دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
خواب میں مسئلوں کا حل
لندن کے ایک اخبار کے مطابق ”بہتیرے لوگوں نے یہ تجربہ کِیا ہے کہ جب وہ ایک مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں ناکام ہو کر سو جاتے ہیں تو صبح کو جاگنے کے بعد اُن کو اِس مسئلے کو حل کرنا آسان لگتا ہے۔ بظاہر، جب ہم نیند کے عالم میں ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ مسئلوں کا حل ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے۔“ اب جرمنی میں سائنسدانوں کو ثبوت ملا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے ۶۶ اشخاص کو ایک مشکل حسابی مسئلہ پیش کِیا۔ پھر سائنسدانوں نے ان لوگوں کو اس مسئلے کو حل کرنے کے دو طریقے بتائے لیکن ایک تیسرا، سب سے آسان طریقہ نہیں بتایا۔ اس کے بعد اُن لوگوں میں سے بعض کو مسئلہ حل کرنے سے پہلے سونے کی اجازت دی گئی جبکہ دوسروں کو رات بھر جاگتے رہنا پڑا۔ ایک رپورٹ میں اس تجربے کے نتیجے کے بارے میں یوں بتایا گیا ہے: ”جاگنے والے گروہ کی نسبت نیند بھرنے والے گروہ میں سے دو گُنا زیادہ افراد نے مسئلے کو حل کرنے کے آسان طریقے کو دریافت کر لیا۔“ کیا نیند بھرنے والا گروہ مسئلے کو حل کرنے میں محض اس لئے زیادہ کامیاب رہا کیونکہ اس کے افراد تازہ دم تھے؟ اس کا جواب دینے کے لئے سائنسدانوں نے ایک اَور تجربہ کِیا۔ دونوں گروہوں کو صبحسویرے نیند بھر کر سونے کے بعد ایک حسابی مسئلہ حل کرنے کو کہا گیا۔ پھر اُن کو پورا دن جاگتے رہنے کے بعد بھی ایک ایسے مسئلے کو حل کرنا پڑا۔ لیکن اس تجربے میں دونوں گروہوں کی کامیابی میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔ اخبار کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”نیند بھر کر سونے کے بعد ہمیں ایک مسئلہ حل کرنا پہلے سے زیادہ آسان لگتا ہے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم محض تازہ دم ہو گئے ہیں بلکہ یہ کہ دماغ نیند کے دوران کام کرتا رہتا ہے۔“ ایک سائنسدان اِس تحقیق کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے: ”سوتے وقت بھی ہمارا ذہن سیکھتا رہتا ہے۔“
بچوں میں مالودولت کا جنون
بوسٹن کالج کی ایک سائنسدان، پروفیسر شور بیان کرتی ہیں کہ ”پہلے زمانے کی نسبت آج کے بچے اور نوجوان نتنئی اور فیشنایبل چیزیں حاصل کرنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔“ وہ آگے بیان کرتی ہیں: ”بچے بننےسنورنے اور بہترین کپڑے پہننے میں حد سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اُن کو شہرت اور دولت حاصل کرنے کا جنون ہے۔ وہ ٹیوی دیکھنے، ویڈیو گیمز کھیلنے اور انٹرنیٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔“ پروفیسر شور نے یہ بھی دریافت کِیا ہے کہ ایسے بچے جنہیں نتنئی چیزیں خریدنے کا جنون ہے، وہ دولتمند بننے کا خواب تو دیکھتے ہیں ”لیکن جب وہ ٹیوی اور اشتہارات پر دکھائی جانے والی دُنیا کا اپنی زندگی سے مقابلہ کرتے ہیں تو وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔“ اس کے برعکس ایسے بچے جو مالودولت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں، اُن میں سے کم ہی افسردگی اور ذہنی بیماریوں کا شکار بنتے ہیں۔ دوسروں کی نسبت وہ خود پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں اور وہ اپنے والدین کے زیادہ قریب بھی ہوتے ہیں۔
”مجھے جوا کھیلنے سے روکیں!“
