مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بارش کا پانی جمع کرنے کے قدیم اور جدید طریقے

بارش کا پانی جمع کرنے کے قدیم اور جدید طریقے

بارش کا پانی جمع کرنے کے قدیم اور جدید طریقے

انڈیا سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

ہزاروں سال سے آبی چکر کے ذریعے بارش کے پانی کو دوبارہ قابلِ‌استعمال بنایا جا رہا ہے۔‏ آبی چکر کیا ہے؟‏ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔‏ اس عمل میں سورج کی حرارت کی وجہ سے زمین اور سمندر سے پانی بخارات بن کر اُوپر اُٹھتا ہے۔‏ یہ بخارات بادل بن کر بارش برساتے ہیں۔‏ اس طرح زمین پر ہر شخص کے لئے افراط سے پانی فراہم ہوتا ہے۔‏ تو پھر انسان کو پانی کی قلّت کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟‏ پانی سے متعلق ان مسائل کو کیسے حل کِیا جا سکتا ہے؟‏ آئیے ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے انڈیا میں پانی کی صورتحال پر غور کریں۔‏

انڈیا کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کے لئے آبی وسائل کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔‏ انڈیا کا پانی کہاں سے آتا ہے؟‏ موسمِ‌بہار میں انڈیا کے انتہائی شمال میں واقع کوہِ‌ہمالیہ پر برف کے تودے پگھلنے سے دریا پانی سے بھر جاتے ہیں۔‏ لیکن برصغیر کا زیادہ‌تر علاقہ مون‌سون کی بارشوں پر انحصار کرتا ہے۔‏ یہ بارشیں خشک زمین کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کنوؤں اور جھیلوں کو بھر دیتی ہیں۔‏ بل کھاتے دریا سارے مُلک میں بہنے لگتے ہیں۔‏ تاہم،‏ انڈیا میں مون‌سون کے بارے میں پیشینگوئی کرنا ممکن نہیں۔‏ ”‏سٹیلائٹ اور سپرکمپیوٹر کی ترقی“‏ کے باوجود مون‌سون کی بارشوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب برسے گی۔‏

عام طور پر،‏ مون‌سون کا موسم تین چار مہینوں تک رہتا ہے۔‏ اگرچہ زیادہ‌تر بارش وقفے وقفے سے ہوتی ہے توبھی یہ بونداباندی کی بجائے موسلادھار ہوتی ہے۔‏ اس سے ڈیم پانی سے بھر جاتے ہیں اور پانی چھوڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔‏ ڈیموں سے جب پانی دریاؤں میں پہنچتا ہے تو پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے سیلاب آ جاتے ہیں۔‏ درخت پانی کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‏ پانی درختوں کی جڑوں میں جذب ہو جاتا ہے اور بہاؤ میں کمی آ جاتی ہے۔‏ لیکن جدید صنعتوں اور شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر درخت کاٹے جا رہے ہیں۔‏ جنگلات کی کٹائی کے باعث پانی درختوں کی جڑوں میں جذب ہونے کی بجائے تیزی سے بہہ جاتا ہے۔‏ یہ تیز بہاؤ زمین کی اُوپر والی نرم مٹی کو بہا لے جاتا ہے اور زمین کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔‏ یہ مٹی جھیلوں اور تالابوں کی تہہ میں جم جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی گہرائی کم ہو جاتی ہے۔‏ نتیجتاً،‏ جھیلوں اور دریاؤں میں پانی کم جمع ہوتا ہے اور بارش کا زیادہ‌تر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔‏

آخرکار مون‌سون کا موسم ختم ہو جاتا ہے۔‏ سال کے باقی مہینوں میں ہر روز شدید گرمی پڑتی ہے اور تیز دھوپ کی وجہ سے جلد ہی زمین دوبارہ خشک ہو جاتی ہے۔‏ کھیتوں کی زمین سخت ہونے کی وجہ سے چٹخ جاتی ہے۔‏ تیزی سے بہنے والے دریا سوکھ جاتے ہیں اور ان کے کناروں پر ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔‏ آبشار نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔‏ کنوؤں کا پانی کم ہو جاتا ہے۔‏ بارش نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار کم ہو جاتی ہے۔‏ یہ صورتحال خوراک کی کمی کا باعث بنتی ہے۔‏ اس کی وجہ سے مویشی مر جاتے اور لوگ گاؤں سے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔‏ یوں شہروں میں پانی کے مسائل اَور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔‏

لیکن ایسی صورتحال ہمیشہ سے نہیں تھی۔‏ انڈیا میں پرانے وقتوں کے لوگ یہ بات سمجھتے تھے کہ پانی کے لئے مون‌سون کی بارشوں کے بعد سوکھ جانے والے دریاؤں اور جھیلوں پر انحصار نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ اس لئے اُنہوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بارش کا پانی جمع کرنا شروع کر دیا۔‏

