لندن کی تیزرفتار ایمبولینس سروس
لندن کی تیزرفتار ایمبولینس سروس
برطانیہ سے جاگو! کا نامہنگار
لندن کی ایمبولینس سروس کے ایک مینیجر نے مجھے بتایا کہ ”لندن کے وسیع علاقے میں ہم ۸ منٹ کے اندر اندر سخت بیمار اور زخمی لوگوں کی مدد کے لئے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو میں سے ۷۵ بار ہم اِس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں جب کہ ہر سال حادثوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔“
مجھے لندن کے ایمبولینس سروس سنٹر آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ سنٹر دریائے تھیمز کے جنوبی ساحل پر واقع ہے۔ یہ یورپ کا سب سے بڑا ایمبولینس سنٹر ہے اور یہاں ہر دِن تقریباً ۰۰۰،۳ ٹیلیفون کال موصول ہوتی ہیں۔ یہ کال لندن کے ۷۰ لاکھ لوگوں کی آبادی میں سے موصول ہوتی ہیں اور یہ لوگ ۳۰۰ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ایمبولینس سروس سنٹر میں کام کرنے والے ۳۰۰ افراد اپنے کام کو کیسے انجام دیتے ہیں؟
حادثے کی سنگینی کا اندازہ لگانا
ہنگامی صورتحال میں یا جب ایک حادثہ پیش آتا ہے تو برطانیہ میں ۹۹۹ کا نمبر ملایا جاتا ہے۔ مَیں نے سنٹر میں کام کرنے والے ایک آپریٹر کو ایسی ایک کال موصول کرتے ہوئے دیکھا۔ پہلے اُس نے اُس علاقے کا نام پوچھا جہاں واقعہ پیش آیا۔ اور پھر اُس کے کمپیوٹر پر ایک نقشہ دکھائی دیا۔ حادثے کی سنگینی کو جاننے کے لئے آپریٹر نے کچھ سوال پوچھے۔ مثلاً کتنے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے؟ کیا وہ شخص مرد ہے یا عورت؟ اُس کی عمر کیا ہے؟ کیا وہ ہوش میں ہے؟ کیا اُس کے سینے میں درد ہے؟ کیا اُس کا خون بہہ رہا ہے؟
جب آپریٹر ان سوالوں کے جواب کمپیوٹر میں درج کرتا ہے تو کمپیوٹر خودبخود حادثے کی سنگینی کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اگر کسی حادثے کی رپورٹ کے ساتھ کمپیوٹر سُرخ رنگ دیتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ جان کو خطرہ ہے۔ اگر کمپیوٹر کسی حادثے کو زرد رنگ
دیتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ جان کو خطرہ نہیں ہے لیکن معاملہ کافی سنگین ہے۔ اور اگر ایک حادثے کو سبز رنگ دیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ نہ تو جان کو خطرہ ہے اور نہ ہی معاملہ سنگین ہے۔ پھر آپریٹر اِن معلومات کو اپنے ایک ساتھی تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ حادثے کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لئے کسی کو روانہ کرے۔فوری مدد کے لئے تیار
اِس ایمبولینس سروس سنٹر کی ۳۹۵ ایمبولینس ہیں اور ۶۰ ایسی گاڑیاں بھی ہیں جو ہنگامی صورتحال میں تیزرفتاری سے حادثے کی جگہ پہنچ سکتی ہیں۔ اِن ایمبولینس اور گاڑیوں میں ایسے اشخاص ہوتے ہیں جو ہنگامی صورتحال میں اسسٹنٹ ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جب کسی حادثے کا پتا چلتا ہے تو حادثے کی جگہ کے نزدیک جو ایمبولینس یا گاڑی موجود ہوتی ہے، اُسے وہاں بھیجا جاتا ہے۔ کئی اسسٹنٹ ڈاکٹر موٹرسائیکل استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ گاڑیوں کے بیچ میں سے حادثے کی جگہ تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ اِس کے علاوہ بارہ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو حادثے میں اسسٹنٹ ڈاکٹر کی مدد کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے تیار رہتے ہیں۔
جب مَیں وہاں موجود تھا تو پولیس نے ایمبولینس سنٹر کو ایک ہولناک حادثے کی اطلاع پہنچائی۔ اگرچہ ایمبولینس حادثے کی جگہ پہنچ چکی تھی توبھی پولیس نے ایمبولینس سنٹر کو اطلاع کیوں دی؟ اِس لئے کہ وہ آپریٹر کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اُنہیں ایک ہیلیکاپٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایمبولینس سنٹر کے سُرخ رنگ کے ہیلیکاپٹر ہر سال تقریباً ۰۰۰،۱ حادثوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہیلیکاپٹر میں ایک ڈاکٹر اور ایک اسسٹنٹ ڈاکٹر ہوتا ہے جو شدید زخمی اشخاص کو لندن کے رویل ہسپتال لے جاتے ہیں۔ وہاں اُن کا فوری طور پر علاج کِیا جاتا ہے۔
