مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مارکو پولو کا چین تک سفر

مارکو پولو کا چین تک سفر

مارکو پولو کا چین تک سفر

اٹلی میں جاگو!‏ کے نامہ‌نگار سے

یہ ۱۲۹۵ کی بات ہے۔‏ اٹلی کے شہر وینس کی بندرگاہ پر ایک بحری جہاز سے تین آدمی اُترتے ہیں۔‏ وہ ۲۴ سال کے بعد اپنے وطن واپس لوٹے ہیں۔‏ کوئی بھی اِنکا استقبال کرنے کیلئے آگے نہیں بڑھتا۔‏ دیکھنے میں وہ بہت ہی عجیب لگتے ہیں۔‏ اُنہوں نے ریشم کے پھٹےپرانے چینی لباس پہن رکھے ہیں۔‏ کہا گیا ہے کہ ”‏اُنکا بولنے کا ڈھنگ چین کے لوگوں سے بالکل ملتاجلتا تھا اور وہ ونیشی زبان کو تو تقریباً بھول ہی چکے تھے۔‏“‏ یہ تین مسافر مارکو پولو،‏ اُسکے والد اور اُسکے چچا تھے۔‏

مارکو پولو نے ایک سفرنامہ لکھا جو اُس زمانے کے لوگوں کیلئے ناقابلِ‌یقین تھا۔‏ مارکو کے سفرنامے میں ایسی انجانی تہذیبوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو بہت امیر ہونے کے علاوہ ایسا تجارتی مال بھی رکھتی تھیں جسکی تلاش میں اُس وقت کے مغربی کاروباری لوگ تھے۔‏ اِس سفرنامے کا لوگوں پر بہت اثر پڑا۔‏ مارکو کی واپسی کے ۲۵ سال کے اندر اندر اُسکے سفرنامے کا ترجمہ ۶ زبانوں میں ہو چکا تھا۔‏ یہ سفرنامہ اُس زمانے کی ایک بینظیر کتاب تھی۔‏ دو سو سال تک مارکو کے سفرنامے کی نقل ہاتھ سے اُتاری گئی۔‏ پھر ۱۴۷۷ سے اسے بہتیری زبانوں میں شائع کِیا جانے لگا۔‏ کہا جاتا ہے کہ مارکو پولو مغرب سے لے کر چین تک شاہراہِ‌ریشم پر سفر کرنے والا سب سے مشہور مسافر تھا۔‏ مارکو نے یہ سفر کیوں طے کِیا؟‏ اور اُس نے جو کچھ دیکھنے کا دعویٰ کِیا تھا کیا ہم اُس پر واقعی یقین کر سکتے ہیں؟‏

قبلائی خان سے ملاقات

تیرھویں صدی میں وینس کے بہتیرے تاجر جو شہر قسطنطنیہ میں (‏آج اسکا نام استنبول ہے)‏ آباد ہو گئے تھے بہت امیر بن گئے۔‏ اِن میں مارکو کے والد نکولو اور چچا مافیو بھی شامل تھے۔‏ سن ۱۲۶۰ میں اُن دونوں نے اپنی جائداد بیچ کر رقم کو زیورات میں لگا دی۔‏ پھر اُنہوں نے منگولی سلطنت کے مغربی صوبے تک سفر کِیا اور اُسکے دارالحکومت سرائی میں آباد ہو گئے۔‏ وہاں نکولو اور مافیو بہت کامیاب رہے اور اُنکی دولت دُگنی ہو گئی۔‏ جنگ کی وجہ سے وہ سیدھے راستے قسطنطنیہ واپس نہیں لوٹ سکے اِسلئے اُنہیں مشرق کی جانب جانا پڑا۔‏ شاید اُنہوں نے یہ سفر گھوڑوں پر طے کِیا۔‏ سفر کرتے کرتے وہ بخارا (‏اُزبکستان)‏ پہنچ گئے۔‏

جنگ کی وجہ سے نکولو اور مافیو کو بخارا میں تین سال تک رہنا پڑا۔‏ پھر اُنکی ملاقات کچھ مسافروں سے ہوئی جو چین کے شہنشاہ قبلائی خان کو ملنے جا رہے تھے۔‏ اِس شہنشاہ کی سلطنت کوریا سے لے کر پولینڈ تک پھیلی ہوئی تھی۔‏ ان مسافروں نے نکولو اور مافیو کو اپنے ساتھ جانے کی دعوت دی کیونکہ قبلائی خان کو مغربی لوگوں سے ملنے کی آرزو تھی۔‏ نکولو اور مافیو انکے ساتھ چل دئے اور ایک سال کے بعد وہ آخرکار شہنشاہ قبلائی خان کے دربار پہنچ گئے۔‏

قبلائی خان نے ان دو بھائیوں کا خیرمقدم کِیا اور اُن سے مغرب کے متعلق بہت سے سوال کئے۔‏ شہنشاہ نے نکولو اور مافیو کو ایک سونے کی تختی بھی دی تاکہ اُنہیں وینس واپس جانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔‏ پھر اُس نے نکولو اور مافیو کو پوپ کیلئے ایک خط دیا جس میں اُس نے پوپ سے یہ درخواست کی:‏ ”‏ہمارے لئے کم‌ازکم ۱۰۰ دانشمند آدمی بھیجئے جو ہماری رعایا کو یورپ کے علوم اور فن سکھائیں اور یسوع مسیح کی تعلیم بھی دیں۔‏“‏

اِس دوران وینس میں مارکو پیدا ہوا۔‏ مارکو پندرہ سال کا تھا جب ۱۲۶۹ میں وہ پہلی بار اپنے والد سے ملا۔‏ یورپ پہنچنے پر نکولو اور مافیو کو پتہ چلا کہ پوپ کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکا تھا۔‏ اُسکی جگہ دوسرے پوپ کو مقرر کرنے میں تین سال لگے۔‏ نکولو اور مافیو نے نئے پوپ کے مقرر ہونے کا انتظار نہیں کِیا بلکہ ۱۲۷۱ میں وہ شہنشاہ قبلائی خان سے ملنے کیلئے چل دئے۔‏ اس بار ۱۷ سالہ مارکو اُنکے ساتھ تھا۔‏

مارکو کا سفر

فلسطین کے شہر اکرا میں ان تینوں کی ملاقات وسکونتی نامی ایک پادری سے ہوئی جو سیاستدان بھی تھا۔‏ وسکونتی نے اُنکے ہاتھ قبلائی خان کو ایک خط بھیجا جس میں اُس نے بتایا کہ وہ تینوں ۱۰۰ دانشمند آدمیوں کو اپنے ساتھ کیوں نہ لا سکے۔‏ اسکی وجہ اُس نے یوں بتائی کہ وہ ابھی تک نئے پوپ کے مقرر کئے جانے کے انتظار میں ہیں۔‏ جب وہ تینوں ترکی کے علاقے میں پہنچے تو اُنہیں اِطلاع ملی کہ وسکونتی کو پوپ مقرر کر دیا گیا ہے۔‏ لہٰذا وہ وسکونتی سے ملنے کیلئے واپس اکرا گئے۔‏ نئے پوپ نے اُن تینوں کیساتھ ۱۰۰ کی بجائے صرف دو پادری بھیجے جنہیں پادری اور بشپ مقرر کرنے کا اختیار بھی تھا۔‏ پوپ نے ان پادریوں کے ہاتھ قبلائی خان کیلئے تحفے بھی بھیجے۔‏ یہ ٹولی اپنے سفر پر چل دی لیکن ہر طرف جنگ ہو رہی تھی۔‏ اسلئے دونوں پادری ڈر کے مارے واپس لوٹ گئے جبکہ مارکو اور اُسکے والد اور چچا نے اپنا سفر جاری رکھا۔‏

