معذوری کے باوجود خدا کی خدمت میں پُرجوش
معذوری کے باوجود خدا کی خدمت میں پُرجوش
کوامے انگیسن کی آپبیتی
نومبر ۲۰۰۲ کی بات ہے کہ افریقہ کے ملک آئیوری کوسٹ میں خانہجنگی ہو رہی تھی۔ اسی دوران مَیں اپنے دوست کیساتھ سائیکل پر سفر کر رہا تھا۔ راستہ پہاڑی تھا اور سڑکیں ویران تھیں۔ سپاہیوں نے جگہ جگہ اپنی چوکیاں کھڑی کرکے سڑک کی ناکابندی کر رکھی تھی۔ آخر ہم اس دشوار سفر پر نکلے کیوں تھے؟
مَیں سن ۱۹۷۸ میں پیدا ہوا تھا۔ شروع ہی سے مجھے ایک ایسی بیماری تھی جسکی وجہ سے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مَیں معذور ہوتا گیا۔ میری ٹانگوں میں شدید درد تھا اور مَیں اُونچا سنتا تھا۔ میرے خاندان والے اکثر میرے بارے میں کہتے کہ ’اسکی ٹانگیں بیکار ہیں اور اسکے کانوں میں کوڑا کرکٹ بھرا ہے۔‘ بڑے مجھے بُرابھلا کہتے اور بچے مجھے دیکھتے ہی ’لنگڑے اوئے لنگڑے‘ کا نعرہ بلند کرتے۔
آٹھ سال کی عمر میں مَیں سکول جانے لگا۔ وہاں نہ صرف بچے بلکہ اُستاد بھی میرا مذاق اُڑاتے۔ جب لوگ دیکھتے کہ خوف اور شرم کے مارے میرا بُرا حال ہو رہا ہے تو وہ میرا اَور بھی مذاق اُڑاتے۔ اس چھیڑچھاڑ کی وجہ سے مَیں صرف سکول جانے کیلئے گھر سے نکلتا تھا۔
اکثر مَیں خود سے سوال کرتا کہ ’یہ بیماری مجھے کیوں لگی ہے؟‘ جب مَیں اپنی ماں سے یہ سوال کرتا تو وہ مجھے سمجھاتیں کہ ’تُم پر کسی نے جادو کِیا ہے۔‘ پھر جب مَیں دوسرے معذور لوگوں کو دیکھتا تو میرے ذہن میں یہ خیال آتا کہ ’کیا ان پر بھی کسی نے جادو کِیا ہے؟‘
سن ۱۹۹۲ میں میری کہنیوں میں شدید درد ہونے لگا۔ جب درد تھم گیا تو مَیں اپنے بازو سیدھے کرنے کے قابل نہ رہا۔ اسکے دو سال بعد ہی میری بائیں آنکھ بھی ضائع ہو گئی۔ میرے والدین نے مجھے کئی پیروں کو دکھایا لیکن وہ بھی میری مدد نہ کر سکے۔ آخرکار میری صحت اتنی خراب ہو گئی کہ مجھے سکول چھوڑنا پڑا۔
روحانی پیاس بجھانے کی جستجو میں
افریقہ کے بہت سے لوگوں کی طرح مَیں بھی یہ ایمان رکھتا تھا کہ انسان کے علاوہ جانور، پودے، پتھر وغیرہ جاندار ہیں اور شعور رکھتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ یہی میرا مذہب تھا۔ ایک دن میرے ایک ہمجماعت نے مجھے اپنے چرچ آنے کی دعوت دی۔ مَیں نے اسکی دعوت قبول کر لی اور ایک سال تک باقاعدگی سے عبادت کیلئے چرچ جاتا رہا۔ لیکن وہاں مجھے خدا کے کلام کے بارے میں کم ہی تعلیم دی گئی۔ دل ہی دل میں مَیں سوچنے لگا کہ مذہب پر چلنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔
جب مَیں نے چرچ میں سنا کہ بُرے لوگوں کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا تو مَیں ڈر گیا۔ مَیں نے سوچا کہ ’مَیں اتنا بُرا تو نہیں ہوں کہ مجھے ہمیشہ کیلئے دوزخ کی آگ میں تڑپایا جائے۔ لیکن مَیں اتنا نیک بھی نہیں ہوں کہ مجھے جنت نصیب ہو۔‘ میرے دل میں لاکھوں سوال تھے لیکن کوئی مجھے انکے جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ مذہب میں دلچسپی لینے سے میری روحانی پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔
پھر مجھے چرچ کی طرف سے ایک ایسی تقریب پر جانے کی دعوت دی گئی جہاں لوگوں کو معجزانہ طور پر شفا دینے کا دعویٰ کِیا گیا تھا۔ یہ تقریب آئیوری کوسٹ کے دارالحکومت میں منعقد ہونی تھی جو ہمارے قصبے سے ۱۵۰ کلومیٹر [۱۰۰ میل] دُور تھا۔ جانے سے پہلے مَیں نے چرچ کے پادریوں کو بتایا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مَیں نہ تو تقریب پر حاضر ہونے کا ٹکٹ خرید سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے لئے کھانا خرید سکتا ہوں۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ فکر مت کرو، تمہارا بندوبست کِیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ جب مَیں وہاں پہنچا تو کسی نے میرا پوچھا تک نہیں۔ مَیں تقریباً ۰۰۰،۴۵ لوگوں کی بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔
اُس تقریب پر حاضر ہونے کے باوجود مَیں نے شفا نہیں پائی۔ اب مَیں مذہب سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ ہمارے قصبے کے پادریوں نے کہا کہ ’تمہارا ایمان کمزور تھا اسلئے تُم نے شفا نہیں پائی۔‘ اسکے بعد مَیں نے مذہب سے مُنہ پھیر لیا۔
مَیں اپنی جستجو میں کامیاب ہوتا ہوں
سن ۱۹۹۶ کی بات ہے کہ ایک یہوواہ کا گواہ جسکا نام رابرٹ تھا ہمارے گھر آیا۔ میرے بڑے بھائی نے اُسکے ساتھ خدا کے کلام کے بارے میں بہت بحث کی۔ بھائی جان کو ایسی باتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن مَیں رابرٹ کی ایک ایک بات کو بڑے غور سے سُن رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اُسکی ہر بات میری روحانی پیاس کو بجھا رہی ہے۔
رابرٹ نے ہمیں بتایا کہ پہلے انسان آدم نے خدا کی نافرمانی کرکے بغاوت کی تھی۔ اس بغاوت کے انجام میں آدم کی اولاد یعنی تمام انسانوں نے گُناہ اور موت ورثے میں پایا۔ لیکن یسوع مسیح نے اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیں اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کا موقع فراہم کِیا اور ہمارے لئے ہمیشہ کی زندگی پانے کی راہ بھی ہموار کر دی۔ (رومیوں ۳:۲۳؛ ۵:۱۲، ۱۷-۱۹) خدا کے کلام کو استعمال کرتے ہوئے رابرٹ نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ بہت جلد یہوواہ خدا اپنی آسمانی بادشاہت کے ذریعے زمین پر سے گُناہ اور تمام بُرائیوں کو مٹا دے گا۔ تب زمین دوبارہ سے ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی۔—یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ دانیایل ۲:۴۴؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
پاک صحائف کی ان سچائیوں نے میرے دل کو چھو لیا۔ یہی تو وہ جواب تھے جنکی تلاش میں مَیں مارے مارے پھر رہا تھا۔ رابرٹ ہفتے میں دو بار آ کر مجھے خدا کے کلام کے بارے میں مزید تعلیم دیتا۔ چند ہی مہینوں میں مَیں نے اتنا کچھ سیکھ لیا کہ مَیں بھی تبلیغی کام میں حصہ لینے کے قابل بن گیا۔ لیکن یہ کام میرے لئے آسان نہ تھا کیونکہ مَیں اپنی معذوری کی وجہ سے لوگوں سے باتچیت کرنے سے ہچکچاتا تھا۔
راہ میں رُکاوٹیں
