مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قدرتی آفتوں میں انسان کا ہاتھ

قدرتی آفتوں میں انسان کا ہاتھ

قدرتی آفتوں میں انسان کا ہاتھ

جب گیس یا مٹی کے تیل کے چُولھے کو باقاعدگی سے صاف نہیں کِیا جاتا ہے تو وہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اور یہی بات ہماری زمین کے بارے میں بھی سچ ہے۔‏

انسان کی کارروائیوں کی وجہ سے فضا اور سمندر آلودہ ہو رہے ہیں۔‏ کئی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے قدرتی آفتوں کی تعداد اور شدت میں اس حد تک اضافہ ہو رہا ہے کہ زمین ایک بہت خطرناک جگہ بن گئی ہے۔‏ موسم میں تبدیلیوں کے سلسلے میں ایک سائنسی رسالے میں یوں لکھا تھا:‏ ”‏ہماری ایک ہی تو زمین ہے جسکو ہم نے ایک تجربہ‌گاہ بنا رکھا ہے۔‏ نہ جانے اسکا کیا انجام نکلے گا؟‏“‏

لیکن انسان کی کارروائیاں آفتوں کی تعداد اور شدت پر کیسے اثر کرتی ہیں؟‏ اسے جاننے کیلئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا پڑے گا کہ طوفان،‏ زلزلے وغیرہ کیسے وجود میں آتے ہیں۔‏ آئیے ہم اِس پر غور کرتے ہیں۔‏

طوفانوں کی شدت میں اضافہ

زمین پر خطِ‌استوا کے آس‌پاس کے علاقوں میں سورج کی کرنیں سیدھی پڑتی ہیں۔‏ اس وجہ سے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں ہمیشہ بہت گرمی رہتی ہے۔‏ * یہاں کی گرم ہوا سرد علاقوں کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔‏ لیکن زمین کی گردش کی وجہ سے یہ بڑے بڑے بگولوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔‏ اور کبھی‌کبھار یہ بگولے خطرناک طوفان بن کر زمین پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‏

ہوا کے یہ بڑے بڑے بگولے عموماً خطِ‌استوا کے آس‌پاس جنم لیتے ہیں اور وہاں سے زمین کے شمالی اور جنوبی سرد علاقوں کی طرف بڑھتے ہیں۔‏ اسطرح گرم اور سرد ہوا کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے اور زمین پر گرمی اور سردی ایک حد تک توازن میں رہتی ہے۔‏ لیکن جب سمندر کی سطح کا پانی ۲۷ ڈگری سینٹی‌گریڈ سے زیادہ گرم ہو جاتا ہے تو ہوا کے بگولے زوردار طوفانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔‏

امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ جانی نقصان لانے والا طوفان ستمبر ۸،‏ ۱۹۰۰ میں آیا تھا۔‏ اس روز طوفانی لہروں نے ٹیکساس کے ایک جزیرے پر واقع ایک شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔‏ طوفان میں اُس شہر کے ۰۰۰،‏۶ تا ۰۰۰،‏۸ باشندے اپنی جان کھو بیٹھے جبکہ آس‌پاس کے علاقوں میں تقریباً ۰۰۰،‏۴ لوگ ہلاک ہو گئے۔‏ اُس شہر کی ایک ایک عمارت کو کسی نہ کسی حد تک نقصان پہنچا اور ۶۰۰،‏۳ گھر بالکل تباہ ہو گئے۔‏

جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا ہے،‏ ایک سال میں ہونے والے زوردار طوفانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔‏ اسکے ساتھ ساتھ زمین کا اوسط درجۂ‌حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔‏ سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ان دونوں باتوں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔‏ البتہ بڑھتے ہوئے درجۂ‌حرارت سے صرف طوفانوں کی شدت پر ہی اثر نہیں پڑتا۔‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اسکی وجہ سے زمین پر اَور کونسی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔‏

ماحول پر انسانی کارروائیوں کا اثر

ایک سائنسی رسالے کے مطابق ”‏پچھلے سو سال میں سمندر کی سطح ۱۰ تا ۲۰ سینٹی‌میٹر [‏۴ تا ۸ اِنچ]‏ چڑھ گئی ہے اور یہ لگاتار چڑھتی جا رہی ہے۔‏“‏ سائنسدانوں کے خیال میں اسکی وجہ یہ ہے کہ زمین کا اوسط درجۂ‌حرارت بڑھ رہا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اسلئے زمین کے برفانی تودوں اور جنوبی اور شمالی قُطبی علاقوں کی برف پگھلنے لگی ہے۔‏ لہٰذا سمندر میں پانی کی مقدار بھی بڑھنے لگی ہے۔‏ اسکے علاوہ سمندر کا پانی پہلے سے زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے اور ٹھنڈے پانی کی نسبت گرم پانی زیادہ پھیلتا ہے۔‏

