مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مَیں خود کو کیوں زخمی کر لیتی ہوں؟‏

مَیں خود کو کیوں زخمی کر لیتی ہوں؟‏

نوجوانوں کا سوال

مَیں خود کو کیوں زخمی کر لیتی ہوں؟‏

‏”‏مَیں نے اپنی کلائیاں اتنی بُری طرح زخمی کر لیں کہ مجھے ٹانکے لگوانے پڑے۔‏ اُس وقت مَیں نے ڈاکٹر کو یہ تو بتا دیا کہ مجھے یہ زخم بلب کے شیشے سے لگے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ مَیں نے جان‌بوجھ کر خود کو زخمی کِیا ہے۔‏‏“‏—‏حنا،‏ ۲۳ سال۔‏

‏”‏میرے والدین نے میرے کچھ زخم دیکھے تو سہی لیکن انہیں لگا جیسے مجھے یہ خراشیں آئی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ بعض‌اوقات جب وہ کوئی نیا زخم دیکھتے تو مَیں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتی۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں نہیں چاہتی تھی کہ انہیں اسکے بارے میں کچھ پتہ چلے۔‏‏“‏—‏فریحہ،‏ ۱۳ سال۔‏

‏”‏مَیں گیارہ سال کی عمر سے خود کو زخمی کر رہی ہوں۔‏ مَیں خدا کے اعلیٰ معیاروں سے واقف ہوں لیکن مَیں خود کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔‏‏“‏—‏نگہت،‏ ۲۰ سال‏۔‏

شاید آپ حنا،‏ فریحہ،‏ یا نگہت جیسے کسی شخص سے واقف ہوں۔‏ * ہو سکتا ہے کہ آپکے ساتھ سکول میں پڑھنے والا کوئی نوجوان خود کو زخمی کرتا ہو۔‏ شاید آپکے بہن‌بھائیوں میں سے کوئی ایسا ہو۔‏ ممکن ہے کہ آپ خود بھی ایسی عادت میں گرفتار ہوں۔‏ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں لاکھوں لوگ اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے جان‌بوجھ کر تکلیف پہنچاتے یا زخمی کرتے ہیں۔‏ ان میں زیادہ‌تر نوجوان ہوتے ہیں۔‏ *

کیا وہ واقعی جان‌بوجھ کر خود کو زخمی کرتے ہیں؟‏ ماضی میں بیشتر لوگ اسے ایک عجیب فیشن یا مذہبی جنون خیال کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ حالیہ برسوں میں خود کو زخمی یا گھائل کرنے کی بابت علم کیساتھ ساتھ ایسا کرنے والوں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‏ امریکہ میں ایک کلینک کے ڈائریکٹر مائیکل ہولینڈر نے بیان کِیا:‏ ”‏ہر ڈاکٹر یہی کہتا ہے کہ یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔‏“‏

اگرچہ خود کو زخمی کرنا کبھی‌کبھار ہی جان‌لیوا ہوتا ہے توبھی یہ خطرناک ہے۔‏ سلمیٰ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏جب مَیں نے بلیڈ سے خود کو زخمی کر لیا تو اسکی وجہ سے مجھے دو مرتبہ ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔‏ ایک دفعہ تو مَیں نے اتنا گہرا گھاؤ لگا لیا کہ مجھے ایمرجنسی روم میں جانا پڑا۔‏“‏ خود کو زخمی کرنے والے بیشتر لوگوں کی طرح سلمیٰ بھی نوعمری سے ایسا کر رہی ہے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مَیں ۱۵ سال کی عمر سے ایسا کر رہی ہوں اور اب میری عمر ۳۰ سال ہے۔‏“‏

کیا آپ یا آپکا کوئی واقف‌کار خود کو زخمی کرنے کی عادت میں مبتلا ہے؟‏ اگر آپکو ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو مایوس نہ ہوں۔‏ اس سلسلے میں مدد دستیاب ہے۔‏ جاگو!‏ کے اگلے شمارے میں ایسی معلومات پیش کی جائیں گی جنکے ذریعے ہم خود کو گھائل کرنے والوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ * مگر ایسا کرنے سے پہلے ہمارے لئے اس عادت میں مبتلا لوگوں اور اسکی وجوہات کے بارے میں جاننا مفید ہوگا۔‏

خود کو زخمی کرنے کی مختلف وجوہات

خود کو زخمی کرنے یا اذیت پہنچانے والے لوگ مختلف وجوہات کی بِنا پر ایسا کرتے ہیں۔‏ ان میں سے بعض کا تعلق مشکلات کا سامنا کرنے والے خاندانوں سے ہوتا ہے جبکہ دیگر خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ بعض نوجوان سکول میں بار بار فیل ہونے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں جبکہ بیشتر ذہین طالبعلم ہوتے ہیں۔‏ ایسے اشخاص کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ اس مسئلے کا شکار ہیں۔‏ کیونکہ عموماً وہ دوسروں پر اپنے جذبات ظاہر نہیں کرتے۔‏ اس سلسلے میں بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہنسنے میں بھی دل غمگین ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۴:‏۱۳‏۔‏

اسکے علاوہ،‏ بعض لوگ اکثروبیشتر اپنےآپ زخمی کر لیتے ہیں جبکہ دیگر کبھی‌کبھار ایسا کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک تحقیق کے مطابق کچھ لوگ سال میں صرف ایک مرتبہ ایسا کرتے ہیں جبکہ دیگر دن میں دو مرتبہ ایسا کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ پہلے یہ خیال کِیا جاتا تھا کہ مرد اپنے آپ کو زخمی نہیں کرتے ہیں لیکن دلچسپی کی بات ہے کہ خود کو زخمی کرنے والے مردوں کی تعداد میں دن‌بہ‌دن اضافہ ہو رہا ہے۔‏ پھربھی،‏ یہ مسئلہ نوجوان لڑکیوں میں عام ہے۔‏ *

خود کو زخمی کرنے کی مختلف وجوہات کے باوجود ایسا کرنے والے بعض لوگوں کی عادتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔‏ نوجوانوں کا ایک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏خود کو زخمی کرنے والے اکثر نوجوان بےبس،‏ تنہا اور خوفزدہ محسوس کرتے ہیں،‏ وہ دوسروں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنا مشکل پاتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ انکی اپنی نظروں میں کچھ عزت نہیں ہے۔‏“‏

بعض لوگ شاید یہ کہیں کہ مذکورہ‌بالا باتیں تو کسی بھی نوجوان میں ہو سکتی ہیں جو خود کو خوفزدہ اور غیرمحفوظ خیال کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ خود کو زخمی کرنے والے لوگوں کیلئے یہ باتیں زیادہ تکلیف‌دہ ہوتی ہیں۔‏ اپنی پریشانیوں کو زبان پر نہ لانے اور اپنی سہیلیوں کو دل کی بات نہ بتانے کی وجہ سے سکول میں ان پر دباؤ بڑھ سکتا یا گھر میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ایسی لڑکیوں کو کوئی حل دکھائی نہیں دیتا اور وہ یہ محسوس کر سکتی ہیں کہ وہ کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتیں۔‏ وہ بہت زیادہ ٹینشن محسوس کرنے لگتی ہیں۔‏ آخرکار،‏ وہ یہ خیال کرنے لگتی ہیں کہ خود کو جسمانی طور پر تکلیف پہنچانے سے انکے جذبات کو تسکین ملے گی اور وہ چند لمحے سکون سے گزار سکیں گی۔‏

ایسے لوگ جذباتی دباؤ کو کم کرنے کیلئے جسمانی درد کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟‏ مثال کے طور پر،‏ جب آپ ڈاکٹر کے پاس انجکشن لگوانے جاتے ہیں تو کیا واقع ہوتا ہے۔‏ کیا آپ انجکشن کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے بدن پر کسی اَور جگہ ہلکی سی چٹکی بھرتے ہیں تاکہ آپ کی توجہ بٹ سکے؟‏ یا پھر کیا آپ اُس جگہ کو دباتے یا مسلتے ہیں جہاں انجکشن لگا ہے تاکہ درد کم ہو جائے؟‏ خود کو گھائل کر لینے والے لوگ بھی کچھ اسی طرح کرتے ہیں لیکن وہ اس کے لئے خطرناک طریقہ اختیار کرتے ہیں۔‏ وہ اپنے جذباتی دباؤ کو کم کرنے کیلئے اپنے جسم کو تکلیف پہنچاتے ہیں جس سے وہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔‏ کیونکہ اُنکا جذباتی دباؤ جسمانی درد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔‏ شاید اسی وجہ سے خود کو زخمی کرنے والا شخص اسے ”‏اندیشوں کی دوا“‏ کہتا ہے۔‏

‏”‏دباؤ کو کم کرنے کا طریقہ“‏

جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ خود کو زخمی کرنے والے لوگ اپنے آپ کو تسکین پہنچانے کیلئے ایسا کرتے ہیں وہ اسے خودکشی کرنے کی کوشش کا نام دیتے ہیں۔‏ لیکن عموماً یہ بات نہیں ہوتی۔‏ نوعمروں کے ایک رسالے کی ایگزیکٹو ایڈیٹر لکھتی ہے:‏ ”‏عام طور پر یہ لوگ اپنا درد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ اپنی زندگی۔‏“‏ ایک کتاب خود کو زخمی کرنے کا حوالہ ”‏زندگی سے فرار کی بجائے اسے برقرار رکھنے“‏ والے کے طور پر دیتی ہے۔‏ اسے ”‏دباؤ کو کم کرنے کا طریقہ“‏ بھی کہا جاتا ہے۔‏ یہ کس قسم کا دباؤ ہے؟‏

عام طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ خود کو زخمی کرنے والے بہتیرے لوگ اپنی کسی ذہنی پریشانی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔‏ مثلاً،‏ انہیں بچپن میں کسی قسم کی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا پھر انہیں نظرانداز کِیا گیا تھا۔‏ دیگر کیلئے خاندانی لڑائی‌جھگڑے یا والد کا نشہ کرنا ایسا کرنے کا باعث بنتا ہے۔‏ بعض کسی ذہنی بیماری کی وجہ سے بھی ایسا کرتے ہیں۔‏

اسکے علاوہ،‏ دیگر مسائل بھی ایسا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ حمیرا نامی ایک لڑکی چاہتی تھی کہ اسکا ہر کام سو فیصد درست ہو مگر وہ اس میں ناکام ہو جاتی تھی۔‏ حمیرا ماضی میں سنگین غلطیوں کی وجہ سے مسیحی بزرگوں سے مدد حاصل کر چکی تھی۔‏ لیکن اب وہ اپنی روزمرّہ غلطیوں کی وجہ سے بھی شرمندگی محسوس کرنے لگی تھی۔‏ ایسی صورتحال میں وہ کہتی ہے:‏ ”‏مَیں سوچتی کہ مجھے اپنے ساتھ سختی کرنی پڑے گی۔‏ خود کو تکلیف پہنچانا میرے لئے ایسے تھا جیسے مَیں اپنی تربیت کر رہی ہوں۔‏ میرے لئے اپنی تربیت کرنے میں اپنے بال نوچنا،‏ اپنی کلائیوں اور بازوؤں پر زخم لگانا،‏ خود کو مارنا اور گھائل کرنا اور اسکے علاوہ تیز گرم پانی کے نیچے ہاتھ رکھنا،‏ گرم کپڑے پہنے بغیر سردی میں باہر نکل جانا یا دن‌بھر بھوکے رہنے سے اپنے آپ کو سزا دینا شامل تھا۔‏“‏