ایک فرانسیسی اخبار میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”ایک اندازے کے مطابق فرانس میں ۳ تا ۵ لاکھ لوگ جؤا کھیلنے کے پھندے میں پھنس گئے ہیں۔“ تاہم، بہت سے جواری اپنی عادت کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اخبار میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ فرانس میں ۰۰۰،۲۸ لوگوں نے اپنی مرضی سے پولیس سے درخواست کی ہے کہ اُنہیں جؤاخانوں میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ اُنہوں نے اپنے آپ پر یہ پابندی کم سے کم پانچ سال کے عرصے کیلئے لگائی ہے۔ فرانس میں ہر سال ۰۰۰،۲ تا ۰۰۰،۳ لوگ پولیس سے ایسی درخواست کرتے ہیں۔ دس سال کے اندر اندر خود پر ایسی پابندی لگانے والوں کی تعداد میں ۶ گُنا اضافہ ہوا ہے۔ بہتیرے جواری چاہتے ہیں کہ جؤا کھیلنے کو ”سگریٹ، شراب اور منشیات کی طرح خطرناک قرار دیا جائے۔“
ادرک سے صبح کی متلی کا علاج
آسٹریلیا کے ایک اخبار کے مطابق ”عورتیں جنکو حمل کے ابتدائی مہینوں کے دوران صبح کے وقت قے آتی ہے، انہیں ادرک کھانے سے آرام آ سکتا ہے۔“ تحقیق نے ظاہر کِیا ہے کہ صبح کی متلی کو دُور کرنے کیلئے روزانہ ایک گرام ادرک کھانا کافی ہے۔ دُنیا کے بہت سے علاقوں میں اس مرض کا علاج ادرک سے کِیا جاتا ہے۔ لیکن ادرک کی اس خوبی کیلئے اب تک سائنسی ثبوت موجود نہیں تھا۔ جبکہ صبح کی متلی کا علاج اکثر وِٹامن بی-۶ سے کِیا جاتا ہے لیکن اِس نئی تحقیق سے دریافت ہوا ہے کہ ادرک کا اثر اِسکے بالکل برابر ہے۔
خون لینے کے خطرات
ایک امریکی طبّی ادارے کے شائعکردہ جریدے کے مطابق دل کی ایک خاص بیماری کے مریضوں کو عام طور پر خون دیا جاتا ہے۔ لیکن جب اُنکی حالت کا مقابلہ ایسے مریضوں سے کِیا گیا جنہیں کوئی خون نہیں دیا گیا تو یہ دریافت ہوا کہ خون لینے والوں میں سے نسبتاً زیادہ لوگ مر گئے۔ ”مریضوں کی عمر اور اُنکی دیگر بیماریوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی اس عددوشمار سے خون لینے کے خطرات ظاہر ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹروں نے اس تحقیق کا خلاصہ یوں بیان کِیا: ”اگر دل کے مریض کی حالت نہیں بگڑ رہی ہے تو اُسے خون نہ دیا جائے۔“
اینگلیکن چرچ میں اختلاف
آسٹریلیا میں اینگلیکن چرچ کا ایک راہنما، فلپ جینسن نے حال ہی میں اپنے چرچ کے صدر پر سنجیدہ الزامات لگائے۔ اُنہوں نے کنٹربری کے آرچبشپ کو ”ایک مذہبی فاحشہ“ کا لقب دیا اور کہا کہ وہ ”اپنا عہدہ رکھنے کے مستحق نہیں ہیں۔“ جینسن نے ایسے سخت الفاظ کیوں استعمال کئے؟ اُنکو اس بات پر اعتراض ہے کہ آرچبشپ ہمجنسپرستی کو غلط قرار نہیں دیتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار کے مطابق ”اینگلیکن چرچ میں ہمجنسپرستی کے سوال پر سخت اختلاف ہے۔ اس چرچ کے بعض افریقی اور ایشیائی فرقوں نے کینیڈا کے اینگلیکن چرچ سے قطعتعلق کر لیا ہے کیونکہ اس میں ہمجنسپرستوں کو شادی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ امریکہ کے اینگلیکن چرچ کیساتھ اُنکے تعلقات بھی ختم ہو گئے ہیں کیونکہ اس چرچ نے ایک ہمجنسپرست شخص کو بشپ کے عہدے پر فائز کِیا ہے۔“
ایک ارب بچے کٹھن حالات کا شکار
یونیسیف (اقوامِمتحدہ کا ایک اِدارہ جو بچوں کی امداد کرتا ہے) کے مطابق آجکل ایک ارب بچے بہت کٹھن حالات کا شکار ہیں۔ ایک امریکی اخبار کے مطابق یہ دُنیابھر کے بچوں کی آدھی تعداد ہے۔ اِسکی چند وجوہات جنگیں، ایڈز کی بیماری اور سخت غربت ہیں۔ سن ۱۹۹۰ سے لیکر آج تک ۳۶ لاکھ لوگوں نے جنگوں میں اپنی جان کھو بیٹھی ہے۔ اس تعداد میں سے تقریباً ۵۰ فیصد بچے تھے۔ اس عرصے کے دوران ہونے والی جنگوں میں بچوں کو اغوا کِیا گیا، اُنکے ساتھ جنسی تشدد کِیا گیا یا اُنہیں سپاہی بنایا گیا۔ دُنیا کے بہت سے ممالک میں اچھی غذا دستیاب نہیں ہے اور بعض علاقوں میں طبّی علاج کا انتظام نہیں کِیا جاتا۔ سن ۲۰۰۳ تک ڈیڑھ کروڑ بچے ایڈز کی وجہ سے یتیم ہو گئے تھے۔ بیس لاکھ سے زائد بچوں کو جسمفروشی کے پیشے میں لگا دیا گیا ہے۔ اخبار میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ ہر سال ۹۵۶ ارب ڈالر اسلحہ پر خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ اگر قومیں محض ۴۰ تا ۷۰ ارب ڈالر کا خرچہ اُٹھانے کو تیار ہوتیں تو غربت کو بالکل ختم کِیا جا سکتا۔