مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سمندر کی ریتیلی بہشت

سمندر کی ریتیلی بہشت

سمندر کی ریتیلی بہشت

آسٹریلیا سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

سن ۱۷۷۰ میں برطانوی کپتان جیمز کک نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کی سیاحت کی۔‏ جس جگہ آجکل شہر برِسبین واقع ہے جیمز کک وہاں سے شمالی سمت میں تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر [‏۱۰۰ میل]‏ کا سفر طے کر چکا تھا کہ اُسے ایک بہت بڑا ریتیلا جزیرہ نظر آیا۔‏ البتہ اُس نے اسے برِّاعظم آسٹریلیا کا ایک جزیرہ‌نما سمجھا اور اسے زیادہ توجہ نہ دی۔‏ چند سال بعد جب ایک اَور ملاح اِس جزیرے پر آیا تو اُس نے اس کے بارے میں لکھا کہ ”‏یہ جزیرہ بالکل بنجر ہے۔‏“‏ وہ دونوں یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ہر سال تین لاکھ سیاح اس جزیرے کی سیر کرنے کو آئیں گے۔‏

اگر یہ دونوں ملاح ساحل کے ریتیلے ٹیلوں کو پار کرکے پورے جزیرے کا جائزہ لیتے تو وہ بیشک حیران رہ جاتے۔‏ اُنہیں گھنے گھنے جنگلات اور صاف‌ستھری جھیلیں نظر آتیں۔‏ انہیں رنگیلی ریت کے خوبصورت ٹیلے دکھائی دیتے اور جانوروں کی سینکڑوں مختلف اقسام ملتیں۔‏ آجکل یہ جزیرہ فریزر آئی‌لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔‏ یہ دُنیا کا سب سے بڑا ریتیلا جزیرہ ہے۔‏ سن ۱۹۹۲ میں اِس انوکھے جزیرے کو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کِیا گیا۔‏ *

سمندر اور ہوا کا کھیل

فریزر آئی‌لینڈ کی لمبائی ۱۲۰ کلومیٹر [‏۷۵ میل]‏ ہے اور اس کی چوڑائی ۲۵ کلومیٹر [‏۱۵ میل]‏ ہے۔‏ لہٰذا،‏ یہ جزیرہ ۲۰۰،‏۹۵،‏۳ ایکڑ پر مشتمل ہے۔‏ اس کے ٹیلے ۲۴۰ میٹر [‏۷۹۰ فٹ]‏ اُونچے ہیں جس کی وجہ سے فریزر آئی‌لینڈ دُنیا کا سب سے اُونچا ریتیلا جزیرہ ہے۔‏ ریت کا یہ انوکھا ڈھیر کیسے وجود میں آیا؟‏

آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر ایک طویل پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔‏ بہت عرصے کے دوران بارشوں نے اس کی چٹانوں میں سے پتھر نکالے۔‏ یہ لاتعداد پتھر نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر تک پہنچے۔‏ وہاں سمندر کے بہاؤ نے ان پتھروں کو پیس کر انہیں ریت میں تبدیل کر دیا۔‏ پھر سمندر کے بہاؤ نے اس تمام ریت کو شمال کی طرف دھکیل دیا جہاں سمندر کی تہہ پر موجود چٹانوں نے ریت کو روک لیا۔‏ اس طرح وہاں ریت کے ڈھیروں ڈھیر لگ گئے اور فریزر آئی‌لینڈ وجود میں آ گیا۔‏

آج تک فریزر آئی‌لینڈ کے ساحل پر سمندر کے ذریعے ریت پہنچ رہی ہے۔‏ ہوا اس ریت کو اُڑا کر ٹیلوں کے ڈھیر لگاتی ہے۔‏ ہوا کے عمل سے یہ ٹیلے ہر سال جزیرے کے اندرون کی طرف ایک میٹر [‏۳ فٹ]‏ آگے بڑھتے ہیں۔‏

