مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ورزش—‏صحت کو برقرار رکھنے کیلئے لازمی

ورزش—‏صحت کو برقرار رکھنے کیلئے لازمی

ورزش‏—‏صحت کو برقرار رکھنے کیلئے لازمی

‏”‏کئی لوگ کہتے ہیں کہ تندرست اور توانا رہنے کیلئے ہفتے میں دو مرتبہ ورزش کرنا کافی ہے۔‏ دوسرے کہتے ہیں کہ روزانہ کم‌ازکم ۳۰ منٹ کیلئے ورزش کریں۔‏ کئی لوگ کہتے ہیں کہ شراب مت پئیں کیونکہ اس سے کینسر ہوتا ہے۔‏ دوسرے کہتے ہیں کہ شراب پئیں کیونکہ اس سے دل کی بیماری ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔‏ کیا آپ ایسی نصیحتیں سُن سُن کر تنگ آ گئے ہیں؟‏ سائنسدان تحقیقات کرکے ایک ہی چیز کو کبھی اچھا قرار دیتے ہیں اور کبھی بُرا۔‏ .‏ .‏ .‏ ایک لمحے وہ کہتے ہیں کہ کافی پینا صحت کیلئے نقصاندہ ہے اور اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ کافی صحت‌افزا شے ہے۔‏ آخر اُنکا نظریہ کیوں بدلتا رہتا ہے؟‏“‏—‏ڈاکٹر بابرا بریم،‏ ورزش پر تحقیق کرنے والی ایک پروفیسر۔‏

شعبہِ‌صحت کے ماہرین اکثر اس بات پر متفق نہیں کہ صحت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا فائدہ‌مند ہوتا ہے اور کیا نقصاندہ۔‏ جب اُنکے فرق فرق نظریے شائع ہوتے ہیں تو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اُنہیں صحتمند رہنے کیلئے کیا کرنا چاہئے۔‏ لیکن ایک بات پر تمام ماہرین متفق ہیں اور وہ یہ کہ اچھی صحت کیلئے باقاعدگی سے ورزش کرنا لازمی ہوتا ہے۔‏

خاص طور پر ترقی‌یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگ اپنا زیادہ‌تر وقت بیٹھتے ہوئے گزارتے ہیں جسکی وجہ سے اُنکی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‏ لیکن انہی ممالک میں پُرانے زمانے میں لوگ کھیتی‌باڑی جیسے پیشوں میں سخت محنت‌مشقت کرکے اپنی روزی کماتے تھے۔‏ اِس وجہ سے اکثر اُنکی صحت خراب ہو جاتی تھی اور وہ جلد موت کا شکار ہو جاتے تھے۔‏ ایک قاموس کے مطابق ”‏قدیم یونان اور روم میں عام طور پر لوگ ۲۸ سال کی عمر ہی میں مر جاتے تھے۔‏“‏ (‏انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا‏)‏ لیکن آجکل ترقی‌یافتہ ممالک میں لوگ عام طور پر تقریباً ۷۴ سال تک زندہ رہتے ہیں۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏

جدید ایجادات کا اثر

پُرانے زمانے کی نسبت ہمارے زمانے میں لوگوں کی صحت بہتر ہے اور وہ زیادہ عرصے تک زندہ بھی رہتے ہیں۔‏ سائنسدانوں نے طرح طرح کی چیزیں ایجاد کی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے رہن‌سہن کا طریقہ بالکل بدل گیا ہے۔‏ جن کاموں کیلئے ہمیں ماضی میں محنت‌مشقت کرنا پڑتی تھی یہی کام آج مشینیں کر رہی ہیں۔‏ اسکے علاوہ شعبہِ‌طب میں بھی بہت ترقی ہوئی ہے جسکی وجہ سے خطرناک بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے اور لوگ زیادہ تندرست ہیں۔‏ لیکن اس ترقی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔‏

جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سے لوگ چلنےپھرنے کے عادی نہیں رہے۔‏ امریکہ کا ایک ادارہ جو لوگوں میں دل کی بیماریوں کے بارے میں شعور بڑھانے کی کوشش کرتا ہے،‏ اس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا:‏ ”‏لوگوں کی زندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے دل کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر لوگوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے،‏ وہ گاؤں چھوڑ کر شہروں میں آباد ہو رہے ہیں اور کھیتی‌باڑی کرنے کی بجائے فیکٹریوں میں کام کرنے لگے ہیں۔‏“‏ اس رپورٹ کے مطابق دل کی بیماری لگنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ”‏لوگ چست نہیں رہے اور وہ زیادہ میٹھا اور چکناہٹ والا کھانا بھی کھانے لگے ہیں۔‏“‏

