مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہیروں کے جنون کی داستان

ہیروں کے جنون کی داستان

ہیروں کے جنون کی داستان

جنوبی افریقہ سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

آڈریان وان‌وائک ایک دیندار زمین‌دار تھا۔‏ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت جنوبی افریقہ کے ایک ویران علاقے میں اطمینان کی زندگی گزار رہا تھا۔‏ لیکن ایک دن جنوری ۱۸۷۱ میں اُسکا سکون چھین لیا گیا۔‏ اچانک اجنبی دُور دراز علاقوں سے آ کر اُسکی زمینوں پر ڈیرے لگانے لگے۔‏ وان‌وائک کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔‏ بےبسی کی حالت میں وہ اس تماشے کو دیکھتا رہا۔‏

کچھ ہی دنوں کے اندر اندر ہزاروں لوگ اجازت لئے بغیر ہی وان‌وائک کی زمین پر گڑھے کھودنے لگے۔‏ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اُسکے باغ میں بھی کھدائی شروع کر دی۔‏ ان اجنبیوں نے اُسے سلام تک نہیں کِیا۔‏ یہ کیا ماجرا تھا؟‏ دراصل ان لوگوں کو چرچا ہوا تھا کہ اس علاقے میں ہیرے پائے جاتے ہیں۔‏

جنوبی افریقہ میں ہیروں کے جنون کا آغاز

اس واقعے سے ۱۲ سال پہلے وان‌وائک کی زمینوں سے تقریباً ۷۰ کلومیٹر [‏۴۰ میل]‏ دُور ایک شخص کو ایک بڑا ہیرا ملا تھا جسکا وزن پانچ قیراط تھا۔‏ اُس شخص نے اس ہیرے کو پانچ پونڈ کی قیمت پر ایک پادری کو بیچ دیا۔‏ معلوم نہیں کہ پادری نے اس ہیرے کیساتھ کیا کِیا تھا۔‏ بہرحال،‏ اس دریافت کے بارے میں سُن کر کافی لوگ ہیروں کی تلاش میں دلچسپی لینے لگے۔‏

اسکے نو سال بعد ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔‏ شلک وان‌نیکارک نامی ایک زمین‌دار کی زمین پر یاکبز نامی ایک خاندان کا گھر تھا۔‏ انکے بچے پتھروں کیساتھ ایک کھیل کھیلا کرتے تھے۔‏ ان پتھروں میں ایک عجیب سا چمکیلا پتھر بھی شامل تھا جسے بڑے بیٹے نے تلاش کِیا تھا۔‏

سن ۱۸۶۷ کی بات ہے کہ وان‌نیکارک صاحب ایک دن یاکبز خاندان کے گھر آئے۔‏ یاکبز صاحبہ جانتی تھیں کہ وان‌نیکارک جواہرات میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔‏ لہٰذا اُنہوں نے بچوں کا چمکدار پتھر وان‌نیکارک کو دِکھایا اور کہا:‏ ”‏رات کو شمع کی روشنی میں یہ پتھر بڑی خوبصورتی سے جگمگاتا ہے۔‏“‏ وان‌نیکارک نے اس پتھر کو غور سے دیکھا اور کہا:‏ ”‏کہیں یہ پتھر ایک ہیرا تو نہیں؟‏“‏ اُنہوں نے عام پتھر اور ہیرے میں فرق کرنے کے ایک طریقے کے بارے میں پڑھا تھا۔‏ اسلئے اُنہوں نے کھڑکی کے پاس جا کر اس پتھر سے شیشے پر ایک لکیر کھینچی۔‏ جب شیشے پر ایک گہرا خراش نظر آیا تو وان‌نیکارک چونک پڑے اور اُنہوں نے یاکبز صاحبہ سے معافی مانگی۔‏ * یاکبز صاحبہ نے خوشی سے اس پتھر کو وان‌نیکارک کے سپرد کر دیا اور پیسے قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔‏

وان‌نیکارک صاحب جب اگلی بار شہر گئے تو اُنہوں نے اس پتھر کو اپنے کچھ دوستوں کو دِکھایا۔‏ لیکن اُن میں سے ایک بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا یہ پتھر واقعی ہیرا ہے یا نہیں۔‏ پھر یہ پتھر ایتھرسٹون نامی ایک ڈاکٹر کو دِکھایا گیا۔‏ ڈاکٹر ایتھرسٹون نے مقامی سکول کے پرنسپل سے سکول کی تجربہ‌گاہ استعمال کرنے کی درخواست کی۔‏ پتھر کو سائنسی طریقوں سے آزمانے کے بعد ڈاکٹر ایتھرسٹون نے دریافت کِیا کہ یہ پتھر واقعی ایک ہیرا ہے۔‏ اسکے بعد جواہرات کے ایک سوداگر نے بھی اسکا جائزہ لیا۔‏ اُس نے ایک آلے کیساتھ پتھر پر نشان لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔‏ آخرکار سب متفق تھے کہ یہ پتھر بلاشُبہ ایک ہیرا ہے۔‏ ڈاکٹر ایتھرسٹون نے تصدیق کی کہ اسکا وزن ۲۱ عشاریہ ۲۵ قیراط ہے۔‏ وان‌نیکارک کو اسکے لئے ۳۵۰ پونڈ کی رقم دی گئی۔‏ اُنہوں نے یہ رقم فوراً یاکبز صاحبہ کیساتھ بانٹ لی۔‏ اس ہیرے کا نام ”‏یوریکا“‏ رکھا گیا جسکا مطلب ہے ”‏مل گیا!‏“‏

