ایک شانبان والی چیز روزمرّہ کی ضرورت بن گئی—صابن کی کہانی
ایک شانبان والی چیز روزمرّہ کی ضرورت بن گئی—صابن کی کہانی
بہت کم ایسی چیزیں ہیں جو صابن کی طرح مفید یا روزمرّہ استعمال میں آتی ہیں۔ بچپن سے لیکر بڑھاپے تک یہ ہماری روزمرّہ زندگی کا ایک حصہ ہے۔ چونکہ صابن کا آغاز خاصا پُرانا ہے، اسلئے یہ رفتہ رفتہ ایک شانبان والی چیز سے روزمرّہ کی ضرورت بن گیا۔
اُنیسویں صدی کے ایک کیمیادان نے بیان کِیا کہ کسی قوم کی دولت اور تہذیبوتمدن کا صحیح اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اُنہوں نے کتنا صابن استعمال کِیا ہے۔ آجکل اسے اچھی صحت اور صفائیستھرائی کا ضامن خیال کِیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صابن جیسی اہم چیز ہماری روزمرّہ زندگی کا حصہ کیسے بن گئی؟
قدیم زمانے میں
اس بات کا بہت کم ثبوت ملتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی سے پہلے لوگ ذاتی صفائیستھرائی کیلئے صابن استعمال کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ بائبل میں یرمیاہ نبی کی کتاب کے ۲ باب کی ۲۲ آیت بیان کرتی ہے: ”ہر چند تُو اپنے کو سجی سے دھوئے اور بہت سا صابون استعمال کرے۔“ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی نہ کسی صورت میں دستیاب یہ وہی صابن تھا جس سے آج ہم واقف ہیں یا پھر یہ کچھ اَور تھا۔ کیتھولک اُردو بائبل نبی کے الفاظ کو یوں بیان کرتی ہے: ”بہت سجی استعمال کرے۔“ یہ سجی ایک طرح کی کھار یا سوڈا ہے جو آجکل استعمال ہونے والے صابن سے بہت فرق تھا۔
یونانی اور بعدازاں رومی اپنے بدنوں کو صاف کرنے کیلئے خوشبودار تیل استعمال کرتے تھے۔ ممکن ہے اُنہوں نے قدیم گالی (کلٹی)قوم سے صابن بنانے کا فن سیکھا ہو۔ پہلی صدی کے رومی مصنف پلینی دی ایلڈر نے اپنی کتاب نیچرل ہسٹری میں قدیم فرانسیسی زبان کا لفظ سائیپو استعمال کِیا اور کہا جاتا ہے کہ اسی سے لفظ ”صابن“ نکلا ہے۔
اسکے بعد کے وقت میں صابن کے استعمال کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔ تاہم چھٹی صدی سے لیکر سولہویں صدی کے دوران اٹلی، اسپین اور فرانس میں صابن تیار کرنے کے مراکز قائم ہو گئے تھے۔ تاہم، بڑی مقدار میں صابن تیار کرنے کی کوششوں کے باوجود، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپ میں صابن کا استعمال بہت کم تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سن ۱۶۷۲ میں، جب شاہی خاندان کی ایک خاتون کو اُسکے ایک جرمن خیرخواہ نے اٹلی کے بنے ہوئے صابن کا پیکٹ بھیجا تو اسکے ساتھ ہی اس عجیب چیز کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی ارسال کِیا!
ابتدائی دَور میں صابنسازی
صابن بنانے کی مفصل ترکیب سب سے پہلے ۱۲ ویں صدی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں شائع ہوئی جس میں کاریگروں کیلئے کاروباری راز بیان کئے گئے تھے۔ ان تمام سالوں کے دوران اسکی تیاری کیلئے کیمیاوی عمل میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے تیل اور چربی کو کاسٹک سوڈے کے محلول کیساتھ اُبال کر خام صابن تیار کِیا جاتا تھا۔ یہ عمل صابنسازی کہلاتا ہے۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ صابن کی کوالٹی کا انحصار اسکی تیاری کیلئے استعمال کی جانے والی چیزوں پر ہوتا تھا۔ شروع شروع میں، صابنسازی کیلئے لکڑی کی راکھ اور جانوروں کی چربی استعمال کی جاتی تھی۔ ان اجزا کیساتھ ریاستہائےمتحدہ میں نئے آباد ہونے والے لوگوں نے روزمرّہ استعمال کیلئے بھورے رنگ کا جیلینما نرم صابن تیار کرنا شروع کر دیا۔ اُس وقت صابن اور مومبتیاں بنانے کیلئے استعمال ہونے والی اہم چیز گائے اور بھیڑوں سے حاصل ہونے والی چربی تھی۔ پس تاجر اکثر
ان دونوں چیزوں کو بناتے اور فروخت کرتے تھے۔ صابن تیار کرنے کے عمل کے آخر میں اس میں نمک ملا دینے سے وہ صابن کے قدرے سخت ٹکڑے بنانے کے قابل ہوئے جنہیں آسانی سے ایک سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ صابن کو خوشبودار بنانے کیلئے اس میں مختلف جڑیبوٹیاں، سدا بہار کے پھول یا سیاہزیرہ شامل کِیا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ جنوبی یورپ میں تیار ہونے والے صابن میں زیتون کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ سرد ممالک میں صابن بنانے والے گائے اور بھیڑ کی چربی ہی استعمال کرتے رہے۔ بعض نے تو مچھلی کا تیل بھی استعمال کِیا۔ جہاں تک دھلائی کا تعلق ہے تو اسکے لئے یہ صابن نہایت موزوں تھا لیکن نہانے کیلئے اسے پسند نہیں کِیا جاتا تھا! تاہم، چربی اور تیل ہمیشہ سے صابن تیار کرنے کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
دستکاری سے صنعتکاری تک
کئی صدیوں تک صابن تیار کرنے کیلئے درکار الکلی مختلف پودوں کی راکھ سے تیار کی جاتی تھی جن میں سمندری پودے بھی شامل تھے۔ سپین میں صابونی بوٹی کو جلا کر الکلی راکھ تیار کی جاتی تھی جسے باریلا کہتے تھے۔ اسے مقامی طور پر تیار کئے جانے والے زیتون کے تیل کیساتھ ملا کر اعلیٰ درجے کا سفید صابن تیار کِیا جانے لگا جسے قشتالی صابن کا نام دیا گیا کیونکہ اسکی ابتدا سپین کے شہر قشتالیہ سے ہوئی تھی۔
اٹھارویں صدی میں بینالاقوامی سطح پر صابن، شیشہ اور بارود کی صنعت میں استعمال کیلئے پوٹاش کی مانگ بڑھ گئی۔ * سن ۱۷۹۰ میں، ایک فرانسیسی سرجن اور کیمیادان نے ایک ایسا عمل دریافت کِیا جسکے ذریعے عام نمک سے بھی الکلی تیار کی جا سکتی ہے۔ بعدازاں، کیمیادان کھارے پانی یا نمکین محلول سے بھی کاسٹک سوڈا تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایسی ترقیوں نے صابنسازی کی صنعت کو بہت ترقی بخشی۔
صابن کا شہرت حاصل کرنا
اُنیسویں صدی کے آخر میں، لوگوں کو صحت اور صفائیستھرائی کی بابت تعلیم دینے کے سلسلے میں کافی بہتری واقع ہوئی۔ تاہم، اُس وقت تیار کِیا جانے والا صابن زیادہ پسند نہیں کِیا جاتا تھا کیونکہ ابھی تک یہ بھورے رنگ کا ایسا مادہ تھا جس میں موجود خام الکلی کی وجہ سے جسم پر خارش ہونے لگتی تھی۔ ابھی تک صابن غیرماہرانہ طریقوں سے لوہے کے بڑے بڑے برتنوں میں اُبال کر ہاتھوں سے تیار کِیا جاتا تھا۔ یہ لوگوں کے پاس بغیر کسی نام کے لمبے لمبے ٹکڑوں کی شکل میں پہنچتا تھا جسے دُکاندار کاٹ کر وزن کے حساب سے بیچتے تھے۔
بعض صابن جھاگ تو بہت بناتے تھے مگر ان میں چکناہٹ زیادہ ہوتی تھی جس سے ہاتھ چکنے ہو جاتے تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ صابن خراب ہو جاتا تھا اور اس میں سے بدبُو آنے لگتی تھی۔ صابنسازوں نے لوگوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیشِنظر، شدید بدبُو ختم کرنے کیلئے اسکی تیاری میں سٹرونیلا تیل شامل کرنا شروع کر دیا۔
اس میں مزید ترقی ابھی باقی تھی۔ جلد ہی سبزیوں کے تیل سے تیار کئے جانے والے صابن زیادہ مقبول ہونے لگے۔ ذرائع آمدورفت میں ترقی نے صابنسازوں کیلئے اعلیٰ کوالٹی کی چیزیں حاصل کرنا اور انہیں استعمال کرنا ممکن بنا دیا۔ مغربی افریقہ تاڑ کے
درختوں کیلئے بہت مشہور ہے، لہٰذا اس درخت کے پھل سے ایک شوخ رنگ کا روغن یا تیل نکالا جاتا تھا۔ جلد ہی یہ محلول صابن بنانے اور دیگر کاسمیٹکس کی تیاری میں ایک اہم کردار ادا کرنے لگا۔ بحراُلکاہل کے جزائر سے کھوپرا یعنی خشک ناریل حاصل کِیا جانے لگا جس سے ناریل کا تیل نکالا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک سے حاصل ہونے والی ان مختلف چیزوں کی بدولت صابن کی تیاری میں بہتری آنے لگی اور اسکی مقبولیت بڑھنے لگی۔صنعتکار صفائیستھرائی کی اہمیت سمجھنے لگے۔ صارفین کو یہ یقین دلایا گیا کہ صابن کا استعمال بہت ضروری ہے۔ اشتہاربازی کے ذریعے صابن کو شہد، سورج کے اُجالے اور برف جیسی چیزوں سے تشبیہ دی جانے لگی۔ دیگر نے اپنی اشتہاری صنعت کو ترقی دینے اور صابن کو صفائیستھرائی اور ترقی کا راز ثابت کرنے کیلئے فوٹوگرافی کا سہارا لیا۔ اسکے نتیجے میں سن ۱۹۰۰ میں صابن پوری دُنیا میں فروخت ہونے لگا۔ اس نے اشتہاربازی کی صنعت کو بھی ترقی بخشی۔ حتیٰکہ ۱۸۹۴ میں، نیوزی لینڈ کی ٹکٹوں پر بھی صابن کی فروخت میں اضافہ کرنے والے الفاظ لکھے گئے۔ اب تو صابن کو کافی شہرت حاصل ہو گئی تھی۔
جدید صنعت
شروع شروع میں اسکی صنعتی تیاری میں مختلف اجزا کو لوہے کے بڑے بڑے برتنوں میں اُبالا جاتا تھا۔ ایک ماہر کاریگر اس عمل کی نگرانی کرتا تھا۔ جب صابن گرم کرنڈی سے پھسلتا تو اس سے کاریگر کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ آیا اسکے اجزا یا عمل میں کچھ تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
آجکل صابنسازی عام طور پر تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا، صابنسازی کہلاتا ہے۔ اس عمل میں چربی والے مادوں میں الکلی کی آمیزش سے ۳۰ فیصد پانی والے مرکب میں خالص صابن اور گلیسرول تیار کِیا جاتا ہے۔ بعضاوقات، اس مرحلے میں ابھی تک تمام اجزا کو لوہے کے بڑے برتنوں میں اُبالا جاتا ہے لیکن آجکل زیادہتر صابن تیار کرنے والے صابنسازی کے کمپیوٹرائزڈ نظام استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ خشک کرنے کا ہے، جس میں ایک مشین کے ذریعے صابن کو حرارت، ہوا یا اسپرے کی مدد سے خشک کرکے چھوٹی چھوٹی گولیوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جن میں صرف ۱۲ فیصد پانی ہوتا ہے۔ تیسرا اور آخری مرحلہ تیاری کی تکمیل کا ہے۔ صابن کی چھوٹی گولیوں میں خوشبو، رنگ اور دیگر ایسی چیزیں شامل کی جاتی ہیں جو صابن کو خاص خوشبو دیتی ہیں۔ دباؤ مشین کے ذریعے صابن کے لمبے ٹکڑوں کو مخصوص شکل دی جاتی ہے۔ آجکل صارفین چاہتے ہیں کہ گھر میں استعمال کئے جانے والے صابن سے پھلوں اور جڑیبوٹیوں کی خوشبو آئے جو صابن کے استعمال کو نہ صرف ”قدرتی“ بلکہ توانائیبخش عمل بھی بناتی ہے!
صفائی کیلئے کیمیائی مادوں یا ترکیبی مرکبات کے استعمال کو سمجھنے کیلئے بہت سی ترقیاں عمل میں آئی ہیں۔ اسکے علاوہ اُنکی تیاری میں مختلف تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود، روایتی صابن کی مقبولیت اپنی جگہ قائم ہے۔ شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرے کہ اچھی صحت اور صفائیستھرائی کیلئے صابن بہت ضروری ہے۔ توبھی، یہ بات بڑی عجیب ہے کہ اخلاقی اور روحانی گندگی کے اس دَور میں، جسمانی صفائی پر پہلے کی نسبت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ تاہم، ظاہری صفائی اُس وقت زیادہ بااثر ہوتی ہے جب یہ ہمارے صافستھرے باطن کو ظاہر کرتی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 پوٹاش وہ مادہ ہے جو الکلی کے محلول یا سجی کو پانی خشک ہونے تک اُبالنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اسکے بعد پوٹاش کو اُس وقت تک پکایا جاتا ہے جبتک اس میں پائی جانے والی تمام گندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ اس سے ٹھوس سفید مادہ حاصل ہوتا ہے جوکہ پوٹاشیم کاربونیٹ کہلاتا ہے اور صابن، شیشے جیسی چیزوں کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
شمالی امریکہ میں ابتدائی صابنسازی
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
مختلف اجزا کو لوہے کے بڑے بڑے برتنوں میں اُبال کر صابن تیار کرنے کا روایتی عمل
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
سر جان ای. ملایز کی تصویر ”جھاگ کے بلبلوں“ کو صابن کی مشہوری کیلئے استعمال کِیا گیا
[صفحہ ۱۲ پر تصویروں کے حوالہجات]
:Top: Victoria & Albert Museum, London/Art Resource, NY; bottom
Jeff Greenberg/Index Stock Imagery ©