بہت سے ممالک میں آج سے ۵۰ سال پہلے زیادہ‌تر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچنے کیلئے سائیکل استعمال کرتے تھے،‏ روزی کمانے کیلئے دن‌بھر ہل چلاتے تھے اور رات تک کام‌کاج میں مصروف رہتے تھے۔‏ لیکن آج انہی لوگوں کے پوتے ہر چھوٹے موٹے کام کیلئے گاڑی استعمال کرتے ہیں،‏ دن کا بیشتر حصہ دفتر میں بیٹھے گزارتے ہیں اور شام کو آرام سے بیٹھ کر ٹیلی‌ویژن دیکھتے ہیں۔‏

ایک جائزے کے مطابق ماضی میں ملک سویڈن میں لکڑہارے دن‌بھر سخت مزدوری کرکے درختوں کو کاٹتے اور لکڑیاں چیرتے تھے۔‏ لیکن اب وہ یہی کام مشینوں کے ذریعے کرتے ہیں۔‏ اسی طرح پُرانے زمانے میں لوگ بیلچوں کے ذریعے سڑکیں بناتے اور اُنکی مرمت کرتے تھے۔‏ لیکن آج ترقی‌پذیر ممالک میں بھی یہ کام بڑی بڑی مشینوں سے کِیا جاتا ہے۔‏

ملک چین میں لوگ ایک جگہ سے دوسری تک پہنچنے کیلئے سائیکل استعمال کِیا کرتے تھے لیکن اب وہ سکوٹر کو استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔‏ امریکہ میں لوگوں کی اکثریت ہر کہیں پہنچنے کیلئے گاڑی ہی استعمال کرتی ہے چاہے منزل ایک میل دُور بھی نہ ہو۔‏

جدید ایجادات کی وجہ سے ایسے بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو کھیلنےکودنے کی بجائے اپنا زیادہ‌تر وقت بیٹھتے ہوئے گزارتے ہیں۔‏ ایک جائزے کے مطابق ”‏آجکل اتنے اتنے دلچسپ ویڈیو گیمز بنائے جا رہے ہیں کہ بچے دن‌بھر انہیں کھیلنے میں مگن رہتے ہیں۔‏“‏ اور یہی بات ٹیلی‌ویژن اور دوسری ایجادات کے بارے میں بھی سچ ہے۔‏

مٹاپے کے خطرات

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ آجکل لوگوں کو اپنا گزربسر چلانے کیلئے اتنی محنت‌مشقت نہیں کرنی پڑتی۔‏ لیکن اس وجہ سے طرح طرح کے مسئلے بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر برطانیہ کے ایک طبی ادارے کے مطابق ”‏ایسے بچے جو اپنا سارا وقت بیٹھے بیٹھے گزارتے ہیں وہ اکثر پریشانی،‏ ذہنی دباؤ اور احساسِ‌کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔‏ چست بچوں کی نسبت ایسے بچے سگریٹ‌نوشی اور منشیات لینے کے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ اسی طرح ایسے ملازم جنکو کام پر محنت‌مزدوری نہیں کرنی پڑتی وہ دوسروں کی نسبت بیماری کی وجہ سے زیادہ چھٹی کرتے ہیں۔‏ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ یہ لوگ زیادہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔‏ اپنے روزمرہ کے کام‌کاج کرنے کیلئے اُنکو دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اس حالت میں اُنکی ذہنی کیفیت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‏“‏

ملک کینیڈا میں ایک ادارہ لوگوں کی توانائی کو برقرار رکھنے کے بارے میں تحقیق کرتا ہے۔‏ اس ادارے کی صدر کا کہنا ہے کہ ”‏کام کرتے وقت کینیڈا کے باشندوں کو اب اتنی مشقت نہیں کرنی پڑتی جتنی اُنہیں پہلے کرنی پڑتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ عام طور پر یہاں کے لوگ مزدوری کرنے کے عادی ہی نہیں رہے۔‏“‏ ایک اخبار کے مطابق ”‏کینیڈا کی کُل آبادی میں سے ۴۸ فیصد لوگ موٹے ہیں۔‏ اس تعداد میں وہ ۱۵ فیصد لوگ بھی شامل ہیں جو شدید مٹاپے کا شکار ہیں۔‏“‏ اخبار میں یہ بھی لکھا تھا کہ کینیڈا کے بالغ باشندوں کی کُل تعداد میں سے ۵۹ فیصد اپنا بیشتر وقت بیٹھے گزارتے ہیں۔‏ فن‌لینڈ کی ایک یونیورسٹی کے ایک ڈاکٹر نے کہا:‏ ”‏ورزش کی کمی اور شدید مٹاپے کی وجہ سے دنیابھر میں قسم دوم کی ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‏“‏