آجکل پانی جمع کرنے کی ضرورت

ایک شخص سوچ سکتا ہے کہ انڈیا میں اتنی زیادہ جدید ٹیکنالوجی،‏ بڑے بڑے ڈیم،‏ بیراج اور آب‌پاشی کی نہریں ہونے کے باوجود پانی جمع کرنے کے قدیم طریقوں کی کیا ضرورت ہے۔‏ دراصل جب سے لوگوں کو اپنے گھر میں نل کے ذریعے پانی ملنے لگا ہے اُنہوں نے ان میں سے زیادہ‌تر طریقوں کو چھوڑ دیا ہے۔‏ تاہم ان طریقوں کی آج بھی ضرورت ہے۔‏ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‏ بیشتر لوگ کھیتی‌باڑی چھوڑ کر کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے لگے ہیں۔‏ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔‏ تاہم،‏ پچھلے پچاس سالوں سے پانی کے انتظام کے بڑے بڑے منصوبے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکے ہیں۔‏ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اتنا پانی دستیاب نہیں ہے کہ مُلک کی ضرورت کو پورا کِیا جا سکے۔‏

اب ماہرینِ‌ماحولیات اور دیگر متعلقہ حکام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پانی جمع کرنے کے لئے ہر شخص کو کوشش کرنی ہوگی۔‏ اس بات کی تحریک دی جا رہی ہے کہ بارش کا پانی گھروں،‏ کارخانوں اور سکولوں میں جمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔‏ انڈیا کے بہت سے شہروں اور ریاستوں میں اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ نئی عمارتوں کی تعمیر کرتے وقت پانی جمع کرنے کا بھی کوئی نہ کوئی انتظام ضرور ہونا چاہئے۔‏

بہت زیادہ بارش تو ایسے علاقوں میں ہوتی ہے جہاں بارش کا پانی جمع نہیں ہوتا بلکہ بخارات بن کر اُڑ جاتا یا سمندر میں چلا جاتا ہے۔‏ اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جہاں بارش ہوتی ہے وہیں اس کا پانی جمع کر لیا جائے۔‏ یہ کام ہر شخص کر سکتا ہے۔‏ ڈیموں اور نہروں سے حاصل ہونے والا پانی بہت مہنگا پڑتا ہے۔‏ اس سے غریب شخص پر اَور زیادہ مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔‏ لیکن اگر کوئی شخص اس طرح سے پانی جمع کرتا ہے تو اسے پانی بالکل مفت مل سکتا ہے!‏

پانی جمع کرنے میں پہل کرنا

انڈیا میں بہت سے لوگ اس سلسلے میں فکرمند ہیں کہ کس طرح پانی کا مسئلہ حل کِیا جائے۔‏ لہٰذا،‏ وہ پانی جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ بعض تو اس سلسلے میں عالمی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔‏ اُن میں سے ایک راجندر سنگھ ہے۔‏ اُسے سن ۲۰۰۱ میں معاشرے کی فلاح‌وبہبود کے سلسلے میں میگ‌سیسے ایوارڈ دیا گیا تھا۔‏ راجندر سنگھ اور اس کی قائم‌کردہ غیرسرکاری تنظیم کی کوششوں سے راجستھان کی ریاست میں آراواری نامی دریا پھر سے بہنے لگا ہے۔‏ انڈیا کی آبادی کا ۸ فیصد حصہ اس ریاست میں آباد ہے جبکہ اس کے آبی وسائل صرف ا فیصد ہیں۔‏ راجندر سنگھ کے گروپ نے ۱۵ سال کے عرصے میں درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ۵۰۰،‏۳ ٹینک بھی بنائے ہیں جنہیں جوہڑ کہا جاتا ہے۔‏ اس سے مقامی دیہاتیوں کو خوشحالی حاصل ہوئی ہے۔‏ اگرچہ پانی جمع کرنے کے سلسلے میں دیگر لوگوں نے بھی بہت کام کِیا لیکن ان کی بابت زیادہ لوگ نہیں جانتے۔‏ وہ پھربھی دوسروں کی مدد کرنے سے خوش ہیں۔‏

بارش کا پانی جمع کرنے سے شہر کے پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔‏ اس کے فوائد سے اب صنعت‌کار بھی واقف ہیں۔‏ جنوبی انڈیا میں بنگلور کے قریب ایک کارخانے میں چھت سے بارش کا پانی جمع کرنے کا ایک سادہ اور سستا طریقہ اپنایا گیا۔‏ بارش کا یہ پانی جو پہلے شاہراہوں پر بہہ جاتا تھا اب اسے ۰۰۰،‏۱۰ گیلن کی گنجائش والے ٹینکوں میں جمع کر لیا جاتا ہے۔‏ مون‌سون کے موسم میں ہر دن جمع ہونے والے ۳۰۰،‏۱ گیلن پانی کو صاف کِیا جاتا ہے جو برتن دھونے اور کارخانوں کی کینٹین کی صفائی‌ستھرائی کے کام آتا ہے۔‏ اس کام کے لئے سرکاری پانی استعمال نہیں کِیا جاتا۔‏

