مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انتقالِ‌خون—‏کیا یہ مستقبل کا علاج ہے؟‏

انتقالِ‌خون—‏کیا یہ مستقبل کا علاج ہے؟‏

انتقالِ‌خون‏—‏کیا یہ مستقبل کا علاج ہے؟‏

‏”‏انتقالِ‌خون کے ذریعے ایک شخص کا علاج کرنا جنگل میں ٹہلنے کی طرح ہے۔‏ راستے انجان نہیں ہیں لیکن ٹہلنے والے کو چوکس رہنا پڑتا ہے کیونکہ اُسے کسی بھی موڑ پر نئے اور انجانے خطروں کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏“‏—‏انتقالِ‌خون کے ماہر،‏ پروفیسر فرینکلن۔‏

سن ۱۹۸۰ کے بعد ایڈز کی وبا کی وجہ سے لوگ انتقالِ‌خون کے خطرات سے متوجہ ہو گئے۔‏ چونکہ یہ وبا خون کے ذریعے بھی پھیلتی ہے اس لئے خون کو محفوظ کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔‏ لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ثابت ہوا ہے۔‏ جون ۲۰۰۵ میں عالمی ادارۂصحت (‏ڈبلیوایچ‌او)‏ نے تسلیم کِیا کہ ”‏بعض ممالک میں خون دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔‏“‏ ایسا کیوں ہے؟‏

بہتیرے ممالک میں خون کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں کِیا جا رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ خون کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کا کوئی معیاری طریقہ مقرر نہیں ہے۔‏ اکثر خون میں موجود خطرناک بیماریوں کا سُراغ نہیں لگایا جاتا۔‏ یا پھر خون کو ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔‏ یہاں تک کہ کبھی کبھار خون کو فریج یا کولر میں ذخیرہ کِیا جاتا ہے۔‏ اگر خون کو محفوظ رکھنے کا انتظام قائم نہیں کِیا جائے گا تو اِس کا مریضوں پر بُرا اثر پڑے گا۔‏

خون کو محفوظ رکھنے کی کوششیں

کئی ممالک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلے کی نسبت آج اُن کے بلڈ بینکوں میں موجود خون زیادہ محفوظ ہے۔‏ لیکن پھر بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‏ امریکہ کے تین طبّی اداروں نے ایک رپورٹ میں یوں آگاہی دی:‏ ”‏خبردار!‏ مکمل خون اور خون کے اجزا انسانی خون سے لئے جاتے ہیں۔‏ اِن سے خطرناک بیماریاں لگنے کا خطرہ لاحق ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اگرچہ خون کا عطیہ دینے والوں کو احتیاط سے چُنا جاتا ہے لیکن پوری کوشش کے باوجود خون خطرناک جراثیم سے محفوظ نہیں۔‏“‏

ہلالِ‌اَحمر اور ریڈ کراس کی تنظیم کے ایک اعلیٰ آفیسر کا کہنا ہے:‏ ”‏ہم اِس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ خون کے عطیات سو فیصد محفوظ ہیں۔‏ خون میں ہمیشہ نئی نئی بیماریوں کے جراثیم پائے جائیں گے جن کا ہم ابھی تک سُراغ نہیں لگا سکتے۔‏“‏

جب ایک شخص کو ایڈز کی بیماری لگتی ہے تو کچھ عرصہ تک اس کے خون سے اس بیماری کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔‏ اگر اِس دوران اُس کا خون کسی اَور کو دیا جائے تو اُسے بھی ایڈز لگ جاتا ہے۔‏ فرض کریں کہ ایڈز جیسی ایک اَور بیماری وجود میں آئے۔‏ ایسی صورتحال کے متعلق،‏ اپریل ۲۰۰۵ میں (‏ایک میڈیکل کانفرنس کے دوران)‏ امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے کہا:‏ ”‏اگر ایڈز جیسی ایک نئی وبا وجود میں آئے تو وہ لوگ جو خون میں موجود بیماریوں کا سُراغ لگاتے ہیں،‏ اِس نئی بیماری کو انتقالِ‌خون کے ذریعے دوسروں تک پھیلنے سے نہیں روک پائیں گے۔‏ بالکل اس طرح جیسے وہ ایڈز کی بیماری کو دوسروں تک پھیلنے سے نہیں روک پائے۔‏“‏