ایک رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں ۳۵ سال سے زائد عمر والے لوگ جب موت کا شکار ہوتے ہیں تو اُن میں سے ۲۰ فیصد کی موت کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کم ہی چلتے پھرتے اور ورزش کِیا کرتے تھے۔‏ اس رپورٹ کو درج کرنے والے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ”‏ہانگ کانگ کے چینی باشندوں میں موت کا سب سے بڑا سبب سگریٹ‌نوشی نہیں بلکہ ورزش کی کمی ہے۔‏ اور مستقبل میں چین کے باقی علاقوں کے بارے میں بھی یہی بات سچ ثابت ہوگی۔‏“‏

کیا ورزش کی کمی ہماری صحت کے لئے واقعی سگریٹ‌نوشی سے زیادہ خطرناک ہے؟‏ جی‌ہاں۔‏ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ایسے لوگ جو محنت‌مشقت اور ورزش نہیں کرتے وہ دیگر جان‌لیوا بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں،‏ مثلاً ہائی بلڈپریشر،‏ فالج،‏ دل کے دورے،‏ کئی قسم کے کینسر،‏ ہڈیوں کا سکڑ جانا (‏آسٹیوپوروسس)‏ اور شدید مٹاپا۔‏ *

امریکہ کے ایک نامور اخبار کے مطابق:‏ ”‏دنیابھر میں اُن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو یا تو موٹے ہیں یا پھر شدید مٹاپے کا شکار ہیں۔‏ یہ ان ممالک کے بارے میں بھی سچ ہے جنکی زیادہ‌تر آبادی کو اچھی خوراک مہیا نہیں ہے۔‏ اسکا سبب وہی ہے جو امریکہ کے لوگوں میں شدید مٹاپے کا باعث ہے یعنی لوگ کھاتےپیتے زیادہ ہیں اور چلتےپھرتے کم۔‏“‏ (‏دی وال سٹریٹ جرنل‏)‏ سویڈن کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اس بات سے متفق ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏کوئی ایسا ملک نہیں جہاں شدید مٹاپے کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔‏“‏

ایک عالمی مسئلہ

ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی صحت اور توانائی کو برقرار رکھنے کیلئے باقاعدگی سے ورزش کرنا بہت ضروری ہے۔‏ لیکن زیادہ‌تر لوگ یہ جان کر بھی ورزش نہیں کرتے۔‏ ایک تنظیم جو ترقی‌پذیر ملکوں میں دل کی بیماریوں کو روکنے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے،‏ اسکا کہنا ہے کہ دنیا کی کُل آبادی میں سے ۶۰ تا ۸۵ فیصد لوگ ”‏صحت کو برقرار رکھنے کیلئے اتنی ورزش نہیں کرتے جتنی اُنہیں کرنی چاہئے۔‏ ان لوگوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔‏ اسکے علاوہ بچوں کی دو تہائی تعداد کی صحت ورزش نہ کرنے کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔‏“‏ امریکہ میں بالغوں کی کُل تعداد میں سے ۴۰ فیصد اپنا وقت بیٹھے ہی گزارتے ہیں اور نوجوانوں کی تقریباً آدھی تعداد باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتی۔‏

جب ۱۵ یورپی ممالک میں لوگوں کے رہن‌سہن کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کے زیادہ‌تر لوگ ورزش نہیں کرتے۔‏ مثلاً سویڈن کے ۴۳ فیصد اور پُرتگال کے ۸۷ فیصد لوگ ورزش نہیں کرتے۔‏ اسی طرح برازیل کے ایک بڑے شہر میں ۷۰ فیصد لوگ بہت کم چلتےپھرتے ہیں۔‏ عالمی ادارۂصحت کا کہنا ہے کہ ”‏دنیابھر میں جہاں کہیں لوگوں کی صحت کے جائزے لئے جاتے ہیں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ ہر سال ۲۰ لاکھ لوگ ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں جنکا سبب ورزش کی کمی ہی ہوتا ہے۔‏

دنیابھر کے ماہرینِ‌صحت ان جائزوں کے نتائج پر فکرمند ہیں۔‏ اسلئے بہت سی حکومتوں نے اپنے ملک میں لوگوں کو ورزش کرنے کے فائدوں سے آگاہ کرنے کیلئے پروگرام جاری کئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر آسٹریلیا،‏ جاپان اور امریکہ کی حکومتوں کی کوشش ہے کہ سن ۲۰۱۰ تک اُنکی عوام پہلے سے ۱۰ فیصد زیادہ وقت ورزش کرنے کیلئے صرف کرے۔‏ اور سکاٹ‌لینڈ کی حکومت کی کوشش ہے کہ سن ۲۰۲۰ تک وہاں کی کُل بالغ آبادی کے ۵۰ فیصد لوگ باقاعدگی سے ورزش کریں۔‏ عالمی ادارۂصحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ”‏قومی سطح پر ورزش کے پروگرام جاری کرنے والے دوسرے ممالک میکسیکو،‏ برازیل،‏ جمیکا،‏ نیوزی‌لینڈ،‏ فن‌لینڈ،‏ روس،‏ مراکش،‏ ویت‌نام،‏ جنوبی افریقہ اور سلووینیا ہیں۔‏“‏