سمندر کی سطح کے چڑھنے کی ایک مثال بحرالکاہل میں ٹووالو کے جزیروں میں سے ایک جزیرے کی ہے۔‏ اسکے بارے میں ایک سائنسی رسالے میں یوں لکھا تھا:‏ ”‏یہاں پچھلے ۱۰ سال سے سمندر کی سطح ہر سال تقریباً ۶ ملی‌میٹر چڑھتی ہے۔‏“‏

دُنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اس وجہ سے بہت سے ملکوں میں شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں اور جگہ جگہ لوگ جھونپڑیوں اور کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہوا،‏ پانی اور فضا کی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‏ یہ تمام باتیں قدرتی آفتوں کی شدت پر اثر کرتی ہیں۔‏ اسکی چند مثالوں پر غور کریں۔‏

ملک ہیٹی کی آبادی بہت زیادہ ہے۔‏ اسکے علاوہ اس ملک میں بہت بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی ہے۔‏ حال ہی میں خبروں میں کہا گیا تھا کہ ہیٹی کے مالی،‏ سیاسی اور سماجی حالات اچھے نہیں ہیں۔‏ لیکن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر کم ہی درخت باقی بچے ہیں۔‏ یہ حقیقت ہیٹی کو سن ۲۰۰۴ میں بڑی مہنگی پڑی۔‏ اس سال شدید بارشیں ہوئیں۔‏ پانی مٹی سے مِل کر کیچڑ کی لہروں کی شکل اختیار کر گیا،‏ جنکے تلے ہزاروں لوگ زندہ دفنائے گئے۔‏

ایک رسالے میں جنوبی ایشیا میں آنے والی آفتوں کی شدت میں اضافہ کی وجہ یوں بتائی گئی ہے:‏ ”‏زمین کا اوسط درجۂ‌حرارت بڑھ رہا ہے،‏ جگہ جگہ بند بنائے جا رہے ہیں اور درختوں کی بےروک‌ٹوک کٹائی ہو رہی ہے۔‏ اسکے علاوہ لوگ جنگلات کو جلا کر کھیتی‌باڑی کرنے کیلئے زمین صاف کرتے ہیں۔‏“‏ عام طور پر درختوں کی وجہ سے زمین تر رہتی ہے اور اگر آگ لگ بھی جائے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا۔‏ لیکن جب ایک علاقے میں بہت دیر تک بارش نہیں ہوتی اور وہاں درخت کاٹ دئے جاتے ہیں تو زمین خشک ہو جاتی ہے۔‏ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر برازیل اور انڈونیشیا میں اسی وجہ سے جنگل کے بڑے بڑے علاقے جل کر راکھ بن گئے ہیں۔‏ لیکن آفتیں محض زوردار طوفانوں اور شدید بارشوں کی صورت میں نہیں آتیں۔‏ آئیے ہم ایک اَور قسم کی قدرتی آفت پر غور کرتے ہیں۔‏

جب زمین کانپتی ہے

زمین کی بیرونی سطح بڑے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہے جو حرکت میں رہتے ہیں۔‏ اس حرکت کی وجہ سے ہر سال کروڑوں زلزلے آتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ‌تر کے بارے میں ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔‏

ان میں سے ۹۰ فیصد زلزلے ان علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔‏ انسانی تاریخ میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ سن ۱۵۵۶ میں چین میں آیا تھا۔‏ اس زلزلے میں ۰۰۰،‏۳۰،‏۸ افراد ہلاک ہوئے تھے۔‏

جب ایک علاقے میں زلزلہ آتا ہے تو اکثر اسکے نتیجے میں وہاں اَور بھی آفتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر سن ۱۷۵۵ میں پُرتگال کے شہر لزبن کی کُل آبادی ۰۰۰،‏۷۵،‏۲ لوگوں پر مشتمل تھی۔‏ پھر یکم نومبر کے روز اس علاقے میں ایک زبردست زلزلہ آیا۔‏ زلزلے کی وجہ سے شہر میں جگہ جگہ آگ لگ گئی اور سمندر میں ۱۵ میٹر [‏۵۰ فٹ]‏ بڑی سونامی لہریں پیدا ہو گئیں جنہوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‏ ان تینوں آفتوں کی وجہ سے اُس دن شہر کے ۰۰۰،‏۶۰ باشندے مارے گئے۔‏