میرا خاندان اس بات کو پسند نہیں کرتا تھا کہ مَیں خدا کے کلام میں دلچسپی لے رہا تھا۔ میرے بھائی جان مجھے غصہ دلانے کیلئے رات کو میرے کمرے میں آ کر سگریٹ پیتے تھے۔ صبح کو جب میری آنکھ کھلتی تو میرے سر میں درد ہوتا اور میری طبیعت خراب ہوتی۔ اسکے علاوہ خوراک کے معاملے میں بھی مجھے اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ میرا باپ شکاری تھا اور ہمارا خاندان اُنکے شکار سے ہی پیٹ بھرتا تھا۔ لیکن میرا باپ اپنے شکار سے خون نہیں بہاتا تھا۔ مَیں نے اُنکو بتایا کہ خدا کے کلام میں گلا گھونٹے ہوئے جانوروں کا گوشت کھانے سے منع کِیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون ہوتا ہے۔ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) لیکن اُنہوں نے میری ایک نہ سنی۔ کبھیکبھار ماں مجھ پر ترس کھا کر میرے لئے سادے چاول تیار کر لیتی لیکن اکثر مجھے بھوکے پیٹ ہی سونا پڑتا تھا۔
ایک اَور مشکل یہ بھی تھی کہ یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہ ہمارے گھر سے کافی دُور تھی۔ لیکن اس فاصلے کے باوجود، مَیں خراب موسم میں بھی باقاعدگی سے عبادت کیلئے حاضر ہوتا تھا۔ ستمبر ۱۹۹۷ میں یہوواہ کے گواہوں کے ڈسٹرکٹ کنونشن کے موقعے پر مَیں نے ایک یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لیا۔ اسکے بعد مَیں نے مُنادی کے کام میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنے کی کوشش کی اور آخرکار مَیں کُلوقتی طور پر لوگوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سکھانے لگا۔
خانہجنگی اور خانہبندی
ستمبر ۲۰۰۲ میں آئیوری کوسٹ میں خانہجنگی شروع ہو گئی۔ چند ہی ہفتوں کے بعد ہمیں خبر ہوئی کہ حکومت کی فوج ہمارے قصبے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ سُن کر بہت سے لوگ قصبہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ خبر ملنے کے ۵ دن بعد ہی فوج نے ہمارے قصبے پر قبضہ جما لیا اور خانہبندی کا حکم عائد کر دیا۔ جو لوگ اُس وقت قصبے میں موجود تھے اُن میں سے بھی زیادہتر بھاگ گئے۔
اُس وقت کاریں اور بسیں وغیرہ نہیں چل رہی تھیں اسلئے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں پہنچنے کیلئے پیدل سفر کرنا پڑا۔ ایسا کرنا میرے لئے تو ناممکن ہی تھا اسلئے میرے پاس وہاں رہنے کے علاوہ اَور کوئی چارہ نہیں تھا۔ تمام یہوواہ کے گواہ بھی قصبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اب مَیں اکیلا تھا۔ اسکے باوجود مَیں نے اپنا تبلیغی کام
جاری رکھا اور مَیں عبادت کیلئے اجلاس بھی منعقد کرتا رہا۔ ان اجلاسوں پر قصبے کے چند لوگ بھی حاضر ہوتے تھے۔ایک دشوار سفر
نومبر کے مہینے میں شہر دالوا میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک بڑا اجلاس منعقد ہونا تھا۔ یہ شہر ہمارے قصبے سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر [۳۰ میل] دُور تھا۔ مَیں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی کہ وہ میری مدد کرے تاکہ مَیں اس اجلاس پر حاضر ہو سکوں۔ اسکے کچھ دن بعد ہمارے قصبے کا ایک یہوواہ کا گواہ واپس لوٹ آیا۔ مَیں نے اُس سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنی سائیکل پر بٹھا کر شہر دالوا پہنچا دے۔ وہ میری مدد کرنے کو فوراً راضی ہو گیا حالانکہ وہ بھی معذور تھا۔
خانہجنگی کی وجہ سے لوگ بہت خوفزدہ تھے۔ اس دوران سفر کرنا خاصا خطرناک تھا۔ ہمارے قصبے سے جو سڑکیں دالوا تک جاتی تھیں ان پر گاڑی، بس یا ٹرک پر سفر کرنا منع تھا۔ مسافروں کو یہ بھی خطرہ تھا کہ سپاہی اُن پر شک کرکے اُنہیں مشینگن کی زد میں لے کر اُن پر گولیاں چلا دیں۔ ان خطروں کے باوجود ۹ نومبر، ۲۰۰۲ کی صبح ہم دونوں سائیکل پر سوار ہو کر دالوا روانہ ہو گئے۔
راستے میں بہت سی چوکیاں تھیں۔ ان چوکیوں پر سپاہی ہمیں روک کر ہماری خوب تلاشی لیتے اور پھر ہمیں آگے نکلنے کی اجازت دے دیتے۔ راستے میں پہاڑ بھی تھے۔ ہم سائیکل سے اُتر کر انکو پیدل عبور کرتے اور پھر چوٹی پر پہنچ کر سائیکل پر سوار ہو کر پہاڑ سے اُترتے۔ سفر کافی لمبا تھا اسلئے ہم بہت تھک گئے تھے۔
راستے میں ہماری ملاقات ایک اَور شخص سے ہوئی جو اپنی سائیکل پر روانہ تھا۔ اُس نے ہماری حالت دیکھ کر ہماری مدد کی۔ مَیں اُسکی سائیکل کے پیچھے بیٹھ گیا۔ راستے میں مَیں نے اس رحمدل اجنبی کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا۔ مَیں نے اُسے سمجھایا کہ یہ ایک ایسی حکومت ہے جو آسمان سے حکمرانی کرے گی اور بہت جلد زمین پر امن لائے گی۔ میری باتوں کو سُن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور اُس نے مجھ سے بہت سے سوال کئے۔ جب ہم دالوا پہنچے تو اُس نے ہم دونوں کیلئے کھانا منگوایا اور اگلے روز ہمارے اجلاس پر حاضر ہونے کا وعدہ بھی کِیا۔
نو گھنٹوں کے دشوار سفر کے بعد جب ہم آخرکار دالوا پہنچے تو ہم بہت تھک چکے تھے۔ لیکن ہم خوش بھی تھے۔ دالوا میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک خاندان نے ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ اُنہوں نے کہا کہ جب تک ملک کے حالات بہتر نہیں ہوتے ہمارے پاس ہی رہو۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارا اجلاس منعقد نہیں ہو سکا کیونکہ حالات بہت ہی خراب تھے۔ ہم نے اتنے خطرے مول لئے تھے۔ کیا یہ سفر بیکار تھا؟ بالکل نہیں۔ دالوا میں مجھے خدا کی خدمت میں مزید ذمہداریاں سونپی گئیں۔
مزید ذمہداریاں
آجکل مَیں دالوا کی کلیسیا میں خادم کے طور پر اپنے بہنبھائیوں کی خدمت کر رہا ہوں۔ مَیں یہوواہ کے گواہوں کی بڑی اجلاسگاہ کی نگرانی بھی کرتا ہوں۔ اسکے علاوہ مَیں کُلوقتی طور پر لوگوں کو خدا کے کلام کے بارے میں بھی سکھاتا ہوں۔ اپنا گزربسر چلانے کیلئے مَیں سائنبورڈ پر تصویریں بناتا ہوں اور لکڑی کی تتلیاں تیار کرتا ہوں جو لوگ اپنے گھروں کو سجانے کیلئے خریدتے ہیں۔
بچپن میں مجھے سکول جانے کے سوا گھر سے نکلنے کی جُرأت نہیں تھی۔ لیکن اب مَیں اُن لوگوں کی تلاش میں روزانہ نکلتا ہوں جو میری طرح اپنی روحانی پیاس کو بجھانے کی جستجو میں ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ خدا مستقبل میں تمام دُکھتکلیفوں کو ختم کر دے گا اور پھر مَیں بھی اپنی بیماری سے شفا پاؤں گا۔ جبتک وہ وقت نہیں آتا مَیں لوگوں کو خدا کی شاندار بادشاہت کے بارے میں بتاتا رہوں گا۔
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
ہم شہر دالوا کیلئے روانہ ہوتے ہیں
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
مَیں دالوا میں یہوواہ کے گواہوں کی بڑی اجلاسگاہ کی نگرانی کرتا ہوں
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
اپنا گزارہ چلانے کیلئے مَیں لکڑی کی تتلیاں بنا کر بیچتا ہوں