مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اچھی صحت کیلئے ایک طویل جنگ

اچھی صحت کیلئے ایک طویل جنگ

اچھی صحت کیلئے ایک طویل جنگ

جواین نیو یارک میں رہتی تھی اور تپ‌دِق (‏ٹی‌بی)‏ کی بیماری میں مبتلا تھی۔‏ لیکن اُسکی بیماری کوئی عام ٹی‌بی نہیں تھی۔‏ وہ ٹی‌بی کی ایک ایسی قسم میں مبتلا تھی جس پر کوئی دوائی اثر نہیں کرتی اور اِس بیماری سے تقریباً آدھے مریض ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ جواین کے باقاعدہ علاج نہ کروانے کی وجہ سے دوسروں کو اُس سے پہلے ہی ٹی‌بی لگ چکی تھی۔‏ اُسکی بیماری سے تنگ آ جانے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’‏اُسے کمرے میں بند کر دینا چاہئے۔‏‘‏

ٹی‌بی عرصۂ‌دراز سے لوگوں کو ہلاک کر رہی ہے۔‏ درحقیقت لاکھوں لوگ ٹی‌بی کا شکار ہوکر مر چکے ہیں۔‏ اس بیماری کے ثبوت قدیم مصر اور پیرو کی حنوط‌شُدہ لاشوں سے بھی ملے ہیں۔‏ آجکل پھر سے ٹی‌بی کے نمودار ہونے سے کوئی ۲۰ لاکھ لوگ ہر سال ہلاک ہو رہے ہیں۔‏

کارلیٹوس افریقہ کی ایک جھونپڑی میں چارپائی پر پڑا ہے اور اُسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے نظر آ رہے ہیں۔‏ ملیریے نے اُسے بہت کمزور کر دیا ہے اور وہ درد سے کراہ رہا ہے۔‏ اُسکے والدین پریشان ہیں کیونکہ اُنکے پاس دوائی کیلئے پیسے نہیں ہیں۔‏ اِسکے علاوہ اُنکے نزدیک کوئی کلینک وغیرہ بھی نہیں ہے تاکہ وہ اپنے چھوٹے بچے کیلئے کوئی طبّی امداد حاصل کر سکیں۔‏ بخار کم نہ ہوا اور ۴۸ گھنٹوں کے اندر اندر وہ وفات پا گیا۔‏

کارلیٹوس جیسے ایک ملین بچے ہر سال ملیریے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏ مشرقی افریقہ کے دیہاتوں میں اوسطاً ہر بچے کو ملیریا پھیلانے والے مچھر ایک مہینے میں ۵۰ سے ۸۰ مرتبہ کاٹ لیتے ہیں۔‏ یہ مچھر نئے علاقوں میں پھیل رہے ہیں اور ملیریے کی دوائیوں کا اثر بھی کم ہو گیا ہے۔‏ ہر سال اندازاً ۳۰۰ ملین لوگ ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔‏

سان فرانسسکو،‏ کیلیفورنیا میں ۳۰ سالہ کینتھ پہلی مرتبہ ۱۹۸۰ میں ڈاکٹر کے پاس گیا۔‏ اُسے اسہال اور تھکاوٹ کی شکایت تھی۔‏ ایک سال بعد اُسکی وفات ہو گئی۔‏ ماہرین کی طرف سے طبّی علاج‌معالجے کے باوجود اُسکا بدن سوکھ گیا اور انجام‌کار نمونیے کی وجہ سے اُسکی وفات ہو گئی۔‏

دو سال بعد،‏ سان فرانسسکو سے ۰۰۰،‏۱۶ کلومیٹر دُور شمالی تنزانیہ میں ایک جوان خاتون کو بھی ایسی ہی علامات کا سامنا ہوا۔‏ وہ چند ہی ہفتوں میں چلنےپھرنے کے قابل نہ رہی اور اِسکے تھوڑی ہی دیر بعد اُسکی موت واقع ہو گئی۔‏ دیہاتی اِس عجیب‌وغریب بیماری کو جولیانہ کا مرض کہنے لگے۔‏ اُنکے خیال میں اُسے اور دیگر خواتین کو ایک کپڑا بیچنے والے آدمی سے یہ بیماری لگی تھی جسکے کپڑے پر جولیانہ نام کی منبت‌کاری کی گئی تھی۔‏

