مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قدرتی آفتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

قدرتی آفتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

قدرتی آفتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

‏”‏موسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں آنے کی وجہ سے قدرتی آفتوں کی تعداد اور اُنکی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ آنے والی آفتوں میں پہلے سے زیادہ لوگ ہلاک ہوں گے اور مالی نقصان بھی بڑھ جائے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ لہٰذا دانشمندی کی بات یہی ہے کہ ہم ان آفتوں سے نپٹنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔‏“‏ ‏—‏جرمنی کے ایک سائنسی رسالے میں سن ۲۰۰۳ کے دوران آنے والی آفتوں کی سالانہ رپورٹ۔‏

سن ۲۰۰۳ میں یورپ میں شدید گرمی پڑی جسکی وجہ سے اٹلی،‏ برطانیہ،‏ بیلجیئم،‏ پُرتگال،‏ سپین،‏ فرانس اور نیدرلینڈز میں تقریباً ۰۰۰،‏۳۰ لوگ ہلاک ہوئے۔‏ اسی سال بھارت،‏ بنگلادیش اور پاکستان میں ۵۰۰،‏۱ لوگ شدید گرمی کی وجہ سے فوت ہو گئے۔‏ اور آسٹریلیا میں بارش نہ ہونے اور شدید گرمی کی وجہ سے جگہ جگہ آگ لگ گئی جس میں ۷۰ لاکھ ایکڑ زمین پر مشتمل جنگل جل کر راکھ ہو گیا۔‏

عالمی موسمیاتی تنظیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ”‏سن ۱۹۴۴ تا ۱۹۹۶ تک بحیرۂاوقیانوس کے علاقے میں ہر سال اوسطاً ۱۰ شدید طوفان آتے تھے۔‏ اس عرصے کے بعد سال میں ہونے والے طوفانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور سن ۲۰۰۳ میں ۱۶ طوفانوں نے اس علاقے میں تباہی مچائی۔‏“‏ سن ۲۰۰۴ میں وسطی امریکا کے جزیروں اور خلیجِ‌میکسیکو کے علاقے میں آنے والے طوفانوں میں ۰۰۰،‏۲ لوگ ہلاک ہوئے اور بہت تباہی مچی۔‏

سن ۲۰۰۳ میں سری‌لنکا میں آنے والے ایک طوفان کی وجہ سے سیلاب آئے جن میں کم‌ازکم ۲۵۰ لوگ ہلاک ہو گئے۔‏ سن ۲۰۰۴ میں بحرالکاہل میں ہونے والے ۲۳ سمندری طوفان آئے۔‏ اِن میں سے ۱۰ نے جاپان میں سخت تباہی مچائی اور انکی وجہ سے ۱۷۰ جانوں کا نقصان بھی ہوا۔‏ اسی سال میں بارشوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر بنگلادیش میں سیلاب آئے جن سے تقریباً ۳ کروڑ لوگ متاثر ہوئے۔‏ ان سیلابوں میں لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے،‏ ۳۰ لاکھ لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور تقریباً ۳۰۰،‏۱ لوگ ہلاک ہو گئے۔‏

سن ۲۰۰۳ میں کئی تباہ‌کُن زلزلے آئے۔‏ مثال کے طور پر ۲۱ مئی کو الجزائر کے شہر الجیرز میں آنے والے زلزلے میں ۰۰۰،‏۱۰ لوگ زخمی اور ۲ لاکھ لوگ بےگھر ہو گئے۔‏ پھر ۲۶ دسمبر کی صبح ساڑھے پانچ بجے ایران کے شہر بام کے نزدیک ایک زوردار اور بھیانک زلزلہ آیا۔‏ اسکی شدت چھ عشاریہ پانچ بتائی گئی۔‏ اس میں ۰۰۰،‏۴۰ لوگ ہلاک ہوئے،‏ ایک لاکھ لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے اور شہر کا ۷۰ فیصد حصہ ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔‏ اُس سال میں جتنی آفتیں آئی تھیں،‏ اُنکی نسبت اس زلزلے میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا تھا۔‏ زلزلے میں شہر بام کا ۰۰۰،‏۲ سال پُرانا قلعہ جسے سیاح دُور دُور سے دیکھنے آتے تھے،‏ بالکل تباہ ہو گیا۔‏ اس وجہ سے وہاں کے لوگوں کو سخت مالی نقصان پہنچا ہے۔‏