جھیلیں اور گھنے جنگلات

حیرانی کی بات ہے کہ اس ریتیلے جزیرے پر ۴۰ جھیلیں پائی جاتی ہیں۔‏ ان جھیلوں میں سے بعض ٹیلوں کی چوٹیوں پر واقع ہیں۔‏ ان میں پانی کیوں نہیں سُوکھتا؟‏ اس لئے کہ ان جھیلوں کی تہہ پر درختوں کی ڈالیاں اور پتے جم گئے ہیں اور وہ پانی کو روک لیتے ہیں۔‏

اسکے علاوہ وادیوں میں بھی جھیلیں ہیں جو زمین کی تہہ سے اُبھرنے والے پانی سے بھر جاتی ہیں۔‏ ان میں پایا جانے والا پانی ریت سے گزرتا ہے اس لئے یہ انتہائی صاف ہوتا ہے۔‏

چونکہ سالانہ بارش عموماً ۱۵۰ سینٹی‌میٹر [‏۶۰ اِنچ]‏ سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے جھیلوں کا پانی کبھی سُوکھتا نہیں۔‏ یہاں تک کہ اضافی پانی نالوں کے ذریعے سمندر میں بہہ جاتا ہے۔‏ فریزر آئی‌لینڈ پر ایک ایسا نالہ ہے جس سے ہر گھنٹے ۵۰ لاکھ لیٹر پانی سمندر میں بہتے ہیں۔‏

پانی کی کثرت کی وجہ سے فریزر آئی‌لینڈ بہت سرسبز ہے۔‏ عام طور پر ریت پر گھنے جنگلات نہیں اُگتے۔‏ لیکن فریزر آئی‌لینڈ کے جنگلات اتنے گھنے ہیں کہ لکڑہارے ۱۰۰ سال سے زیادہ عرصہ تک وہاں درخت کاٹتے رہے۔‏ وہ خاص طور پر مختلف اقسام کے یوکلپٹس اور چیڑ کے درخت کاٹتے۔‏ سن ۱۹۲۹ میں ایک لکڑہارے نے فریزر آئی‌لینڈ کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہاں جنگل ۱۵۰ فٹ [‏۴۵ میٹر]‏ اُونچی دیوار کی طرح نظر آتا ہے۔‏ ان درختوں کے تنے چھ تا دس فٹ [‏۲-‏۳ میٹر]‏ موٹے ہیں۔‏“‏ فریزر آئی‌لینڈ کے درخت نہرِسُویز کی تعمیر میں بھی استعمال ہوئے۔‏ البتہ،‏ آج فریزر آئی‌لینڈ پر کلہاڑیاں خاموش پڑ گئی ہیں۔‏

ایک بھیانک واقعہ

جزیرے کا نام ایک بھیانک واقعے کی یاد دلاتا ہے۔‏ سن ۱۸۳۶ میں جب کپتان جیمز فریزر کا جہاز تباہ ہو گیا تو اُس نے اپنی بیوی ایلائزا کے ساتھ اس جزیرے پر پناہ لی۔‏ کہا جاتا ہے کہ جزیرے کے باشندوں نے کپتان کو مار ڈالا لیکن اُس کی بیوی بچ گئی۔‏ اِس آفت کی یادگار میں جزیرے کا نام فریزر آئی‌لینڈ رکھا گیا۔‏

پھر جزیرے کے باشندے بھی آفت کا شکار ہو گئے۔‏ ان کی آبادی ایک زمانے میں ۰۰۰،‏۲ تھی۔‏ وہ بڑے طاقتور اور تندرست لوگ تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی زبان میں جزیرے کو جو نام دیا تھا اس کا مطلب ”‏بہشت“‏ ہے۔‏ ان لوگوں کی روایتوں کے مطابق قدرت نے ان ہی کے جزیرے کو دُنیا کا سب سے خوبصورت علاقہ بنایا تھا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ان کی اکثریت ایسی بیماریوں کا شکار ہو گئی جو یورپی لوگوں کے ذریعے جزیرے پر پہنچی تھیں۔‏ جزیرے کے جو اصلی باشندے اس وبا سے بچ گئے تھے انہیں سن ۱۹۰۰ کے لگ‌بھگ برِّاعظم آسٹریلیا میں آباد کر دیا گیا۔‏

