بیماری کے خلاف جنگ میں کامیابیاں اور ناکامیاں
بیماری کے خلاف جنگ میں کامیابیاں اور ناکامیاں
سن ۱۹۴۲ میں، اگست ۵ کو ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ نے محسوس کِیا کہ اُس کا ایک مریض، اُس کا اپنا دوست مرنے والا تھا۔ اُس کے ۵۲ سالہ دوست کو گردنتوڑ بخار ہو گیا تھا اور فلیمنگ کی تمامتر کوششوں کے باوجود اُسکے دوست پر بیہوشی طاری ہو گئی تھی۔
کوئی ۱۵ سال پہلے فلیمنگ سبزیمائل نیلی پھپھوندی سے اتفاقاً ایک غیرمعمولی مواد تیار کر چکا تھا۔ اُس نے اُسے پنیسلین کا نام دیا۔ اُس نے اِس بات کا مشاہدہ کِیا کہ پنیسلین بیکٹیریا کو ختم کرنے کا اثر رکھتی ہے: لیکن وہ خالص پنیسلین الگ نہ کر سکا اور اُس نے اُسے جراثیمکش دوائی کے طور پر آزمایا۔ تاہم، ۱۹۳۸ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہاؤورڈ فلورے اور اُس کی تحقیقی ٹیم نے انسانوں پر استعمال کرنے کیلئے وافر مقدار میں پنیسلین تیار کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ فلیمنگ نے فلورے کو ٹیلیفون کِیا اور اُس سے تمام دستیاب پنیسلین بھیجنے کی پیشکش کی۔ یہ فلیمنگ کیلئے اپنے دوست کو بچانے کا آخری موقع تھا۔
گوشت میں پنیسلین کا ٹیکہ لگانا ناکافی ثابت ہوا۔ چنانچہ فلیمنگ نے اپنے دوست کی ریڑھ کی ہڈی میں براہِراست ٹیکہ لگا دیا۔ پنیسلین نے جرثوموں کا خاتمہ کر دیا۔ جسکے نتیجے میں فلیمنگ کا مریض ہسپتال سے مکمل طور پر صحتیاب ہوکر اپنے گھر چلا گیا۔ اِسکے ساتھ ہی اینٹیبائیوٹکس کا دَور شروع ہو گیا اور بیماری کے خلاف انسان کی جنگ ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گئی۔
اینٹیبائیوٹکس کا دَور
جب اینٹیبائیوٹکس پہلی مرتبہ منظرِعام پر آئیں تو یہ لوگوں کو معجزاتی ادویات لگیں۔ آج تک بیکٹیریا، پھپھوندی یا دیگر خوردبینی جراثیموں سے پیدا ہونے والی ناقابلِعلاج بیماریوں کا علاج کامیابی کیساتھ کِیا جا سکتا ہے۔ نئی ادویات کی بدولت گردنتوڑ بخار، نمونیا اور لال بخار سے ہونے والی اموات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی۔ ہسپتال سے لگنے والی جن بیماریوں کو پہلے مُہلک خیال کِیا جاتا تھا اب چند دِنوں میں اُن سے شفایابی ممکن تھی۔
فلیمنگ کے زمانے سے لیکر محققین نے لاتعداد اینٹیبائیوٹکس تیار کر لی ہیں اور نئی اینٹیبائیوٹکس پر تحقیق جاری ہے۔ گزشتہ ۶۰ سال کے دوران بیماری کے خلاف جنگ میں اینٹیبائیوٹکس ایک ناگزیر ہتھیار بن گئی ہیں۔ اگر جارج واشنگٹن آج زندہ ہوتا تو ڈاکٹر اُسکے گلے کی بیماری کا علاج یقیناً اینٹیبائیوٹکس کے ذریعے کرتے اور وہ غالباً ہفتےبھر میں صحتیاب ہو جاتا۔ اینٹیبائیوٹکس نے تقریباً ہم سب کو کسی نہ کسی انفیکشن سے نجات دلائی ہے۔ تاہم اب تک ایک بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ اینٹیبائیوٹکس میں کچھ خرابیاں بھی ہیں۔
تاہم اینٹیبائیوٹکس کے ذریعے ایڈز یا انفلوئنزا جیسے وائرس کا علاج نہیں کِیا جا سکتا۔ اِسکے علاوہ بعض لوگوں کیلئے کچھ اینٹیبائیوٹکس ناموافق ثابت ہوتی ہیں۔ مختلف طرح کی بیماریوں پر اثرانداز ہونے والی اینٹیبائیوٹکس ہمارے جسم کے مفید خوردبینی جراثیموں کو ختم کر سکتی ہیں۔ لیکن شاید اینٹیبائیوٹکس کیساتھ سب سے بڑا مسئلہ اِسکا بکثرت یا کم استعمال ہے۔