کینتھ اور تنزانیہ کی خاتون کو ایک ہی بیماری تھی،‏ جسے ایڈز کہا جاتا ہے۔‏ سن ۱۹۸۰ کی دہائی کے شروع میں جب یہ خیال کِیا جا رہا تھا کہ انتہائی خطرناک جرثوموں پر قابو پا لیا گیا ہے تو یہ نئی متعدی بیماری انسانوں کو ہڑپ کرنے لگی۔‏ صرف بیس سالوں کے اندر ایڈز طاعون کے مقابلے پر آ گئی جس نے ۱۴ ویں صدی میں براعظم یورپ اور ایشیا میں تباہی مچا دی تھی۔‏ طاعون کی اس بیماری کو یورپ کبھی بھولا نہیں ہے۔‏

طاعون

طاعون ۱۳۴۷ میں پھیلنا شروع ہوئی جب سابقہ سوویت یونین کے بحیرۂاسود تک پھیلے ہوئے جزیرہ‌نما علاقے کریمیا سے ایک جہاز سلسلی کے جزیرے،‏ میسانا کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا۔‏ جہاز سازوسامان لانے کیساتھ ساتھ طاعون کی متعدی بیماری بھی اپنے ساتھ لانے کا سبب بنا تھا۔‏ * جلد ہی پورے اٹلی میں طاعون کی بیماری پھیل گئی۔‏

اگلے سال یعنی سن ۱۳۴۸ میں ساینا،‏ اٹلی کے اینولو دی‌تورا نے اپنے شہر کے دہشتناک منظر کو یوں بیان کیا:‏ ’‏ساینا میں وبا کے باعث اموات مئی کے مہینے میں شروع ہو گئیں۔‏ یہ ایک ظالم اور خوفناک بیماری تھی۔‏ اِس بیماری کا شکار ہونے والے لوگ تقریباً فوراً مر جاتے تھے۔‏ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں دن رات مرتے تھے۔‏‘‏ اُس نے مزید وضاحت کی:‏ ’‏مَیں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پانچ بچوں کو دفنایا اور دوسروں نے بھی ایسے ہی کِیا۔‏ کسی نے کسی کی موت پر آنسو نہ بہائے کیونکہ تقریباً ہر کوئی موت کا منتظر تھا۔‏ اتنے لوگ مر گئے کہ سب اِسے دُنیا کا خاتمہ خیال کرنے لگے۔‏‘‏

بعض تاریخ‌دان بیان کرتے ہیں کہ چار سال کے اندر اندر طاعون کی وبا سارے یورپ میں پھیل گئی اور ایک تہائی آبادی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی یعنی شاید ۲۰ سے ۳۰ ملین لوگ وفات پا گئے۔‏ دُوراُفتادہ علاقے آئس‌لینڈ تک یہ بیماری پھیل گئی۔‏ ایک رائے کے مطابق مشرقِ‌بعید میں ۱۳ ویں صدی کے شروع میں چین کی آبادی ۱۲۳ ملین تھی جو ۱۴ ویں صدی کے دوران ۶۵ ملین رہ گئی جوکہ بظاہر طاعون کی وبا اور قحط کا نتیجہ تھا۔‏

اِس سے پہلے کبھی کسی وبا،‏ جنگ یا قحط سے اتنی زیادہ اموات نہیں ہوئیں۔‏ کتاب مین اینڈ مائیکروبز ‏[‏انسان اور خوردبینی جرثومے]‏ بیان کرتی ہے۔‏ ”‏یہ انسانی تاریخ کی ایک ایسی تباہی تھی جسکی مثال نہیں ملتی۔‏ تقریباً ۲۵ سے ۵۰ فیصد یورپ،‏ شمالی افریقہ اور ایشیائی خطوں کے لوگ ہلاک ہو گئے۔‏“‏

براعظم امریکہ باقی دُنیا سے الگ‌تھلگ ہونے کی وجہ سے طاعون کی تباہ‌کاریوں سے بچ گیا۔‏ لیکن بحری جہازوں کی آمدورفت نے اِس علیٰحدگی کو زیادہ دیر تک قائم نہ رہنے دیا۔‏ طاعون سے بھی زیادہ مُہلک وباؤں نے ۱۶ ویں صدی کی اس نئی دُنیا میں تباہی مچا دی۔‏

براعظم امریکہ پر چیچک کا حملہ

جب کولمبس ۱۴۹۲ میں ویسٹ انڈیز میں آیا تو اُس نے مقامی لوگوں کی بابت بیان کِیا کہ وہ ’‏خوبصورت اور درمیانے قد،‏ تنومند جسم اور عمدہ وضع‌قطع کے مالک‘‏ ہیں۔‏ تاہم اُنکی صحتمندانہ وضع‌قطع قدیم دُنیا کی بیماریوں کا سامنا نہ کر سکی۔‏

سن ۱۵۱۸ میں،‏ ایسپانولا کے جزیرے میں چیچک کی وبا پھیل گئی۔‏ اِس سے پہلے کبھی مقامی امریکی چیچک کے مرض کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اِسکا اثر بڑا تباہ‌کُن تھا۔‏ ایک ہسپانوی عینی‌شاہد کے اندازے کے مطابق جزیرے پر صرف ایک ہزار لوگ بچ گئے تھے۔‏ وبا جلد ہی میکسیکو اور پیرو میں بھی پھیل گئی اور نتائج ویسے ہی سنگین ثابت ہوئے۔‏

اگلی صدی میں جب شروع شروع میں نوآبادکار شمالی امریکہ میں میساچوسیٹس کے علاقے میں آئے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ چیچک نے علاقے کی پوری آبادی کا عملاً صفایا کر دیا تھا۔‏ ”‏تمام مقامی لوگ چیچک کی وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں،‏“‏ نوآبادکاروں کے لیڈر جان ونتھروپ نے لکھا۔‏

چیچک کے بعد دیگر وباؤں نے بھی اثر دکھانا شروع کر دیا۔‏ ایک کتاب کے مطابق کولمبس کی آمد کے ایک سو سال بعد غیرملکیوں کیساتھ وارد ہونے والی بیماریوں نے نئی دُنیا کی تقریباً ۹۰ فیصد آبادی کا صفایا کر دیا۔‏ میکسیکو کی آبادی ۳۰ ملین سے ۳ ملین رہ گئی اور پیرو کی آبادی ۸ ملین سے ایک ملین رہ گئی۔‏ تاہم،‏ صرف مقامی امریکی ہی چیچک کا شکار نہیں ہوئے تھے۔‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ ”‏پوری انسانی تاریخ میں چیچک نے کسی بھی وبا کی نسبت اور بیسویں صدی کی تمام جنگوں سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کر ڈالا ہے۔‏“‏—‏دی ونس اینڈ فیوچر تھرٹ آف سمال‌پاکس۔‏

وبائیں ابھی بھی بےقابو ہیں

آجکل شاید طاعون اور چیچک کی دہشتناک وبائیں ماضی کی مصیبتیں دکھائی دیں کیونکہ نسلِ‌انسانی نے ۲۰ ویں صدی میں بہت سے وبائی امراض پر قابو پا لیا ہے۔‏ صنعتی ممالک میں خاص طور پر ایسی پیش‌رفت ہوئی ہے۔‏ ڈاکٹروں نے زیادہ‌تر بیماریوں کے اسباب دریافت کر لئے ہیں اور اُنکے علاج بھی ڈھونڈ لئے ہیں۔‏ (‏نیچے دئے گئے بکس کو دیکھیں۔‏)‏ ویکسین اور اینٹی‌بائیوٹک کی نئی ایجادات غیرمعمولی اثر رکھتی ہیں۔‏ ویکسین اور اینٹی‌بائیوٹک نے ایسی بیماریوں کو بھی جڑ سے اُکھاڑ دیا ہے جنکا علاج کرنا مشکل تھا۔‏

تاہم ایک امریکی انسٹیٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر،‏ ڈاکٹر رچرڈ کراؤزے کے مطابق ”‏وبائیں،‏ موت اور ٹیکس کی طرح یقینی ہیں۔‏“‏ ٹی‌بی اور ملیریا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔‏ اِسکے علاوہ حالیہ ایڈز کی عالمگیر وبا ایک افسوسناک یاددہانی ہے کہ متعدی امراض ابھی تک انسانوں کیلئے ایک خطرہ ہیں۔‏ مین اینڈ مائیکروبز کتاب بیان کرتی ہے کہ ”‏متعدی بیماریاں ابھی تک موت کا بڑا سبب ہیں؛‏ بڑی دیر تک ایسا ہی ہوتا رہیگا۔‏“‏