ان تمام کوششوں کے باوجود ہمیں جان لینا چاہئے کہ صحت کا خیال رکھنا ہر شخص کی اپنی ذمہ‌داری ہوتی ہے۔‏ اسلئے خود سے ایسے سوال کریں:‏ ’‏مَیں دن میں کتنا چلتاپھرتا ہوں،‏ کیا یہ کافی ہے؟‏ کیا مَیں باقاعدگی سے ورزش کرتا ہوں؟‏ اور اگر نہیں توپھر مَیں ایسا کرنے کیلئے اپنی زندگی میں کونسی تبدیلیاں لا سکتا ہوں؟‏‘‏ اگلے مضمون میں اس بات کی وضاحت کی جائے گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 امریکہ میں جو ادارہ لوگوں کو دل کی بیماریوں کے خطروں سے آگاہ کرتا ہے اُسکی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ”‏ورزش کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو دل اور خون کی نالیوں کی بیماریاں لگنے کا دُگنا امکان ہوتا ہے۔‏ اسکے علاوہ دوسرے لوگوں کی نسبت اُن میں بلڈپریشر کے بڑھنے اور بلند رہنے (‏ہائپرٹینشن)‏ کا امکان بھی ۳۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس]‏

معاشرے پر بوجھ

جب لوگ کم چلنےپھرنے کی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں تو انکے علاج کا بوجھ معاشرے پر پڑتا ہے۔‏ اس سلسلے میں حکومتوں کے اخراجات کی چند مثالوں پر غور کریں:‏

آسٹریلیا کے سالانہ طبی اخراجات تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۷۰،‏۳۷ ڈالر ہیں۔‏

کینیڈا کو ایک سال کے دوران ۲ ارب ڈالر خرچ کرنے پڑے کیونکہ وہاں کے ”‏لوگ ورزش کرنے میں سُست ہیں۔‏“‏

امریکہ نے سن ۲۰۰۰ میں ورزش نہ کرنے والے لوگوں کا علاج کروانے کیلئے ۷۶ ارب ڈالر خرچ کئے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر بکس/‏تصویر]‏

بچوں کو کھیلنےکودنے کی ضرورت ہے

حال ہی میں ہونے والے جائزوں سے دریافت ہوا ہے کہ باقاعدگی سے کھیلنےکودنے والے بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‏ یہ خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں سچ ہے۔‏ بڑھتی ہوئی عمر کیساتھ بچے کم ورزش کرتے ہیں۔‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا اور کھیلناکودنا بچوں کیلئے اہم کیوں ہے۔‏ ایسا کرنے سے:‏

● جسم کے پٹھے،‏ جوڑ اور ہڈیاں مضبوط ہوتے ہیں

● وہ مٹاپے کا شکار نہیں ہوتے

● ہائی بلڈپریشر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے

● قسم دوم کی ذیابیطس لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے

● خوداعتمادی بڑھتی ہے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کا امکان کم ہوتا ہے

● وہ بالغ ہو کر بھی باقاعدگی سے ورزش کریں گے

‏[‏صفحہ ۲۲ پر بکس/‏تصویر]‏

بڑھتی ہوئی عمر میں ورزش کے فائدے

بڑھتی ہوئی عمر کیساتھ ساتھ مناسب حد تک ورزش کرنے کے فائدے بھی بڑھتے ہیں۔‏ اسکے باوجود بہت سے عمررسیدہ لوگ چوٹ لگنے یا بیمار پڑنے کے اندیشے کی وجہ سے ورزش نہیں کرتے۔‏ لیکن ڈاکٹر سے مشورہ لینے کے بعد اگر وہ باقاعدگی سے ورزش کرنے لگیں تو اُنہیں بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر:‏

● ذہن چست رہتا ہے

● پٹھے اکڑتے نہیں

● مزاج اچھا رہتا ہے

● بیماری یا چوٹ لگنے پر جلد آرام آتا ہے

● معدے اور کلیجے کی بیماریاں کم لگتی ہیں

● جسم کھانے کو اچھی طرح سے ہضم کرتا ہے

● بیماری لگنے کا امکان کم ہوتا ہے

● ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں

● توانائی برقرار رہتی ہے