اینٹیبائیوٹکس کے کم استعمال سے مُراد یہ ہے کہ جب مریض اینٹیبائیوٹکس کے ذریعے تجویزکردہ کورس کو مکمل نہیں کرتا۔ اِسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مریض شفایاب ہو گیا ہے یا علاج کا دورانیہ طویل ہے۔ اِسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اینٹیبائیوٹکس تمام حملہآور بیکٹیریا کو ختم نہیں کر سکتی اور نہ ہی اُن پر دوائی اثر کرتی ہے چنانچہ اُنکی افزائش ہونے لگتی ہے۔ تپِدق کے علاج کے سلسلے میں اکثروبیشتر یہی واقع ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اور کسان نئی ادویات کے بکثرت استعمال کے ذمہدار ہیں۔ ”ریاستہائےمتحدہ میں بِلاوجہ اینٹیبائیوٹکس تجویز کی جاتی ہیں اور دیگر ممالک میں تو اَور بھی زیادہ لاپرواہی کیساتھ استعمال کی جاتی ہیں،“ کتاب مین اینڈ مائیکروبز [انسان اور خوردبینی جرثومے] وضاحت کرتی ہے۔ ”جانوروں کو کسی بیماری کا علاج کرنے کی بجائے اُنہیں پھلنےپھولنے میں مدد دینے کیلئے بھاری مقدار میں اینٹیبائیوٹکس دی جاتی ہیں۔ ادویات کے جراثیموں پر اثر نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔“ اِسکا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ متذکرہ کتاب متنبہ کرتی ہے کہ ”ہمارے پاس نئی اینٹیبائیوٹکس کی رسد کم پڑ سکتی ہے۔“
لیکن اینٹیبائیوٹکس کے بےاثر ہو جانے کی بابت اندیشوں کے علاوہ ۲۰ ویں صدی کا دوسرا نصف حصہ طبّی کامرانیوں کا دَور تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ طبّی محققین تقریباً ہر بیماری کا مقابلہ کرنے کیلئے ادویات ڈھونڈ نکالنے کے قابل ہیں۔ نیز ویکسین کے ذریعے تو بیماری کو روکنا بھی ممکن ہے۔
طبّی فتوحات
”حفاظتی ٹیکے طبّی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہے،“ دی ورلڈ ہیلتھ رپورٹ ۱۹۹۹ نے بیان کِیا۔ حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کی مدد سے لاکھوں انسانوں کی جانیں پہلے ہی بچائی جا چکی ہیں۔ چیچک ایک ایسی مُہلک بیماری ہے جس نے ۲۰ صدی کی جنگوں سے زیادہ جانیں لے لی تھیں۔ تاہم، حفاظتی ٹیکوں کے عالمی پروگرام نے چیچک کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اِسی طرح پولیو کے خلاف مہم نے بھی پولیو کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے۔ (بکس ”چیچک اور پولیو پر فتح“ کو دیکھیں۔) آجکل بہت سے بچوں کو عام مُہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
دیگر بیماریاں دوسرے طریقوں سے بھی کم ہو گئی ہیں۔ ایسی جگہوں پر جہاں صفائی اور پینے کا صاف پانی دستیاب ہے وہاں پانی سے لگنے والی ہیضے جیسی بیماریاں شاذونادر ہی مشکل کا باعث بنتی ہیں۔ کئی ممالک میں ڈاکٹروں اور ہسپتالوں تک رسائی کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر بیماریوں کا اُنکے مُہلک بننے سے پہلے علاج کِیا جا سکتا ہے۔ اچھی خوراک اور اچھے ماحول کیساتھ خوراک کو محفوظ کرنے اور دیکھبھال کرنے کے سلسلے میں قانونی تقاضوں کی پابندی بھی صحت کی بہتری کا سبب بنی ہے۔