جانوروں کی پناہگاہ

آجکل فریزر آئی‌لینڈ جانوروں کی پناہگاہ ہے۔‏ وہاں آسٹریلیا کے جنگلی کتے آباد ہیں جنہیں ڈِنگو کہا جاتا ہے۔‏ جزیرے پر ان جنگلی کتوں کا پالتو کتوں سے کوئی واسطہ نہیں پڑتا۔‏ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مشرقی آسٹریلیا میں جنگلی کتوں کی سب سے خالص نسل ہے۔‏ حالانکہ ڈِنگو دیکھنے میں پالتو کتوں کی طرح لگتے ہیں لیکن مزاج میں وہ جنگلی ہی ہیں۔‏ اس لئے ان سے خبردار رہنا چاہئے۔‏

فریزر آئی‌لینڈ پر ۳۰۰ سے زیادہ پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔‏ برہمن چیل اور سفید عقاب ساحل پر پرواز کرکے شکار کرتے ہیں۔‏ نیلی رام‌چڑیاں جھیلوں میں غوطہ مار کر مچھلیاں پکڑتی ہیں۔‏ سائبیریا کا ایک آبی پرندہ جو سردیوں میں دُنیا کے جنوبی علاقوں میں پناہ لیتا ہے وہ فریزر آئی‌لینڈ پر بھی آتا ہے۔‏ جب یوکلپٹس درخت کے پھول کھلتے ہیں تو ۰۰۰،‏۳۰ سے زیادہ چمگادڑ ان کے پھولوں کا رس چوسنے کے لئے آتے ہیں۔‏ اس قسم کے چمگادڑ کوّوں جیسے بڑے ہوتے ہیں۔‏

فریزر آئی‌لینڈ کے اِردگِرد سمندر میں بھی بےشمار جانور پائے جاتے ہیں،‏ مثلاً وھیل مچھلیاں جو قُطبِ‌جنوبی کے علاقے سے آسٹریلیا کی ساحل کا سالانہ سفر کرتی ہیں۔‏ وہاں اُن کے بچے پیدا ہوتے ہیں اور اُن کی گود بھر آتی ہے۔‏ فریزر آئی‌لینڈ کے ساحل سے اکثر ایک عجیب‌وغریب منظر دیکھنے میں آتا ہے۔‏ بڑی بڑی وھیل مچھلیاں اچانک پانی میں سے اُچھلتی ہیں اور جب وہ بڑے زور سے دوبارہ سے سمندر میں گِرتی ہیں تو چھینٹیں دُور دُور تک نظر آتی ہیں۔‏ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ وھیل مچھلیاں اِس انوکھے جزیرے کو آداب عرض کر رہی ہوں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 اقوامِ‌متحدہ کا تعلیمی،‏ سائنسی اور ثقافتی ادارہ (‏یونیسکو)‏ اس فہرست میں ایسے علاقے اور جگہیں شامل کرتا ہے جو سائنس کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر نقشے]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

بحرالکاہل

فریزر آئی‌لینڈ

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

دائیں طرف،‏ اُوپر سے نیچے:‏

ایک دریا کا دہانہ

فریزر آئی‌لینڈ پر چالیس جھیلیں پائی جاتی ہیں

یہاں ریت پر گھنے جنگلات اُگتے ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

All photos: Courtesy of Tourism Queensland

‏[‏صفحہ ۱۶ اور ۱۷ پر تصویریں]‏

ڈِنگو اور کوآلہ

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy of Tourism Queensland

‏[‏صفحہ ۱۶ اور ۱۷ پر تصویر]‏

‏”‏پچھتّر میل کا ساحل“‏ جو دُنیا کا سب سے لمبا ریتیلا ساحل ہے

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

سفید عقاب

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

رام چڑیاں

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

پیلی‌کن

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

وھیل مچھلی

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏:Eagle: ©GBRMPA; all other photos except pelicans

Courtesy of Tourism Queensland