بام میں آنے والے زلزلے کے ایک سال بعد سوماٹرا کے مغربی ساحل کے نزدیک سمندر میں ایک زبردست زلزلہ آیا جسکی شدت نو عشاریہ صفر تھی۔‏ اس زلزلے کی وجہ سے دیونما لہریں وجود میں آئیں جنہیں سونامی کہا جاتا ہے۔‏ ان لہروں کی وجہ سے ۲ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے اور لاکھوں لوگ زخمی اور بےگھر ہو گئے۔‏ یہ لہریں اتنی زوردار تھیں کہ سوماٹرا سے ۵۰۰،‏۴ کلومیٹر [‏۸۰۰،‏۲ میل]‏ دُور،‏ افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقے میں بھی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‏ انسانی تاریخ میں کسی اَور سونامی کی وجہ سے اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا جتنا ان سونامی لہروں کی وجہ سے ہوا تھا۔‏

آئندہ کیا ہونے والا ہے؟‏

کیا آئندہ بھی قدرتی آفتوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوگا؟‏ بہتیرے سائنسدانوں کے خیال میں انسانی کارروائیوں کی وجہ سے فضا میں تبدیلیاں نمایاں ہو رہی ہیں۔‏ ان تبدیلیوں کا اثر دُنیا کے موسم پر پڑ رہا ہے جسکی وجہ سے سردی،‏ گرمی،‏ بارش،‏ ہوا وغیرہ کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اگر ان سائنسدانوں کی بات صحیح نکلی تو آئندہ بھی بڑی خطرناک آفتیں آئیں گی۔‏ ان آفتوں کی وجہ سے ہونے والا جانی اور مالی نقصان بھی زیادہ ہوگا کیونکہ آجکل بہتیرے لوگ ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جہاں قدرتی آفتوں کا امکان زیادہ ہے۔‏

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی ترقی‌پذیر ملک میں آفت آتی ہے تو ترقی‌یافتہ ممالک کی نسبت یہاں پر جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔‏ لیکن جب ایک ترقی‌یافتہ ملک میں آفت آتی ہے تو جانی نقصان کم مگر مالی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔‏ بڑھتی ہوئی آفتوں کی وجہ سے کئی ممالک میں بیمہ کرنے والی کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے خطرے میں ہیں۔‏

اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ قدرتی آفتیں کیوں آتی ہیں اور انکی بڑھتی ہوئی شدت میں کس حد تک انسان کا ہاتھ ہے۔‏ ہم اس بات پر بھی غور کریں گے کہ آیا انسان ان آفتوں کی شدت کو کم کرنے کیلئے اپنی کارروائیوں میں تبدیلیاں لانے کی خواہش اور قابلیت رکھتا ہے یا نہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

فرانس،‏ سن ۲۰۰۳۔‏ اس سال یورپ میں شدید گرمی کی وجہ سے ۰۰۰،‏۳۰ لوگ ہلاک ہوئے؛‏ سپین میں درجۂ‌حرارت ۴۵ ڈگری سینٹی‌گریڈ تک چڑھ گیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Alfred/EPA/Sipa Press

‏[‏صفحہ ۴ اور ۵ پر تصویریں]‏

ایران،‏ سن ۲۰۰۳۔‏ شہر بام میں آنے والے زلزلے میں ۰۰۰،‏۴۰ لوگ ہلاک ہوئے؛‏ عورتیں اپنے عزیزوں کی قبر پر ماتم کر رہی ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Background and women: © Tim Dirven/Panos Pictures