مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دماغ پر بہت زیادہ دباؤ؟‏

کینیڈا کے اخبار ٹرانٹو سٹار کے مطابق،‏ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ”‏ایک ہی وقت میں مختلف کام کرنا دماغ پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتا ہے۔‏“‏ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرنا ناقص کارکردگی،‏ زیادہ غلطیاں کرنے اور بعض‌اوقات بیماری پر منتج ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہ ”‏یادداشت کمزور ہونے،‏ کمر میں درد،‏ کسی شخص کے فلو اور بدہضمی میں مبتلا ہونے اور مسوڑوں اور دانتوں کے درد کا باعث بن سکتا ہے۔‏“‏ یو.‏ایس.‏ نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جب لوگ مختلف کام کرتے ہیں تو اُنکے دماغ کے مختلف حصے حرکت میں آ جاتے ہیں۔‏ نیورالوجسٹ ڈاکٹر جان سلاڈکی کے مطابق،‏ جیسے گاڑی چلاتے وقت موبائل فون پر بات کرنے سے ذہن منتشر ہو جاتا ہے اسی طرح سے جب لوگ ایک ہی وقت میں دو یا اس سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ”‏درحقیقت دماغ عارضی طور پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔‏ یہ نہیں کہ دماغ اس کام کو کر نہیں سکتا بلکہ وہ اسے کرنے سے انکار کرتا ہے۔‏“‏ ماہرین کے مطابق،‏ لوگوں کو اپنی رفتار کو کم کرنے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دماغ ایک ہی وقت میں وہ سب نہیں کر سکتا جسکا وہ تقاضا کر رہے ہیں۔‏

مچھلی کی نئی اقسام کی دریافت

وینزویلا کاوَرا دریا کی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے حال ہی میں ”‏مچھلی کی دس نئی اقسام کی دریافت“‏ کا اعلان کِیا ہے۔‏ ان میں ”‏سُرخ رنگ کی دُمدار“‏ چھوٹی مچھلی،‏ ”‏حاسہ‌دار گُربہ‌ماہی،‏“‏ اور ”‏پھل اور گوشت کھانے والی پرینہار مچھلی“‏ شامل ہے۔‏ گرم علاقے کے ان جنگلات اور دریاؤں کو انسانوں کی طرف سے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔‏ لہٰذا،‏ نئے علاقے کو زمین کے انتہائی زرخیز علاقے کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔‏ سائنسدان حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس علاقے کی حفاظت کریں جسے زراعت،‏ ماہی‌گیری،‏ تعمیراتی منصوبوں،‏ کان‌کنی اور پن‌بجلی کے منصوبوں سے خطرہ درپیش ہے۔‏

انتظارگاہ کا دباؤ

جرمنی کا ایک اخبار بیان کرتا ہے کہ ”‏جرمنی میں مریضوں کو ڈاکٹر سے ملاقات کرنے کے لئے اوسطاً ۴۸ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔‏ بعض کو تو اس سے بھی زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔‏“‏ حال ہی میں ۶۱۰ ڈاکٹروں کی کارکردگی کا مطالعہ کرنے والے ایک انسٹیٹیوٹ نے بیان کِیا کہ ”‏مریض اس صورتحال سے انتہائی پریشان ہیں۔‏“‏ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے،‏ ”‏جہاں مریضوں کی ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے ڈاکٹر کچھ نہیں کر رہے،‏ وہاں ایک سال کے اندر باقاعدہ مریضوں کی تعداد میں ۱۹ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔‏“‏ جہاں مریضوں کی بِھیڑ لگی رہتی ہے وہاں ڈاکٹر اور اُن کے معاون ڈاکٹر دیگر اداروں میں کام کرنے والوں کی نسبت زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور اس سے اُن کی کارکردگی میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔‏ اس کے علاوہ معاون ڈاکٹر پہلے سے دُگنی غلطیاں کر رہے ہیں۔‏