جب سائنسدان متعدی بیماریوں کے اسباب دریافت کر لیتے ہیں تو طبّی ماہرین وباؤں کے پھیلنے کی روکتھام کیلئے عملی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ صرف ایک مثال پر غور کریں۔ سان فرانسسکو میں ۱۹۰۷ میں گلٹیدار طاعون کے پھیلنے سے صرف چند اموات ہوئیں کیونکہ شہر نے چوہوں کا خاتمہ کرنے کیلئے فوری قدم اُٹھایا جنکے پسو بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ دوسری طرف، ۱۸۹۶ میں پھیلنے والی اِسی بیماری نے ۱۲ سال کے اندر اندر انڈیا میں ایک کروڑ جانیں لے لیں کیونکہ اِسکے اسباب کا ابھی تک پتہ نہیں چلا تھا۔
بیماری کے خلاف جنگ میں ناکامیاں
واضح طور پر، بیماری کے خلاف جنگ میں معنیخیز کامیابیاں ہوئی ہیں۔ لیکن طبّی میدان میں حاصل ہونے والی بعض کامیابیوں سے صرف دُنیا کے امیر ممالک ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ تاہم پیسے کی کمی کے باعث قابلِعلاج بیماریوں سے بھی لاکھوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ترقیپذیر ممالک میں بہت سے لوگوں کو ابھی تک صفائیستھرائی، ہسپتال اور صاف پانی جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ترقیپذیر ممالک میں دیہاتوں سے بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کی وسیع نقلمکانی کی وجہ سے ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے عناصر کی وجہ سے عالمی ادارۂصحت کے مطابق ”دُنیا کے غریب امیروں کی نسبت زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔“
خودغرضانہ تنگنظری اِس مسئلے کا بنیادی سبب ہے کہ بعض ممالک دوسروں کی نسبت زیادہ بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ”دُنیا کے بدترین متعدی امراض بھی ترقییافتہ ممالک سے کوسوں دُور ہیں،“ کتاب مین اینڈ مائیکروبز بیان کرتی ہے۔ ”اِن میں سے بعض مکمل طور پر یا بنیادی طور پر غریب گرممرطوب اور نیمگرم مرطوب علاقوں تک محدود ہیں۔“ چونکہ دولتمند ممالک اور دوائیوں کی کمپنیوں کو شاید براہِراست فائدہ نہیں پہنچتا لہٰذا وہ اِن بیماریوں کے علاج کے لئے فنڈز مختص کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
غیرذمہدارانہ انسانی رویہ بھی بیماری پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ اِس تلخ حقیقت کی بہترین مثال ایڈز کی بیماری ہے جو سیال مادّوں سے ایک شخص سے دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ چند سالوں ہی میں یہ عالمگیر وبا پوری دُنیا میں بڑی تیزی سے پھیل گئی ہے۔ (بکس ”ایڈز—ہمارے زمانہ کی وبا“ کو دیکھیں۔) وبائی امراض کا ماہر جو مککارمیک بیان کرتا ہے، ”انسان ایڈز پھیلانے کے ذمہدار ہیں۔ یہ لوگوں کے اخلاقی معیاروں پر تنقید نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔“
انسانوں نے نادانستہ طور پر ایڈز کے وائرس کو کیسے پھیلایا ہے؟ کتاب دی کمنگ پلیگ درجذیل حقائق بیان کرتی ہے: معاشرتی تبدیلیاں—خاص طور پر ایک سے زیادہ لوگوں کیساتھ جنسی تعلقات—جنسی طور پر لگنے والی بیماریاں پھیلنے کا سبب بنی ہیں۔ اِسطرح ایڈز سے متاثرہ شخص کے ذریعے کئی دوسرے لوگوں کو آسانی سے یہ مرض لگ سکتا ہے۔ ترقیپذیر ممالک میں پہلے سے آلودہ اور استعمالشُدہ سرنج کے ذریعے علاجمعالجے یا نشے کیلئے ٹیکے لگانے کا وسیع استعمال بھی اِسکا سبب بنتا ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کا خون کا کاروبار بھی ایک خون دینے والے سے درجنوں خون لینے والوں کو ایڈز میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