غلطیاں اور پیچیدگیاں

ترقی‌یافتہ ممالک میں مریضوں کو انتقالِ‌خون سے کون سے خطرات کا سامنا ہے؟‏ مریضوں کو خون دیتے وقت غلطیاں کی جاتی ہیں اور کبھی کبھار خون لگوانے کے بعد مریض کا جسم غیر خون کو رد کر دیتا ہے۔‏ کینیڈا کے ایک اخبار کے مطابق کئی ہزار مریضوں کی جان خطرے میں پڑ گئی کیونکہ ”‏خون کی بوتل پر غلط چٹ لگائی گئی یا مریض کے لئے غلط خون منگوایا گیا تھا۔‏“‏ امریکہ میں ایسی غلطیوں کی وجہ سے سن ۱۹۹۵ سے لے کر سن ۲۰۰۱ تک ۴۴۱ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‏

انتقالِ‌خون سے مریض ایسے ہی خطروں سے دوچار ہوتا ہے جیسے وہ شخص جسے کسی اَور کا عضو دیا جائے۔‏ مریض کا دفاعی نظام غیر خون کو رد کر سکتا ہے۔‏ یا پھر خون لینے کی وجہ سے کبھی کبھار دفاعی نظام کام کرنا بند کر دیتا ہے اور اِس طرح مریض کو خطرناک جراثیم اور بیماریاں لگنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔‏ پروفیسر فرینکلن ڈاکٹروں کو ہدایت دیتے ہیں کہ ”‏مریض کو خون دینے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ لیں کہ آیا ایسا کرنا واقعی ضروری ہے کہ نہیں۔‏“‏

ماہر کیا کہتے ہیں؟‏

انتقالِ‌خون کے خطرات کے بارے میں جاننے کے بعد،‏ کئی ڈاکٹر اپنے مریضوں کو خون دینے سے ہچکچانے لگے ہیں۔‏ ایک کتاب کے مطابق ”‏کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انسان کا خون ایک بہت ہی خطرناک دوا ہے۔‏ جب علاج میں ایک دوائی کو استعمال کِیا جاتا ہے تو پہلے اُس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے،‏ یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا یہ معیاری ہے یا نہیں۔‏ اگر خون کو اِس حساب سے دیکھا جاتا تو اِس پر پابندی لگا دی جاتی۔‏“‏

سن ۲۰۰۴ میں پروفیسر سپیس نے دل کے آپریشن میں خون کے ایک بنیادی حصے کے استعمال کے بارے میں کہا:‏ ”‏ایسے کم ہی موقعے ہیں جہاں خون لگوانے سے مریض کی حالت میں بہتری آتی ہے۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ ”‏انتقالِ‌خون کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔‏ اگر ایک شخص بُری طرح زخمی ہو جائے تو انتقالِ‌خون فائدہ‌مند ثابت ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر خون استعمال کرنے سے نمونیا،‏ انفیکشن،‏ فالج اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‏“‏

شاید بہتیرے لوگوں کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ ڈاکٹر اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ مریض کو کس صورتحال میں خون دیا جائے۔‏ ملک چلی کے ایک ڈاکٹر نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’‏انتقالِ‌خون کے ذریعے علاج کرنے کے مختلف طریقے ہیں اور اِس کا ایک معیار قائم کرنا مشکل ہے۔‏‘‏ سکاٹ‌لینڈ کے ڈاکٹر میک‌لےلینڈ اپنے ساتھیوں سے یوں التجا کرتے ہیں:‏ ”‏یاد رکھئے کہ کسی کو خون دینا بالکل اسی طرح ہے جس طرح کسی شخص کے ایک عضو کو دوسرے شخص تک منتقل کرنا۔‏ اسی لئے انتقالِ‌خون کے ذریعے علاج کرنا ایک ایسا فیصلہ ہے جسے اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔‏“‏ اُنہوں نے ڈاکٹروں سے مزید کہا:‏ ”‏اپنے آپ سے پوچھیں کہ اگر اس مریض کی جگہ مَیں یا میرا بچہ ہوتا تو کیا مَیں انتقالِ‌خون کے لئے راضی ہو جاتا؟‏“‏