تینوں مسافر ترکی اور ایران سے سفر کرتے ہوئے خلیج‌فارس تک پہنچے جہاں سے وہ باقی کا سفر بحری جہاز سے کرنا چاہتے تھے۔‏ لیکن بندرگاہ پہنچ کر اُنہوں نے دیکھا کہ وہاں تمام جہاز ”‏کسی کام کے نہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ وہ لکڑی اور رسیوں کے بنے ہوئے“‏ لمبا سفر طے کرنے کے بالکل قابل نہیں تھے۔‏ اِسلئے اُنہوں نے خشکی پر اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کِیا۔‏ وہ شمال مشرق کی طرف چل پڑے جہاں اُنہیں افغانستان کے ریگستان اور کوہِ‌پامیر کے چٹیل پہاڑوں اور ہری چراگاہوں سے گزرنا پڑا۔‏ چلتے چلتے وہ کاشغر سے تاریم کے میدان اور پھر صحرائےگوبی سے گزرے۔‏ اس سفر کے دوران اُنہیں طرح طرح کے خراب موسم کا سامنا کرنا پڑا اور مارکو کو ایک انجانی بیماری سے بھی نپٹنا پڑا۔‏ تین سال مسلسل سفر کرنے کے بعد آخرکار وہ کمبالک (‏آجکل یہ بیجنگ کہلاتا ہے)‏ پہنچ گئے۔‏

راستے میں مارکو کئی دلچسپ جگہوں سے گزرتا اور اُن پر غور کرتا ہے۔‏ وہ آرمینیا کے کوہِ‌اراراط کا ذکر کرتا ہے،‏ جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوح کی کشتی وہاں پر آ کر رُکی تھی۔‏ مارکو فارس میں وہ جگہ دیکھتا ہے جہاں اُن مجوسیوں کی قبریں بتائی جاتی ہیں جنہوں نے ننھے یسوع مسیح کو تحفے دئے تھے۔‏ شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے وہ ایسے ملکوں سے گزرتا ہے جہاں سخت سردی پڑتی ہے اور جہاں ہر وقت اندھیرا ہی اندھیرا چھایا رہتا ہے۔‏ مارکو مغرب کا وہ پہلا شخص ہے جو اپنی کتاب میں پٹرولیم کا ذکر کرتا ہے۔‏ وہ ظاہر کرتا ہے کہ ازبستس ایک جانور کا نہ جلنے والا اون نہیں ہے جیسا پہلے سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک معدنی چیز ہے جو چین میں پائی جاتی ہے۔‏ مارکو آگے بتاتا ہے کہ چین میں ایک ایسا کالا پتھر ملتا ہے جسے جلایا جا سکتا ہے۔‏ یہ اتنی کثرت سے وہاں دستیاب ہے کہ لوگ ہر دن گرم پانی سے نہاتے ہیں۔‏ وہ جہاں بھی جاتا وہاں کے لوگوں کی آرائش اور کھانےپینے کی چیزوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا۔‏ وہ خاص کر منگولیا کے گھوڑوں کے خمیری دودھ کا ذکر کرتا ہے۔‏ اسکے علاوہ وہ ہر علاقے کی مذہبی رسموں،‏ جادوگری اور تجارتی مال کے بارے میں بھی لکھتا ہے۔‏ قبلائی خان کی سلطنت وہ پہلی جگہ ہے جہاں مارکو کاغذ کا پیسہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔‏

مارکو ان تمام باتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کبھی اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار نہیں کرتا۔‏ وہ بس یہی بتاتا ہے کہ اُس نے کیا دیکھا اور کیا سنا۔‏ ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس نے کیسا محسوس کِیا ہوگا جب ڈاکوؤں نے اُسکی ٹولی پر حملہ کرکے اُسکے کئی ساتھیوں کو مار ڈالا اور کچھ کو قید بھی کر لیا۔‏