جیسے پہلے بیان کِیا گیا ہے کہ اینٹیبائیوٹکس کا بکثرت استعمال اور کم استعمال اِس بات کا سبب بنا ہے کہ جراثیم پر اینٹیبائیوٹکس کم اثر کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ سنگین ہے اور بگڑتا جا رہا ہے۔ زخم کے بگڑنے کا سبب بننے والے بیکٹیریا کا پنیسلین کے ذریعے آسانی کیساتھ خاتمہ کر دیا جاتا تھا۔ لیکن آجکل یہ روایتی اینٹیبائیوٹکس اکثر بےاثر ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر نئی اور مہنگی اینٹیبائیوٹکس تجویز کرتے ہیں جنہیں ترقیپذیر ممالک کے ہسپتال خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بالکل نئی اینٹیبائیوٹکس بھی بعض جراثیموں کا مقابلہ کرنے کیلئے بےاثر ہو سکتی ہیں۔ اِس وجہ سے ہسپتال سے لگنے والی بیماریاں زیادہ عام اور زیادہ مُہلک بن جاتی ہیں۔ ریاستہائےمتحدہ کے الرجی اور متعدی امراض کے قومی ادارے کا سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رچرڈ کراؤزے اِس صورتحال کو بڑے واضح الفاظ میں ”جراثیموں کے دوائی سے اثرپذیر نہ ہونے کی وبا“ کہتا ہے۔
”کیا آجکل ہماری حالت بہتر ہے؟“
اب ۲۱ ویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہے کہ بیماری کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ ایڈز کے بیرحم پھیلاؤ، ادویات سے اثرپذیر نہ ہونے والے بیماری کے جراثیم کا ظہور اور تپِدق اور ملیریا جیسے قدیم قاتلوں کے پھر سے نمودار ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری کے خلاف جنگ میں ابھی جیت نہیں ہوئی ہے۔
”کیا ہم آجکل ایک سو سال پہلے کے لوگوں سے بہتر ہیں؟“ نوبل پرائز جیتنے والا جیشوؤا لیڈربرگ پوچھتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ”کئی لحاظ سے ہماری صورتحال زیادہ خراب ہے۔ ہم نے جراثیموں کے سلسلے میں لاپرواہی سے کام لیا ہے اور ہم اُس لاپرواہ رویے کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔“ کیا طبّی سائنس اور دُنیا کی تمام قوموں کی پُرعزم کوشش سے پھر سے نمودار ہونے والی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا چیچک کی طرح بڑی بڑی متعدی بیماریوں کا انجامکار خاتمہ ہو جائیگا؟ ہمارا آخری مضمون اِن سوالوں پر بحث کریگا۔
[صفحہ ۸ پر بکس/تصویر]
چیچک اور پولیو کے خلاف جنگ میں فتح
عالمی ادارۂصحت (ڈبلیوایچاو) نے اکتوبر ۱۹۷۷ کے آخر تک عام طور پر لگنے والی چیچک کی بیماری میں مبتلا آخری مریض کا پتہ چلا لیا۔ صومالیہ میں رہنے والے ہسپتال کے خانسامے، علی ماؤ مالین پر چیچک کا ہلکا سا حملہ ہوا تھا۔ لہٰذا وہ چند ہفتوں کے اندر تندرست ہو گیا۔ اُسکے ساتھ میلجول رکھنے والے تمام لوگوں کو ویکسین لگا دی گئی۔
ڈاکٹر دو سال تک بےچینی سے انتظار کرتے رہے۔ اِسکے بعد یہ اعلان کِیا گیا کہ اگر کوئی ”چیچک کے مریض“ کا پتہ بتائیگا تو اُسے ۰۰۰،۱ امریکی ڈالر انعام دیا جائیگا۔ کوئی بھی کامیابی کیساتھ انعام حاصل کرنے کا دعویٰ نہ کر سکا۔ چنانچہ مئی ۸، ۱۹۸۰ کو ڈبلیوایچاو نے باضابطہ طور پر اعلان کر دیا کہ ”دُنیا اور اِسکے تمام لوگوں نے چیچک سے آزادی حاصل کر لی ہے۔“ اِس سے دس سال پہلے چیچک ہر سال کوئی ۲ ملین لوگوں کی موت کا سبب بن رہی تھی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بڑی متعدی بیماری کو ختم کر دیا گیا تھا۔ *
