مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

بندروں کا کاروبار

بعض لوگوں نے لاتعداد بندروں کو ٹائپ‌رائٹرز استعمال کروانے کا تجربہ کِیا ہے اور اُنکا دعویٰ ہے کہ یہ بندر انجام‌کار شیکسپیئر کے مکمل کام کو تحریر کرینگے۔‏ پس انگلینڈ میں پلےماؤتھ یونیورسٹی کے ماہرین نے چھ بندروں کو ایک مہینے کیلئے ایک کمپیوٹر دے دیا۔‏ دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے کہ بندر ”‏ایک بھی لفظ لکھنے میں کامیاب نہ ہوئے۔‏“‏ جنوب‌مغربی انگلینڈ میں پین‌ٹن نامی چڑیا گھر میں چھ بندروں نے ”‏صرف پانچ صفحے لکھے،‏“‏ جن میں سے بیشتر ایس‌ایس سے بھرے ہوئے تھے۔‏ دستاویز کے آخر پر،‏ بندروں نے چند جے،‏ اے،‏ آئی اور ایم کے حروف ٹائم کئے ہوئے تھے۔‏ وہ کمپیوٹر کے کیبورڈ کو مجموعی بیت‌اُلخلا کے طور پر بھی استعمال کر رہے تھے۔‏

انڈوں سے سانپ کے زہر کا تریاق حاصل کرنا

دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق،‏ انڈین سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ مرغی کے انڈوں میں ایسے مالیکیولز بن سکتے ہیں جن سے سانپ کے کاٹے کا تریاق ہو سکتا ہے۔‏ صرف ۱۲ ہفتے کے پرندوں کو ”‏زہر کے بھاری ٹیکے لگا دئے جاتے ہیں“‏ اور اسکے دو یا تین ہفتے بعد اس سے بھی زیادہ مقدار دی جاتی ہے۔‏ کوئی ۲۱ ہفتے بعد وہ انڈے دینے لگتے ہیں جن میں فادِزہر اینٹی‌باڈیز ہوتے ہیں۔‏ دی ٹائمز کے مطابق،‏ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈوں سے حاصل ہونے والا فادِزہر گھوڑوں سے حاصل ہونے والے فادِزہر کی جگہ استعمال کِیا جا سکتا ہے جوکہ ”‏سانپ کا فادِزہر جمع کرنے کیلئے انتہائی تکلیف‌دہ ٹیسٹ میں سے گزرتے ہیں۔‏ آسٹریلیا کے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں حیوانات پر تجربات کرنے والی اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‏ اگر انڈوں سے حاصل ہونے والا فادِزہر انسانوں کیلئے مؤثر ثابت ہوگا تو یہ انڈیا کیلئے بہت اچھا ہوگا جہاں ہر سال ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ اشخاص کو سانپ کاٹ لیتے ہیں۔‏ ان میں سے ۱۰ فیصد متاثرین مر جاتے ہیں۔‏

دُوردراز سے ٹیلیفون کرنا

فیلڈلفیہ سے ٹیلیفون کرنے والا ایک شخص لوکل کسٹمر سروس نمبر ملاتا ہے۔‏ اگرچہ جواب دینے والی خاتون خود کو مشل کہتی ہے مگر اُسکا اصل نام میگھنا ہے وہ انڈیا سے بات کر رہی ہے جہاں اس وقت آدھی رات ہے۔‏ انڈین کال سینٹرز نے ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ سے زائد لوگ بھرتی کئے ہوئے ہیں جو امریکن ایکسپرس،‏ اےٹی اینڈ ٹی،‏ برٹش ایرویز،‏ سٹی‌بینک اور جنرل الیکٹرک جیسی غیرملکی کمپنیوں کیلئے کام کرتے ہیں۔‏ انڈیا میں یہ کام انٹرنیشنل ٹیلیفون ریٹس اور وہاں پر تعلیم‌یافتہ انگریزی بولنے والے کارکنوں کی افراط کی بدولت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور انڈیا ٹوڈے رسالے کے مطابق،‏ ”‏ان لوگوں کی تنخواہ مغربی ملازمین کے مقابلے میں ۸۰ فیصد کم ہے۔‏ خود کو امریکی ظاہر کرنے کیلئے میگھنا جیسے آپریٹر کئی مہینوں تک تربیت حاصل کرتے ہیں جس میں ”‏مختلف امریکی لہجے اپنانے کیلئے ہالی‌وڈ کی فلمیں دیکھنا شامل ہے۔‏“‏ میگھنا کا کمپیوٹر اُسے فیلڈلفیہ کا موسم تک بتاتا ہے تاکہ وہ اس پر تبصرہ کر سکے۔‏ نیز وہ بات کے اختتام پر کام ختم ہونے کے بعد ”‏ہیو آ گوڈ ڈے“‏ بھی کہتی ہے۔‏