کیا زلزلوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان میں انسان کا ہاتھ بھی ہے؟‏ جی بالکل۔‏ اس سلسلے میں ایک مصنف نے لکھا کہ ”‏دُنیا کے بڑے بڑے شہروں میں سے آدھے سے زیادہ ایسے علاقوں میں قائم ہیں جہاں شدید زلزلہ آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‏“‏ ایک اَور وجہ یہ ہے کہ لوگ عمارتیں تعمیر کرتے وقت اکثر سستا مواد استعمال کرتے ہیں اور جلدبازی سے کام لیتے ہیں۔‏ پھر جب زلزلہ آتا ہے تو یہ عمارتیں گِر کر لوگوں کو اپنے تلے دفنا دیتی ہیں۔‏ لیکن زیادہ‌تر لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ وہ ایسی عمارتیں تعمیر کریں جو زلزلے میں قائم رہیں؟‏

آتش‌فشاں پہاڑ کے فائدے اور خطرے

‏”‏جس لمحے آپ یہ الفاظ پڑھ رہے ہوں گے اُسی لمحے دُنیابھر میں کم‌ازکم ۲۰ آتش‌فشاں پہاڑ پھٹ رہے ہوں گے۔‏“‏ یہ تھا امریکہ کے ایک سائنسی ادارے کا بیان۔‏ دراصل زمین کے جن علاقوں میں زلزلہ آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے عموماً وہیں آتش‌فشاں پہاڑ بھی ہوتے ہیں۔‏ یہ خاص طور پر وہ علاقے ہیں جہاں زمین کی سطح یا سمندر کی تہہ میں شگاف ہوتے ہیں،‏ جہاں زمین کی سطح میں موجود دراڑوں میں سے لاوا اُگلتا ہے یا جہاں زمین کا ایک بڑا ٹکڑا دوسرے سے ٹکرا کر اُسکے نیچے کھسک جاتا ہے۔‏

انسان کیلئے سب سے زیادہ خطرناک وہ آتش‌فشاں پہاڑ ہوتے ہیں جو زمین کے دو ٹکڑوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اکثر یہ آبادیوں کے نزدیک واقع ہوتے ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ مرتبہ پھٹتے ہیں۔‏ اسکی ایک مثال وہ ساحلی علاقہ ہے جو بحرالکاہل کے اِردگِرد واقع ہے۔‏ اس علاقے میں سینکڑوں آتش‌فشاں پہاڑ یوں موجود ہیں جیسے کسی نے اُنکو موتیوں کی طرح ایک مالا پر پرویا ہو۔‏ اسکے علاوہ بحرالکاہل اور بحرِاوقیانوس میں کئی ایسے جزیرے بھی ہیں جہاں زمین کے دو ٹکڑے ٹکراتے تو نہیں لیکن یہاں بھی آتش‌فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں۔‏

سچ تو یہ ہے کہ آتش‌فشاں پہاڑوں کے فائدے بھی ہیں۔‏ ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ”‏زمین کے برِّاعظم اور نشیبی علاقوں کے ۹۰ فیصد،‏ آتش‌فشاں پہاڑوں کی حرکت کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔‏“‏ لیکن آتش‌فشاں پہاڑ پھٹتے کیوں ہیں؟‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں۔‏

زمین کا اندرونی حصہ بہت ہی گرم ہوتا ہے۔‏ یہاں پگھلا ہوا لاوا پایا جاتا ہے۔‏ کئی علاقوں میں یہ لاوا زمین کی سطح کی طرف بڑھتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار تو لاوا آتش‌فشاں پہاڑوں میں سے آہستہ آہستہ سے بہتا رہتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں یہ خطرناک نہیں ہوتا۔‏ لیکن جب آتش‌فشاں پہاڑ پھٹتے ہیں تو یہ ایک ایٹم بم کے دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔‏ انکے پھٹنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں،‏ مثلاً لاوا کتنا گاڑا ہے،‏ وہ کن کن چیزوں کا مرکب ہے اور اس میں کس حد تک گیس اور تپتا گرم پانی ملا ہوا ہے۔‏ جوں جوں لاوا زمین کی سطح کی طرف بڑھتا ہے،‏ اس میں موجود پانی اور گیس بڑھ جاتا ہے۔‏ جب یہ لاوا پہاڑ سے نکلتا ہے تو یہ ایک زوردار دھماکے کیساتھ ہوتا ہے۔‏ یہ بالکل اسطرح ہوتا ہے جیسے کوکاکولا کی بوتل کو ہلا کر کھولا جائے۔‏

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آتش‌فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی آس‌پاس رہنے والے لوگ آگاہ ہو جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر سن ۱۹۰۲ میں جب مرتینیق کے جزیرے پر ماؤنٹ پیلے پھٹنے والا تھا تو لوگ اس بات سے آگاہ تھے۔‏ کئی دنوں سے پہاڑ سے راکھ نکل رہی تھی،‏ جسکی وجہ سے لوگ بیمار ہو رہے تھے اور نہایت خوفزدہ بھی تھے۔‏ یہاں تک کہ زیادہ‌تر دُکانیں بھی بند رہی تھیں۔‏ لیکن پہاڑ کے نزدیک،‏ شہر سینٹ پیرے میں انتخابات ہونے والے تھے۔‏ اسلئے سیاستدانوں نے لوگوں کو بتایا کہ صورتحال خطرناک نہیں،‏ شہر چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔‏

پھر ۸ مئی کا روز آیا۔‏ اس روز ایک خاص مذہبی تہوار منایا جا رہا تھا۔‏ کیتھولک لوگ صبح صبح چرچ جا کر پہاڑ کے غضب سے بچنے کی دُعائیں مانگ رہے تھے۔‏ ابھی صبح کے پورے آٹھ بھی نہیں بجے تھے کہ ماؤنٹ پیلے ایک زوردار دھماکے سے پھٹا۔‏ اس میں سے راکھ،‏ انگاروں،‏ پتھروں اور تپتی گرم گیس کا ایک سیاہ بادل نکلا اور تیزی سے شہر کی طرف بڑھنے لگا۔‏ بادل کا درجۂ‌حرارت ۲۰۰ تا ۵۰۰ ڈگری سینٹی‌گریڈ تھا۔‏ جب اس نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو چرچ کی آہنی گھنٹی پگھل گئی،‏ بندرگاہ میں جہازوں کو آگ لگ گئی اور ۰۰۰،‏۳۰ لوگ مارے گئے۔‏ بیسویں صدی میں کسی اَور آتش‌فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے اُس روز مرے تھے۔‏ لیکن پہاڑ نے تو اُنہیں پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا۔‏ اگر وہ اس آگاہی پر کان لگاتے تو وہ اپنی جان بچا لیتے۔‏

کیا قدرتی آفتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا؟‏

ہلالِ‌اَحمر اور ریڈ کراس کی تنظیموں کے تعاون سے شائع ہونے والی سن ۲۰۰۴ کی ایک رپورٹ میں آفتوں کے بارے میں کہا گیا کہ پچھلے دس سال سے انکی تعداد میں ۶۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏ یہ رپورٹ جو بحرۂہند میں سونامی کی تباہی سے پہلے شائع ہوئی تھی اس میں بتایا گیا کہ ”‏آئندہ بھی آفتوں میں اضافہ ہوگا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اگر آئندہ بھی انسان ایسے علاقوں میں آباد ہونے سے باز نہیں آئے گا جہاں آفتوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اگر آئندہ بھی درختوں کی بےسوچےسمجھے کٹائی جاری رہے گی تو صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔‏

اسکے ساتھ ساتھ بہت سے ترقی‌یافتہ ملک ایسی گیسیں پیدا کرنے سے باز نہیں آ رہے جن سے زمین کا اوسط درجۂ‌حرارت بڑھتا ہے۔‏ ایک سائنسی رسالے کے مطابق انکا یہ ردِعمل بالکل ایسا ہے جیسے کہ ”‏وہ پیسے بچانے کی خاطر اپنی بیماری کا علاج نہیں کروا رہے ہوں۔‏ لیکن آخرکار اُنکی حالت اتنی بگڑ جائے گی کہ اُنہیں اپنی بیماری کا علاج مہنگےدام کرنا پڑے گا۔‏“‏ اس سلسلے میں آفتوں کی شدت کو روکنے کے بارے میں ملک کینیڈا کی ایک رپورٹ میں یوں کہا گیا:‏ ”‏زمین کے اوسط درجۂ‌حرارت کا بڑھنا ایک بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے۔‏ یوں سمجھئے کہ یہ وہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے انسانی معاشرے کو نپٹنا پڑ رہا ہے۔‏“‏

