کے کپڑے بھی سادہ تھے۔ لیکن یہوواہ کے گواہ ہمارے پاس آئے اور ہم سے بڑے پیار سے ملے۔ مَیں نے سوچا کہ ”ہم اِن سے فرق ہیں لیکن پھر بھی یہ ہمیں قبول کر رہے ہیں۔“
مَیں اُن کے اچھے رویے سے بہت متاثر ہوئی لیکن میرا پکا اِرادہ تھا کہ مَیں ابھی صرف دیکھوں گی۔ جب وہ گیت گانے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو مَیں نہ تو کھڑی ہوتی تھی اور نہ ہی گیت گاتی تھی۔ اِجلاس کے بعد مَیں اُن پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتی تھی۔ مَیں اُن سے ایسی باتوں کے بارے میں سوال کرتی تھی جو مجھے لگتا تھا کہ وہ صحیح نہیں کر رہے یا پھر کسی آیت کا مطلب پوچھتی تھی۔ حالانکہ اُن سے بات کرتے وقت مَیں زیادہ سمجھداری سے کام نہیں لیتی تھی لیکن مَیں جس بھی شخص سے سوال پوچھتی تھی، وہ میری بات بڑے دھیان سے سنتا تھا۔ مَیں اِس بات سے بھی بڑی متاثر ہوئی کہ مَیں ایک ہی سوال مختلف لوگوں سے پوچھتی تھی اور مجھے ایک جیسا جواب ملتا تھا۔ کبھی کبھار وہ مجھے جواب لکھ کر دیتے تھے جو میرے لیے بڑا فائدہمند تھا کیونکہ مَیں بعد میں خود اِنہیں پڑھ سکتی تھی۔
سن 1985ء میں ہمارا خاندان یہوواہ کے گواہوں کے ایک اِجتماع پر گیا جو امریکہ کی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں ہوا تھا۔ ہم بس دیکھنے گئے تھے کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ جیمز نے ابھی بھی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور ہم نے بالکل سادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وقفے کے دوران کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی ہم سے ملنے نہ آیا ہو۔ اُن کی محبت، توجہ اور اپنائیت نے ہمارے دل کو چُھو لیا۔ ہم اُن کے اِتحاد کو دیکھ کر بھی بڑے متاثر ہوئے۔ چاہے ہم جہاں بھی اِجلاس کے لیے گئے، اُن کی تعلیمات ایک جیسی تھیں۔
یہوواہ کے گواہوں نے ہمارے لیے جو اپنائیت ظاہر کی تھی، اُس سے متاثر ہو کر جیمز نے بائبل کورس شروع کر دیا۔ جیمز ہر بات کا بڑی باریکی سے جائزہ لیتے تھے۔ وہ اِس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ جو کچھ وہ سیکھ رہے تھے، وہ صحیح ہے یا نہیں۔ (اعمال 17:11؛ 1-تھسلُنیکیوں 5:21) آخرکار جیمز کو احساس ہو گیا کہ اُنہوں نے سچائی کو پا لیا ہے۔ لیکن مَیں اندر ہی اندر بڑی اُلجھن کا شکار تھی۔ مَیں صحیح کام کرنا چاہتی تھی مگر مَیں اپنے لباس وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مَیں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے اِس دُنیا کا حصہ خیال کِیا جائے۔ جب مَیں پہلی بار بائبل کورس کرنے کے لیے بیٹھی تو میرے ایک ہاتھ میں ”کنگ جیمز ورشن“ تھی اور دوسرے ہاتھ میں ”ترجمہ نئی دُنیا۔“ مَیں ہر آیت کو دونوں ترجموں میں دیکھ رہی تھی تاکہ مَیں کوئی غلط تعلیم حاصل نہ کروں۔
میری اُلجھن کیسے دُور ہوئی؟
جیسے جیسے ہم نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کورس کِیا، ہم نے سیکھا کہ ہمارا آسمانی باپ تثلیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ واحد خدا ہے۔ (اِستثنا 6:4؛ 1-کُرنتھیوں 8:5، 6) ہم نے یہ بھی سیکھا کہ اِنسان کے اندر کوئی روح نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہو، دوزخ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں اِنسانوں کو اذیت دی جائے اور پاتال سے مُراد قبر ہے۔ (ایوب 14:13؛ زبور 16:10؛ واعظ 9:5، 10؛ اعمال 2:31) دوزخ کے حوالے سے مَیں نے جو کچھ سیکھا، وہ میرے لیے بہت خاص ہے کیونکہ اولڈ بردرن فرقوں کی اِس بارے میں فرق فرق رائے تھی۔
لیکن مَیں ابھی بھی سوچتی تھی کہ یہوواہ کے گواہوں کا مذہب سچا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ ابھی بھی دُنیا کا حصہ ہیں۔ وہ ویسی سادہ زندگی نہیں گزار رہے تھے جیسی مجھے لگتا تھا کہ ضروری ہے۔ مگر ساتھ ساتھ مَیں یہ بھی دیکھ سکتی تھی کہ وہ یسوع کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سب لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں۔ مَیں بہت اُلجھن کا شکار تھی۔—متی 24:14؛ 28:19، 20۔
اِسی کشمکش کے دوران یہوواہ کے گواہوں کی محبت کی وجہ سے مَیں اُن باتوں کو پرکھ پائی جو مَیں سیکھ رہی تھی۔ ساری کلیسیا ہمارے گھرانے میں دلچسپی لیتی تھی۔ یہوواہ کے فرق فرق گواہ انڈے اور دودھ لینے ہمارے گھر آتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہمیں اندازہ ہونے لگا کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے گھر یہوواہ کے صرف وہ گواہ نہیں آتے تھے جو ہمیں بائبل کورس کراتے تھے بلکہ جب بھی کوئی گواہ ہمارے گھر کے آسپاس ہوتا تھا، وہ ہم سے ملنے آتا تھا۔ یہ ہمارے لیے بہت اچھا تھا کیونکہ اِس طرح ہم یہوواہ کے گواہوں کو اَور اچھی طرح جان پائے اور اُن کی محبت اور فکر کی قدر کرنے لگے۔ صرف اُس کلیسیا کے یہوواہ کے گواہ ہی ہم میں دلچسپی نہیں لیتے تھے جو ہمارے گھر کے قریب تھی بلکہ دوسری کلیسیاؤں کے یہوواہ کے گواہ بھی ہمارے لیے فکر ظاہر کرتے تھے۔ جب میرے ذہن میں مناسب لباس اور بناؤ سنگھار کے حوالے سے کشمکش چل رہی تھی تو کے برگز نامی یہوواہ کی گواہ مجھ سے ملنے آئیں جو ایک دوسری کلیسیا سے تھیں۔ اُنہیں سادہ لباس پہننا اور میکاپ نہ کرنا پسند تھا۔ اِس لیے مَیں کُھل کر اُن سے اپنی اُلجھن کے بارے میں بات کر پائی۔ پھر ایک دن بھائی لوئس فلورا مجھ سے ملنے آئے۔ اُن کی پرورش بھی ایک ایسے مذہب میں ہوئی تھی جس میں سادہ زندگی گزارنے پر زور دیا جاتا ہے۔ میرے چہرے کو دیکھ کر وہ میری کشمکش سمجھ گئے۔ اُنہوں نے مجھے دس صفحوں کا ایک خط لکھا تاکہ میری اُلجھن تھوڑی کم ہو جائے۔ اُن کے شفقت بھرے سلوک سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور مَیں نے اُن کا خط کئی بار پڑھا۔
مَیں نے سفری نگہبان بھائی اوڈیل سے کہا کہ مجھے یسعیاہ 3:18-23 اور 1-پطرس 3:3، 4 کا مطلب سمجھائیں۔ مَیں نے اُن سے پوچھا: ”کیا اِن آیتوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ خدا کو خوش کرنے کے لیے سادہ لباس پہننا ضروری ہے؟“ اُنہوں نے مجھ سے کہا: ”کیا ٹوپی پہننے میں کوئی خرابی ہے؟ کیا بال گُوندھنے میں کوئی حرج ہے؟“ اولڈ بردرن فرقے میں ہم بچیوں کی چوٹی بناتے تھے اور عورتیں ٹوپی پہنتی تھیں۔ مَیں دیکھ سکتی تھی کہ اولڈ بردرن فرقے کے معیار سب کے لیے ایک جیسے نہیں تھے۔ مَیں سفری نگہبان کے نرم رویے اور صبر سے بہت متاثر ہوئی۔
آہستہ آہستہ میری کشمکش کم ہوتی گئی۔ لیکن ابھی بھی ایک مسئلہ تھا جس کی وجہ سے مَیں کافی پریشان تھی۔ اور وہ یہ تھا کہ عورتیں بال کٹواتی ہیں۔ کلیسیا کے بزرگوں نے مجھے سمجھانے کے لیے یہ دلیل دی کہ کچھ عورتوں کے بال زیادہ نہیں بڑھتے لیکن کچھ عورتوں کے بال بہت لمبے ہو جاتے ہیں۔ تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کے بال دوسری عورت کے بالوں سے بہتر ہیں؟ اُنہوں نے مجھے یہ بھی سمجھایا کہ لباس اور بناؤ سنگھار کے حوالے سے ہمارے ضمیر کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اُنہوں نے مجھے کچھ معلومات بھی دیں تاکہ مَیں اِنہیں گھر جا کے پڑھ سکوں۔
ہم اُن باتوں پر عمل کر رہے تھے جو ہم سیکھ رہے تھے
ہم ایسا مذہب ڈھونڈ رہے تھے جو بائبل کی تعلیمات پر عمل کرے اور ہمیں ایسا مذہب مل گیا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”اگر آپ کے درمیان محبت ہوگی تو سب لوگ پہچان جائیں گے کہ آپ میرے شاگرد ہیں۔“ (یوحنا 13:35) ہمیں یقین ہو گیا کہ یہوواہ کے گواہ ہی وہ لوگ ہیں جو سچی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے دو بڑے بچوں ناتھن اور ربیقہ کے لیے اِن باتوں کو قبول کرنا مشکل تھا کیونکہ اُنہوں نے اولڈ بردرن چرچ کی تعلیمات کو قبول کر لیا تھا اور بپتسمہ لے کر اِس کے رُکن بن گئے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ بائبل کی اُن سچائیوں نے اُن کے دل کو چُھو لیا جو ہم اُنہیں بتاتے تھے اور اُس محبت نے بھی جو یہوواہ کے گواہ ظاہر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ربیقہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ خدا کے ساتھ اُس کی قریبی دوستی قائم ہو۔ جب اُس نے سیکھا کہ خدا نے پہلے سے یہ طے نہیں کِیا کہ اِنسان اپنی زندگی کے دوران کیا کرے گا یا اُس کے ساتھ کیا ہوگا تو اُسے خدا سے دُعا کرنا آسان لگنے لگا۔ اور جب اُس نے یہ سیکھا کہ خدا تثلیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی ہستی ہے اور وہ اُس کی مثال پر عمل کر سکتی ہے تو وہ خدا کے اَور قریب ہو گئی۔ (اِفسیوں 5:1) وہ اِس بات سے بھی خوش تھی کہ وہ ”کنگ جیمز ورشن“ کی قدیم زبان اِستعمال کیے بغیر بھی خدا سے بات کر سکتی ہے۔ جیسے جیسے اُس نے دُعا کے حوالے سے خدا کے معیاروں کے بارے میں سیکھا اور یہ بھی کہ خدا چاہتا ہے کہ اِنسان ہمیشہ تک زمین پر فردوس میں رہیں تو خدا کے ساتھ اُس کی دوستی مضبوط ہوتی گئی۔—زبور 37:29؛ مکاشفہ 21:3، 4۔
خدا کی خدمت میں ملنے والے اعزاز
مَیں، جیمز اور ہمارے پانچ بڑے بچے ناتھن، ربیقہ، جارج، ڈینئل اور جان 1987ء میں بپتسمہ لے کر یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ ہارلے نے 1989ء میں بپتسمہ لیا اور سائمن نے 1994ء میں۔ ہمارا پورا گھرانہ اُس کام میں مصروف رہتا ہے جس کا حکم یسوع مسیح نے دیا تھا یعنی بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں۔
ہمارے پانچ بڑے بیٹوں ناتھن، جارج، ڈینئل،جان اور ہارلے اور ہماری بیٹی ربیقہ نے بھی امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں خدمت کی ہے۔ جارج 14 سال سے وہاں خدمت کر رہا ہے۔ سائمن نے 2001ء میں سکول کی پڑھائی ختم کی اور حال ہی میں اُس نے بھی وہاں خدمت شروع کر دی ہے۔ ہمارے سارے بیٹے یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں یا تو بزرگ ہیں یا خادم۔ میرے شوہر امریکہ کی ریاست میسوری کی ایک کلیسیا میں بزرگ ہیں اور مَیں مُنادی کے کام میں مصروف رہتی ہوں۔
اب ہماری دو نواسیاں اور ایک پوتا ہے۔ ہماری نواسیوں کے نام جیسیکا اور لٹیشا ہیں اور ہمارے پوتے کا نام کیلب ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اُن کے ماں باپ ابھی سے اُن کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارا گھرانہ بہت خوش ہے کہ یہوواہ نے ہمیں اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور ہماری مدد کی ہے تاکہ ہم اُس محبت کو دیکھ سکیں جو اُس کے نام سے کہلانے والے لوگ ظاہر کرتے ہیں اور یوں سچے مذہب کو پہچان سکیں۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اُن کے ضمیر کی تربیت اُن کے ماحول کے مطابق ہوئی ہے نہ کہ بائبل کے اصولوں کے مطابق۔ ہم چاہتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی خوشی ملے جیسی ہمیں مل رہی ہے۔ یہ خوشی ہمیں گھر گھر جا کر کھانے پینے کی چیزیں بیچنے سے نہیں بلکہ خدا کی بادشاہت کا پیغام سنانے سے مل رہی ہے۔ جب مَیں اُس صبر اور محبت کے بارے میں سوچتی ہوں جو یہوواہ کے بندوں نے ہمارے لیے ظاہر کی تو میری آنکھوں میں آنسو جاتے ہیں اور میرا دل شکرگزاری سے بھر جاتا ہے۔
[تصویر]
سات سال کی عمر میں میری تصویر اور جوانی کی تصویر
[تصویر]
جیمز، جارج، ہارلے اور سائمن نے سادہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
[تصویر]
میری یہ تصویر مقامی اخبار میں چھپی جس میں مَیں کھانے پینے کی چیزیں بازار لے جا رہی ہوں۔
[تصویر کا حوالہ]
Lafayette, Indiana ,Journal and Courier
[تصویر]
ہمارے گھرانے کی حالیہ تصویر