پولیو یا پولیوملائٹس ایک اپاہج کر دینے والی بچوں کی بیماری ہے۔ اِس بیماری کی بابت بھی یہی خیال کِیا گیا تھا کہ اِسے ختم کِیا جا سکتا ہے۔ سن ۱۹۵۵ میں، جونز سالک نے پولیو کیلئے ایک مؤثر ویکسین تیار کی اور ریاستہائےمتحدہ اور دوسرے ممالک میں پولیو کے خلاف تحفظ کی مہم شروع کی۔ بعدازاں مُنہ کے ذریعے دی جانے والی ایک ویکسین تیار کی گئی۔ سن ۱۹۸۸ میں، ڈبلیوایچاو نے پولیو کے خاتمے کیلئے ایک عالمگیر پروگرام شروع کِیا۔
”جب ۱۹۸۸ میں پولیو کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز ہوا تو اُس وقت روزانہ ۰۰۰،۱ سے زیادہ بچے پولیو سے اپاہج ہو رہے تھے،“ اُس وقت ڈبلیوایچاو کا ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر گرو ہالم برونڈٹلینڈ رپورٹ دیتا ہے۔ ”سن ۲۰۰۱ میں پورے سال میں بھی ۰۰۰،۱ سے کم مریض تھے۔“ اِس وقت پولیو تقریباً دس سے زیادہ ممالک تک محدود ہو گیا ہے۔ اِن ممالک سے پولیو کو جڑ سے اُکھاڑنے کیلئے اضافی فنڈز درکار ہونگے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 28 ویکسین لگانے کی بینالاقوامی مہم کے ذریعے چیچک جیسی بیماری کا مقابلہ کرنا ایک بہترین مثال ہے کیونکہ دوسری تکلیفدہ بیماریاں چوہوں اور کیڑےمکوڑوں سے پھیلتی ہیں جبکہ چیچک کا وائرس انسان کے اندر ہی پیدا ہوتا ہے۔
[تصویر]
ایک ایتھوپیائی لڑکے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جا رہے ہیں
[تصویر کا حوالہ]
WHO/P. Virot ©
[صفحہ ۱۰ پر بکس/تصویر]
ایڈز—ہمارے زمانہ میں عالمی تباہی کا سبب
ایڈز ایک نئے عالمی خطرے کے طور پر نمودار ہوئی ہے۔ اِسکی دریافت کے ۲۰ سال بعد پہلے ہی ۶۰ ملین لوگ اِس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں۔ جبکہ طبّی ماہرین اِس بات سے متنبہ کرتے ہیں کہ ایڈز کی عالمگیر وبا ابھی ”ابتدائی مرحلے میں ہے۔“ ایڈز سے متاثرین کی تعداد میں ”سابقہ اعدادوشمار سے بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے،“ اور دُنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں اسکے اثرات تباہکُن ہیں۔
اقوامِمتحدہ کی ایک رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”تمام دُنیا میں ایچآئیوی/ایڈز سے متاثرین لوگوں کی بڑی تعداد اپنی زندگی کے عروج پر ہے۔“ اِسکے نتیجے میں جنوبی افریقہ کے کئی ممالک سن ۲۰۰۵ تک ۱۰ سے ۲۰ فیصد کارکنوں سے محروم ہو جائینگے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے: ”نیمصحارائی افریقہ میں اوسط عمر ۴۷ سال ہے۔ تاہم ایڈز کے بغیر اوسط عمر ۶۲ سال ہوتی۔“
ابھی تک ویکسین حاصل کرنے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور ترقیپذیر ممالک میں ایڈز سے متاثر چھ ملین لوگوں میں سے صرف ۴ فیصد کا ادویات سے علاج ہو رہا ہے۔ اِس وقت تک ایڈز کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا اور ڈاکٹروں کو اندیشہ ہے کہ انجامکار اِس سے متاثرہ لوگوں میں سے بیشتر اِس بیماری میں مبتلا ہو جائینگے۔
[تصویر]
ایچآئیوی وائرس سے متاثرہ ٹی لیمفوسائٹ خلیے
[تصویر کا حوالہ]
Godo-Foto
[صفحہ ۷ پر تصویر]
لیبارٹری کار کُن ایک خطرناک وائرس کا معائنہ کر رہا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہے
[تصویر کا حوالہ]
CDC/Anthony Sanchez