یہ دُنیا کس موڑ پر آ پہنچی ہے؟
یہ دُنیا کس موڑ پر آ پہنچی ہے؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگلے ۱۰، ۲۰ یا ۳۰ سال کیا لائیں گے؟ چونکہ آجکل دہشتگردی کا دَور چل رہا ہے اِسلئے مستقبل کے بارے میں سوچ کر کئی لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ دُنیابھر کے ممالک کا آپس میں رابطہ بڑھ گیا ہے اِسلئے وہ ایک دوسرے پر پہلے سے زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ کیا دُنیا کے راہنما متحد ہو کر ہمارے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں؟ کئی لوگ اِس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیتے ہیں۔ وہ یہ اُمید رکھتے ہیں کہ سن ۲۰۱۵ تک اُنکے راہنما غربت اور بھوک کو مٹا دیں گے اور ایڈز کی بیماری کو پھیلنے سے روک دیں گے۔ ایسے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سن ۲۰۱۵ تک ان لوگوں کی تعداد کم ہو جائے گی جنکے پاس صاف پانی اور صحتوصفائی کا انتظام نہیں ہے۔—بکس ”وعدے جن پر پورا اُترانا مشکل ہے“ کو دیکھیں۔
تاہم انسان مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچتا ہے اکثر وہ محض اُسکا وہم ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تقریباً ۴۰ سال پہلے ایک ماہر نے دعویٰ کِیا تھا کہ سن ۱۹۸۴ تک کسان سمندر کی تہہ پر کھیتیباڑی کریں گے۔ ایک دوسرے ماہر کا کہنا تھا کہ ۱۹۹۵ تک گاڑیوں میں ایسے کمپیوٹر لگے ہوں گے جو گاڑیوں کو حادثوں سے محفوظ رکھیں گے۔ ایک اَور ماہر نے کہا تھا کہ سن ۲۰۰۰ تک ۰۰۰،۵۰ لوگ خلا میں آباد ہو جائیں گے۔ شاید ایسے لوگ جنہوں نے ان باتوں کا دعویٰ کِیا تھا اب سوچتے ہیں کہ اُنہیں خاموش رہنا چاہئے تھا۔ اس سلسلے میں ایک صحافی نے لکھا کہ ”وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دنیا کے سب سے ذہین لوگ بھی احمق ثابت ہو جاتے ہیں۔“
منزل تک پہنچنے کا نقشہ
کئی لوگ مستقبل کے لئے جو خواب دیکھتے ہیں انکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ توپھر ہم مستقبل کے بارے میں حقیقت کیسے جان سکتے ہیں؟
ذرا فرض کریں کہ آپ ایک غیرملک میں بس کا سفر کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ علاقہ آپکے لئے جانا پہچانا نہیں ہے اس لئے آپ کو گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور طرح طرح کے سوال آپ کے دل میں اُٹھنے لگتے ہیں۔ ’مَیں کہاں ہوں؟ کیا یہ بس واقعی مجھے میری منزل تک لے جا رہی ہے؟ اپنی منزل سے مَیں کتنی دُور ہوں؟‘ اُس علاقے
کے نقشے کو دیکھنے سے اور کھڑکی سے باہر جھانک کر سائنبورڈ پڑھنے سے آپکو اِن سوالوں کے جواب مل جاتے۔مستقبل کے بارے میں فکر کرنے والے لوگوں کی صورتحال بالکل اس مسافر کی طرح ہے۔ ایسے لوگ پوچھتے ہیں کہ ’ہماری زندگی کس منزل کی طرف بڑھ رہی ہے؟ ہم جس راہ پر چل رہے ہیں کیا یہ واقعی ہمیں امن اور سلامتی کے دَور تک لے جائے گی؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنی منزل پر کب پہنچے گے؟‘ خدا کا کلام اُس نقشے کی طرح ہے جسکے ذریعے ہم صحیح راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ خدا کے کلام کو غور سے پڑھنے سے اور دُنیا کے حالات پر متوجہ رہنے سے ہم جان لیتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ لیکن پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دُنیا میں مشکلات نے کیسے جڑ پکڑی۔
انسان کے سفر کا آغاز
خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ جب خدا نے پہلے مرد اور عورت کو خلق کِیا تو اُن میں کوئی عیب نہ تھا۔ آدم اور حوا کو ہمیشہ تک جینے کیلئے خلق کِیا گیا تھا نہ کہ صرف ۷۰ یا ۸۰ سال کیلئے۔ خدا نے اُن سے کہا تھا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ خدا چاہتا تھا کہ آدم اور حوا اپنے بچوں سمیت زمین کو ایک فردوسنما باغ میں تبدیل کرکے ہمیشہ تک اِس میں آباد رہیں۔—پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۸، ۱۵، ۲۲۔
آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی اور باغی بن گئے۔ اسکے نتیجے میں اُنہوں نے فردوس میں رہنے کا موقع کھو دیا۔ آہستہ آہستہ دونوں میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نقص بھی ظاہر ہونے لگے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ آدم اور حوا موت کے اَور قریب آ گئے۔ وہ کیسے؟ کیونکہ اپنے رومیوں ۶:۲۳۔
خالق سے مُنہ پھیر کر اُنہوں نے گُناہ کِیا تھا اور ”گُناہ کی مزدوری موت ہے۔“—آدم اور حوا کے بچے ہوئے اور آخرکار وہ مر گئے۔ کیا انکے بچوں نے خدا کی مرضی بجا لائی؟ جینہیں۔ کیونکہ ایک پُشت سے لے کر دوسری پُشت تک سب انسانوں نے آدم اور حوا کے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔ یہ بات ہمارے بارے میں بھی سچ ہے۔ خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گُناہ کیا۔“—رومیوں ۳:۲۳؛ ۵:۱۲۔
انسان کس موڑ پر پہنچا ہے
آدم اور حوا کی بغاوت سے لے کر آج تک انسان ایک غمناک زندگی جی رہا ہے۔ جیسے کہ خدا کے کلام میں لکھا ہے انسان ”بطالت کے اختیار“ میں ہے یعنی کہ اُسکی تمام محنت بےفائدہ ہے۔ (رومیوں ۸:۲۰) آدم کی اولاد میں سے کئی مرد اور عورتیں سائنس، علمِطب اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ماہر رہے ہیں۔ لیکن اِن میں سے ایک بھی دُنیا میں امن نہیں لا سکا اور نہ ہی انسان کیلئے بہترین صحت کا بندوبست کر سکا ہے۔
آدم اور حوا کی بغاوت ہم سب پر اثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم میں سے کس نے ناانصافی کے ڈنک کو محسوس نہیں کِیا ہے؟ ہم میں سے کون ہے ایوب ۱۴:۱۔
جو جُرم، سخت بیماری یا ایک عزیز کی موت سے متاثر نہیں ہوا ہے؟ ہماری زندگی میں جو اطمینان کے لمحے ہیں وہ جلد ہی ایک غمگین واقعہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہماری زندگی میں خوشگوار لمحے آتے بھی ہیں تو وہ پلکجھپکتے ہی گزر جاتے ہیں کیونکہ جیسا خدا کے نبی ایوب نے کہا تھا: ”انسان . . . تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔“—چونکہ ہماری زندگی اتنی مصیبتوں سے بھری ہے اِسلئے شاید مستقبل بھی ہمیں سنسان لگنے لگے۔ لیکن خدا وعدہ کرتا ہے کہ صورتحال ہمیشہ تک ایسی نہیں رہے گی۔ ابتدا میں خدا انسانوں کیلئے جو کچھ چاہتا تھا، وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ (یسعیاہ ۵۵:۱۰، ۱۱) ہم یہ اتنے یقین کیساتھ کیوں کہہ سکتے ہیں؟
خدا کے کلام کے مطابق ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) اِس سے مُراد یہ نہیں کہ ہماری زمین کو تباہ کر دیا جائے گا۔ (متی ۲۴:۳) بلکہ اِسکا مطلب یہ ہے کہ اِس دُنیا کا بُرا نظام اور ہماری تمام مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ اخیر زمانے میں لوگ کیسے مزاج کے مالک ہوں گے۔ اس سلسلے میں صفحہ ۸ پر بکس ”آخری دنوں کے نشان“ پر غور کیجئے اور پھر ان نکات کا مقابلہ دُنیا کے حالت سے کیجئے۔ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ ہم اِس دُنیا کے بُرے نظام کے خاتمے کے بالکل نزدیک آ پہنچے ہیں۔ لیکن اِس خاتمے کے بعد کیا ہوگا؟
منزل نزدیک ہے!
آدم اور حوا کی بغاوت کے فوراً بعد خدا نے ایک بادشاہت کا انتظام کِیا ”جو تاابد نیست نہ ہوگی۔“ (دانیایل ۲:۴۴) یہ وہ بادشاہت ہے جسکے لئے مسیحی دُعا کرتے ہیں۔ خدا اِس بادشاہت کے ذریعے اپنے لوگوں کو برکتوں سے نوازے گا۔—متی ۶:۹، ۱۰۔
خدا کی بادشاہت ایک آسمانی حکومت ہے جو زمین پر بہت سی تبدیلیاں لائے گی۔ خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ اِس بادشاہت کے ذریعے ”زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ“ کرے گا۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۸) خدا اُن لوگوں کیلئے کیا کرے گا جو اُسکے فرمانبردار ہیں؟ خدا کا کلام کہتا ہے کہ خدا ”اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِسکے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“ (مکاشفہ ۲۱:۴) کوئی بھی انسان اِن وعدوں کو پورا نہیں کر سکتا، صرف خدا ہی ایسا کر سکتا ہے۔
آپ خدا کی بادشاہت سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟ یوحنا ۱۷:۳ میں لکھا ہے: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ یہوواہ کے گواہ، لوگوں کو یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو جاننے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ ۲۳۰ ممالک میں خدا کی بادشاہت کی منادی کرتے ہیں اور خدا کے کلام پر مبنی اُنکی کتابیں اور رسالے وغیرہ ۴۰۰ سے زیادہ زبانوں میں شائع ہوتے ہیں۔ اگر آپکو مزید معلومات درکار ہیں تو مہربانی سے یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کیجئے یا پھر صفحہ ۵ پر دیئے گئے پتے پر لکھیں۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
”تُم جو یہ کہتے ہو کہ ہم آج یا کل فلاں شہر میں جا کر وہاں ایک برس ٹھہریں گے اور سوداگری کرکے نفع اٹھائیں گے۔ اور یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا۔“—یعقوب ۴:۱۳، ۱۴
[صفحہ ۶ پر عبارت]
خدا کا کلام ہمیں آدم اور حوا سے لے کر آج تک انسان کی پوری تاریخ سے آگاہ کرتا ہے۔ خدا کے کلام پر غور کرنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا
[صفحہ ۷ پر عبارت]
ہم غلط کام اسلئے کرتے ہیں کیونکہ ہم نے گُناہ کو ورثے میں پایا ہے۔ ہم گُناہ کے اِس داغ کیساتھ پیدا ہوتے ہیں اور اِسکا ہمارے اعمال پر گہرا اثر ہے۔ ”زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔“—واعظ ۷:۲۰
[صفحہ ۸ پر عبارت]
اگر آپ ایک ایسے کاغذ کی فوٹوسٹیٹ کاپی اُتارتے ہیں جس پر ایک داغ ہے تو اُس کاغذ کی ہر نقل پر بھی یہ داغ ہوگا۔ اسی طرح آدم میں گُناہ کا داغ تھا۔ اُسکی اولاد ہونے کی وجہ سے ہم میں بھی گُناہ کا داغ پایا جاتا ہے
[صفحہ ۸ پر عبارت]
خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ”انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔“ (یرمیاہ ۱۰:۲۳) اِس آیت سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان دُنیا میں امن کیوں نہیں لا سکا ہے۔ انسان خدا کے بغیر اپنی ”راہ“ اختیار کرنے کیلئے خلق نہیں کِیا گیا
[صفحہ ۹ پر عبارت]
زبورنویس نے کہا تھا: ”تیرا کلام میرے قدموں کیلئے چراغ اور میری راہ کیلئے روشنی ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۱۰۵) خدا کا کلام ایک ”چراغ“ کی طرح ہمارا راستہ روشن کرتا ہے تاکہ ہم زندگی میں صحیح فیصلے کرنے کے قابل بنیں۔ یہ ہماری ”راہ کیلئے روشنی“ بنتا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ انسان کا مستقبل کیا ہوگا
[صفحہ ۷ پر بکس]
وعدے جن پر پورا اُترانا مشکل ہے
ستمبر ۲۰۰۰ میں اقوامِمتحدہ کے اراکین نے عہد باندھا کہ وہ سن ۲۰۱۵ تک اِن نکات پر پورا اُترنے کی کوشش کریں گے۔
▪ اُن لوگوں کی تعداد آدھی کر دی جائے گی جنہیں ہر دن ایک ڈالر [تقریباً ۶۰ روپے] سے بھی کم پیسوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے یا جنہیں بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔
▪ ہر بچے کو بنیادی تعلیم دی جائے گی۔
▪ لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا برابر موقع دیا جائے گا۔
▪ پانچ سال سے کم عمر میں فوت ہونے والے بچوں کی تعداد کو ۶۶ فیصد سے کم کر دیا جائے گا۔
▪ موت کا شکار ہونے والی حاملہ عورتوں کی تعداد کو ۷۵ فیصد سے کم کر دیا جائے گا۔
▪ ایڈز اور ملیریا جیسی بیماریوں کو پھیلنے سے روک دیا جائے گا۔
▪ اُن لوگوں کی تعداد آدھی کر دی جائے گی جنکے پاس پینے کو صاف پانی نہیں ہے۔
کیا اقوامِمتحدہ کی تنظیم واقعی ان نکات پر پورا اُتر سکتی ہے؟ سن ۲۰۰۴ میں چند طبّی افسران نے اصل صورتحال پر غور کِیا۔ اُنکا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں اُس پر ہم پورا نہیں اُتر پا رہے۔ دُنیا کے حالات پر مبنی ایک رپورٹ یوں بیان کرتی ہے: ”غربت کی وجہ سے بہتیرے علاقوں میں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ ایڈز جیسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسکے نتیجے میں کئی ممالک کی آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ۲ کروڑ بچے گندا پانی پینے سے بیمار ہو کر مر گئے ہیں حالانکہ اِن بیماریوں کا علاج دستیاب ہے۔ کروڑوں لوگ ہر دن صاف پانی اور صحتوصفائی کے انتظامات کے بغیر زندگی جی رہے ہیں۔“
[صفحہ ۸ پر بکس/تصویریں]
آخری دنوں کے نشان
جنگیں۔—متی ۲۴:۷؛ مکاشفہ ۶:۴۔
کال۔—متی ۲۴:۷؛ مکاشفہ ۶:۵، ۶، ۸۔
وبائیں۔—لوقا ۲۱:۱۱؛ مکاشفہ ۶:۸۔
بےدینی۔—متی ۲۴:۱۲۔
آلودگی۔—مکاشفہ ۱۱:۱۸۔
زلزلے۔—لوقا ۲۱:۱۱۔
بُرا زمانہ۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۔
لالچی لوگ۔—۲-تیمتھیس ۳:۲۔
ماںباپ کے نافرمان۔—۲-تیمتھیس ۳:۲۔
محبت سے خالی لوگ۔—۲-تیمتھیس ۳:۳۔
عیشوعشرت کو ترجیح دینے والے۔ —۲-تیمتھیس ۳:۴۔
بےضبط لوگ۔—۲-تیمتھیس ۳:۳۔
نیکی کے دُشمن۔—۲-تیمتھیس ۳:۳۔
آگاہی کو نظرانداز کرنے والے۔—متی ۲۴:۳۹۔
ہنسی ٹھٹھا کرنے والے۔—۲-پطرس ۳:۳، ۴۔
بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی۔—متی ۲۴:۱۴۔
[تصویروں کے حوالہجات]
G.M.B. Akash/Panos Pictures ©
Paul Lowe/Panos Pictures ©
[صفحہ ۹ پر تصویر]
یہوواہ کے گواہ خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے کیلئے مشہور ہیں