لیکن ابھی تک تو انسانی معاشرے کو اس بات پر بحث کرنے سے فرصت نہیں ملی ہے کہ آیا درجۂ‌حرارت میں تبدیلی انسانی کارروائیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے یا نہیں،‏ مسئلے سے نپٹنا تو دُور کی بات ہے۔‏ خدا کے کلام کا یہ حوالہ کتنا سچا ہے کہ ”‏انسان .‏ .‏ .‏ اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ اسکے باوجود ہم اُمید باندھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں یہ مسئلہ ضرور حل کِیا جائے گا۔‏ دراصل قدرتی آفتیں اور معاشرے کے دوسرے مسائل اس آنے والی بہتری کی نشانیاں ہیں۔‏ آئیے ہم اگلے مضمون میں اس اُمید پر غور کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 کئی علاقوں میں سمندر کا پانی بھی دوسرے علاقوں سے زیادہ گرم ہوتا ہے۔‏ یہ پانی سرد علاقوں کی طرف بڑھتا ہے جسکی وجہ سے سمندری دھاریں وجود میں آتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویر]‏

کھیت میں ایک عجوبہ

سن ۱۹۴۳ میں ملک میکسیکو کے ایک کسان نے دیکھا کہ اُسکے کھیت میں شگاف پڑے ہوئے ہیں۔‏ اگلے دن تک ان شگافوں نے ایک آتش‌فشاں ٹیلے کی شکل اختیار کر لی۔‏ اگلے ہی ہفتے یہ ٹیلا ۱۵۰ میٹر [‏۵۰۰ فٹ]‏ کی اُونچائی تک پہنچ گیا۔‏ کچھ عرصہ بعد اس آتش‌فشاں پہاڑ نے ۳۰،‏۴ میٹر [‏۴۰۰،‏۱ فٹ]‏ کی اُونچائی اختیار کر لی۔‏ اِس آتش‌فشاں پہاڑ کا نام پاریکوتن رکھا گیا اور سن ۱۹۵۲ میں اچانک ہی اِس نے لاوا اُگلنا بند کر دیا۔‏ تب سے یہ خاموش ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

U. S. Geological Survey/Photo by R. E. Wilcox

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

خدا نے اُنہیں آفت میں بچائے رکھا

یعقوب کے بیٹے یوسف کے زمانے میں مصر میں قحط کی آفت آن پڑی۔‏ یہ قحط ۷ سال تک جاری رہا اور مصر کے علاوہ کنعان اور دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیا۔‏ لیکن اِس قحط سے کم ہی لوگ بھوکے مرے کیونکہ یہوواہ خدا نے پہلے سے ہی اِسکے آنے کی آگاہی دے دی تھی۔‏ یہوواہ خدا نے یہ بھی کہا تھا کہ قحط شروع ہونے سے پہلے مصر میں ۷ سال تک بہت زیادہ اناج پیدا ہوگا۔‏ اس عرصے کے دوران خدا کے کرم سے یوسف نے وزیرِاعظم کے طور پر مصر میں اتنا اناج ذخیرہ کر لیا کہ مصریوں نے اسکا ”‏حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا۔‏“‏ اِسطرح ’‏سب ملکوں کے لوگوں‘‏ کیساتھ ساتھ یوسف آفت کے دوران اپنے خاندان کو بھی اناج مہیا کر سکا۔‏—‏پیدایش ۴۱:‏۴۹،‏ ۵۷؛‏ ۴۷:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

ہیٹی،‏ سن ۲۰۰۴۔‏ سیلاب کے علاقے میں لڑکے پینے کا پانی لا رہے ہیں۔‏ یہاں درختوں کی بےدریغ کٹائی کی وجہ سے کیچڑ کی لہروں نے تباہی مچائی تھی

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Background: Sophia Pris/EPA/Sipa Press; inset: Carl

Juste/Miami Herald/Sipa Press

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

بہتیرے ملک ایسی گیسیں پیدا کرنے سے باز نہیں آ رہے جنکی وجہ سے زمین کا اوسط درجۂ‌حرارت بڑھتا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Mark Henley/Panos Pictures ©