صحیح اور غلط کی بابت پریشان

سڈنی کے دی سن-‏ہیرلڈ کے مطابق،‏ ”‏آسٹریلیا میں تقریباً ہر چار میں سے ایک شخص نے یہ تسلیم کِیا ہے کہ وہ اپنی کام کی جگہ سے چیزیں چراتا ہے۔‏“‏ آفس میں کام کرنے والے ۰۰۰،‏۲ سے زائد کارکنوں کے سروے نے ظاہر کِیا کہ کام کی جگہ پر اپنے ساتھیوں کی بابت ذاتی نوعیت کی معلومات حاصل کرنا،‏ ذاتی مقصد کے لئے کام کے اوقات میں انٹرنیٹ استعمال کرنا،‏ اپنے کمپیوٹر پر غیرقانونی سافٹ‌ویئر ڈالنا اور آفس کے سافٹ‌ویئر کو گھر میں استعمال کرنا بڑا عام ہے۔‏ اس سروے کا انچارج گاری ڈولی بیان کرتا ہے،‏ ”‏بیشمار ایسے لوگ ہیں جو واقعی یہ امتیاز نہیں کر پاتے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔‏“‏

کیا پالتو جانوروں کی تجہیزوتدفین پر ٹیکس واجب ہے؟‏

جاپان کا ایک اخبار بیان کرتا ہے کہ حال ہی میں جاپان میں ٹیکس وصول کرنے والے افسران کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے ایک بدھسٹ عبادت‌گاہ نے دعویٰ کِیا کہ پالتو جانوروں کی تجہیزوتدفین،‏ نعش‌سوزی اور راکھ محفوظ رکھنے سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہئے۔‏ ٹیکس کے آفس نے دلائل پیش کئے کہ نعش‌سوزی اور پالتو جانوروں کے لئے انجام دی جانے والی مذہبی عبادات ”‏کاروباری معاہدہ“‏ ہے اور یہ کہ راکھ کو جمع کرنا عبادت‌گاہ کو ”‏گودام کے طور پر استعمال کرنے“‏ کے زمرے میں آتا ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ عبادت‌گاہ کا دعویٰ ہے کہ ”‏میموریل سروس ایک مذہبی خدمت ہے جس کا مقصد“‏ بغیر کسی لالچ کے ”‏جانوروں کے غمزدہ مالکان کو تسلی فراہم کرنا اور جانوروں کی روحوں کو آرام پہنچانا ہے۔‏“‏

فضائی حادثات میں کمی

رسالے فلائٹ انٹرنیشنل کے مطابق،‏ ۱۹۵۰ سے فضائی حادثات کا ریکارڈ رکھا جانا شروع ہوا ہے اور اُس وقت سے لیکر صرف ۲۰۰۳ میں عالمی پیمانے پر بہت کم فضائی حادثات رونما ہوئے تھے۔‏ اگرچہ ۱۹۹۰ سے لیکر ہوائی جہازوں میں ۴۰ فیصد اضافہ ہوا ہے توبھی فضائی حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی سب سے کم تعداد ۲۰۰۳ میں تھی۔‏ اس سال میں صرف ۷۰۲ اشخاص ہلاک ہوئے۔‏ لندن کا ڈیلی ٹیلی‌گراف بیان کرتا ہے کہ ”‏مجموعی طور پر صورتحال کو بہتر بنانے والی اصل چیز ایسے واقعات میں کمی تھی جہاں جہازوں کے مقام،‏ رفتار،‏ منزل اور سمت کا تعیّن کرنے میں ذرا سی غلطی جہاز کے قدرے اُونچے مقام پر اُترنے کا باعث بنتی تھی۔‏ ٹیکنالوجی کے ایجادکردہ آگاہ کرنے والے نئےنئے نظاموں نے بھی بڑا اہم کردار ادا کِیا ہے مگر ان کی بابت یہ نہیں کہا جاتا کہ ان میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔‏“‏ تاہم بہت سے پُرانے جہازوں میں یہ نظام موجود نہیں ہے۔‏

