جب ہمارے عزیز ہمارے ہمایمان نہیں ہوتے
بائبل کا نقطۂنظر
جب ہمارے عزیز ہمارے ہمایمان نہیں ہوتے
ایک اندازے کے مطابق، دُنیا میں ۰۰۰،۱۰ سے زیادہ مذاہب اور فرقے ہیں۔ ایک ملک میں بالغ آبادی کا تقریباً ۱۶ فیصد زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنا مذہب تبدیل کر چکا ہے۔ پس، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ رشتہداروں اور دوستوں میں مذہبی عقائد کی بابت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعضاوقات یہ تعلقات میں کشیدگی پر منتج ہوتے ہیں۔ لہٰذا سوال اُٹھتا ہے کہ مسیحیوں کو اُن عزیزوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے جو اُن کے ہمایمان نہیں ہیں؟
ایک خاص رشتہ
غور کریں کہ بائبل والدین اور بچوں کے درمیان پائے جانے والے خاص رشتے کی بابت کیا کہتی ہے۔ خروج ۲۰:۱۲ میں درج حکم ”تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا“ میں کسی وقت کی پابندی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ متی ۱۵:۴-۶ میں اس حکم پر یسوع کی گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اُس عزت کی بات کر رہا تھا جو بالغ بچے اپنے والدین کو دیں گے۔
امثال ۲۳:۲۲ نصیحت کرتی ہے کہ ”اپنی ماں کو اُس کے بڑھاپے میں حقیر نہ جان۔“ امثال ۱۹:۲۶ پُرزور طریقے سے آگاہ کرتی ہے کہ ”جو اپنے باپ سے بدسلوکی کرتا اور ماں کو نکال دیتا ہے خجالت کا باعث اور رسوائی لانے والا بیٹا ہے۔“
امثال کی کتاب والدین کے لئے عزت نہ دکھانے کی بابت آگاہ کرتی ہے۔صحائف سے یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں اپنے والدین سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ اگر ہمارے والدین ہمارے مذہب کو قبول نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کے ساتھ ہمارا رشتہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ بائبل کے ان اُصولوں کا اطلاق دیگر خونی رشتوں اور بیاہتا ساتھی پر بھی ہوتا ہے۔ واضح طور پر، مسیحی اخلاقی اور صحیفائی طور پر اپنے رشتہداروں سے محبت کرنے کے پابند ہیں۔
معقولیت اہم ہے
بِلاشُبہ بائبل بُری صحبتوں کے خلاف آگاہ کرتی ہے اور یہ ایک شخص کے قریبی رشتہداروں کی بابت بھی سچ ہو سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) ماضی میں خدا کے بہت سے وفادار خادم والدین کی مخالفت کے باوجود سچائی پر قائم رہے۔ یہ قورح کے بیٹوں کی بابت بھی سچ تھا۔ (گنتی ۱۶:۳۲، ۳۳؛ ۲۶:۱۰، ۱۱) سچے مسیحیوں کو رشتہداروں سمیت دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ایمان کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرنی چاہئے۔—اعمال ۵:۲۹۔
بعض صورتوں میں، والدین یا دیگر عزیز ایک مسیحی کے ایمان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ بعض سچی مسیحیت کے دُشمن بھی بن سکتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں اپنی روحانیت کے تحفظ کے لئے مسیحی معقول اقدام اُٹھاتے ہیں۔ یسوع نے موزوں طور پر بیان کِیا: ”آدمی کے دشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔“—متی ۱۰:۳۶، ۳۷۔
تاہم، بیشتر صورتوں میں، مسیحیوں کو اپنے عزیزوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اُن کے رشتہدار صرف اُن کی بائبل تعلیمات کو قبول نہیں کرتے۔ پاک صحائف مسیح کے پیروکاروں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ بےایمانوں کے ساتھ ”حلیمی“ اور ”حلم اور خوف“ کے ساتھ پیش آئیں۔ (۲-تیمتھیس ۲:۲۵؛ ۱-پطرس ۳:۱۵) موزوں طور پر بائبل نصیحت کرتی ہے: ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۲۴) پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ بھی نصیحت کی کہ ”کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۲۔
رابطہ رکھیں اور محبت کا اظہار کریں
پہلا پطرس ۲:۱۲ میں مسیحیوں کو یہ حوصلہافزائی دی گئی ہے: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ . . . تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خداوند کی تمجید کریں۔“ اکثر ہمارے عزیز جو ہمارے ایمان سے اتفاق نہیں کرتے وہ اُن تبدیلیوں پر ضرور غور کرتے ہیں جو ہم نے اپنی زندگیوں میں کی ہیں۔ یاد رکھیں کہ بہت سے لوگ جو کبھی سردمہری دکھاتے یا بائبل سچائی کی مخالفت کرتے تھے اب تبدیل ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے بیاہتا ساتھی کے اچھے چالچلن کا بغور مشاہدہ کرنے یا بچے کے ایسے چالچلن کی بابت مختلف لوگوں سے تحقیق کرنے میں اُنہیں کافی سال لگ گئے ہوں۔ جو لوگ بائبل سچائیوں کو قبول نہیں کرتے اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ کسی مسیحی عزیز نے اُنہیں پوری توجہ نہیں دی۔
مانا کہ حالات مختلف ہوتے ہیں اور بعض مسیحی گواہ اپنے والدین سے بہت دُور رہتے ہیں۔ شاید اُن سے جلد ملنا ممکن نہ ہو۔ تاہم خط لکھنا، ٹیلیفون پر بات کرنا یا دیگر طریقوں سے باقاعدہ رابطہ رکھنا ہمارے عزیزوں کو ہماری محبت کا یقین دلائے گا۔ بہتیرے جو سچے مسیحی نہیں اپنے والدین اور دیگر رشتہداروں سے محبت رکھتے اور اُن کے مذہبی پسمنظر سے قطعنظر اُن سے باقاعدہ رابطہ رکھتے ہیں۔ کیا سچے مسیحی اس سلسلے میں دوسروں سے پیچھے ہیں؟
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
اپنے عزیزوں سے رابطہ رکھنا اُنہیں یہ یقین دلاتا رہیگا کہ آپ اُن سے محبت رکھتے ہیں