مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مَیں نے خدا پر توکل کرنا سیکھ لیا

مَیں نے خدا پر توکل کرنا سیکھ لیا

مَیں نے خدا پر توکل کرنا سیکھ لیا

ایلا ٹوم کی زبانی

ہمارا خاندان روس کی سرحد سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر (‏۴۰ میل)‏ دُور جنوبی استونیا میں اوٹیپا کے چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔‏ اکتوبر ۱۹۴۴ میں سکول سے فارغ ہونے کے چند ماہ بعد،‏ دوسری جنگِ‌عظیم کا زور ٹوٹنے لگا۔‏ جب روسی فوجوں نے جرمن فوجوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو ہم اور ہمارے ہمسایے اپنے مویشیوں کے ساتھ جنگل میں چھپ گئے۔‏ ہم کوئی ۲۰ اشخاص تھے۔‏

دو ماہ تک،‏ ہم گویا میدانِ‌جنگ کے عین وسط میں تھے کیونکہ بمباری ہمارے اردگرد ہو رہی تھی۔‏ ہم اکٹھے بیٹھ جاتے اور مَیں بائبل میں خاصکر نوحہ کی کتاب پڑھا کرتی۔‏ مَیں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی بائبل نہیں پڑھی تھی۔‏ ایک دن میں نے ٹیلے پر چڑھکر گھٹنوں کے بل گِر کر یوں دُعا کی:‏ ”‏مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ جب جنگ ختم ہو جائے گی تو مَیں ہر اتوار چرچ جایا کروں گی۔‏“‏

جلد ہی جنگ کا رُخ مغرب کی جانب مڑ گیا۔‏ بالآخر،‏ مئی ۱۹۴۵ میں جرمنی نے ہتھیار ڈال دئے اور اس طرح دوسری جنگِ‌عظیم ختم ہو گئی۔‏ اس دوران مَیں نے خدا سے کِیا ہوا وعدہ پورا کِیا اور ہر ہفتے چرچ جانے لگی۔‏ مجھے وہاں جانا بہت عجیب لگتا تھا کیونکہ صرف چند بوڑھی عورتیں ہی وہاں حاضر ہوا کرتی تھیں۔‏ جب ہمارے گھر کوئی مہمان آ جاتا تو مَیں اپنی بائبل میز کے نیچے چھپا دیا کرتی تھی۔‏

تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے اپنے علاقے میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔‏ اس وقت تک کمیونسٹ حکومت نے مُلک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور دہریت کا زور تھا۔‏ لیکن مَیں نے کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‏ مَیں بچوں کے لئے لوک رقص جیسی بہت سی سماجی تقریبات منظم کرنے میں مصروف رہی۔‏

گواہوں سے ملاقات

مجھے بچوں کے فنکشن کے لئے کپڑوں کی ضرورت تھی،‏ اس لئے مَیں اپریل ۱۹۴۵ میں،‏ ایک ماہر درزن املی سنامیس کے پاس گئی۔‏ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ یہوواہ کی گواہ ہے۔‏ اُس نے پوچھا:‏ ”‏دُنیا کی حالت کی بابت تمہارا کیا خیال ہے؟‏“‏ اُس وقت امن کانفرنس سان فرانسسکو یو.‏ ایس.‏ اے.‏ میں منعقد ہو رہی تھی۔‏ اس لئے مَیں نے کہا،‏ ”‏یہ حکومت جلد ہی ختم ہو جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ یہ امن کانفرنس اس لئے منعقد ہو رہی ہے کہ یہ مقصد پورا ہو۔‏“‏

املی نے کہا،‏ امن کانفرنس کوئی دائمی فائدہ نہیں لائے گی۔‏ اُس نے مجھے اس کی وجہ بائبل سے ظاہر کرنے کی پیشکش کی۔‏ لیکن مَیں اس اڈھیر عمر خاتون سے یہ نرم اور شائستہ جواب سننے کے لئے تیار نہ ہوئی۔‏ پس اس نے مجھ سے ایک سوال کِیا:‏ ”‏خدا آدم اور حوا کو کہاں رکھنا چاہتا تھا؟‏“‏ چونکہ مجھے جواب نہیں آتا تھا اس لئے اُس نے کہا کہ ”‏اپنے والد سے پوچھنا۔‏“‏

جب مَیں گھر پہنچی تو مَیں نے ایسا ہی کِیا۔‏ وہ جواب نہ دے سکے اور کہنے لگے ہمیں بائبل مطالعے سے کیا لینا دینا۔‏ بس ایمان ہونا چاہئے۔‏ جب مَیں کپڑے لینے واپس اُس گواہ کے پاس گئی تو مَیں نے بتایا کہ میرے ابو جان کو آپ کے سوال کا جواب نہیں آتا۔‏ املی اور اُس کی بہن نے اپنی اپنی بائبل نکال لی۔‏ پھر اُنہوں نے خدا کی اُس ہدایت کو پڑھا جو اُس نے آدم اور حوا کو دی تھی کہ انہیں اس باغ کی حفاظت کرنی تھی اور ساری زندگی اس میں خوشی خوشی رہنا تھا۔‏ اُنہوں نے مجھے اپنی بائبل سے یہ دکھایا کہ آدم اور حوا کے لئے خدا کا مقصد اولاد پیدا کرنا اور ساری زمین کو فردوس بنانا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸؛‏ ۲:‏۸،‏ ۹،‏ ۱۵؛‏ زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ بائبل کے اس ثبوت نے تو میرا دل ہی جیت لیا!‏

میرا پہلا مسیحی اجلاس

مجھے گرمیوں میں استونیا کے علاقے تارتو میں تین ماہ کی ٹیچر ٹریننگ کے لئے حاضر ہونا تھا اس لئے املی نے مجھے اس شہر میں ایک گواہ کا پتا دے دیا۔‏ اُس نے مجھے کرئیشن نامی کتاب بھی دی۔‏ اس کتاب میں بائبل کی بنیادی سچائیوں کو جس واضح انداز میں پیش کِیا گیا اس سے مَیں بہت متاثر ہوئی۔‏ چنانچہ مَیں اگست ۴،‏ ۱۹۴۵ کو دئے گئے پتے پر پہنچ گئی۔‏

مَیں نے دروازے پر دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔‏ مَیں نے دوبارہ زور سے دروازہ بجایا تو ایک پڑوسی نے اپنا دروازہ کھول کر مجھے ایک اَور پتا دے دیا۔‏ یہ پتا تھا ۵۶ سالم سٹریٹ۔‏ وہاں پہنچ کر مَیں نے ایک عورت سے معلوم کِیا جو ایک کمرے میں آلو چھیل رہی تھی:‏ ”‏کیا یہاں عبادت ہوتی ہے؟‏“‏ اس عورت نے مجھے غصے کے ساتھ یہاں سے جانے کے لئے کہا۔‏ جب مَیں نے اصرار کِیا تو اس عورت نے مجھے اُوپر والی منزل پر جانے کی اجازت دے دی جہاں عبادت ہو رہی تھی۔‏ جلد ہی وہاں کھانے کا وقفہ ہو گیا اور مَیں جانے کے لئے کھڑی ہوئی۔‏ لیکن دوسروں نے مجھے رُکنے کے لئے زور دیا۔‏

وقفے کے دوران جب مَیں نے اردگرد نگاہ ڈالی تو مجھے دُبلے پتلے سے دو نوجوان نظر آئے جو کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے۔‏ مجھے پتا چلا کہ جنگ کے دوران وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے ایک سال تک چھپتے رہے۔‏ دوپہر کے پروگرام کے دوران ایک تقریر میں فریڈرک آلٹپری نے لفظ ہرمجدون استعمال کِیا۔‏ چونکہ میرے لئے یہ لفظ نیا تھا اس لئے بعد میں،‏ مَیں نے اس کی بابت دریافت کِیا اور اس نے مجھے بائبل سے یہ لفظ دکھایا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۶‏)‏ جب اُس نے میری حیرت دیکھی تو اُسے بھی بڑی حیرت ہوئی کہ یہ لفظ میرے لئے نیا ہے۔‏

اب مَیں سمجھ گئی کہ یہ عبادت صرف اور صرف قابلِ‌اعتماد گواہوں کے لئے تھی۔‏ بعدازاں مجھے پتا چلا کہ یہ جنگ کے بعد اُن کی پہلی عبادت تھی!‏ اس کے بعد،‏ خدا پر توکل کرنے کی ضرورت میرے دل پر اَور بھی نقش ہوگئی۔‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ ایک سال بعد اگست ۱۹۴۶ میں ۲۰ سال کی عمر میں خدائے برحق یہوواہ کی مخصوصیت کی علامت میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔‏

خاندان کی طرف سے مخالفت

حکومت نے زور دیا کہ سکول میں دہریت کی تعلیم دی جائے۔‏ لیکن یہ بات بائبل سے تربیت‌یافتہ میرے ضمیر کے لئے چیلنج تھی۔‏ مَیں اپنی ملازمت بدلنا چاہتی تھی۔‏ جب مَیں نے اس کا ذکر اپنی ماں سے کِیا تو اُنہوں نے غصے سے میرے بال نوچ ڈالے۔‏ مَیں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔‏ لیکن ابو جان نے میری حوصلہ‌افزائی کی کہ مَیں برداشت کروں اور وہ میری مدد بھی کریں گے۔‏

میرے بھائی آنٹس نے بھی امی کے ساتھ مل کر میری مخالفت شروع کر دی۔‏ پھر ایک روز اُس نے کچھ رسالوں کی درخواست کی جنہیں پڑھ کر اُسے بہت اچھا لگا۔‏ امی تو شدید غصے میں آ گئیں۔‏ لیکن آنٹس سکول میں خدا کی بابت گفتگو کرنے لگا۔‏ تاہم،‏ جب اُسے کچھ اذیت کا سامنا ہوا تو اُس نے گواہوں سے رفاقت رکھنا چھوڑ دی۔‏ کچھ عرصہ بعد اُسے غوطہ‌خوری کرتے وقت سر پر شدید چوٹ لگی۔‏ وہ اسٹریچر پر بےحس‌وحرکت پڑا ہوا تھا لیکن اُسے ابھی تک سب یاد تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏کیا یہوواہ مجھے معاف کرے گا؟‏“‏ مَیں نے کہا:‏ ”‏ضرور۔‏“‏ آنٹس چند دن بعد وفات پا گیا۔‏ اُس کی عمر صرف ۱۷ سال تھی۔‏

ستمبر ۱۹۴۷ میں،‏ مَیں نے سکول کی نوکری چھوڑ دی۔‏ ماں نے میری مخالفت جاری رکھی۔‏ جب اُنہوں نے میرے سارے کپڑے گھر سے باہر نکال کر پھینک دئے تو مَیں نے گھر چھوڑ دیا اور املی سنامیس اور اس کی بڑی بہن کے گھر چلی گئی۔‏ ان کی یاددہانیاں میرے لئے حوصلہ‌افزا تھیں کہ یہوواہ اپنے خادموں کو کبھی ترک نہیں کرتا۔‏

استونیا میں جنگ کے بعد آزمائشیں

املی سنامیس اور اس کی بڑی بہن نے مجھے اپنے ساتھ فارم پر کام کرنے والے خاندانوں کے لئے سینےپرونے کے کام پر رکھ لیا۔‏ ہم اکثر انہیں بائبل سچائیاں بھی بتایا کرتے تھے۔‏ یہ وقت بہت اچھا تھا۔‏ مَیں نے نہ صرف سیناپرونا سیکھ لیا بلکہ مَیں منادی کے کام میں اَور تجربہ‌کار بن گئی۔‏ سلائی کڑھائی کے علاوہ،‏ مَیں ریاضی کی ٹیوشن بھی دینے لگی۔‏ تاہم،‏ ۱۹۴۸ میں،‏ حکومت نے گواہوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔‏

اگلے سال،‏ اکتوبر میں،‏ جب مَیں فارم پر کام رہی تھی تو مجھے خبر ملی کہ حکومتی اہلکار مجھے گرفتار کرنے کے لئے سنامیس کے گھر گئے ہیں۔‏ جب مَیں نے بھائی ہوگو کے فارم پر پناہ لینے کی کوشش کی تو مجھے پتا چلا کہ انہیں ابھی ابھی گرفتار کِیا گیا ہے۔‏ ایک عورت جس کے لئے مَیں نے سلائی کا کام کِیا تھا اُس نے مجھے اپنے گھر ٹھہرا لیا۔‏ اس کے بعد مَیں ایک فارم سے دوسرے فارم میں نقل‌مکانی کرتی رہی اور سلائی کڑھائی کے ساتھ ساتھ منادی کا کام بھی رہتی رہی۔‏

موسمِ‌سرما میں سوویت سٹیٹ سیکورٹی (‏کےجی‌بی)‏ نے مجھے تارتو میں لنڈا میٹگ کے گھر سے گرفتار کر لیا۔‏ لنڈا میٹگ ایک سرگرم نوجوان گواہ اور مجھ سے چند سال بڑی تھی۔‏ مجھے گرفتار کرکے تفتیش کیلئے لیجایا گیا۔‏ نوجوان پولیس افسران نے مجھے اپنے سارے کپڑے اُتارنے کیلئے مجبور کِیا۔‏ اس حالت میں مجھے اُن کی گھورتی ہوئی نظروں میں بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔‏ لیکن مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی۔‏ اس کے بعد مَیں نے اپنے دل میں بہت اطمینان محسوس کِیا۔‏

پھر اُنہوں نے مجھے تنگ سی کوٹھری میں ڈال دیا۔‏ جہاں مَیں لیٹ بھی نہیں سکتی تھی۔‏ مجھے صرف پوچھ‌گچھ کے لئے بلایا جاتا۔‏ افسران کہتے:‏ ”‏ہم تم سے خدا کا انکار کرنے کے لئے نہیں کہتے۔‏ بس تم اپنی بےتکی منادی بند کر دو!‏ تم آزاد ہو سکتی ہو۔‏“‏ اس کے علاوہ مجھے دھمکی دیتے:‏ ”‏کیا تم زندہ رہنا چاہتی ہو؟‏ یا تم سائبیریا جاکر اپنے خدا کے ساتھ مرنا چاہتی ہو؟‏“‏

تین دن کی لگاتار پوچھ‌گچھ کے دوران مجھے مسلسل جاگتے رہنے پر مجبور کِیا گیا۔‏ بائبل اصولوں پر غوروخوض نے مجھے برداشت کرنے میں مدد دی۔‏ آخرکار،‏ تفتیش کرنے والے ایک افسر نے مجھے بلاکر ایک دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے کہا جس پر لکھا ہوا تھا کہ مَیں اپنی منادی بند کر دوں۔‏ مَیں نے اس معاملے پر خوب غور کِیا اور کہا:‏ ”‏مَیں آزاد ہوکر خدا کی مقبولیت کھو دینے کی نسبت اس کے ساتھ اپنے رشتے کو برقرار رکھتے ہوئے جیل میں رہنا پسند کروں گی۔‏“‏ اس پر تفتیش کرنے والا چلّایا:‏ ”‏تم بیوقوف ہو!‏ تم سب کو پکڑ کر سائبیریا بھیج دیا جائے گا!‏“‏

غیرمتوقع آزادی

حیرت کی بات ہے کہ آدھی رات سے پہلے تفتیش کرنے والوں نے مجھے کہا،‏ اپنی چیزیں اُٹھاؤ اور یہاں سے چلی جاؤ۔‏ مَیں جانتی تھی کہ میرا تعاقب کِیا جائے گا اس لئے مَیں اپنے ساتھی مسیحیوں کے گھر نہیں گئی ورنہ پولیس جان جاتی کہ وہ کہاں ہیں۔‏ جب مَیں گلیوں میں سے گزر رہی تھی تو تین آدمی میرے پیچھے لگ گئے۔‏ مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی اور ایک تاریک گلی میں چلی گئی اور وہاں سے جلدی جلدی باغ میں چلی گئی۔‏ مَیں زمین پر لیٹ گئی اور اپنے اُوپر پتے ڈال لئے۔‏ مَیں آدمیوں کے چلنے کی آواز سُن سکتی اور ان کی فلش لائٹس کی شعاعوں کو دیکھ سکتی تھی۔‏

اسی طرح کئی گھنٹے گزر گئے۔‏ میری ہڈیاں سردی سے ٹھٹھر گئیں۔‏ پھر،‏ مَیں نے پکی سڑک پر چلنا شروع کر دیا۔‏ مَیں نے اپنی جوتیوں کو بھی ہاتھ میں اُٹھا لیا تاکہ شور پیدا نہ ہو۔‏ شہر سے نکلکر مَیں نے بڑی سڑک کے ساتھ کھائی میں چلنا شروع کر دیا۔‏ جب کاریں قریب سے گزرتیں تو مَیں نیچے بیٹھ جاتی۔‏ صبح پانچ بجے مَیں یوری اور میٹا کے گھر پہنچی جو تارتو سے زیادہ دُور نہیں تھا۔‏

میٹا نے جلدی سے ہیٹر جلا کر کمرہ گرم کِیا تاکہ میرا جسم گرم ہو سکے۔‏ اگلے دن مَیں تارتو گئی اور لنڈا میٹگ سے رابطہ کِیا۔‏ لنڈا نے مجھے کہا:‏ ”‏آؤ منادی شروع کریں اور سارے استونیا میں خوشخبری پھیلا دیں۔‏“‏ مَیں نے اپنی شناخت چھپانے کے لئے اپنا ہیر اسٹائل بدل لیا اور تھوڑا سا میک‌اپ کرکے چشمہ لگا لیا اور منادی شروع کر دی۔‏ اگلے مہینوں کے دوران ہم نے سائیکل کے ذریعے کافی علاقوں میں منادی کی۔‏ اسی دوران ہم نے فارم پر کام کرنے والے مسیحیوں بہن بھائیوں کی بھی بہت حوصلہ‌افزائی کی۔‏

جولائی ۲۴،‏ ۱۹۵۰ میں گواہوں نے اوٹیپا کے نزدیک ایک بائبل طالبعلم کے بھوسے کے گودام میں ایک کنونشن منظم کی۔‏ جب ہمیں معلوم ہوا کہ کنونشن کے بارے میں کےجی‌بی کو پتا چل گیا ہے تو ہم نے بیشتر گواہوں کو آگاہ کر دیا جو وہاں آ رہے تھے۔‏ اگلے دن ایک اَور جگہ کا انتظام کِیا گیا۔‏ اس پر ۱۱۵ کے قریب لوگ حاضر تھے۔‏ کنونشن کے بعد سب خوشی خوشی اپنے گھر لوٹ گئے۔‏ ہر کوئی آزمائشوں کا سامنا کرنے اور راستی برقرار رکھنے کے لئے پہلے سے زیادہ پُرعزم تھا۔‏

بعدازاں،‏ مَیں نے اور لنڈا نے منادی کرنا اور ساتھی مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنا جاری رکھا۔‏ اسی سال میں،‏ ہم نے آلو کی فصل کی کٹائی میں حصہ لیا اور ساتھی کارکنوں کو بادشاہتی پیغام بھی سنایا۔‏ ایک فارم کے مالک نے ہمیں روک کر ایک گھنٹے کے لئے ہماری بات سنی اور کہا:‏ ”‏ایسی باتیں روز روز کہاں سننے کو ملتی ہیں!‏“‏

جب مَیں اور لنڈا تارتو واپس آ گئیں تو ہمیں پتا چلا کہ اَور زیادہ گواہوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس میں لنڈا کی ماں بھی شامل تھی۔‏ ہمارے زیادہ‌تر دوست اس وقت تک پکڑے جا چکے تھے۔‏ ان میں سنامیس بہنیں بھی تھیں۔‏ چونکہ ہم جانتی تھیں کہ کےجی‌بی ہماری تلاش میں ہے ہم نے دو سائیلکیں لیں اور تارتو سے باہر منادی جاری رکھی۔‏ ایک رات کےجی‌بی نے مجھے الامہ وردجہ کے گھر ڈھونڈ لیا جو حال ہی میں بپتسمہ‌یافتہ گواہ بنی تھی۔‏ میرے پاسپورٹ کو چیک کرنے کے بعد ایک نے چلّا کر کہا:‏ ”‏ایلا!‏ ہم ہر جگہ تمہیں ہی تلاش کر رہے ہیں!‏“‏ یہ دسمبر ۲۷،‏ ۱۹۵۰ کی بات ہے۔‏

قیدوبند اور پھر سائبیریا

مَیں نے اور الامہ نے اطمینان کے ساتھ چند چیزیں لیں اور پھر کچھ کھانا کھایا۔‏ کےجی‌بی کے ایجنٹوں نے حیران ہوکر کہا:‏ ”‏یہ کیا،‏ تمہارا تو ایک آنسو بھی نہیں نکل رہا۔‏ تم تو بس کھانا کھائے جا رہی ہو۔‏“‏ ہم نے جواب دیا:‏ ”‏ہم اپنی نئی ذمہ‌داری پوری کرنے جا رہی ہیں اور ہم نہیں جانتیں کہ کب ہم اگلی مرتبہ مل کر کھانا کھائیں گی۔‏“‏ مَیں نے ایک اونی کمبل اپنے ساتھ لے لیا۔‏ اسی کمبل سے مَیں نے بعد میں موزے اور دستانے بنائے تھے۔‏ چند ماہ قید میں رہنے کے بعد مجھے اگست ۱۹۵۱ میں استونیا میں دوسرے گواہوں کیساتھ جلاوطن کر دیا گیا۔‏ *

استونیا سے ہمیں ایک ریل‌گاڑی کے ذریعے لنن‌گراڈ (‏موجودہ سینٹ پیٹربرگ)‏،‏ روس بھیج دیا گیا اور پھر وہاں سے بدنام بیگار کیمپ ورکوتا کومے لیجایا گیا جو دائرہ‌قطب‌شمالی سے بلند ہے۔‏ وہاں ہمارے گروہ میں تین گواہ تھے۔‏ مَیں سکول میں روسی زبان پڑھ چکی تھی اور اپنی گرفتاری کے وقت سے اس زبان کی مشق کر رہی تھی۔‏ لہٰذا،‏ جب مَیں کیمپ پہنچی تو اُس وقت تک روسی زبان بول سکتی تھی۔‏

ورکوتا میں ہماری ملاقات یوکرائن کی ایک نوجوان خاتون سے ہوئی جو پولینڈ میں نازی جرمنی کے ایک اذیتی کیمپ میں گواہ بن چکی تھی۔‏ اُسے اور دیگر ۱۴ گواہوں کو ۱۹۴۵ میں ایک بحری جہاز میں ڈال دیا گیا جسے بلقانی سمندر میں ڈبو دیا جانا تھا۔‏ تاہم،‏ جہاز خیریت سے ڈنمارک پہنچ گیا۔‏ بعدازاں،‏ روس میں اس بہن کو پھر گرفتار کر لیا گیا اور ورکوتا میں بھیج دیا گیا۔‏ اس کے یہاں ہونے سے ہماری بہت حوصلہ‌افزائی ہوئی۔‏

ہم اُن دو عورتوں سے بھی ملے جنہوں نے یوکرائن کی زبان میں پوچھا،‏ ”‏یہاں یہوواہ کا گواہ کون ہے؟‏“‏ ہم نے فوراً اپنی مسیحی بہنوں کو پہچان لیا!‏ اُنہوں نے ہماری ہمت بندھائی اور ہماری ضروریات کا خیال رکھا۔‏ دیگر قیدیوں نے کہا یہ تو گویا ایسا ہے جیسے اُن کا خاندان ہو جو اُن کی آمد کا انتظار کر رہا ہو۔‏

مورڈوین کیمپ میں منتقلی

دسمبر ۱۹۵۱ میں،‏ ایک طبّی معائنے سے پتا چلا کہ مجھے تھائیراڈ کا مسئلہ ہے۔‏ اس لئے مجھے جنوب‌مغرب میں تقریباً ۵۰۰،‏۱ کلومیٹر (‏ایک ہزار میل)‏ دُور ایک بہت بڑے مورڈوین قیدخانہ میں منتقل کر دیا گیا جو ماسکو کے جنوب‌مشرق میں ۴۰۰ کلومیٹر (‏۲۵۰ میل)‏ کے فاصلہ پر ہے۔‏ اگلے سالوں کے دوران میری ملاقات عورتوں کے کیمپوں میں جرمنی،‏ ہنگری،‏ پولینڈ اور یوکرائن کے گواہوں سے ہوئی جہاں مجھے قید کِیا گیا تھا۔‏ میری ملاقات استونیا کی میامو نامی ایک سیاسی قیدی سے بھی ہوئی۔‏

قید کے دوران،‏ میامو نے ایک بچی کو جنم دیا اور گارڈ نے ترس کھاکر بچی کو میامو کی ماں کو دیدیا۔‏ مورڈوین کیمپ میں،‏ ہم نے میامو کو بائبل مطالعہ کرایا اور جوکچھ وہ سیکھ رہی تھی اس نے اسے قبول کر لیا۔‏ اُس نے اپنی ماں کو یہ باتیں لکھیں۔‏ اُس نے بھی بائبل سچائیوں کو قبول کر لیا۔‏ میامو کی ماں نے اس کی ننھی‌منی لڑکی کو یہ باتیں سکھائیں جس کا نام کیرن تھا۔‏ چھ سال بعد میامو قید سے رہا ہو کر اپنی بچی سے ملی۔‏ جب کیرن بڑی ہوئی تو اُس کی ایک گواہ سے شادی ہوئی۔‏ کیرن اور اُس کے شوہر نے گزشتہ ۱۱ سال سے ٹالن،‏ استونیا میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت انجام دی ہے۔‏

مورڈوین کے ایک قیدخانہ کو پنجرہ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ کیمپ کے اندر ہی الگ‌تھلگ کوٹھری بنی ہوئی تھی۔‏ ہماری مسیحی خدمت کے باعث مجھے اور چھ گواہوں کو اس کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔‏ سخت نگرانی کے باوجود،‏ ہم مینارِنگہبانی رسالے کے مضمون کی ہاتھ سے لکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی کاپیاں بناتے اور اُنہیں قریب کے کیمپوں میں سمگل کر دیتے تھے۔‏ ہمارا ایک طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہم صابن کی ٹکیہ میں سوراخ کرکے اس کے اندر مضمون ڈال دیتے اور پھر بند کر دیتے اور وہ نئی ٹکیہ جیسی لگتی۔‏

مورڈوین کیمپ میں سالوں کے دوران مَیں نے تقریباً ۱۰ عورتوں کی مدد کی کہ وہ خدا کی پرستار بن سکیں۔‏ آخرکار،‏ مئی ۴،‏ ۱۹۵۶ کو مجھے کہا گیا:‏ ”‏تم آزاد ہو جاؤ اور اپنے خدا یہوواہ پر ایمان رکھو۔‏“‏ مَیں اسی مہینے میں استونیا کیلئے روانہ ہو گئی۔‏

کوئی ۵۰ سال بعد گھر واپس

میرے پاس کوئی نوکری،‏ کوئی پیسہ اور گھر نہیں تھا۔‏ لیکن استونیا آنے کے چند دن بعد،‏ میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جس نے بائبل تعلیمات میں دلچسپی ظاہر کی۔‏ اُس نے اپنے ایک کمرے کے گھر میں مجھے اپنے اور اپنے شوہر کے ساتھ کچھ دن رہنے دیا۔‏ مَیں نے اُدھار لئے ہوئے پیسوں سے کچھ اُون خریدی اور سویٹر بُنے اور اُنہیں مارکیٹ میں بیچ دیا۔‏ اس کے بعد مجھے تارتو کینسر ہسپتال میں ملازمت کی پیشکش ہوئی جہاں مَیں نے اگلے سات سالوں کے لئے مختلف کام انجام دئے۔‏ اس دوران،‏ لمبٹ ٹوم بھی سائبیریا سے جلاوطنی کاٹ کر واپس آ گیا اور ہم نے نومبر ۱۹۵۷ میں شادی کر لی۔‏

کےجی‌بی کی نگاہیں ہم پر تھیں اور ہمیں مسلسل ہراساں کِیا جاتا تھا۔‏ ہمارے منادی کے کام پر ابھی تک پابندی تھی۔‏ لیکن ہم دوسروں کو اپنے عقیدے کے متعلق بتانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔‏ ۱۹۵۰ کے آخر سے لیکر ۱۹۷۰ تک جلاوطن گواہ گھروں کو واپس آ گئے۔‏ سن ۱۹۸۰ کے آخر میں استونیا میں ۷۰۰ سے زائد گواہ تھے۔‏ سن ۱۹۹۱ میں ہمارے منادی کے کام کو قانونی اجازت مل گئی اور اس وقت سے استونیا میں ۱۰۰،‏۴ گواہ ہو گئے ہیں!‏

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مجھے استونیا میں اپنی پہلی خفیہ عبادت پر حاضر ہوئے ۶۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔‏ اُس وقت سے لیکر مَیں بائبل کی اس نصیحت پر دھیان دینے کے لئے پُرعزم ہوں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور نیکی کر۔‏“‏ مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ ایسا کرنے سے ”‏دل کی مُرادیں“‏ واقعی پوری ہوتی ہیں۔‏—‏زبور ۳۷:‏۳،‏ ۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 34 تاہم،‏ استونیا میں بیشتر گواہوں کو اپریل ۱۹۵۱ کے شروع میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔‏ براہِ‌مہربانی ویڈیو فیتھ‌فُل اینڈر ٹرائلز—‏جیہوواز وٹنسز ان سوویت یونین دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر عبارت]‏

‏”‏آؤ منادی شروع کریں اور سارے استونیا میں خوشخبری پھیلا دیں۔‏“‏—‏لنڈا میٹگ

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

دیگر نو گواہوں کے ساتھ مورڈوین کے قیدخانہ میں

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

آجکل اپنے شوہر لمبٹ کے ساتھ