سن ۲۰۰۴ میں ایک نئے منصوبے کے تحت لندن کے ہوائیاڈے ہیتھرو میں ہونے والے حادثوں سے نپٹنے کے لئے اسسٹنٹ ڈاکٹر اور اُن کے ساتھی خاص قسم کی سائیلکیں استعمال کرتے ہیں۔ ہر سائیکل پر ایک نیلا سائرن ہوتا ہے۔ سائیکل پر ایک ٹوکرا بھی لگا ہوتا ہے جس میں ۳۵ کلوگرام [۷۷ پونڈ] کا طبّی سامان پایا جاتا ہے مثلاً آکسیجن اور دوائیاں وغیرہ۔ ہوائیاڈوں میں ایسی سائیکلوں کی وجہ سے ایمبولینس دوسرے حادثوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
ہیتھرو ہوائیاڈے پر یہ خاص سائیلکیں بہت فائدہمند ثابت ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ۳۵ سالہ عورت نے اچانک سانس لینا بند کر دیا۔ دو اسسٹنٹ ڈاکٹر برقرفتاری سے عورت کے پاس پہنچے اور اُسے آکسیجن لگائی۔ اِس کے بعد اُس عورت کو ایک ایمبولینس کے ذریعے نزدیکی ہسپتال پہنچایا گیا۔ جب اُس کی صحت بہتر ہوئی تو عورت نے خود جا کر اُن اسسٹنٹ ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کِیا جنہوں نے اُس کی جان بچائی تھی۔
ایک عمدہ انتظام
جب کوئی ایسا شخص ایمبولینس سنٹر فون کرتا ہے جو انگریزی نہیں بول سکتا تو اُس کی کال ایک ترجمان کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اُس شخص کی زبان کا پتا لگانا کافی مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ پریشانی کے عالم میں جلدی جلدی بول رہا ہوتا ہے۔
ہنگامی صورتحال میں کسی کو طبّی امداد دینے کے بارے میں ایک ڈی وی ڈی تیار کی گئی ہے۔ اسے خاص طور پر جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لئے تیار کِیا گیا ہے۔ لندن کی ایمبولینس سروس کے مطابق ’ڈی وی ڈی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سانس لینا بند کر دے تو اسے کیسے بحال کِیا جا سکتا ہے۔‘ اِس ڈی وی ڈی میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ جب ایک شخص ایمبولینس سنٹر کو فون کرتا ہے تو آپریٹر کیسے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔
انگلینڈ کے دارالحکومت میں مختلف ممالک کے لوگ رہتے ہیں۔ وہ سب ایمبولینس سنٹر کے بہت شکرگزار ہیں کہ وہ ہنگامی صورتحال میں تیزرفتاری سے اُن کی مدد کو آتے ہیں۔ ایک رضاکار ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ لندن کی ایمبولینس سروس کے مرد اور عورتیں ”سب سے بہترین ڈاکٹروں میں سے ہیں۔“ واقعی دُنیا کی سب سے بڑی اور مُفت ایمبولینس سروس میں کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک قابلِتعریف بات ہے۔
[صفحہ ۱۱ پر بکس]
ایمبولینس سروس کو درپیش مشکلات
ایمبولینس سروس کو ایسی فون کال بھی موصول ہوتی ہیں جو معلومات حاصل کرنے یا پھر چھوٹے موٹے زخموں اور تکالیف کے بارے میں بتانے کے لئے ہوتی ہیں۔ کئی لوگ تو مذاق کے طور پر بھی فون کرتے ہیں۔ ایسی کالز سے ایمبولینس سروس کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو مریض اور اُن کے رشتہدار ایمبولینس کے اسسٹنٹ ڈاکٹروں کو گالیاں دیتے یا پھر اُن کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر وہ ٹینشن یا منشیات کے اثر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اور کئی لوگ اِس لئے غصہ کرتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں ایمبولینس دیر سے پہنچی ہے۔ اِن مشکلات کا حل آسان نہیں ہے لیکن عوام کو اِس کے بارے میں تعلیم دینے سے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
ہر دِن تقریباً ۰۰۰،۳ ٹیلیفون کال موصول ہوتی ہیں
[صفحہ ۱۰ پر تصویر کا حوالہ]
All photos: Courtesy of London Ambulance Service NHS Trust