شہنشاہ قبلائی خان کی خدمت میں

مارکو کا دعویٰ ہے کہ وہ ۱۷ سال تک قبلائی خان کی ملازمت میں رہا۔‏ اِس عرصے کے دوران قبلائی خان مارکو کو چین کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے بھیجتا۔‏ مارکو اِن دوروں سے واپس آ کر اِن علاقوں کے حالات کی تفصیلی رپورٹ شہنشاہ کو پیش کرتا۔‏ مارکو یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ اُس نے شہر ینگ‌چو پر حکومت بھی کی۔‏

مارکو کے اِن دعوؤں پر کافی بحث ہو چکی ہے۔‏ کیا جو کچھ وہ کہتا ہے واقعی سچ ہے؟‏ یہ درست ہے کہ منگولیا کے لوگ حکمرانی کرنے کیلئے غیروں کو اِستعمال کِیا کرتے تھے کیونکہ وہ چینی لوگوں پر بھروسا نہیں کرتے تھے۔‏ لیکن مارکو اتنا پڑھالکھا نہیں تھا۔‏ کیا اس قسم کے شخص کو واقعی ایسا مقام حاصل ہو سکتا تھا؟‏ یہ ناممکن لگتا ہے۔‏ شاید اُس نے اپنے عہدے کو بڑھاچڑھا کر بیان کِیا تھا۔‏ حالانکہ کئی عالم یہ ماننے کو تیار ہیں کہ مارکو ”‏کسی حد تک شہنشاہ کے نمائندے کے طور پر کام کرتا تھا۔‏“‏

بہرحال مارکو نے اُس زمانے کے مغربی لوگوں کیلئے ایک نئی دُنیا کے دروازے کھول دئے تھے۔‏ مارکو چین کی عجیب‌وغریب رسومات اور بیشمار دولت کے بارے میں بتاتا ہے۔‏ کیا ایسی بھی تہذبیں تھیں جو یورپ سے زیادہ امیر تھیں؟‏ مغربی لوگوں کو یہ ناممکن لگتا تھا۔‏

شہنشاہ قبلائی خان کے شاہی محل کے بارے میں مارکو یوں کہتا ہے:‏ ”‏دوسرے محلوں کی نسبت یہ محل بہت ہی شاندار ہے۔‏ یہ بہت بڑا ہونے کیساتھ ساتھ نہایت قیمتی سامان سے بنایا گیا ہے۔‏ یہ اتنا خوبصورت ہے کہ کوئی اِنسان اِس محل کے مقابلے میں دوسرا محل بنا ہی نہیں سکتا۔‏“‏ اِس محل کی دیواریں سونے اور چاندی سے ڈھانکی ہوئی تھیں اور اُن پر طرح طرح کے اژدہا،‏ پرندے،‏ سپاہی اور بُت تراشے ہوئے تھے۔‏ اُسکی چھت سُرخ،‏ پیلے،‏ سبز اور نیلے رنگ میں چمکتی تھی۔‏ اُسکے باغات میں ہر قسم کے جانور تھے۔‏

قرونِ‌وسطیٰ میں یورپ کی بل کھاتی ہوئی سڑکوں کے مقابلے میں شہر کمبالک کی سڑکیں اتنی سیدھی اور چوڑی تھیں کہ شہر کی ایک دیوار سے دوسری دیوار تک آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔‏ مارکو بتاتا ہے:‏ ”‏دُنیا کے کسی شہر کی نسبت اس شہر میں بیشمار قیمتی اور انوکھی چیزیں لائی جاتی ہیں۔‏ کوئی ایسا دِن نہیں گزرتا جب ریشم سے لادی ہوئی کم‌ازکم ۰۰۰،‏۱ بیل‌گاڑیاں شہر میں داخل نہیں ہوتیں۔‏“‏

وہاں کا دریائے ینگ‌تیز جو دُنیا کے سب سے لمبے دریاؤں میں سے ایک ہے بہت ہی خوبصورت تھا۔‏ مارکو کا دعویٰ تھا کہ شہر سنجو کی بندرگاہ اتنی بڑی تھی کہ اُس میں کم‌ازکم ۰۰۰،‏۱۵ بحری جہاز بیک‌وقت موجود تھے۔‏

