مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مَیں ناکامیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏

مَیں ناکامیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏

نوجوان لوگ پوچھتے ہیں ‏.‏ .‏ .‏

مَیں ناکامیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏

‏”‏مجھے ابھی ابھی اپنا رپورٹ کارڈ ملا ہے اور مَیں ایک مرتبہ پھر اُنہی چار مضامین میں فیل ہو گئی ہوں۔‏ مَیں نے پاس ہونے کی بہت کوشش کی لیکن دوبارہ فیل ہو گئی۔‏“‏—‏۱۵ سالہ لورئن۔‏

‏”‏فیل ہونے کے بعد ندامت کے احساس کو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن مایوس ہو جانا بہت آسان ہوتا ہے۔‏“‏—‏۱۹ سالہ جےسیکا۔‏

ناکامی!‏ شاید آپ اس لفظ کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔‏ لیکن ہم سب کو کبھی نہ کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ چاہے یہ کسی سکول ٹیسٹ میں فیل ہونے کی بات ہے،‏ یا پھر جس سے ہم پیار کرتے ہیں اُس کی طرف سے مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ اخلاقی طور پر سنگین غلطی کرنے کے بعد بھی کسی شخص کو انتہائی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‏

بِلاشُبہ تمام انسان غلطیاں کرتے ہیں۔‏ اسی لئے بائبل بیان کرتی ہے،‏ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ مگر ہم میں بعض غلطی کرنے کے بعد دوبارہ اپنی حالت کو بحال کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏ جےسن نامی ایک نوجوان اس حالت کی بابت بیان کرتا ہے،‏ ”‏مَیں خود ہی اپنے اُوپر بہت تنقید کرتا ہوں۔‏ اگر مَیں کوئی غلطی کرتا ہوں تو لوگ کچھ دیر کیلئے میرا مذاق اُڑاتے ہیں لیکن بعد میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔‏ لیکن میرے لئے اسے بھلانا بہت مشکل ہوتا ہے اور مَیں اپنی غلطی کی بابت سوچتا رہتا ہوں۔‏“‏

اپنی ناکامی کی بابت سوچنا غلط نہیں،‏ خاص طور پر جب آپ بہتری لانے کے مقصد کیساتھ ایسا کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ متواتر خود کو کوستے رہنا نقصان‌دہ اور بہتری لانے کی راہ میں رُکاوٹ بنا سکتا ہے۔‏ امثال ۱۲:‏۲۵ بیان کرتی ہے:‏ ”‏آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔‏“‏

پس بائبل میں اپفردتس نامی شخص پر غور کریں۔‏ اُسے پولس کی مدد کرنے کیلئے روم بھیجا گیا تھا۔‏ تاہم بیمار پڑنے کی وجہ سے اپفردتس اس کام کو پورا نہ کر سکا بلکہ پولس کو اُسکی دیکھ‌بھال کرنی پڑی!‏ پولس نے اپفردتس کو واپس گھر بھیجنے کا بندوبست کِیا اور وہاں کی کلیسیا کو بھی مطلع کِیا کہ یہ وفادار شخص قدرے مایوسی کا شکار ہے۔‏ اسکی وجہ کیا تھی؟‏ پولس بیان کرتا ہے،‏ ”‏تُم نے اُسکی بیماری کا حال سنا تھا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۲:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ جب اپفردتس کو احساس ہوا کہ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی ذمہ‌داری پوری نہیں کر سکا تو شاید وہ اپنی اس ناکامی کی وجہ سے مایوس ہو گیا ہو!‏

کیا ناکامی کے تکلیف‌دہ احساس سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟‏

اپنی حدود کو پہچانیں

ناکامی کے امکان کو کم کرنے کا ایک طریقہ معقول نشانے قائم کرنا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏خاکساروں کیساتھ حکمت ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۱:‏۲؛‏ ۱۶:‏۱۸‏)‏ پس ایک عاجز شخص اپنی حدود کو بخوبی پہچانتا ہے۔‏ سچ ہے کہ کبھی‌کبھار اپنی مہارتوں اور لیاقتوں کو بہتر بنانے کیلئے خود کو آزمانے میں کوئی قباحت نہیں مگر حقیقت‌پسند بنیں۔‏ یہ ضروری نہیں کہ آپ ریاضی میں بہت اچھے ہوں یا آپ میں ایک نمایاں ایتھلیٹ بننے کی لیاقت ہو۔‏ مائیکل نامی ایک نوجوان تسلیم کرتا ہے:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ مَیں ایک اچھا کھلاڑی نہیں ہوں۔‏ پس مَیں کھیلتے وقت خود کو ایسی حالت میں نہیں پڑنے دیتا جہاں ناکامی ہو سکتی ہے۔‏ آپکو ایسے نشانے قائم کرنے کی ضرورت ہے جنہیں حاصل کرنا آپکے بس میں ہے۔‏“‏

ذرا ۱۴ سالہ ایون کے رویے پر غور کریں جسے ایک پیدائشی بیماری تھی۔‏ ایون کہتی ہے،‏ ”‏مَیں دوسروں کی مانند چل پھر نہیں سکتی ڈانس نہیں کر سکتی اور نہ ہی بھاگدوڑ سکتی ہوں۔‏ اس سے مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے کہ مَیں وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو دوسرے کرتے ہیں۔‏ زیادہ‌تر لوگ میری پریشانی کو نہیں سمجھتے۔‏ مگر مَیں ایسے جذبات کو بخوبی سمجھتی ہوں۔‏“‏ وہ ناکامی کا سامنا کرنے والے اشخاص کو مشورہ دیتی ہے:‏ ”‏کوشش کرنا نہ چھوڑیں۔‏ اسے جاری رکھیں۔‏ اگر آپ ناکام ہو جاتے ہیں تو ہمت نہ ہاریں۔‏ اپنی پوری کوشش کرتے رہیں۔‏“‏

اس کے علاوہ دوسروں کیساتھ اپنا موازنہ کرکے خود کو اذیت نہ پہنچائیں۔‏ پندرہ سالہ اینڈریو کہتا ہے،‏ ”‏مَیں دوسروں کیساتھ اپنا موازنہ کرنے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ ہم سب کی قوت اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔‏“‏ اینڈریو کے الفاظ بائبل کے اس بیان کی عکاسی کرتے ہیں جو گلتیوں ۶:‏۴ میں درج ہیں:‏ ”‏پس ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔‏“‏

زیادہ توقعات وابستہ کرنا

تاہم،‏ بعض‌اوقات آپکے والدین،‏ اساتذہ اور دوسرے لوگ آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔‏ آپ شاید یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ جو مرضی کر لیں اُنہیں خوش کرنا بہت مشکل ہے۔‏ حالات اُس وقت زیادہ خراب ہو جاتے ہیں جب یہ لوگ اپنی مایوسی کا اظہار ایسے الفاظ میں کرتے ہیں جن سے آپکو غصہ آتا ہے یا شاید آپ بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔‏ (‏ایوب ۱۹:‏۲‏)‏ پھر آپ سمجھ جاتے ہیں کہ آپکے والدین اور دیگر لوگوں کا مقصد جان‌بوجھ کر آپکو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔‏ جیسےکہ جےسیکا بیان کرتی ہے،‏ ”‏بعض‌اوقات اُنہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ آپکو کیسے متاثر کر رہے ہیں۔‏ اکثر یہ محض غلط‌فہمی ہی ہوتی ہے۔‏“‏

بصورتِ‌دیگر کیا یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز دیکھ رہے ہیں جسے آپ دیکھنے سے قاصر ہیں؟‏ مثال کے طور پر،‏ شاید آپ بہت کم کوشش کر رہے ہیں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بہت کچھ انجام دے رہے ہیں۔‏ لہٰذا اُنکی تجاویز کو نظرانداز نہ کریں۔‏ جب آپ ’‏تربیت کی بات سنتے اور دانا بنتے‘‏ ہیں تو آپ اچھا کرتے ہیں۔‏ (‏امثال ۸:‏۳۳‏)‏ مائیکل بیان کرتا ہے:‏ ”‏اس سے آپکو فائدہ ہوگا۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے اندر بہتری لائیں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔‏ اسے ایک چیلنج خیال کریں۔‏“‏

تاہم،‏ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ والدین اور دیگر لوگ ایسے نامعقول تقاضے کر رہے ہیں جن میں ناکامی یقینی ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ اس صورت میں دانشمندی یہ ہوگی کہ احترام اور صاف‌دلی کیساتھ اُن سے بات کی جائے اور اُنہیں بتائیں کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ اُن کیساتھ ملکر آپ ایسے نشانے قائم کر سکتے ہیں جو زیادہ حقیقت‌پسندانہ ہیں۔‏

آپکی روحانی زندگی میں ”‏ناکامیاں“‏

یہوواہ کے گواہوں میں نوجوانوں کو خدا کے خادموں کے طور پر اپنی ذمہ‌داریاں پوری کرنے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۵‏)‏ اگر آپ ایک نوجوان مسیحی ہیں تو شاید آپ محسوس کریں کہ آپ سے یہ سب نہیں ہو سکتا۔‏ شاید آپ سوچیں کہ آپ اجلاسوں پر اچھے تبصرے نہیں کرتے۔‏ یا شاید آپ کو دوسروں کو بائبل کا پیغام سنانا مشکل لگتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جےسیکا ایک دوسری نوجوان لڑکی کیساتھ بائبل مطالعہ کرتی تھی۔‏ کچھ عرصہ تک اس کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے والی لڑکی اچھی ترقی کرتی رہی۔‏ تاہم،‏ ایک دم سے اُس لڑکی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خدا کی خدمت کرنا نہیں چاہتی۔‏ جےسیکا یاد کرتی ہے،‏ ”‏مجھے لگا کہ مَیں ایک ناکام اُستاد ہوں۔‏“‏

جےسیکا نے ان احساسات پر کیسے قابو پایا؟‏ سب سے پہلے تو اُسے یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ اُسکے بائبل طالبعلم نے اُسے نہیں بلکہ خدا کو چھوڑا ہے۔‏ اُسے بائبل میں سے پطرس کے نمونے پر غور کرنے سے بھی مدد ملی جس میں خداپرست ہونے کے باوجود مختلف کمزوریاں تھیں۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏بائبل میں لکھا ہے کہ پطرس نے اپنی کمزوریوں پر قابو پایا اور یہوواہ نے بادشاہتی مفادات کو ترقی دینے کیلئے اُسے مختلف طریقوں سے استعمال کِیا۔‏“‏ (‏لوقا ۲۲:‏۳۱-‏۳۴،‏ ۶۰-‏۶۲‏)‏ بِلاشُبہ،‏ اگر ایک اُستاد کے طور پر آپکی مہارتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو شاید آپکو اس سلسلے میں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۳‏)‏ کلیسیا میں ایسے پُختہ اشخاص سے مدد لیں جو سکھانے میں مہارت رکھتے ہیں اور آپکو تربیت دے سکتے ہیں۔‏

ممکن ہے کہ آپ گھرباگھر کی مُنادی کو بالخصوص مشکل پاتے ہوں۔‏ جےسن تسلیم کرتا ہے،‏ ”‏جب بھی کوئی صاحبِ‌خانہ مجھے دیکھ کر دروازہ بند کر دیتا ہے تو مجھے ناکامی کا احساس ہوتا ہے۔‏“‏ اُس نے اسکی بابت کیا کِیا؟‏ ”‏مجھے یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ درحقیقت مَیں ناکام نہیں ہوا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اُس نے تو مُنادی کرنے کے خدا کے حکم کی تعمیل کی ہے!‏ علاوہ‌ازیں کسی کی بات کو رد کرنا اتنا آسان نہیں لہٰذا سب لوگ بائبل کے پیغام کو رد نہیں کرینگے۔‏ جےسن کہتا ہے،‏ ”‏جب مجھے کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو میری بات سنتا ہے تو مجھے اس کام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔‏“‏

سنگین غلطیاں

اگر آپ کوئی سنگین غلطی یا گُناہ کر بیٹھتے ہیں تو اس صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟‏ اینا * جسکی عمر ۱۹ سال ہے،‏ اُس سے ایسی ہی غلطی سرزد ہوئی تھی۔‏ وہ اس بات کا اقرار کرتی ہے،‏ ”‏مَیں نے کلیسیا،‏ اپنے خاندان اور بالخصوص یہوواہ کو مایوس کِیا۔‏“‏ واپس آنے کیلئے آپکو توبہ کرنے اور کلیسیا کے روحانی طور پر عمررسیدہ اشخاص سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اینا ایک بزرگ کے ان مفید الفاظ کو یاد کرتی ہے:‏ ”‏یہوواہ خدا داؤد بادشاہ کے اُن تمام بُرے کاموں کے باوجود جو اُس نے کئے،‏ اُسے معاف کرنے اور دوبارہ قبول کرنے کیلئے تیار تھا۔‏ اس سے مجھے بڑی مدد ملی۔‏“‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۹،‏ ۱۳؛‏ زبور ۳۲:‏۵‏)‏ آپ بھی روحانی طور پر مضبوط بننے کی بھرپور کوشش کر سکتے ہیں۔‏ اینا بیان کرتی ہے،‏ ”‏مَیں باربار زبور کی کتاب کو پڑھتی ہوں اور مَیں نے ایک ڈائری بنا رکھی ہے جس میں حوصلہ‌افزا آیات تحریر کرتی ہوں۔‏“‏ وقت آنے پر سنگین غلطی کا مرتکب شخص بھی واپس لوٹ سکتا ہے۔‏ امثال ۲۴:‏۱۶ بیان کرتی ہے:‏ ”‏صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن شریر بلا میں گِر کر پڑا ہی رہتا ہے۔‏“‏

ناکامی پر غالب آنا

بیشک چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی آپ کو دُکھ پہنچا سکتی ہیں۔‏ کیا چیز آپ کو ان پر غالب آنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏ پہلی بات تو یہ کہ اپنی غلطیوں کا حقیقت‌پسندی سے سامنا کریں۔‏ مائیکل اس بات کی سفارش کرتا ہے:‏ ”‏خود کو ایک ناکام شخص قرار دینے کی بجائے اس بات پر غور کریں کہ آپ کس چیز میں ناکام ہوئے ہیں اور اسکی کیا وجہ ہے۔‏ اسطرح آپ اگلی مرتبہ ایسا کرنے سے گریز کرینگے۔‏“‏

اس کے علاوہ،‏ اپنے احساسات کی بابت حد سے زیادہ فکرمند ہونے سے گریز کریں۔‏ ”‏ہنسنے کا ایک وقت ہے“‏ لہٰذا کبھی‌کبھار خود پر بھی ہنسیں!‏ (‏واعظ ۳:‏۴‏)‏ اگر آپ بےحوصلہ محسوس کر رہے ہیں تو اپنی توجہ دوسرے کاموں پر لگائیں۔‏ ”‏اچھے کاموں میں دولتمند“‏ بننا جیسےکہ دوسروں کو اپنے ایمان کی بابت بتانا آپکو اپنی بابت مثبت نظریہ قائم کرنے میں مدد دیگا۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۸‏۔‏

آخر میں،‏ یاد رکھیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ رحیم‌وکریم ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ وہ سدا جھڑکتا نہ رہیگا۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۸،‏ ۹‏)‏ جےسیکا کہتی ہے،‏ ”‏مَیں نے محسوس کِیا ہے کہ مَیں جتنا یہوواہ کے نزدیک جاتی ہوں،‏ اُتنا ہی زیادہ مَیں ہر صورت میں اُسے اپنا معاون اور مددگار پاتی ہوں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ یہ جاننا نہایت اطمینان‌بخش ہے کہ آپکی کمزوریوں کے باوجود،‏ آپکا آسمانی باپ آپکو پیار کرتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 23 نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ سے بہت زیادہ کا تقاضا کِیا جا رہا ہے تو اُن کیساتھ احترام سے بات کریں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

جو کام آپ اچھی طرح کر سکتے ہیں اُن پر زیادہ توجہ دینا ناکامی کے احساسات کو ختم کر سکتا ہے