آپ شاید کہیں کہ یہ تو بہت ہی معمولی بات ہے۔‏ لیکن ذرا اس بات کا تصور کریں کہ آپ کا بینک اکاؤنٹ ہے جس میں آپ سال میں ایک بار پیسے جمع کراتے ہیں۔‏ آپ اپنی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے اکاؤنٹ سے کچھ پیسے نکلواتے رہتے ہیں۔‏ یہانتک کہ آپ اپنے سارے پیسے خرچ کرنے کے بعد بینک کے بھی مقروض ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ایک اچھی ملازمت کرنے سے آپ اپنی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اکاؤنٹ میں بھی پیسے جمع کرا سکیں گے۔‏ اب اس اصول کا اطلاق پانی جمع کرنے پر کریں۔‏ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔‏ اسی طرح اگر سب مل کر تھوڑا تھوڑا پانی جمع کریں تو آبی ذخائر لبریز ہو جائیں گے،‏ پانی کی سطح بلند ہو جائے گی اور جب بارش نہیں ہوگی تو یہ پانی استعمال کِیا جا سکے گا۔‏

مستقل حل

ہماری زمین کثرت سے انسانی ضروریات پوری کرتی رہی ہے۔‏ تاہم،‏ صدیوں سے لالچی اور بےعقل لوگوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔‏ لوگ اپنی مخلص کوششوں کے باوجود زمین کے ماحولیاتی مسائل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‏ تاہم،‏ زمین کے خالق کا یہ وعدہ تسلی فراہم کرتا ہے کہ ”‏زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ کِیا جائے“‏ گا۔‏ اس کے علاوہ ”‏بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلیں گی۔‏“‏ بِلاشُبہ ”‏سراب تالاب ہو جائے گا اور پیاسی زمین چشمہ بن جائے گی۔‏“‏ اُس وقت بارش کا پانی جمع کرنا کتنا تازگی‌بخش ہوگا!‏—‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸؛‏ یسعیاہ ۳۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس/‏تصویریں]‏

بارش کا پانی جمع کرنے کے قدیم طریقوں کو استعمال کرنا

چھت کا پانی:‏ ڈھلوانی چھتوں کے کناروں پر نالیاں بنائی جاتی ہیں جن سے گزر کر پانی پائپوں میں آ جاتا ہے اور وہاں سے گزر کر خاص طور پر تیارکردہ ڈرموں میں پہنچ جاتا ہے۔‏ پانی کو جالیوں کے ذریعے فلٹر کرنے کے بعد اسے ریت،‏ بجری اور کوئلے سے صاف بنایا جاتا ہے۔‏ اسکے بعد یہ پانی زمین کے نیچے بنائے گئے گڑھوں یا ٹینکیوں میں چلا جاتا ہے۔‏ ٹینکیاں اس قدر مضبوطی سے بند کر دی جاتی ہیں کہ ہوا،‏ دھوپ اور کیڑےمکوڑے اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔‏ اسکا گدلاپن دُور کرنے کیلئے اس میں پھٹکری گھمائی جاتی ہے۔‏ بلیچنگ پاؤڈر کے ذریعے جراثیموں کو ختم کِیا جاتا ہے۔‏ یہ طریقہ شہروں میں بہت عام ہے۔‏ یہ آسان اور سستا بھی ہے۔‏ اس پانی کو باغبانی،‏ غسل‌خانہ صاف کرنے اور کپڑے دھونے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ اس پانی کو مزید صاف کرنے سے پینے کے قابل بھی بنایا جا سکتا ہے۔‏

نولا:‏پانی کو روکنے کیلئے ندی کے کنارے پتھروں کی دیواریں بنائی جاتی ہیں۔‏ اسکے کناروں پر سایہ‌دار درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ پانی بخارات بن کر اُڑ نہ جائے۔‏ پانی کو صاف کرنے کیلئے جڑی بوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔‏

رسنے والی ٹینکیاں،‏ رپات:‏پتھریلی یا ریتلی زمین پر بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی ٹینکیاں بنائی جاتی ہیں۔‏ کچھ پانی استعمال کر لیا جاتا ہے جبکہ باقی پانی زیرِزمین کنوؤں میں پہنچ جاتا ہے اور بعد میں کنوؤں کے ذریعے حاصل کِیا جا سکتا ہے۔‏

بھنڈار:‏چشموں کا پانی جمع کرنے کیلئے زیرِزمین ٹینک بنائے گئے ہیں۔‏ یہ جمع‌شُدہ پانی شہروں میں استعمال کِیا جاتا ہے۔‏

قانات:‏پہاڑی علاقوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے سیدھے گڑھے بنائے جاتے ہیں جہاں سے یہ پانی زیرِزمین کنوؤں تک پہنچایا جاتا ہے۔‏

ملحق ٹینکیاں:‏ ایسی بڑی ٹینکیاں جن میں بارش کا پانی بھرنے کے بعد مختلف نالیوں کے ذریعے کئی چھوٹی ٹینکیوں میں پہنچایا جاتا ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏,‏‎]‏Pron: vishʹwȧnȧth‏[‎ Courtesy: S. Vishwanath

Rainwater Club, Bangalore, India

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر کا حوالہ]‏

UN/DPI Photo by Evan Schneider

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

UN/DPI Photo by Evan Schneider