مارکو چین کی ایک رسم کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتاتا ہے یعنی مُردہ بچوں کی شادی کرانے کی رسم۔‏ اگر ایک خاندان کا بیٹا جسکی عمر چار سال سے اُوپر تھی مر جاتا اور ایک دوسرے خاندان میں اُسی کی عمر کی ایک بیٹی بھی مر جاتی تو ہو سکتا تھا کہ دونوں مُردہ بچوں کے والد اُنکی شادی کرانے کا فیصلہ کرتے۔‏ دونوں خاندانوں میں شادی کی دعوت ہوتی اور کاغذ کے بنے ہوئے نوکر،‏ پیسے اور گھر کا سامان جلایا جاتا۔‏ وہ مانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اُنکے بچے اگلی دُنیا میں اِن سب چیزوں کے مالک ہونگے۔‏

مارکو منگولیوں کی فوجی مہارت،‏ حکومت کرنے کے طریقوں اور مذہبی رواداری سے بہت متاثر ہوا۔‏ منگولی لوگ معاشرتی اور معاشی طور پر بھی بڑے کامیاب تھے کیونکہ وہ غریبوں اور بیماروں کیلئے امداد کا انتظام کرتے تھے۔‏ ہر علاقے کو آگ لگنے یا فساد پڑنے سے محفوظ رکھنے کیلئے پہرے دئے جاتے۔‏ گوداموں میں اناج ذخیرہ کِیا جاتا تاکہ اگر سیلاب آئے تو لوگوں کیلئے کھانے کا سامان دستیاب ہو۔‏ وہاں کا ڈاک کا نظام اتنا اچھا تھا کہ اِسکے ذریعے جلد سے جلد کسی سے بھی رابطہ ہو سکتا تھا۔‏

مارکو جانتا تھا کہ منگولیوں نے جاپان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ وہ خود بھی جاپان گیا تھا۔‏ تاہم وہ بتاتا ہے کہ جاپان میں اتنا سونا تھا کہ وہاں کے شہنشاہ کے محل کی پوری چھت سونے سے بنی ہوئی تھی۔‏ مارکو وہ پہلا مغربی شخص تھا جس نے سولہویں صدی سے پہلے جاپان کا ذکر کِیا تھا۔‏

مارکو کی کتاب کو سراہا گیا لیکن اُسکا مذاق بھی اُڑایا گیا ہے۔‏ آج کے عالم مارکو کی کتاب پر غور کرتے ہوئے اِسے شہنشاہ قبلائی خان کی حکمرانی کا ”‏ایک بےمثال بیان“‏ قرار دیتے ہیں۔‏

واپسی کا سفر

اپنے والد اور چچا سمیت مارکو نے ۱۲۹۲ میں چین چھوڑ کر اپنے شہر وینس کا رُخ کِیا۔‏ مارکو بتاتا ہے کہ اُنہیں یہ سفر طے کرنے میں ۲۱ مہینے لگے۔‏ چین سے سفر کرتے ہوئے اُنہوں نے ویتنام،‏ ملائے،‏ سومترا اور سری‌لنکا میں تھوڑی تھوڑی دیر لنگر کِیا اور پھر انڈیا کے ساحل کا سفر کرتے ہوئے فارس پہنچے۔‏ سفر کے آخری مرحلہ میں وہ قسطنطنیہ سے گزرتے ہوئے آخرکار وینس پہنچ گئے۔‏ بیرونِ‌ملک میں ۲۴ سال گزارنے کے بعد جب یہ تینوں مسافر گھر واپس لوٹے تو اُنکے رشتےدار انہیں پہچان نہ سکے۔‏ مارکو کی عمر اب ۴۱ یا ۴۲ سال کی تھی۔‏

مارکو نے اپنے سفر میں کتنا فاصلہ طے کِیا،‏ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔‏ مارکو جس راہ کو اِختیار کرتے ہوئے چین پہنچا،‏ حال ہی میں ایک مصنف نے اُسی راہ پر سفر کرنے کی کوشش کی۔‏ اِس مصنف نے صرف ایران سے چین تک سفر کرتے ہوئے ۰۰۰،‏۶ میل [‏۰۰۰،‏۱۰ کلومیٹر]‏ طے کئے اور اُسے اس جدید دور میں بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏

مارکو نے رُستی‌چیلو نامی ایک ادیب سے اپنا سفرنامہ لکھوایا۔‏ اُس وقت وینس اپنے ہمسایہ شہر جینوا کیساتھ جنگ لڑ رہا تھا۔‏ کہا جاتا ہے کہ مارکو نے اس جنگ میں ایک بحری جہاز کی کمان سنبھالی۔‏ لیکن وہ دُشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔‏ قید میں مارکو کی ملاقات رُستی‌چیلو سے ہوئی جس نے فرانسیسی اور اٹالوی زبانوں میں کافی کہانیاں لکھی تھیں۔‏ مارکو کی داستان سُن کر اُس میں اسے درج کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏

جنگ ختم ہونے کے بعد،‏ تقریباً ۱۲۹۹ میں مارکو کو رِہا کر دیا گیا۔‏ وینس واپس لوٹ کر اُس نے شادی کر لی اور اُس کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔‏ سن ۱۳۲۴ میں جب اُس کی عمر ۶۹ سال کی تھی تو مارکو اپنے شہر وینس میں فوت ہو گیا۔‏

کئی لوگ آج بھی شک کرتے ہیں کہ مارکو نے واقعی وہ سب کچھ کِیا تھا جسکا وہ دعویٰ کرتا ہے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ اُس نے محض دوسرے مسافروں کی کہانیوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا سفرنامہ لکھوایا تھا۔‏ لیکن عالم مارکو کے سفرنامے کو انمول سمجھتے ہیں۔‏ ایک مؤرخ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏کسی دوسرے شخص نے مغرب کے لوگوں کو دُنیا جہان کے بارے میں اتنا نیا علم نہیں دیا۔‏“‏ مارکو کی کتاب اِس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اِنسان کو ہمیشہ سے نئی جگہوں اور دوردراز علاقوں کے بارے میں جاننے اور سفر کرنے کا شوق رہا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴،‏ ۲۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

مارکو کا چین تک سفر [‏رسالے کو دیکھیں]‏

چین کا دورہ [‏رسالے کو دیکھیں]‏

واپسی کا سفر [‏رسالے کو دیکھیں]‏

اٹلی

جینوا

وینس

ترکی

استنبول (‏قسطنطنیہ)‏

ٹرابزون

اکرا

‏(‏سرائی)‏

جارجیا

کوہِ‌اراراط

ایران (‏فارس)‏

خلیج‌فارس

افغانستان

اُزبکستان

بخارا

کوہِ‌پامیر

کاشغر

میدانِ‌تاریم

صحرائےگوبی

منگولیا

‏(‏کوریا)‏

چین

بیجنگ (‏کمبالک)‏

ینگ‌چو

دریائے ینگ‌تیز

کوانزو

میانمار

ویتنام

ملائے

سومترا

سری‌لنکا

انڈیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

®Map: Mountain High Maps

‏.Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

وینس

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

کوہِ‌اراراط

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

PADIA/‏Saudi Aramco World‏/Robert Azzi

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

منگولی عورت

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

C. Ursillo/Robertstock.com

‏[‏صفحہ ۲۴،‏ ۲۵ پر تصویر]‏

مانجھی،‏ میانمار

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

چین کی مشہور دیوار

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بیجنگ

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ویتنام

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

انڈیا کے مصالحے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

گھوڑوں پر سوار چینی مرد،‏ قبلائی خان،‏ دریائے ینگ‌تیز

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏/Horsemen: Tor Eigeland

‏;PADIA/‏Saudi Aramco World

Kublai Khan: Collection of the

‏;National Palace Museum, Taiwan

‏/Yangtze River: © Chris Stowers

Panos Pictures

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Michael S. Yamashita/CORBIS ©

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر کا حوالہ]‏

1996 Visual Language ©