مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

الحمرا—‏غرناطہ کا عالیشان قلعہ

الحمرا—‏غرناطہ کا عالیشان قلعہ

الحمرا‏—‏غرناطہ کا عالیشان قلعہ

سپین سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

‏”‏ان عالیشان عمارتوں میں عرب اور ہسپانیہ کی روایتیں،‏ اُن کی محبت اور جنگوں کی داستانیں گونج رہی ہیں۔‏“‏

یہ تھے ایک امریکی مصنف کے الفاظ جب اُس نے سپین میں واقع شہر غرناطہ کے قلعے کو دیکھا تھا۔‏ یہ قلعہ الحمرا کے نام سے مشہور ہے۔‏ اس کے فنِ‌تعمیر کو دیکھ کر عرب اور فارس کی یاد آتی ہے۔‏ شمالی افریقہ کے مسلمانوں نے کئی صدیوں تک سپین پر حکومت کی اور اسی دوران اُنہوں نے اس خوبصورت قلعے کو تعمیر کِیا۔‏ *

ایک عرب امیر زاوی بِن زیری نے گیارھویں صدی میں غرناطہ کی مملکت قائم کی۔‏ یہ مملکت تقریباً ۵۰۰ سال یعنی ۱۴۹۲ عیسوی تک قائم رہی۔‏ اس دوران غرناطہ نے تہذیب اور فنون کے لحاظ سے خوب ترقی پائی۔‏ پھر کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے ہسپانیہ کے کُل علاقے پر قبضہ جما لیا اور یوں غرناطہ کی شمع بھی بجھ گئی۔‏

دراصل غرناطہ کی شمع سن ۱۲۳۶ عیسوی میں روشن ہوئی تھی۔‏ یہ اُس وقت کی بات ہے جب عیسائیوں نے شہر قرطبہ کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔‏ تب غرناطہ کو ہسپانیہ کے ان علاقوں کا دارالحکومت بنا لیا گیا جہاں مسلمان حکومت کرتے تھے۔‏ غرناطہ کے حاکموں نے ایک ایسا شاندار محل اور قلعہ تعمیر کِیا جسے دیکھ کر یورپ کے لوگوں کو رشک آنے لگا۔‏ ایک مصنف نے الحمرا کے بارے میں لکھا:‏ ”‏اس سے زیادہ شاندار عمارت دُنیا میں نہیں پائی جاتی۔‏“‏

الحمرا کی خوبصورتی اُس علاقے کی شان کو دُگنی کر دیتی ہے جہاں وہ واقع ہے۔‏ اِس قلعے کے پیچھے سیرا نوادا کے پہاڑی سلسلے کی اُونچی اُونچی برفانی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔‏ الحمرا خود ایک ۱۵۰ میٹر [‏۵۰۰ فٹ]‏ اُونچے ٹیلے پر واقع ہے۔‏ ٹیلے کے دامن میں شہر غرناطہ ہے۔‏ چودھویں صدی کے شاعر اِبنِ‌زمرک نے اس منظر کو ایک ایسے آدمی سے تشبیہ دی جو اپنی بیوی کو سراہنے والی نظروں سے دیکھتا ہے۔‏

سُرخ قلعہ

عربی زبان میں لفظ ”‏الحمرا“‏ سُرخ رنگ کا مطلب رکھتا ہے۔‏ اس قلعے کی فصیلیں سُرخ رنگ کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ قلعے کا نام اس وجہ سے الحمرا رکھا گیا تھا۔‏ البتہ کئی عربی تاریخ‌دان کہتے ہیں کہ اس قلعے کی تعمیر کا کام رات کے وقت بھی جاری رکھا گیا تھا۔‏ ایسا کرنے کے لئے ”‏مشعلوں کے ذریعے روشنی مہیا کی جاتی تھی“‏ اور اس روشنی میں قلعے کی دیواریں سُرخ لگتی تھیں۔‏ ان کے مطابق قلعے کا نام اسی وجہ سے الحمرا پڑ گیا تھا۔‏

الحمرا صرف قلعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ بذاتخود ایک مکمل شہر ہے۔‏ قلعے (‏جو القصبہ کے نام سے مشہور ہے)‏ کی اُونچی فصیلوں میں خوبصورت باغات اور صحن،‏ ایک محل اور ایک چھوٹا سا شہر بھی دیکھنے کو آتا ہے۔‏ چونکہ بعد میں یورپ کے باشندوں نے بھی اس قلعے کی عمارتوں میں اضافہ کِیا تھا اس لئے الحمرا میں دو قسم کے فنِ‌تعمیر پائے جاتے ہیں،‏ ایک تو عربوں کا پیچیدہ اور باریک کام اور دوسرا یورپی کاریگروں کا بھاری کام۔‏

فنِ‌تعمیر کے جن اصولوں پر الحمرا بنایا گیا ہے انہی اصولوں پر قدیم یونان کی عمارتیں بھی بنائی گئی تھیں۔‏ سب سے پہلے کاریگروں نے پتھروں کی بناوٹ اور اُن کے رنگ کو مدِنظر رکھتے ہوئے سادہ عمارتوں کو ترتیب دیا۔‏ اس کے بعد ان سادہ دیواروں کو سجایا گیا۔‏ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ”‏شمالی افریقہ کے مسلمان فنِ‌تعمیر کے سنہری اصول پر عمل کرتے تھے یعنی پہلے عمارت تعمیر کرو پھر اس کے سادہ پتھروں کو سجاؤ۔‏“‏

الحمرا کی سیر

الحمرا میں داخل ہونے کے لئے ہمیں ایک بہت بڑے پھاٹک سے گزرنا پڑتا ہے جو کمان کی شکل میں بنا ہوا ہے۔‏ اس پھاٹک کا نام باب‌القانون ہے۔‏ یہ نام اُس زمانے کی یاد دلاتا ہے جب مسلمانوں کی حکمرانی کے دوران اس پھاٹک میں عدالت بیٹھتی تھی۔‏ یہ رواج مشرقِ‌وسطیٰ کے علاقوں میں عام تھا اور اس کا ذکر خدا کے کلام میں بھی ہوا ہے۔‏ *

عربوں کی تعمیرشُدہ بہت سی عمارتوں کی طرح الحمرا کی دیواروں پر بھی استرکاری کی گئی ہے۔‏ کاریگر پلاستر تیار کرکے اسے دیواروں پر لگاتے اور پھر اس میں خوبصورت نقش‌ونگار کھودتے۔‏ یہ نقش‌ونگار باربار دُہرائے جاتے۔‏ جہاں دیواروں کا اوپر والا حصہ اس استرکاری سے سجایا گیا ہے وہاں ان کا نیچے والا حصہ رنگ‌برنگے ٹائلوں سے سجا ہوا ہے۔‏ اس کے علاوہ جگہ جگہ ستون بھی دیکھنے کو آتے ہیں جن کو بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا ہے۔‏

یوں تو الحمرا میں بہت سے صحن پائے جاتے ہیں لیکن شیروں کا صحن ان میں سے سب سے عمدہ ہے۔‏ اس صحن کو ”‏عربوں کے فنِ‌تعمیر کی خوبصورت‌ترین مثال“‏ کہا گیا ہے۔‏ ایک کتاب میں لکھا ہے:‏ ”‏شیروں کے صحن کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے .‏ .‏ .‏ کہ اس کی لاجواب خوبصورتی کی نقل کوئی نہیں تیار کر سکے گا۔‏“‏ اس صحن کا مرکز ایک فوارہ ہے جو سنگِ‌مرمر کے بارہ شیروں پر بنا ہوا ہے۔‏ صحن کے اِردگِرد پتلے پتلے ستونوں پر ایک چھت والی راہ ہے جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔‏ سپین کے تمام مقامات کی نسبت اس صحن کی سب سے زیادہ تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔‏

جنت‌نما باغ

الحمرا کی سیر کرتے ہوئے ہم بہت سے خوبصورت تالاب،‏ فواروں اور باغات سے گزرتے ہیں۔‏ * ہسپانیہ میں عربوں کے دَور کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”‏عربوں کے باغات جنت کی ایک جھلک ہیں۔‏“‏ ان باغات میں اسلام کا اثر پایا جاتا ہے۔‏ ایک ہسپانوی مصنف کے مطابق ”‏قرآن میں جنت کو ایک خوبصورت باغ کہا گیا ہے .‏ .‏ .‏ جس میں پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔‏“‏ الحمرا کی سجاوٹ میں بڑے پیمانے پر پانی استعمال ہوا ہے۔‏ یہ اُن لوگوں کے لئے جنت سے کم نہیں تھا جو ریگستان میں رہنے کے عادی تھے۔‏ جن ماہروں نے الحمرا کے باغ لگائے اُنہوں نے فضا کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کثرت سے پانی استعمال کِیا۔‏ وہ جانتے تھے کہ فواروں اور آبشاروں سے پانی کے گِرنے کی آواز کانوں میں موسیقی کی طرح پڑتی ہے۔‏ اُنہوں نے بہت سے تالاب بھی لگائے۔‏ وہ جانتے تھے کہ جب اِن تالابوں میں سپین کے نیلے آسمان کا عکس پڑتا ہے تو جگہ کُھلی لگتی ہے۔‏

الحمرا کے نزدیک ہی ایک ٹیلے پر جنت‌العارف نامی حویلی واقع ہے۔‏ ایک زمانے میں الحمرا اور اس حویلی کے درمیان ایک پُل ہوتا تھا۔‏ غرناطہ کے حاکم اس حویلی کو ایک تفریح‌گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔‏ جنت‌العارف کے باغ کو ”‏دُنیا کے خوبصورت‌ترین باغات میں سے ایک“‏ قرار دیا گیا ہے۔‏ * اس کے ایک آنگن میں آبشار والی سیڑھیاں بنی ہیں۔‏ یہاں پر آنے والے سیاح پھولوں اور پودوں کی مہک اور رنگ اور روشنی کے اِس کھیل سے مدہوش سے ہو جاتے ہیں۔‏

سلطان کی آہ

سلطان ابو عبداللہ غرناطہ کا آخری مسلمان حاکم تھا۔‏ جب اُس نے غرناطہ کو بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کر دیا تو اُسے غرناطہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔‏ شہر سے روانہ ہونے کے بعد جب ابو عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک اُونچے مقام پر پہنچا تو اُس نے آخری بار اُس شاندار سُرخ قلعے پر نظر ڈالی اور گہری آہ بھری۔‏ اس پر ابو عبداللہ کی ماں نے اُس سے کہا کہ ”‏جس کا تُم مرد بن کر دفاع نہ کر سکے اُس کے لئے عورتوں کی طرح آنسو بہاؤ۔‏“‏

آجکل ہر سال ۳۰ لاکھ سیاح الحمرا کی سیر کو آتے ہیں اور ان میں سے کچھ اُسی اُونچے مقام پر جا کر اسی منظر پر نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھ کر سلطان ابو عبداللہ نے آہ بھری تھی۔‏ اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر وہ غرناطہ کے آخری سلطان کی افسردگی کو سمجھ پاتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 سن ۷۱۱ عیسوی میں عرب اور شمالی افریقہ کے مسلمان ہسپانیہ پر حملہ‌آور ہوئے اور سات سال کے عرصہ میں اُنہوں نے اس کا زیادہ‌تر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔‏ دو سو سال کے اندر اندر قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا اور تہذیب‌یافتہ شہر بن گیا۔‏

^ پیراگراف 13 مثال کے طور پر خدا نے اپنے نبی زکریاہ کے ذریعے کہا تھا کہ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ اپنے پھاٹکوں میں راستی سے عدالت کرو تاکہ سلامتی ہو۔‏“‏—‏زکریاہ ۸:‏۱۶‏۔‏

^ پیراگراف 17 عربوں نے سپین اور بحیرۂروم کے آس‌پاس کے علاقوں میں فارس اور قسطنطنیہ کے فنِ‌باغبانی کے مطابق باغات لگائے۔‏

^ پیراگراف 18 جنت‌العارف عربی لفظ ہے۔‏ کئی عالم اس کا ترجمہ ’‏بلند باغات‘‏ بتاتے ہیں۔‏ لیکن زیادہ‌تر علما کا کہنا ہے کہ اس کا اصلی ترجمہ ”‏مُعلم کا باغ“‏ ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

قلعہ القصبہ

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

شیروں کا صحن

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

جنت‌العارف کے باغ

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

آبشار والی سیڑھیاں

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

Line art: EclectiCollections

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

All except top photo: Recinto Monumental de la Alhambra y

Generalife

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر کا حوالہ]‏

All photos: Recinto Monumental de la Alhambra y Generalife

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏;Above photos: Recinto Monumental de la Alhambra y Generalife

bottom photo: J. A. Fernández/San Marcos