حمیرا کے نزدیک خود کو تکلیف پہنچانا اپنے لئے نفرت کا اظہار تھا۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مَیں جانتی تھی کہ یہوواہ نے میری خطائیں معاف کر دی ہیں مگر مَیں معافی حاصل کرنا نہیں چاہتی تھی۔‏ مَیں تکلیف اُٹھانا چاہتی تھی کیونکہ مَیں اپنےآپ سے شدید نفرت کرتی تھی۔‏ اگرچہ مَیں اس بات سے واقف تھی کہ دُنیائےمسیحیت نظریہ رکھتی ہے کہ دوزخ جیسی کوئی جگہ ہے جہاں پر خدا اذیت دیتا ہے۔‏ لیکن یہوواہ نے ایسی کوئی جگہ نہیں بنائی توبھی مَیں چاہتی تھی کہ وہ میرے لئے ایک ایسی جگہ بنائے۔‏“‏

‏”‏بُرے دن“‏

بعض شاید سوچیں کہ یہ صورتحال حالیہ سالوں میں ہی کیوں سامنے آئی ہے۔‏ تاہم،‏ خدا کے کلام سے تعلیم پانے والے جانتے ہیں کہ یہ ”‏بُرے دن“‏ ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ اسلئے وہ یہ سن کر حیران نہیں ہوتے کہ کیوں لوگ بالخصوص نوجوان ایسی عادتوں کا شکار ہو گئے ہیں۔‏

بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏ظلم دانشور آدمی کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۷‏)‏ جب بچے جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو جسم میں مختلف تبدیلیوں اور زندگی کے تلخ تجربات کے باعث وہ خطرناک طرزِعمل اختیار کر سکتے اور خود کو زخمی کرنے کی عادت میں پڑ سکتے ہیں۔‏ تنہائی کا شکار ایک نوجوان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی سے بات نہیں کر سکتا اسلئے خود کو تسکین پہنچانے کی کوشش میں وہ اپنے آپ کو زخمی کر لیتا ہے۔‏ مگر اس سے حاصل ہونے والا اطمینان عارضی ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ کچھ عرصے کے بعد اسے دوبارہ اسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے اور وہ پھر خود کو زخمی کر لیتا ہے۔‏

خود کو زخمی کرنے والے زیادہ‌تر لوگ اپنی اس عادت کو ترک کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏ بعض اس عادت کو ترک کرنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں؟‏ اسکے بارے میں اپریل-‏جون ۲۰۰۶ کے جاگو!‏ کے شمارے کے مضمون ”‏نوجوانوں کا سوال .‏ .‏ .‏“‏ میں بات کی جائے گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 اس مضمون میں نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 6 خود کو زخمی کرنے کا تعلق ناک اور کان چھدوانے یا ٹیٹو بنوانے سے نہیں ہے۔‏ کیونکہ عموماً یہ کام فیشن سمجھ کر کئے جاتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 9 احبار ۱۹:‏۲۸ بیان کرتی ہے:‏ ”‏تُم مُردوں کے سبب سے اپنے جسم کو زخمی نہ کرنا۔‏“‏ یہ غیرقوموں کا دستور تھا جسے اُن دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے شروع کِیا گیا تھا جو مُردوں پر اختیار رکھنے والے خیال کئے جاتے تھے۔‏ لیکن خود کو زخمی یا گھائل کر لینے والے لوگوں کا معاملہ اس سے فرق ہے۔‏

^ پیراگراف 12 اس وجہ سے،‏ خود کو زخمی کرنے والوں کے سلسلے میں ہمارا اشارہ لڑکیوں کی طرف ہے۔‏ تاہم،‏ جن اُصولوں پر بات کی گئی ہے اسکا اطلاق لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر ہوتا ہے۔‏

ذرا سوچیں

▪ بعض نوجوان خود کو کیوں زخمی کر لیتے ہیں؟‏

▪ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کیا آپ مایوسی سے نپٹنے کے بعض عمدہ طریقوں کی بابت سوچ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر عبارت]‏

‏”‏ہنسنے میں بھی دل غمگین ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۴:‏۱۳

‏[‏صفحہ ۲۱ پر عبارت]‏

‏”‏عام طور پر یہ لوگ اپنا درد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ اپنی زندگی“‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

ہم ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