اپسم نمک حاملہ عورتوں کے لئے مفید

لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے کہ اپسم نمک کا استعمال اگرچہ ایک سادہ اور سستا علاج ہے تاہم یہ حاملہ عورتوں کے اندر پیدا ہونے والی مُہلک پیچیدگیوں کے امکان کو نصف کر دیتا ہے۔‏ ہائی بلڈپریشر کی ایک خطرناک قسم تشنج‌حمل ہے جس میں دورے پڑنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے دُنیابھر میں ہر سال ۰۰۰،‏۵۰ سے زائد عورتیں اور نازائیدہ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏ اگرچہ ریاستہائےمتحدہ میں گزشتہ کئی سال سے تشنج‌حمل سے بچاؤ کے لئے میگ‌نی‌شیم سلفیٹ (‏اپسم سالٹ)‏ والے ٹیکے اور ڈرپس لگائی جاتی ہیں تاہم دیگر ممالک میں یہ علاج اتنا زیادہ مقبول نہیں ہے۔‏ دی ٹائمز بیان کرتا ہے کہ انگلینڈ میں،‏ ڈاکٹروں کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے ”‏۳۳ مختلف ممالک میں ۰۰۰،‏۱۰ خواتین پر اس نمک کے فوائد کو ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کِیا گیا۔‏ تین سال بعد اس تجربے کو روک دیا گیا کیونکہ یہ ثابت ہو گیا کہ یہ علاج نہایت مؤثر ہے۔‏ جن عورتوں میں تشنج کی علامات پائی گئی جب اُن کا علاج اپسم سالٹ کے ذریعے کِیا گیا تو اُن کے اندر دورے پڑنے کا امکان ۵۸ فیصد کم ہو گیا۔‏ جس کی وجہ سے اُن کی موت واقع ہونے کا خطرہ ۴۵ فیصد کم ہو گیا۔‏“‏ اس علاج میں ”‏صرف ۳ پاؤنڈ فی عورت خرچ ہوتے ہیں اس لئے ترقی‌پذیر ممالک کی خواتین بھی یہ علاج کروا سکتی ہیں۔‏“‏

جواں‌سالوں میں کھانے کی عادات

لندن کا ڈیلی ٹیلی‌گراف بیان کرتا ہے کہ ”‏سکول جانے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد اپنے جسم کو متناسب رکھنے کے لئے اور فیشن ماڈلز اور بڑے بڑے سٹارز کی نقل میں کئی وقت کا کھانا چھوڑ دیتی ہیں۔‏“‏ برطانیہ میں سکولز ہیلتھ ایجوکیشن یونٹ نے آشکارا کِیا کہ ۱۴ اور ۱۵ سال کی لڑکیوں کا ۴۰ فیصد سے زیادہ حصہ ”‏بغیر ناشتہ سکول جاتا ہے۔‏ جب اس کا موازنہ ۱۹۸۴ میں حاصل ہونے والے اعدادوشمار سے کِیا گیا تو بغیر ناشتہ گھر سے نکلنے والوں کی تعداد تقریباً دُگنی ہو گئی ہے۔‏“‏ دوپہر کا کھانا نہ کھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‏ سن ۱۹۸۴ میں ان کی تعداد صرف ۲ فیصد تھی جبکہ ۲۰۰۱ میں ۱۸ فیصد ہو گئی ہے۔‏ اس خطرے کے پیشِ‌نظر کہ طالبعلم بھوک کی کمی (‏عدمِ‌اشتہا)‏ اور بھوک کی زیادتی (‏جوع‌البقر)‏ جیسے امراض کا شکار نہ ہو جائیں،‏ لڑکیوں کے سکولوں کی ہیڈ ٹیچرز کو اپنی طالبعلموں کا وزن نوٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‏ آجکل لڑکے بھی ڈائٹنگ میں زیادہ دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔‏ ان میں ۳۱ فیصد لڑکوں کی عمر ۱۲ سے ۱۳ سال ہے اور وہ ۲۶ فیصد وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔‏ جبکہ ۲۵ فیصد لڑکے ۱۴ سے ۱۵ سال کے ہیں اور وہ ۲۱ فیصد وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔‏