ماؤں کی مشکلات
ماؤں کی مشکلات
”انسانوں کی بھلائی کیلئے انجام دئے جانے والے بنیادی کاموں کا تعلق گھریلو کاموں سے ہے۔ . . . اگر ماں اپنی ذمہداری پوری نہ کرے تو اگلی نسل ختم ہو جائے گی یا پھر اتنی بُری ہوگی کہ اُسکا نہ ہونا ہی بہتر ہوگا۔“—یہ بات امریکہ کے ۲۶ ویں صدر تھیوڈور روزولٹ نے کہی تھی۔
واقعی، ماں کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔ تاہم، اُسکا کام محض بچے پیدا کرنا ہی نہیں ہے۔ موجودہ دُنیا کے بیشتر علاقوں میں ماؤں کے کردار کے سلسلے میں ایک مصنف نے لکھا: ”بنیادی طور پر ماں ہی ہر بچے کی صحت، تعلیم، ذہانت، شخصیت، صلاحیت اور جذباتی پختگی کی ذمہدار ہے۔“
ایک ماں بہت سے کام کرتی ہے۔ ان میں سے ایک اپنے بچوں کو تعلیم دینا ہے۔ ایک بچہ اپنی ماں ہی سے بولنا سیکھتا ہے۔ اسلئے ایک بچے کی ابتدائی باتچیت کو اکثر اُسکی ماں کی یعنی مادری زبان کہا جاتا ہے۔ عام طور پر، ماں بچے کیساتھ اپنے شوہر کی نسبت زیادہ وقت گزارتی ہے۔ میکسیکو کی ایک ضربالمثل بیان کرتی ہے کہ ”تعلیم ماں کے دودھ میں شامل ہے۔“ اِس سے ماؤں کے کردار کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
ہمارا خالق، یہوواہ خدا بھی ماؤں کی عزت کرتا ہے۔ درحقیقت، پتھر کی لوحوں پر ”خدا کے ہاتھ“ سے لکھے گئے دس حکموں میں سے ایک حکم بچوں کو تاکید کرتا ہے: ”تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔“ (خروج ۲۰:۱۲؛ ۳۱:۱۸؛ استثنا ۹:۱۰) اسکے علاوہ، ایک بائبل مثل ”ماں کی تعلیم“ کا حوالہ دیتی ہے۔ (امثال ۱:۸) اب پوری دُنیا میں اس بات کو تسلیم کِیا جانے لگا ہے کہ پہلے تین سالوں کے دوران جب بچہ اپنی ماں کیساتھ ہوتا ہے تو بچوں کی تعلیم کیلئے یہ سال انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
بعض مشکلات کیا ہیں؟
بچوں کی شخصیت ابتدائی سالوں میں بنتی ہے۔ لیکن اس دوران بہت سی ماؤں پر اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ملازمت کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے
وہ بچوں کو ان سالوں میں تعلیم دینا مشکل پاتی ہیں۔ اقوامِمتحدہ کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سے ترقییافتہ ممالک میں تین سال سے کم عمر بچوں کی مائیں پچاس فیصد سے زیادہ ملازمت کرتی ہے۔علاوہازیں، جب خاوند دوسرے شہر یا دوسرے مُلک میں ملازمت کرتے ہیں تو اکثر بچوں کی پرورش کی ذمہداری ماؤں ہی کو اُٹھانی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک رپورٹ کے مطابق آرمینیا کے بعض علاقوں میں زیادہتر مرد ملازمت کی تلاش میں پردیس چلے جاتے ہیں۔ بعض مائیں تنہا اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں کیونکہ اُنکے شوہروں نے اُنہیں چھوڑ دیا ہے یا وہ بیوہ ہو گئی ہیں۔
بعض ممالک میں بیشتر ماؤں کی مشکل یہ ہے کہ انہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ اقوامِمتحدہ کے معاشی اور معاشرتی امور کے شعبے کے مطابق دُنیا کی ۸۷۶ ملین اَنپڑھ آبادی میں دو تہائی تعداد عورتوں کی ہے۔ درحقیقت، یونیسکو کے مطابق افریقہ، عرب ریاستوں اور مشرقی اور جنوبی ایشیا میں ۶۰ فیصد سے زیادہ عورتیں اَنپڑھ ہیں۔ اِسکے علاوہ، مردوں کی بڑی تعداد یہ یقین رکھتی ہے کہ عورتوں کو تعلیم دلانا غیرضروری ہے۔ اُنکے خیال میں تعلیم اُنہیں اولاد پیدا کرنے کے کردار کیلئے نااہل بنا دیتی ہے۔
ایک رسالہ بیان کرتا ہے کہ بھارت کی ریاست کیریلا کے ایک علاقے میں کوئی مرد تعلیمیافتہ عورت سے شادی نہیں کرتا۔ اِس علاقے میں لڑکیاں عام طور پر ۱۵ سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اُنکی پرورش اِسطرح کی جاتی ہے کہ وہ اچھی تنخواہوں والی ملازمتیں حاصل کرکے بڑھاپے میں اپنے والدین کی کفالت کرنے کے قابل ہوں۔ دوسری طرف، ایک کتاب ترقیپذیر ممالک میں عورتوں کی تعلیم کے متعلق بیان کرتی ہے، ”والدین اپنی بیٹیوں پر اِسلئے پیسہ خرچ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اُن سے خاندان کی مالی مدد کرنے کی توقع نہیں کرتے۔“
اِسکے علاوہ مقامی رسمورواج بھی ایک مسئلہ ہیں۔ مثال کے طور، بعض ممالک میں ایک ماں سے نوعمر بیٹیوں کو شادی کیلئے بیچنے اور عورتوں کے ختنے جیسی رسومات کی حمایت کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ بعض معاشروں میں ماؤں کو اپنے بیٹوں کو تعلیم دینے سے منع کِیا جاتا ہے۔ کیا ایک ماں کو ایسی رسومات کی پابندی کرنی چاہئے اور اپنے بیٹوں کی تعلیموتربیت کا معاملہ دوسروں کے رحموکرم پر چھوڑ دینا چاہئے؟
اگلے مضامین میں ہم دیکھیں گے کہ بعض مائیں ایسی مشکلات کا مقابلہ کیسے کرتی ہیں۔ ہم ماؤں اور اُنکے رُتبے کی بہتر سمجھ حاصل کرنے اور بچوں کی تعلیموتربیت کرنے والوں کے طور پر ایک متوازن نظریہ اپنانے کی بھی کوشش کریں گے۔
[صفحہ ۴ پر بکس/تصویر]
”جب بچے کے اندر ذہانت، تجسّس اور تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کی بات آتی ہے تو ماں کا کردار بہت ضروری ہے۔“—بچوں کے حقوق پر مقامی کانفرنس، برکینا فاسو، ۱۹۹۷۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
ماؤں کو ہر بچے کی صحت، تعلیم، شخصیت اور جذباتی پختگی کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے