مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کافی کا سفرنامہ

کافی کا سفرنامہ

کافی کا سفرنامہ

کافی کی تاریخ کی ایک کتاب میں ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے بڑی لگن کے ساتھ کافی کے ایک پودے کو اُگایا۔‏ کتاب میں اُس آدمی کی کہانی کو ”‏کافی کی تاریخ کے سلسلے میں سب سے انوکھی داستان“‏ کہا گیا ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ اُس ایک پودے سے کافی کی کاشت کا عالمگیر پیمانے پر آغاز ہوا۔‏ آجکل دُنیابھر میں کافی کی تجارت سے سالانہ ۷۰ ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں۔‏ تیل کے سوا کسی دوسرے مال سے اتنا منافع نہیں کمایا جاتا جتنا کافی کی پیداوار سے کمایا جاتا ہے۔‏

کافی کی تاریخی داستان دراصل ملک ایتھیوپیا کے پہاڑی علاقوں میں شروع ہوتی ہے۔‏ وہاں کافی کے جنگلی پودے پائے جاتے ہیں جنہیں کافی عرابیکا کہا جاتا ہے۔‏ آجکل دُنیابھر میں کافی کی کُل پیداوار کے دو تہائی حصے اس قسم کے پودے سے حاصل ہوتے ہیں۔‏ ہم یہ نہیں جانتے کہ لوگوں نے کافی کی پھلیوں سے مشروب بنانا کب شروع کِیا تھا۔‏ بہرحال،‏ پندرھویں صدی عیسوی تک عرب میں کافی کی کاشت عام ہو گئی تھی۔‏ اُس زمانے میں کافی کے بیجوں کی برآمد پر پابندی تھی۔‏ اس کے باوجود نیدرلینڈز کے چند تاجروں نے سن ۱۶۱۶ میں یا تو کافی کے پودے یا پھر اس کے بیج حاصل کئے۔‏ پھر اُنہوں نے سیلون (‏آج سری‌لنکا)‏ اور جاوا میں (‏جو آج انڈونیشیا کا ایک علاقہ ہے)‏ اس کی کاشت شروع کی۔‏

سن ۱۷۰۶ میں نیدرلینڈز کے تاجروں نے کافی کا ایک پودا جاوا سے نیدرلینڈز کے شہر امسٹرڈم تک پہنچایا جہاں وہ ایک باغ میں خوب بڑھا۔‏ اس پودے کے چند بُوٹوں کو جنوبی اور وسطی امریکہ کے ان علاقوں تک پہنچایا گیا جو نیدرلینڈز کے زیرِحکومت تھے،‏ مثلاً سُرینام اور کریبیئن جزائر۔‏ سن ۱۷۱۴ میں امسٹرڈم کے حاکم نے فرانس کے بادشاہ لوئیس چودہ کو کافی کا ایک پودا تحفے کے طور پر دیا۔‏ بادشاہ کے حکم پر اِسے پیرس کے شاہی باغ میں شیشوں سے بنے ہوئے ایک گھر (‏گرین‌ہاؤس)‏ میں لگایا گیا۔‏

کئی فرانسیسی تاجروں نے کافی کی تجارت میں پیسے کمانے کا عمدہ موقع دیکھا۔‏ لہٰذا اُنہوں نے کافی کے بیج اور پودے خرید کر ری‌یونین نامی جزیرے پر کافی کے باغات لگانے کی کوشش کی۔‏ البتہ وہ بیج اُگے نہیں اور پودے مُرجھا گئے۔‏ اُن میں سے صرف ایک ہی پودا بچا۔‏ اس پودے سے ۰۰۰،‏۱۵ بیج حاصل ہوئے اور سن ۱۷۲۰ میں ان سے ایک باغ لگایا گیا۔‏ کافی کے پودوں کو اتنا بیش‌قیمت سمجھا جاتا تھا کہ جو شخص ایک ایسے پودے کو کاٹ ڈالتا،‏ اسے سزائےموت دی جاتی۔‏ فرانسیسی تاجروں نے کریبیئن جزائر میں بھی کافی کے باغات لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔‏

فرانسیسی بحریہ کے ایک آفیسر گبریئیل میتھیو دےکلیو کا سپنا تھا کہ وہ کافی کے ایک پودے کو مارتینیق پہنچا کر اسے وہاں اپنی زمین پر لگائے۔‏ مئی ۱۷۲۳ میں اُس نے اپنے سپنے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے پہلا قدم اُٹھایا۔‏ پیرس میں موجود پودے کے ایک بُوٹے کو اپنے ساتھ لے کر وہ مارتینیق کو روانہ ہوا۔‏

دےکلیو نے اپنے پودے کے لئے شیشے کا ایک صندوق تیار کِیا۔‏ اس طرح سفر کے دوران پودے کو دھوپ اور گرمائی پہنچتی رہی۔‏ اس کے باوجود اس ننھے سے پودے کو بہت خطرہ تھا۔‏ دےکلیو کے ایک ہم‌سفر نے حسد میں آ کر پودے کو اُس سے چھیننے کی کوشش کی۔‏ خوشی کی بات ہے کہ وہ ناکام رہا۔‏ ایک دن مسافر سمندری ڈاکوؤں سے ٹکرائے اور ایک بار جہاز ہولناک طوفان کی گرفت میں آیا۔‏ اس کے بعد جہاز کچھ ہفتوں تک سمندر پر رُک گیا کیونکہ ہوا بالکل بند ہو گئی تھی۔‏ اس دوران جہاز پر پینے کے پانی کی سخت کمی پڑی۔‏ دےکلیو نے لکھا:‏ ”‏پینے کے پانی کا جو میرا راشن تھا،‏ ایک ماہ تک مَیں اس میں سے کچھ اپنے پودے کو دینے پر مجبور تھا۔‏ لیکن ہچکچائے بغیر مَیں نے ایسا کِیا کیونکہ یہ پودا میرے سپنوں کی تکمیل اور میری بھرپور خوشی کا باعث تھا۔‏“‏

ان تمام مشکلات کے باوجود کافی کا یہ پودا صحیح‌سلامت مرتینیق پہنچ گیا۔‏ وہاں کا موسم کافی کی کاشت کے لئے نہایت اچھا تھا۔‏ لہٰذا اس پودے سے بہت سے بیج اور بُوٹے حاصل کئے گئے۔‏ ایک مصنف نے یوں بیان کِیا:‏ ”‏اس ایک ہی پودے کے بیج تقریباً تمام امریکی ممالک میں بھیجے گئے،‏ سوائے برازیل،‏ فرنچ گوئیانا اور سُرینام کے۔‏“‏

لیکن برازیل اور فرنچ گوئیانا کے لوگ بھی کافی کے پودے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔‏ امسٹرڈم والے پودے کے بُوٹوں سے اُگائے ہوئے کئی پودے سُرینام میں موجود تھے۔‏ البتہ اُن پر متواتر پہرا تھا تاکہ لوگ اُن کو چرا نہ سکیں۔‏ پھر ۱۷۲۲ میں ایک مجرم سزا سے بچنے کے لئے فرنچ گوئیانا سے سُرینام بھاگ گیا۔‏ وہاں اُس نے کافی کے چند بیج چوری کئے۔‏ اس واقعے کی خبر سُن کر فرنچ گوئیانا کی حکومت نے اُسے ان بیجوں کے بدلے میں بری کرنے کی پیشکش کی۔‏ مجرم اس شرط کو مان گیا اور بیجوں سمیت فرنچ گوئیانا لوٹ آیا۔‏

اُس وقت تک برازیل کے لوگ کافی کے بیج حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔‏ پھر سُرینام اور فرنچ گوئیانا کی حکومتوں کے درمیان سرحد کے بارے میں جھگڑا پھوٹ پڑا۔‏ اس پر برازیل کی حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ معاملہ طے کرنے کے لئے ایک درمیانی کو فرنچ گوئیانا بھیجے۔‏ لہٰذا،‏ میلوپلئےٹا نامی ایک فوجی آفیسر وہاں روانہ ہوا۔‏ لیکن اُسے نہ صرف جھگڑے میں فیصلہ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا بلکہ کافی کے بیج لانے کی بھی ہدایت دی گئی تھی۔‏

میلوپلئےٹا دونوں ملکوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب رہا۔‏ شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرنچ گوئیانا کے گورنر نے میلوپلئےٹا کے لئے ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کِیا۔‏ گورنر کی بیوی نے اسے تحفے کے طور پر پھولوں کا ایک گلُ‌دستہ دیا جس میں کافی کے بیج اور بُوٹے چھپائے گئے تھے۔‏ پھولوں کے اس گلُ‌دستے کے ذریعے ۱۷۲۷ میں کافی کی کاشت برازیل میں شروع ہو گئی۔‏ آجکل برازیل میں کافی کی پیداوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔‏

اس تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں پائے جانے والے کافی کے تمام پودے اُس ایک ہی پودے سے اُگائے گئے ہیں جو سن ۱۷۰۶ میں جاوا سے امسٹرڈم لایا گیا تھا۔‏ ایک عالم اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”‏عرابیکا قسم کی کافی کی پوری کاشت کا آغاز ایک ہی پودے سے ہوا۔‏“‏

آجکل تقریباً ۸۰ ممالک میں ڈھائی کروڑ باغات میں کافی کی کاشت کی جا رہی ہے۔‏ ایک اندازے کے مطابق دُنیابھر میں کافی کے ۱۵ ارب پودے موجود ہیں۔‏ ہر روز کافی کی ۲ ارب ۲۵ کروڑ پیالیاں پی جاتی ہیں۔‏