جفاکش کسان

نیو سائنٹسٹ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏دی گرین ریولوشن جس نے دُنیا کے اندر کھیت کی پیداوار کو اچانک بڑھا دیا تھا جب اُسکا حساب کِیا گیا تو دُنیا کے لاکھوں غریب کسان مزید غریب ہو گئے جیساکہ افریقہ میں ہوا ہے۔‏“‏ وہ کیسے؟‏ سن ۱۹۵۰ کے آخر میں دُنیا کی آبادی میں اضافے سے متوقع قحط‌سالی کو ختم کرنے کیلئے گندم اور چاول کی نئی نئی اقسام متعارف کرائی گئیں۔‏ تاہم،‏ اناج کی بہتات کی وجہ سے قیمتیں گر گئیں۔‏ نیو سائنٹسٹ میگزین بیان کرتا ہے ”‏جو کسان کم قیمت پر فروحت ہونے والی ان نئی اقسام کی کاشت کرنے کے قابل تھے اُنہوں نے ایسا کِیا مگر جو ایسا نہیں کر سکتے تھے اُنہیں بہت نقصان ہوا۔‏“‏ علاوہ‌ازیں یہ نئی اقسام افریقی ممالک میں نہ چل سکیں کیونکہ یہ بیج ایشیا اور لاطینی امریکہ کیلئے تیار کِیا گیا تھا۔‏

پگھلتے برفانی تودے

جب انڈیا کے پنجاب میں مون‌سون بارشوں میں کمی کی وجہ سے پانی کے ذخائر میں کمی ہونے لگی تو دریائےستلج پر بنائے گئے باکرا ڈیم میں پانی کی سطح گزشتہ سال کی نسبت دُگنی ہو گئی۔‏ کیوں؟‏ رسالہ ڈاؤن ٹو ارتھ بیان کرتا ہے کہ ستلج کی ایک بڑی نہر ایسے علاقے سے گزرتی ہے جہاں ۸۹ برفانی تودے ہیں۔‏ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں برفانی تودوں کا ماہر سید اقبال حسنین بیان کرتا ہے،‏ ”‏مون‌سون نہ ہونے سے بیشتر تودے پگھل گئے ہیں۔‏ چونکہ یہاں بادل نہیں ہیں اسلئے اس علاقے میں پہنچنے والی سورج کی کرنیں خاصی تیز ہوتی ہیں۔‏ چنانچہ تیز درجۂ‌حرارت انکے پگھلنے کا سبب بنتے ہیں۔‏“‏ ماہرین کا خیال ہے کہ اسطرح سے انکا پگھلنا برفانی جھیلوں میں طغیانی کا سبب بن سکتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ برفانی تودوں میں کمی کا یہ مطلب ہے کہ مستقبل میں پانی کی کمی ہوگی اور توانائی اور زرعی پیداوار پر اسکے منفی اثرات مرتب ہونگے۔‏