بعض ڈاکٹروں کا اندیشہ ہے کہ بیماری کے خلاف جنگ میں شاندار کامیابی کے باوجود گزشتہ دہائیوں کی کامرانیاں عارضی ہو سکتی ہیں۔‏ متعدی امراض کا ماہر رابرٹ شوپ آگاہ کرتا ہے کہ ”‏متعدی بیماریوں کا خطرہ ابھی باقی ہے۔‏“‏ اگلا مضمون اِسکی وجوہات پر بحث کریگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 طاعون کئی صورتوں میں ظاہر ہوا جس میں چوہوں یا پسوؤں سے پھیلنے والا گلٹی‌دار طاعون اور نمونیائی یعنی پھیپھڑوں کا ایک شدید متعدی طاعون شامل ہے۔‏ چوہوں کے پسو گلٹی‌دار طاعون کا سبب بنتے ہیں اور پھیپھڑوں کے شدید متعدی مرض میں مبتلا شخص کے چھینکنے اور کھانسنے سے اکثر نمونیائی طاعون پھیلتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

صرف بیس سال کے اندر ایڈز طاعون کے مقابلے پر آ گئی جس نے ۱۴ ویں صدی میں یوریشیا میں تباہی مچا دی تھی

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

علم بمقابلہ توہم‌پرستی

جب ۱۴ ویں صدی میں ایونون میں پوپ کے گھرانے کو طاعون سے خطرہ لاحق ہوا تو اُسکے ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ طاعون کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تین سیارے زحل،‏ مشتری اور مریخ کے برج‌دلو میں بیک وقت ایک ساتھ ہیں۔‏

کوئی چار سو سال بعد،‏ جارج واشنگٹن کے گلے کا علاج کرنے کیلئے تین مشہورومعروف ڈاکٹروں نے اُسکی رگوں سے نصف گیلن خون نکال لیا۔‏ چند ہی گھنٹوں میں اُسکی وفات ہو گئی۔‏ تقریباً ۵۰۰،‏۲ سال سے یعنی بقراط کے زمانے سے ۱۹ ویں صدی کے وسط تک خون نکال کر علاج کرنے کو ایک معیاری طریقہ خیال کِیا جاتا تھا۔‏

اگرچہ توہم‌پرستی اور روایت طبّی ترقی کی راہ میں حائل ہوئی ہے توبھی اپنے پیشے کیلئے وقف ڈاکٹروں نے سخت محنت سے متعدی امراض کے اسباب اور علاج دریافت کر لئے ہیں۔‏ نیچے اُنکی چند اہم کامیابیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏

چیچک۔‏ ایڈورڈ جنرر نے ۱۷۹۸ میں کامیابی کیساتھ چیچک کی ویکسین ایجاد کی۔‏ اِسکے بعد ۲۰ ویں صدی میں پولیو،‏ زردبخار،‏ خسرے اور جرمن خسرے کو روکنے کیلئے تیار کی جانے والی ویکسین مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔‏

تپِ‌دق ‏(‏ٹی‌بی‏)‏‏۔‏ رابرٹ کاکس نے ۱۸۸۲ میں تپِ‌دق کے بیکٹیریا کی شناخت کی اور اِس بیماری کیلئے ٹیسٹ بھی تشکیل دیا۔‏ کوئی ۶۰ سال بعد تپِ‌دِق کا علاج کرنے کیلئے ایک مؤثر اینٹی‌بائیوٹک،‏ سٹرپٹوماسین کی دریافت ہوئی تھی۔‏ یہ دوائی گلٹی‌دار طاعون کا علاج کرنے میں بھی مفید ثابت ہوئی ہے۔‏

ملیریا۔‏ سنکونا درخت کی چھال سے حاصل کی جانے والی کونین نے ۱۷ ویں صدی سے لیکر ملیریے کا شکار ہونے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔‏ رونلڈ راس نے ۱۸۹۷ میں بیماری پھیلانے والے اینوفیلس مچھروں کی شناخت کی اور اِسکے بعد مچھروں کی افزائش کو روکنے کی کوششوں کی بدولت گرم‌مرطوب ممالک میں شرحِ‌اموات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔‏

‏[‏تصویریں]‏

برج‌دلو کا چارٹ (‏اُوپر)‏ اور خون نکالنا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Both: Biblioteca Histórica

‏”‎Marqués de Valdecilla‎“‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

آجکل ٹی‌بی کے پھر سے نمودار ہونے کی وجہ سے کوئی ۲ ملین لوگ ہر سال مرتے ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

X ray: New Jersey Medical

‏;School–National Tuberculosis Center

man: Photo: WHO/Thierry Falise

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

سن ۱۵۰۰ کی جرمن دیوار پر کندہ تصویر ایک ڈاکٹر کو طاعون سے بچنے کیلئے ماسک پہنے دکھاتی ہے۔‏ چونچ میں عطر ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Godo-Foto

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

گلٹی‌دار طاعون کا سبب بننے والا بیکٹیریا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Gary Gaugler/Visuals Unlimited ©