مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایمان ہو تو ایسا!‏

ایمان ہو تو ایسا!‏

ایمان ہو تو ایسا!‏

ڈسٹن کی ماں یہوواہ کے گواہوں سے بائبل سیکھا کرتی تھی اور ڈسٹن بھی ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔‏ اگرچہ اس کی عمر صرف ۱۱ سال تھی توبھی وہ بہت زیادہ سوچ‌بچار کرنے والا اور گہرے سوال کرنے والا لڑکا تھا۔‏ جلد ہی اُس نے اس بہن سے ذاتی طور پر بائبل سکھانے کی درخواست کی جس سے اُس کی ماں سیکھا کرتی تھی۔‏ وہ مطالعے کے دوران جوکچھ سیکھتا اُسے سکول میں اپنے دوستوں کو بھی بتایا کرتا تھا۔‏

ڈسٹن نے مقامی کنگڈم ہال میں عبادت پر جانا شروع کر دیا۔‏ اُس نے عبادت کے اُن حصوں میں جواب دینا بھی شروع کر دئے جن میں سوال پوچھے جاتے تھے۔‏ تاہم،‏ اُس کے والد نے زور دیا کہ سب کو چرچ جانا چاہئے۔‏ ڈسٹن نے واضح کِیا کہ وہ کنگڈم ہال جانے کو ترجیح کیوں دیتا ہے۔‏ اس پر اُس کے والد نے اُسے وہاں جانے کی اجازت دے دی۔‏

ایک شام کنگڈم ہال میں عبادت کے بعد ڈسٹن کی ماں اُسے ڈھونڈنے لگی۔‏ وہ اپنی ماں کو بتائے بغیر مسیحی خدمتی سکول کے نگہبان کے پاس پہنچ گیا اور اُس سے سکول میں اپنا نام لکھوانے کی درخواست کرنے لگا۔‏ اُس کی ماں اس کے سکول میں نام لکھوانے پر راضی تھی۔‏ اُسے اپنی پہلی تقریر کا بڑی بےصبری سے انتظار تھا۔‏ تاہم،‏ اس دوران اُسے کولہے میں شدید درد اُٹھا۔‏ اُسے معائنے کے لئے مختلف ڈاکٹروں کے پاس لیجایا گیا۔‏ آخرکار،‏ کنگڈم ہال میں اُس کی پہلی تقریر کا دن بھی آ گیا جس کا ڈسٹن کو شدت سے انتظار تھا۔‏ درد کی وجہ سے وہ بیساکھیوں کے سہارے چلتا تھا۔‏ لیکن درد کے باوجود،‏ وہ بیساکھیوں کے بغیر چل کر پلیٹ‌فارم تک گیا۔‏

کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ ڈسٹن کو ہڈیوں کا کینسر ہے۔‏ اُس نے اگلا سال سان ڈیگو کیلی‌فورنیا میں بچوں کے ہسپتال میں گزارا۔‏ اس کا دوائیوں اور شعاعوں سے علاج کِیا گیا۔‏ یہاں تک کہ اس کی دائیں ٹانگ اور پیڑو کی ہڈی کاٹ دی گئی۔‏ اس سب کے باوجود،‏ نہ تو اُس کا ایمان کمزور پڑا اور نہ ہی یہوواہ کے لئے اُس کی محبت کم ہوئی۔‏ اس سے اب کچھ بھی پڑھا نہیں جاتا تھا۔‏ لیکن اس کی ماں جو ہمیشہ اس کے سرہانے بیٹھی رہتی اس کو پڑھ کر سنایا کرتی تھی۔‏

اگرچہ ڈسٹن کی حالت بگڑتی چلی گئی توبھی شکایت اُس کے لب پر نہ آئی۔‏ وہ اپنی کرسی گھما کر دوسرے مریضوں،‏ ان کے ماں‌باپ اور ایک یہوواہ کے گواہ مریض کے پاس جاتا اور ان کی حوصلہ‌افزائی کِیا کرتا۔‏ ہسپتال کا سٹاف دیکھ سکتا تھا کہ ڈسٹن اور دوسرا یہوواہ کا گواہ مریض سب سے فرق تھے۔‏ اُن کا ایمان اُن کے لئے ایک سہارا تھا۔‏

ڈسٹن یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لینا چاہتا تھا۔‏ لیکن اُسے ابھی بپتسمہ کے اُمیدواروں سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینے تھے۔‏ تاہم،‏ وہ اسقدر کمزور تھا کہ اُس کے لئے صوفے پر بیٹھنا بہت مشکل تھا۔‏ لہٰذا،‏ مسیحی بزرگوں نے اُس کے ساتھ صوفے پر لیٹے لیٹے بپتسمے کے سوال کئے۔‏ اکتوبر ۱۶،‏ ۲۰۰۴ کو ۱۲ سال کی عمر میں ایک سرکٹ اسمبلی پر ڈسٹن کا بپتسمہ ہو گیا۔‏

جب بپتسمہ کی تقریر شروع ہونے والی تھی تو ڈسٹن کرسیوں کی درمیانی جگہ سے گزر کر بپتسمہ کے دوسرے اُمیدواروں کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔‏ اُس روز اُس نے اپنا سب سے اچھا لباس پہنا ہوا تھا۔‏ جب سب کو کھڑا ہونے کے لئے کہا گیا تو ڈسٹن کرسی کے سہارے ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا۔‏ اس نے بپتسمہ کے سوالوں کا بلند اور واضح آواز میں جواب دیا۔‏ ڈسٹن کے والد اور اس کی سوتیلی والدہ سمیت اس کا سارا خاندان وہاں موجود تھا۔‏ نیز،‏ اس موقع پر ہسپتال کا عملہ اور کینسر کے مریض بچوں کے والدین بھی حاضر تھے۔‏

ڈسٹن کے بپتسمہ کے اگلے روز اسے پھر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔‏ کینسر اس کے بدن کی ہر ہڈی میں پھیل چکا تھا۔‏ وہ اَور زیادہ کمزور ہو گیا تھا۔‏ اُس نے محسوس کِیا کہ اب اس کی زندگی ختم ہونے والی ہے۔‏ اُس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ مرنے والا ہے؟‏ اُس کی ماں نے کہا:‏ ”‏تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‏ کیا تمہیں مرنے سے ڈر لگتا ہے؟‏“‏

اُس نے کہا:‏ ”‏جی‌نہیں!‏ مَیں اپنی آنکھیں بند کر لوں گا اور جب مَیں مُردوں میں سے زندہ ہوکر اپنی آنکھیں کھولوں گا تو مجھے ایسا لگے کہ مَیں نے چند لمحوں کے لئے اپنی آنکھیں بند کی تھیں۔‏ پھر مجھے درد محسوس نہیں ہوگا۔‏“‏ اس کے بعد اُس نے کہا:‏ ”‏مجھے بس اپنے خاندان کی فکر ہے۔‏“‏

اس سے اگلے ہی ماہ ڈسٹن وفات پا گیا۔‏ ڈسٹن کے خاندان کے تمام لوگ اس کے جنازے پر شریک ہوئے۔‏ اس کے علاوہ ڈاکٹروں،‏ نرسوں،‏ ٹیچروں اور پڑوسیوں نے بھی شرکت کی۔‏ ڈسٹن کی درخواست تھی کہ اس کے جنازے پر اس کے عقائد کی بابت اچھی گواہی دی جائے۔‏ مسیحی خدمتی سکول کے جس نگہبان نے اُسے سکول میں تقریر دی تھی اُسی نے ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے عمدہ اور ایمان کو مضبوط کرنے والی جنازے کی تقریر پیش کی۔‏

جو لوگ جنازے پر حاضر ہوئے تھے انہیں ڈسٹن کے دو پسندیدہ صحائف چھاپ کر دئے گئے۔‏ وہ صحائف یہ تھے—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۷‏۔‏ ڈسٹن کو جاننے والے لوگوں کے لئے اس کی خداپرستانہ زندگی اور مضبوط ایمان حوصلہ‌افزا تھا۔‏ ہم اُسے پھر سے مُردوں میں سے زندہ ہوکر واپس خوش‌آمدید کہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏—‏ڈسٹن کو بائبل سکھانے والی بہن کی زبانی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر عبارت]‏

‏”‏مَیں اچھی کشتی لڑ چکا۔‏ مَیں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔‏ میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۷

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

اُوپر:‏ ڈسٹن اچھی صحت کے ساتھ

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

نیچے:‏ ڈسٹن ۱۲ سال کی عمر میں بپتسمہ لیتے وقت