صابن زندگیاں بچاتا ہے

لنڈن کے حفظانِ‌صحت اور گرم‌مرطوب علاقوں کیلئے ادویات کی لیکچرار وال کرٹس کے مطابق،‏ صابن کیساتھ محض ہاتھ دھونا بھی ہر سال لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو اسہالی بیماریوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔‏ دی ڈیلی یومیوری بیان کرتا ہے کہ کیوٹو جاپان میں تیسری دُنیا میں پانی کے موضوع پر ہونے والے اجلاس میں کرٹس نے انسانی فضلے میں پائے جانے والے جراثیم کی بابت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”‏لوگوں کا اوّل درجے کا دُشمن ہے۔‏“‏ اخبار لکھتا ہے،‏ ”‏بعض علاقوں میں،‏ بچوں کو رفع‌حاجت کے بعد دھونا اور پھر اپنے ہاتھ دھوئے بغیر کھانا پکانا شروع کر دینا ماؤں کیلئے ایک عام بات ہے۔‏“‏ تاہم ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھونا مُہلک وائرس اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے۔‏ کرٹس کے مطابق،‏ ترقی‌پذیر ممالک میں پانی کو بہتر بنانے کی نسبت اسہالی بیماریوں میں کمی کرنا تین گُنا زیادہ مفید ہوگا۔‏

لاطینی زبان کو زندہ رکھنا

اگرچہ بہتیرے لوگ لاطینی کو ایک متروک زبان خیال کرتے ہیں توبھی ویٹیکن اسے زندہ اور جدید رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ ویٹیکن میں اطالوی زبان کے استعمال کے باوجود لاطینی اسکی سرکاری زبان ہے اور تاحال پاپائےروم کے مراسلات اور دیگر دستاویزات اسی زبان میں تحریر کئے جاتے ہیں۔‏ لاطینی زبان کا استعمال ۱۹۷۰ کی دہائی میں زوال‌پذیر ہوا جب یہ اعلان کِیا گیا کہ خاص عبادت کا پروگرام مقامی زبانوں میں پیش کِیا جائیگا۔‏ اُس وقت پوپ پال ششم نے لاطینی زبان کو زندہ رکھنے کیلئے لیٹن فاؤنڈیشن قائم کی تھی۔‏ پہلا قدم جو اُٹھایا گیا وہ دو جِلدوں پر مشتمل لاطینی اطالوی لغت شائع کرنا تھا جسکی تمام جِلدیں بڑی جلدی فروخت ہو گئیں۔‏ اب دونوں جِلدوں کو ایک جِلد میں کر دیا گیا ہے اور اسکی قیمت ۱۱۵ ڈالر ہے۔‏ اس میں ۰۰۰،‏۱۵ جدید لاطینی اصطلاحیں شائع کی گئی ہیں جیسےکہ ”‏ایس‌کاراورم لاویٹر“‏ (‏ڈش‌واشر)‏۔‏ دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے کہ ”‏توقع ہے کہ دو یا تین سالوں میں“‏ ایک نئی جِلد شائع ہو جائیگی۔‏ اس میں شائع کئے جانے والے زیادہ‌تر الفاظ کمپیوٹر اور انفارمیشن فیلڈ سے لئے جائینگے۔‏“‏

انتہائی مہنگے شہر

ٹوکیو،‏ ماسکو اور اوساکا دُنیا کے نہایت مہنگے شہر ہیں۔‏ یہ مرسر ہیومن ریسورس کان‌سل‌ٹنگ‌کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے۔‏ اس سروے میں ۱۴۴ شہروں کا احاطہ کِیا گیا جس میں ۲۰۰ مصنوعات کی قیمت اور سروس کا اندازہ لگایا گیا تھا۔‏ اس میں رہائش،‏ لباس،‏ آمدورفت،‏ تفریح‌طبع،‏ فرنیچر اور گھریلو سازوسامان شامل تھے۔‏ نہایت ہی مہنگے ۲۰ شہروں میں سے نصف ایشیا میں ہیں۔‏ ماسکو کے علاوہ جنیوا،‏ لندن،‏ زیوریخ یورپ کے انتہائی مہنگے شہر ہیں۔‏ نیو یارک کا شمار دسویں نمبر پر ہے جبکہ کینیڈا کے کسی بھی شہر کا شمار پہلے ۱۰۰ میں نہیں ہوتا۔‏ جہانتک سستے شہروں کا تعلق ہے تو پیراگوئے کا شہر ایس‌انسی‌اون سرِفہرست ہے۔‏