سچ تو یہ ہے کہ بہتیرے ڈاکٹر اس ڈاکٹر کے بیان سے متفق ہیں جس نے جاگو!‏ کے نامہ‌نگار سے بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏ہم جو انتقالِ‌خون کے ذریعے علاج کرنے میں ماہر ہیں،‏ خود نہ تو خون لینا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اَور کو اپنا خون دینا پسند کرتے ہیں۔‏“‏ اگر ماہر ایسا محسوس کرتے ہیں تو مریضوں کو انتقالِ‌خون کے بارے میں کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

ڈاکٹروں کی سوچ میں تبدیلی

شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ اگر انتقالِ‌خون اتنا خطرناک ہے اور آجکل بغیر خون کے علاج کرنا بھی ممکن ہے تو پھر ڈاکٹر خون کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟‏ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض ڈاکٹر اپنے مریضوں کا علاج کرنے کے طریقوں میں تبدیلی نہیں لانا چاہتے۔‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ کئی ڈاکٹر خون کے بغیر علاج کرنے کے طریقوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔‏ انگریزی رسالے انتقالِ‌خون کے ایک مضمون کے مطابق ”‏جب ڈاکٹر ایک مریض کو خون دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ اکثر اُن کی تعلیم،‏ تہذیب اور مریض کی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔‏“‏

اس کے علاوہ لندن کی ایک ڈاکٹر بتاتی ہے:‏ ”‏آپریشن کے دوران ایک شخص کا کتنا خون ضائع ہوتا ہے اس کا انحصار ڈاکٹر کی مہارت پر ہے۔‏ ڈاکٹروں کو آپریشن کے ایسے طریقوں میں تربیت دی جا رہی ہے جن سے وہ مریضوں کے خون کا بچاؤ کر پائیں گے۔‏“‏ کئی لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خون کے بغیر علاج کرنا بہت مہنگا ہوتا ہے۔‏ لیکن تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔‏ ڈاکٹر رَوز کا کہنا ہے:‏ ”‏جس مریض کا علاج خون کے بغیر کِیا جاتا ہے وہ دراصل سب سے بہترین علاج حاصل کرتا ہے۔‏“‏ بہتیرے ڈاکٹر ان کی اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔‏ *

کیا آپ بہترین علاج کے خواہشمند ہیں؟‏ یہی خواہش یہوواہ کے گواہ بھی رکھتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں آپ جان سکیں گے کہ انتقالِ‌خون پر اُن کی رائے کیا ہے اور وہ اِس پر قائم کیوں ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 صفحہ ۸ پر بکس ”‏خون کے بغیر علاج“‏ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

‏”‏مریض کو خون دینے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ لیں کہ آیا ایسا کرنا واقعی ضروری ہے کہ نہیں۔‏“‏—‏پروفیسر فرینکلن

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

‏”‏اگر اس مریض کی جگہ مَیں یا میرا بچہ ہوتا تو کیا مَیں انتقالِ‌خون کے لئے راضی ہو جاتا؟‏“‏—‏ڈاکٹر میک‌لےلینڈ

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

جان‌لیوا علاج

سن ۱۹۹۰ کے لگ‌بھگ ڈاکٹروں نے دیکھا کہ جب مریضوں کو خون لگایا جاتا تو کبھی‌کبھار اِن کے پھیپھڑے خطرناک حد تک زخمی ہو جاتے۔‏ آج ہمیں معلوم ہے کہ ہر سال کئی سو مریض اس مرض میں مبتلا ہو کر مرتے ہیں۔‏ البتہ طبی ماہروں کا کہنا ہے کہ دراصل اس مرض کی وجہ سے مرنے والے لوگوں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے۔‏ اس تعداد کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ڈاکٹر اور نرسیں اکثر اس کی علامتوں کی پہچان نہیں رکھتے۔‏ خون لگوانے سے جسم پر ایسا اثر کیوں پڑتا ہے،‏ اس کی وجہ ابھی تک دریافت نہیں کی گئی۔‏ سائنسی موضوعات پر ایک رسالے میں لکھا تھا کہ جس خون سے پھیپھڑے زخمی ہونے کا امکان ہوتا ہے ”‏یہ عموماً اُن لوگوں کا عطیہ ہوتا ہے جنہیں ماضی میں مختلف گروپ کا خون دیا گیا ہو۔‏“‏ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جو لوگ خون لگوانے سے مرتے ہیں ان میں سے زیادہ‌تر لوگ اسی مرض کا شکار ہو کر مرتے ہیں۔‏ اِس لئے یہ مرض ”‏بلڈ بینکوں کے لئے ایچ آئی وی وائرس سے لگنے والی ایڈز کی بیماری سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر بکس/‏ڈائیگرام]‏

خون کیا ہے؟‏

عام طور پر لوگ مکمل خون کا عطیہ دیتے ہیں لیکن کئی ممالک میں لوگ خون میں موجود پلازمہ ہی کا عطیہ دینے لگے ہیں۔‏ ان ممالک میں مریضوں کو مکمل خون دینے کا رواج کم ہو رہا ہے۔‏ اس کی بجائے خون حاصل کرنے کے بعد اس کے چار بنیادی حصوں کو الگ کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کو علاج میں استعمال کے لئے تیار کِیا جاتا ہے۔‏ خون کے بنیادی حصے کیا ہیں؟‏ یہ بدن میں کونسا کردار ادا کرتے ہیں؟‏ اور یہ کس مقدار میں خون میں پائے جاتے ہیں؟‏

پلازمہ خون کا ۵۲ تا ۶۲ فیصد حصہ پلازمہ پر مشتمل ہے۔‏ پلازمہ ہلکے پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔‏ اس میں پروٹین کے علاوہ دوسرے اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔‏ پلازمہ کے ذریعے یہ اجزا اور خون کے خلیے بدن کے اعضا تک پہنچائے جاتے ہیں۔‏

پلازمہ کا ۹۱ اعشاریہ ۵ فیصد حصہ تو پانی ہی ہوتا ہے۔‏ اس کا ۷ فیصد حصہ مختلف قسم کے پروٹین پر مشتمل ہے (‏مثلاً ۴ فیصد البومین،‏ ۳ فیصد گلوبولن اور ایک فیصد سے کم فیبرینوجن جیسے پروٹین)‏۔‏ اب باقی بچا پلازمہ کا ایک اعشاریہ ۵ فیصد حصہ تو یہ مختلف قسم کی غذا،‏ ہارمون اور گیس کے علاوہ نمکیات،‏ حیاتین (‏وِٹامن)‏ اور فضلہ پر مشتمل ہے۔‏

سفید خلیے خون کا ایک فیصد سے کم حصہ ان پر مشتمل ہے۔‏ یہ خلیے جسم میں داخل ہونے والے خطرناک مادے کو تباہ کرتے ہیں۔‏

پلیٹ‌لیٹس خون کا ایک فیصد سے کم حصہ ان پر مشتمل ہے۔‏ یہ خون جمانے کا کام انجام دیتے ہیں۔‏ ان کی وجہ سے زخموں سے خون بہنا بند ہو جاتا ہے۔‏

سُرخ خلیے خون کا ۳۸ تا ۴۸ فیصد حصہ ان پر مشتمل ہے۔‏ یہ خلیے بدن کے اعضا کے لئے اہم ہیں کیونکہ یہ اُن تک آکسیجن پہنچاتے اور ان سے کاربن‌ڈائی‌آکسائیڈ گیس ہٹاتے ہیں۔‏

جس طرح پلازمہ میں موجود مختلف اجزا کو الگ کِیا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح خون کے باقی بنیادی حصوں میں موجود اجزا کو بھی الگ کِیا جا سکتا ہے۔‏ اس کی ایک مثال سُرخ خلیے ہیں جن سے ہیموگلوبِن (‎Hemoglobin‎) کے اجزا الگ کئے جاتے ہیں۔‏

‏[‏ڈائیگرام]‏

پلازمہ

پانی ۵.‏۹۱ فیصد

پروٹین ۷ فیصد

البومین

گلوبولن

فیبرینوجن

دوسرے اجزا ۵.‏۱ فیصد

غذا

ہارمون

گیسیں

نمکیات

حیاتین (‏وِٹامِن)‏

فضلہ

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Page 9: Blood components in circles: This project has been

funded in whole or in part with federal funds from the National

Cancer Institute, National Institutes of Health, under contract

N01-CO-12400. The content of this publication does not

necessarily reflect the views or policies of the Department of

‏,Health and Human Services, nor does mention of trade names

commercial products, or organizations imply endorsement by the

U.S. Government

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

خون کے بغیر علاج

ساتھ تصویر میں دکھائی گئی ویڈیو ۲۵ سے زائد زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ پچھلے ۶ سالوں کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے پوری دُنیا میں یہ ویڈیو ایسے لوگوں کو دی ہے جن کا پیشہ مریضوں کے علاج سے تعلق رکھتا ہے۔‏ * اِس ویڈیو میں دُنیا کے نامور ڈاکٹر ایسے جدید علاج کے بارے میں بات کرتے ہیں جن میں خون استعمال نہیں کِیا جاتا۔‏ یہ ویڈیو کافی مقبول رہی ہے۔‏ مثال کے طور پر جب یہ ویڈیو سن ۲۰۰۱ میں برطانیہ کے محکمہ نیشنل بلڈ سروس میں دکھائی گئی تو اس محکمہ نے ملک میں تمام بلڈ بینک کے منیجروں اور خون کی بیماریوں کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹروں کو اِس ویڈیو کی ایک ایک کاپی بھیجی۔‏ اس کے ساتھ اُنہوں نے ایک خط بھی بھیجا جس میں ویڈیو کی اہمیت یوں بیان کی گئی:‏ ”‏آجکل یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مریضوں کا علاج خون استعمال کئے بغیر کِیا جائے کیونکہ یہی بہترین علاج ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ ہم اِس ویڈیو کو سراہتے ہیں۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 57 اس ویڈیو کو ڈی وی ڈی بنام Transfusion Alternatives—Documentary Series میں شامل کِیا گیا ہے جس کو یہوواہ کے گواہوں نے تیار کِیا ہے۔‏ اگر آپ اسے دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر بکس/‏تصویر]‏

خون کے اجزا سے تیارشدہ دوائیاں

سائنس‌دانوں نے خون میں پائے جانے والے اجزا کو الگ کرنے کا ایک خاص طریقہ دریافت کِیا ہے۔‏ اس طریقے کے استعمال کی ایک مثال پر غور کریں۔‏ سمندر کے پانی کا ۹۶ اعشاریہ ۵ فیصد پانی ہی ہوتا ہے۔‏ البتہ اس طریقے کے ذریعے سمندری پانی میں موجود نمک،‏ برومائین اور مگنیشیم جیسے دوسرے اجزا حاصل کئے جاتے ہیں۔‏ اسی طرح پلازمہ کا ۹۰ فیصد سے زائد حصہ پانی ہوتا ہے۔‏ اس خاص طریقے کے استعمال سے پلازمہ سے مختلف قسم کے پروٹین حاصل کئے جاتے ہیں مثلاً البومین،‏ فیبرینوجن اور گلوبولن۔‏

مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے ڈاکٹر مریضوں کو پلازمہ سے حاصل کئے گئے ایک اجزا کو لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر پلازمہ کو جمانے اور پگھلانے سے پروٹین کا ایک خاص مادہ تیار کِیا جاتا ہے۔‏ یہ مادہ خون کو جمانے کا کام انجام دیتا ہے اور زخموں سے خون کے بہاؤ کو روکنے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ اَور بھی ایسی دوائیاں ہوتی ہیں جن میں خون کے اجزا یا تو بہت ہی کم یا پھر بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔‏ * جب ایک شخص کے بدن میں کسی بیماری کے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں تو اسے عام طور پر ایسے ٹیکے لگائے جاتے ہیں جن میں پلازمہ سے حاصل کئے گئے پروٹین شامل ہوتے ہیں۔‏ علاج کے سلسلے میں خون کے جو اجزا استعمال ہوتے ہیں اکثر یہ پلازمہ میں پائے جانے والے پروٹین ہی سے حاصل کئے جاتے ہیں۔‏

سائنسی موضوعات پر ایک رسالے کے مطابق:‏ ”‏خون میں ہزاروں مختلف قسم کے پروٹین موجود ہیں اور سائنسدانوں نے اِن میں سے صرف چند ہی کو دریافت کِیا ہے۔‏“‏ البتہ جُوں جُوں سائنسدان خون میں پائے جانے والے پروٹین دریافت کریں گے اِن سے نت‌نئی دوائیاں بھی تیار کی جائیں گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 63 کئی دوائیوں میں جانور کے خون سے حاصل کئے جانے والے اجزا استعمال ہوتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶،‏ ۷ پر تصویر]‏

خون کے خطروں کی وجہ سے کئی ڈاکٹر اور نرسیں اسے چُھونے سے خبردار رہتے ہیں