مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ڈپلومیسی عالمی اَمن لائے گی؟‏

کیا ڈپلومیسی عالمی اَمن لائے گی؟‏

بائبل کا نقطۂ‌نظر

کیا ڈپلومیسی عالمی اَمن لائے گی؟‏

کیا آپ جنگوں کا خاتمہ دیکھنے کے مشتاق ہیں؟‏ یقیناً قومی اور بین‌الاقوامی لڑائی‌جھگڑوں کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل ضرور ہوگا۔‏ بہتیروں کا خیال ہے کہ اگر دُنیا کے لیڈر آپس میں تعاون کریں تو جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔‏ تاہم آپ ڈپلومیسی (‏بین‌الاقوامی سیاست)‏ کے نتائج سے یقیناً مایوس ہوں گے۔‏ صدیوں سے سفارت‌کار معاہدے کرتے،‏ قراردادیں پیش کرتے اور سربراہوں کے اجلاس منعقد کرتے رہے ہیں مگر چند مسئلے ہی مکمل طور پر حل ہوئے ہیں۔‏

بائبل ڈپلومیسی اور اَمن کی بابت بہت کچھ بیان کرتی ہے۔‏ یہ مندرجہ‌ذیل سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے:‏ آجکل کونسے عناصر ڈپلومیسی کے اَمن لانے کی راہ میں حائل ہیں؟‏ کیا مسیحیوں کو ڈپلومیسی میں حصہ لینا چاہئے؟‏ حقیقی اَمن کیسے حاصل ہوگا؟‏

کیا چیز اَمن کی راہ میں رُکاوٹ ہے؟‏

بائبل کی مختلف سرگزشتیں بیان کرتی ہیں کہ کیسے دوطرفہ بات‌چیت اَمن کا باعث بنی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ابیجیل نے بڑی مہارت کے ساتھ داؤد اور اُس کے لشکر کو اپنے خاندان سے انتقام لینے سے باز رکھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۱۸-‏۳۵‏)‏ یسوع مسیح نے ایک ایسے بادشاہ کی تمثیل پیش کی جس کے پاس کافی فوج نہیں تھی لہٰذا اُس نے صلح کے لئے آدمی بھیجے۔‏ (‏لوقا ۱۴:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ بائبل اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ کسی نہ کسی قسم کی باہمی گفتگو لڑائی‌جھگڑوں کو ختم کر سکتی ہے۔‏ لیکن اَمن معاہدے کیوں اکثر کامیاب نہیں ہوتے؟‏

بائبل نے بالکل درست بیان کِیا تھا کہ ہمارے ایّام انتہائی مشکل ہوں گے۔‏ شیطان اِبلیس کے شریر اثر کی بدولت،‏ آدمی نہ صرف ”‏سنگدل“‏ بلکہ ”‏تُندمزاج۔‏ نیکی کے دشمن۔‏ دغاباز۔‏ ڈھیٹھ۔‏ گھمنڈ کرنے والے“‏ ہوں گے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۳،‏ ۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۲‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ یسوع نے یہ بھی پیشینگوئی کی تھی کہ ”‏لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں“‏ اس دُنیا کے آخر کا نشان ہوں گی۔‏ (‏مرقس ۱۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ آج ایسا نہیں ہے؟‏ ایسی صورتحال میں،‏ کیا قوموں کے درمیان اَمن معاہدے کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏

اس حقیقت پر بھی غور کریں:‏ سفیر جھگڑے روکنے کی خواہ لاکھ کوشش کریں توبھی ہر شخص کا مقصد اپنی قوم کی بہتری ہے۔‏ اسی کا نام ڈپلومیسی ہے۔‏ کیا مسیحیوں کو ایسے معاملات میں حصہ لینا چاہئے؟‏

مسیحی اور ڈپلومیسی

بائبل نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏نہ اُمرا پر بھروسا کرو نہ آدم‌زاد پر۔‏ وہ بچا نہیں سکتا۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۳‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ اپنے محرکات سے قطع‌نظر،‏ دُنیا کے سفارت‌کار دائمی حل پیش کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے۔‏

یسوع نے پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے پیش کئے جانے پر کہا تھا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏ اگر میری بادشاہی اس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا۔‏ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ اَمن کے منصوبوں میں اکثر قوم‌پرستانہ نفرت اور سیاسی خودغرضی پائی جاتی ہے۔‏ اس لئے سچے مسیحی اس دُنیا کے جھگڑوں میں پڑنے اور اس کے سیاسی معاملات میں اُلجھنے سے گریز کرتے ہیں۔‏

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مسیحی سردمہر ہیں اور دُنیا کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے؟‏ کیا وہ انسانی تکالیف کے سلسلے میں بےحس ہیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ بائبل خدا کے سچے پرستاروں کی بابت بیان کرتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے نفرتی کاموں کو دیکھ کر ”‏آہیں مارتے اور روتے ہیں۔‏“‏ (‏حزقی‌ایل ۹:‏۴‏)‏ مسیحی اَمن لانے کے لئے صرف خدا پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ اُس نے اس کا وعدہ کِیا ہے۔‏ کیا آپ جنگ کے خاتمے کو اَمن کہتے ہیں؟‏ خدا کی بادشاہی ایسا ہی کرے گی۔‏ (‏زبور ۴۶:‏۸،‏ ۹‏)‏ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ زمین پر رہنے والے لوگوں کو مکمل تحفظ اور خوشحالی بھی عطا کرے گی۔‏ (‏میکاہ ۴:‏۳،‏ ۴؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ ایسا اَمن ڈپلومیسی یا انسانی کوششوں یعنی ”‏اَمن قائم رکھنے“‏ کے لئے کوشاں انسانی تنظیموں کے ذریعے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔‏

بائبل پیشینگوئی اور ماضی کا تجربہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اَمن لانے کے لئے انسانی ڈپلومیسی پر بھروسا صرف مایوسی پر منتج ہو سکتا ہے۔‏ اَمن لانے کے لئے یسوع مسیح اور خدا کی بادشاہی کے حامی لوگ واقعی حقیقی اَمن آتا دیکھیں گے۔‏ اس سے بھی بڑھ کر وہ ابدلآباد تک اس سے لطف اُٹھائیں گے!‏—‏زبور ۳۷:‏۱۱،‏ ۲۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر عبارت]‏

اپنے محرکات سے قطع‌نظر،‏ دُنیا کے سفارت کار دائمی حل پیش کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

Bottom: Photo by Stephen

Chernin/Getty Images