ایک عاجز چرواہا اور ایک نیک زمین‌دار

اسکے دو سال بعد کا واقعہ ہے کہ بُوئی نامی ایک افریقی چرواہا وان‌نیکارک کی زمینوں کے کچھ فاصلے پر اپنی بھیڑیں چرا رہا تھا۔‏ اچانک اُسے ایک چمکیلی چیز نظر آئی۔‏ اُس نے جھک کر اسے اُٹھا لیا۔‏ یہ ایک پتھر تھا جو اخروٹ جتنا بڑا تھا۔‏ اُس نے سنا تھا کہ اس علاقے میں بعض ایسے لوگ رہتے ہیں جو عجیب پتھروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔‏ پیسے کمانے کی غرض سے اُس نے اپنا پتھر پہلے ایک کسان اور پھر ایک سوداگر کو پیش کِیا۔‏ دونوں نے اُسے وان‌نیکارک سے ملاقات کرنے کی ہدایت دی۔‏

وان‌نیکارک کے پاس پہنچتے ہی بُوئی نے اُنہیں اپنا پتھر دکھایا۔‏ وان‌نیکارک فوراً سمجھ گئے کہ یہ ایک ایسا ہیرا ہے جو شاید اُس ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو یاکبز صاحبہ نے اُنہیں دیا تھا۔‏ اُنہوں نے بُوئی سے پوچھا:‏ ”‏تُم اسکے بدلے میں کیا چاہتے ہو؟‏“‏ بُوئی نے عاجزی سے جواب دیا:‏ ”‏جناب،‏ جو کچھ آپ مناسب سمجھتے ہیں اتنا ہی مجھے دے دیجئے۔‏“‏ وان‌نیکارک نے اُسے فوراً اپنا تقریباً سارا مال دے دیا،‏ یعنی ۵۰۰ دُنبے،‏ ۱۰ بیل،‏ ایک تانگا،‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے بُوئی کو اپنا گھوڑا بھی دے دیا۔‏ ایک چھوٹے پتھر کے بدلے میں اتنی دولت میں آنے پر بُوئی بہت حیران ہوا ہوگا۔‏

وان‌نیکارک اپنے ہیرے کو بیچنے کے لئے فوراً شہر گئے۔‏ وہاں چند تاجروں نے اُنہیں ہیرے کے لئے ۳۰۰،‏۱۱ پونڈ کی رقم پیش کی۔‏ یہ ہیرا جسکا وزن ۸۳ قیراط تھا،‏ ”‏جنوبی افریقہ کا ستارہ“‏ کے نام سے مشہور ہوا۔‏ * تراشے جانے کے بعد یہ ہیرا ایک ہار میں شامل کِیا گیا جو اس صفحے پر دکھایا گیا ہے۔‏ اس غیرمعمولی ہیرے کی دریافت کا چرچا دُنیابھر میں پھیل گیا۔‏ دولتمند بننے کی اُمید میں لوگ شمالی اور جنوبی امریکہ،‏ اِنگلینڈ،‏ یورپ اور آسٹریلیا سے،‏ یعنی پوری دُنیا سے جنوبی افریقہ آئے۔‏

ہیروں کا جنون جڑ پکڑتا ہے

شروع میں لوگ ہیروں کو جنوبی افریقہ میں دریائےآرنج اور دریائےوال کے کنارے تلاش کِیا کرتے تھے۔‏ پھر ۱۸۷۰ میں کئی لوگوں کو چرچا ہوا کہ ان دریاؤں کے بیچ کے علاقے میں بھی ہیرے پائے جاتے ہیں۔‏ اسی علاقے میں آڈریان وان‌وائک کی زمینیں واقع تھیں۔‏ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں بہت عرصہ پہلے آتش‌فشاں پہاڑ ہوتے تھے۔‏ جب یہ آتش‌فشاں پہاڑ لاوا اُگلتے تھے تو لاوا کیساتھ ساتھ ہیرے بھی زمین کی تہہ سے اُوپر پہنچائے جاتے تھے۔‏ اس وجہ سے اس علاقے میں ہیرے اتنی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔‏

اس علاقے میں لوگ ہیروں کی کانیں کھودنے لگے۔‏ کانوں کے آس‌پاس لاتعداد خیمے اور بعد میں جھونپڑیاں بھی کھڑی کر دی گئیں۔‏ ان ڈیروں میں زندگی بہت کٹھن تھی۔‏ وہاں پانی کی کمی تھی،‏ مچھر بہت تنگ کرتے تھے اور پورا دن گرد کے بادل چھائے رہتے تھے۔‏ گرمیوں میں درجۂ‌حرارت ۴۰ ڈگری تک پہنچتا اور سردیوں کی ٹھنڈی یخ راتوں میں پانی جم جاتا۔‏ لیکن دولتمند ہونے کی غرض سے ان لوگوں نے تمام مشکلات کو برداشت کر لیا۔‏

آڈریان وان‌وائک کا کیا ہوا جسکی زمینوں پر یہ ہزاروں لوگ چھا گئے تھے؟‏ شروع میں اُس نے اُن لوگوں سے چند روپے کرائے لے کر اُنہیں اپنی زمین پر کان کھودنے کی اجازت دے دی۔‏ لیکن جب لوگوں کے غول کے غول آنے لگے تو صورتحال اُسکے قابو سے باہر ہو گئی۔‏ پھر ایک کمپنی نے اُسے اُسکی زمینوں کیلئے ۰۰۰،‏۲ پونڈ کی رقم پیش کی۔‏ اُس نے خوشی سے اس پیشکش کو قبول کر لیا اور ایک پُرسکون علاقے میں جا بسا۔‏

وان‌وائک کے پڑوس میں ڈےبیر نامی دو بھائیوں کی زمین تھی۔‏ جب اس علاقے میں کان کھودنے والی ایک کمپنی قائم ہو گئی تو اس کمپنی کا نام بھی ڈےبیر رکھا گیا۔‏ آجکل یہ کمپنی دُنیابھر کی وہ سب سے بڑی کمپنی ہے جو کانوں سے ہیرے حاصل کرتی ہے۔‏ ڈےبیر بھائیوں کی زمینوں پر لاتعداد مزدوروں نے کھودائی کی جسکے نتیجے میں وہاں ایک بہت بڑا گڑھا وجود میں آیا جسے ‏”‏بِگ ہول“‏ ‏(‏”‏بڑا گڑھا“‏)‏ کا نام دیا گیا۔‏ یہ گڑھا شہر کمبرلی کے نزدیک واقع ہے۔‏

ان واقعات سے پہلے ہندوستان اور برازیل کی کانوں میں بھی ہیرے نکالے جاتے تھے۔‏ لیکن دُنیابھر میں ہیروں کی مانگ اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ یہ دو ملک اسے پوری نہ کر سکے۔‏ جب جنوبی افریقہ میں بڑی تعداد میں ہیرے دریافت ہونے لگے تو ہیروں کی عالمی منڈی کی بنیاد ڈالی گئی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 جس شیشے پر وان‌نیکارک نے خراش ڈالی تھی،‏ یہ آج جنوبی افریقہ کے کولزبرگ میوزیم میں نمائش پر ہے۔‏

^ پیراگراف 13 اسکے علاوہ ”‏افریقہ کا ستارہ“‏ نامی ایک ہیرا بھی ہے جو اس ہیرے سے الگ ہے۔‏ اس سلسلے میں بکس ”‏اعلیٰ درجے کی ایک کان“‏ کو پڑھئے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

اعلیٰ درجے کی ایک کان

سن ۱۹۰۳ میں جنوبی افریقہ کے شہر پریٹوریا کے نزدیک ہیروں کی ایک کان کی کھدائی شروع ہوئی۔‏ اسکا نام ”‏پریمئر مائن“‏ رکھا گیا جسکا مطلب ہے ”‏اعلیٰ درجے کی کان۔‏“‏ یہ نام بالکل مناسب ثابت ہوا۔‏ دو سال بعد جب اس کان کی گہرائی ۱۰ میٹر [‏۳۰ فٹ]‏ تک پہنچ چکی تھی تو ایک مزدور کو اسکی دیوار میں ایک چمکیلی چیز نظر آئی۔‏ اُسکے مینیجر نے چاقو سے اسکے اِردگِرد کھودا اور اس چیز کو نکالا۔‏ یہ ایک ایسا ہیرا تھا جو ایک آدمی کی مٹھی جتنا بڑا تھا۔‏ اسکا وزن ۱۰۶،‏۳ قیراط تھا۔‏ یہ دُنیا کا سب سے بڑا ہیرا ہے جو آج تک دریافت ہوا ہے۔‏ اسے کان کے مالک کے نام کے مطابق ”‏کلنان ہیرا“‏ کا نام دیا گیا۔‏ اس سے نو بڑے اور ۹۶ چھوٹے ہیرے تراشے گئے۔‏ ان میں سے ایک ”‏افریقہ کا ستارہ“‏ نامی ہیرا ہے جو دُنیا کا سب سے بڑا تراشا ہوا ہیرا ہے۔‏ آج یہ برطانوی ملکہ کے شاہی عصا میں پایا جاتا ہے جو اس صفحے پر دکھایا گیا ہے۔‏ آج بھی ”‏پریمئر مائن“‏ سے بڑے بڑے اور اعلیٰ درجے کے ہیرے حاصل ہوتے ہیں۔‏

‏[‏تصویریں]‏

برطانوی ملکہ کا شاہی عصا

کلنان ہیرا مٹھی جتنا بڑا تھا

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس/‏تصویر]‏

چند دلچسپ معلومات

◆ تمام مادوں میں سے ہیرا سب سے سخت مادہ ہے۔‏

◆ ہیرے دراصل کاربن پر مشتمل ہیں۔‏ یہ وہی مادہ ہے جس سے پنسل کی نوک بنائی جاتی ہے۔‏ لیکن ہیرے اس سے زیادہ سخت کیوں ہوتے ہیں؟‏ کیونکہ ہیرے جن ذرّوں پر مشتمل ہیں یہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔‏

◆ ہیروں کے وزن کا پیمانہ قیراط ہے۔‏ پانچ قیراط ایک گرام کے برابر ہیں۔‏

◆ ہیروں کا ایک قیراط حاصل کرنے کیلئے اکثر پتھر اور ریت کے ۴۰۰ ٹن کو چھاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر بکس/‏تصویر]‏

کمبرلی کا بڑا گڑھا

سن ۱۸۶۹ میں کمبرلی میں چند ہی کسان رہتے تھے۔‏ لیکن اس کے چار سال بعد،‏ یعنی ۱۸۷۳ میں وہاں ۰۰۰،‏۵۰ لوگ آباد ہو گئے تھے۔‏ ان کی اکثریت ہیروں کی تلاش میں دُنیا کے ہر کونے سے آئی تھی۔‏ ہزاروں لوگوں نے کیپ ٹاؤن کی بندرگاہ سے کمبرلی تک ۰۰۰،‏۱ کلومیٹر [‏۶۵۰ میل]‏ کا فاصلہ پیدل طے کِیا۔‏ بیلچے اور کدال استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک پہاڑی کو ایک گہرے گڑھے میں تبدیل کر دیا۔‏ اس گڑھے کی گہرائی ۲۴۰ میٹر [‏۷۸۷ فٹ]‏ تک پہنچ گئی۔‏ یہ انسان کا بنایا ہوا سب سے گہرا گڑھا ہے۔‏ اس کے علاوہ زمین کے نیچے بھی ۰۹۷،‏۱ میٹر [‏۶۰۰،‏۳ فٹ]‏ کی گہرائی تک کانیں کھودی گئیں۔‏ آخرکار سن ۱۹۱۴ میں ان کانوں میں کام بند ہو گیا۔‏ ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اس گڑھے میں سے ”‏پتھر اور مٹی کے ڈھائی کروڑ ٹن“‏ نکالے گئے تھے جن سے ہیروں کے تین ٹن حاصل ہوئے تھے۔‏ ان تمام ہیروں کی قیمت ۴ کروڑ ۷۰ لاکھ پونڈ [‏تقریباً ۵۰ ارب روپے]‏ کے برابر ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

ڈاکٹر ایتھرسٹون

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

شلک وان‌نیکارک

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

‏”‏یوریکا“‏ نامی ہیرا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.De Beers Consolidated Mines Ltd

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

جنوبی افریقہ کا ستارہ

‏[‏صفحہ ۱۲ اور ۱۳ پر تصویر]‏

‏”‏بِگ ہول“‏ نامی گڑھا۔‏ سن ۱۸۷۵ میں لی گئی اس تصویر پر ایسی رسیاں نظر آتی ہیں جن سے مزدوروں کو گڑھے میں اُتارا جاتا اور پھر مٹی کو اُوپر اُٹھایا جاتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ہیروں کو تلاش کرنے والے لوگ ایسے ڈیروں میں رہتے تھے

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏,2005 © Photo: www.comstock.com; Crown ©/The Royal Collection

Her Majesty Queen Elizabeth II

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Photo by Fox Photos/Getty Images

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

The Grand Old Days of the Diamond Portraits: From the book

by George Beet Fields

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏.Photos: De Beers Consolidated Mines Ltd

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏.Photos: De Beers Consolidated Mines Ltd