ہمارے دَور میں مسئلہ یہ ہے کہ کافی کی پیداوار مانگ سے بڑھ گئی ہے۔‏ اس لئے بڑی بڑی سیاسی اور کاروباری تنظیمیں منافع کی غرض سے کافی کی کاشت کرنے والے چھوٹے کسانوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔‏ دےکلیو کے زمانے میں ایسی صورتحال کا تصور ہی نہیں کِیا جا سکتا تھا۔‏ بہرحال،‏ دےکلیو جس نے راشن کے پانی سے اپنے چھوٹے سے پودے کو اُگایا تھا،‏ اُس کی کوششوں ہی کی وجہ سے کافی کا مزےدار مشروب آج دُنیابھر میں پایا جاتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

کافی کی دو اقسام

ایک سائنسی رسالے کے مطابق ”‏کافی کی پھلیاں دراصل کافی کے پودے کے بیج ہوتی ہیں۔‏ اس پودے کی کم از کم ۶۶ مختلف اقسام ہیں۔‏ لیکن کاشت کے لئے صرف دو قسم کے پودے استعمال ہوتے ہیں۔‏ عرابیکا پودے سے دُنیابھر کی کُل پیداوار کے دو تہائی حصے حاصل ہوتے ہیں،‏ جبکہ ایک تہائی حصہ روبسٹا پودے سے حاصل ہوتا ہے۔‏“‏

روبسٹا کافی کا مزہ زیادہ تیز ہے۔‏ عام طور پر اس سے اِنسٹنٹ کافی تیار کی جاتی ہے۔‏ عرابیکا کی نسبت روبسٹا کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور اسے بیماریاں لگنے کا امکان کم ہوتا ہے۔‏ اس پودے کا قد عموماً ۱۲ میٹر [‏۴۰ فٹ]‏ ہوتا ہے،‏ جو عرابیکا کے پودے سے دُگنا ہے۔‏ روبسٹا کی پھلیوں میں کیفین کی مقدار ۲ عشاریہ ۸ ہوتی ہے جبکہ عرابیکا میں یہ صرف ۱ عشاریہ ۵ ہوتی ہے۔‏ حالانکہ عرابیکا اور روبسٹا کے پودے دو الگ اقسام کے ہیں توبھی ان دونوں کو ملا کر ایک نیا قسم کا پودا اُگانے کی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

جائز مشروب

سترھویں صدی میں یورپ میں لوگ پہلی بار کافی پینے لگے۔‏ شروع میں بعض کیتھولک پادریوں نے اسے شیطانی مشروب قرار دیا۔‏ ان کے خیال میں یسوع مسیح نے مے ہی کو پاک ٹھہرایا تھا اور ان کو ڈر تھا کہ لوگ مے کی بجائے کافی پینا زیادہ پسند کریں گے۔‏ البتہ پوپ کلیمنٹ کو کافی بہت پسند آئی۔‏ اس لئے اُس نے اسے پاک ٹھہرا کر کیتھولک لوگوں کے لئے جائز قرار دیا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ اور ۱۹ پر چارٹ/‏نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

کافی کی کاشت کی تاریخ

۱.‏ ۱۴۰۰ کے بعدعرب میں عرابیکا کافی کی کاشت کی جانے لگی

۲.‏ ۱۶۱۶نیدرلینڈز کے تاجروں نے کافی کے پودے اور بیج حاصل کئے

۳.‏ ۱۶۹۹نیدرلینڈز کے تاجر جاوا کے علاوہ بحرِہند کے چند جزیروں پر کافی اُگانے لگے

۴.‏ ۱۷۰۰ کے بعدوسطی امریکہ اور کریبیئن جزائر میں کافی کی کاشت کی جانے لگی

۵.‏ ۱۷۱۸فرانسیسی تاجر ری‌یونین میں کافی کی کاشت کرنے لگے

۶.‏ ۱۷۲۳دےکلیو نے کافی کے ایک پودے کو فرانس سے مارتینیق تک پہنچایا

۷.‏ ۱۸۰۰ کے بعدملک ہوائی میں کافی کی کاشت کی جانے لگی

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

یہ معلومات انگریزی کتاب ”‏اَن‌کومن گراؤنڈز“‏ سے لی گئی ہیں

‏[‏صفحہ ۱۸ اور ۱۹ پر تصویر]‏

سن ۱۷۲۳ میں مارتینیق تک سفر کرتے ہوئے دےکلیو نے راشن کے پانی سے اپنے کافی کے پودے کو اُگایا

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Map: © 1996 Visual Language; De Clieu: Tea & Coffee Trade Journal