مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سمندری پانی نمکین کیوں ہے؟‏

سمندری پانی نمکین کیوں ہے؟‏

سمندری پانی نمکین کیوں ہے؟‏

سمندروں میں پائے جانے والے تمام نمک کو اگر زمین کی سطح پر برابر پھیلا دیا جائے تو نمک ۱۵۰ میٹر [‏۵۰۰ فٹ]‏ کی اُونچائی تک پہنچتا۔‏ لیکن یہ تمام نمک سمندر میں کیسے پہنچا ہے جبکہ سمندر میں گِرنے والے دریاؤں کا پانی میٹھا ہوتا ہے؟‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنسدانوں نے اس سلسلے میں کیا دریافت کِیا ہے۔‏

بارش کا پانی جب مٹی سے گزرتا ہے تو مٹی میں پائی جانے والی معدنیات اس میں گھل جاتی ہیں۔‏ ان معدنیات میں نمک اور ایسے کیمیائی عناصر بھی شامل ہیں جن کے مرکب سے نمک بنتا ہے۔‏ پھر یہ پانی ندیوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر میں بہہ جاتا ہے ‏(‏۱)‏‏۔‏ دریاؤں کے پانی میں نمک کی مقدار نسبتاً کم ہوتی ہے اس لئے یہ ہمیں کڑوا نہیں لگتا۔‏

سمندر کی تہہ کی مٹی میں بھی نمک پایا جاتا ہے۔‏ جب اس مٹی میں گہرے گہرے شگاف پڑتے ہیں تو پانی ان شگافوں میں داخل ہو جاتا ہے۔‏ چونکہ زمین کی تہہ کا درجۂ‌حرارت بہت زیادہ ہے اس لئے یہ پانی بھاپ بن کر مٹی میں سے نمک گھلاتا ہے۔‏ پھر گرم چشموں کے ذریعے یہ بھاپ نمک سمیت دوبارہ سے سمندری پانی میں مل جاتا ہے ‏(‏۲)‏‏۔‏

سمندر کی تہہ میں آتش‌فشاں پہاڑ بھی ہوتے ہیں جو بڑی مقدار میں لاوا اُگلتے ہیں۔‏ اس لاوے میں بہت سی ایسی معدنیات موجود ہیں جو پانی میں گھل جاتی ہیں ‏(‏۳)‏‏۔‏ اس کے علاوہ معدنیات والی گرد اور مٹی،‏ ہوا میں اُڑ کر بھی سمندر تک پہنچتی ہے ‏(‏۴)‏‏۔‏ ان تمام ذرائع سے طرح طرح کی معدنیات سمندر میں پہنچتی ہیں یہاں تک کہ سمندری پانی میں تقریباً ہر کیمیائی عنصر پایا جاتا ہے۔‏ لیکن جو کیمیائی مرکب سب سے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے یہ سوڈیم کلورائیڈ ہے،‏ یعنی خوردنی نمک۔‏ سمندری پانی میں پائی جانے والی نمکیات میں سے ۸۵ فیصد سوڈیم کلورائیڈ ہی پر مشتمل ہے۔‏ اور اسی وجہ سے سمندری پانی کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔‏

نمک کی مقدار کیوں نہیں بڑھتی؟‏

سمندر کا پانی جب بھاپ بن کر بادلوں میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اِس میں کوئی نمک نہیں ہوتا۔‏ اس کا مطلب ہے کہ نمک سمندر ہی میں رہ جاتا ہے۔‏ اس کے ساتھ ساتھ ہر لمحے اَور بھی معدنیات سمندر میں پہنچ جاتی ہیں۔‏ اس کے باوجود سمندری پانی میں نمک کی مقدار کبھی بڑھتی نہیں بلکہ ہمیشہ ۳ اعشاریہ ۵ فیصد رہتی ہے۔‏ نتیجتاً جتنا بھی نمک سمندر میں پہنچتا ہے اُتنا ہی اس سے نکلتا بھی ہے۔‏ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ سارا نمک کہاں غائب ہو جاتا ہے؟‏

اس کی بڑی مقدار جانوروں کے بدنوں کا حصہ بن جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مونگے،‏ سیپیاں اور گھونگے وغیرہ اپنا چھلکا یا ڈھانچا کیلسیم سے بناتے ہیں جو طرح طرح کی نمکیات کا ایک اہم جُزو ہے۔‏ اس کے علاوہ سمندری کائی اور جراثیم جیسی ننھی سی مخلوقات بھی طرح طرح کی معدنیات جذب کر لیتی ہیں۔‏ جب یہ مخلوقات کھائی جاتی یا مر جاتی ہیں تو ان کے بدنوں میں جو نمکیات اور معدنیات ہوتی ہیں یہ سمندر کی تہہ میں جمع ہو جاتی ہیں ‏(‏۵)‏‏۔‏

نمک دوسرے طریقوں سے بھی سمندری پانی میں سے نکل جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ دریاؤں کے ذریعے چکنی مٹی سمندر میں پہنچتی ہے اور آتش‌فشاں پہاڑوں کی راکھ بھی سمندر میں گِرتی ہے۔‏ نمک چکنی مٹی یا راکھ سے جڑ جاتا ہے اور اس کے ساتھ سمندر کی تہہ میں جمع ہو جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ نمک کئی قسم کی سمندری چٹانوں سے بھی چپٹ جاتا ہے۔‏ ایسے بےشمار طریقوں سے نمکیات اور معدنیات پانی میں سے نکل کر سمندر کی تہہ میں جمع ہوتی ہیں ‏(‏۶)‏‏۔‏

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہہ میں جو نمک جمع ہوتا ہے وہ وہاں سے بھی غائب ہو جاتا ہے،‏ حالانکہ اس میں کافی عرصہ لگتا ہے۔‏ زمین کی سطح بڑے بڑے ٹکڑوں پر مشتمل ہے جو حرکت میں رہتے ہیں۔‏ کچھ علاقوں میں ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے ٹکرا کر آہستہ سے اِس کے نیچے کھسک جاتا ہے۔‏ ایسے علاقوں میں اکثر زمین کی سطح پر بڑی بڑی دراڑیں،‏ زلزلے اور آتش‌فشاں پہاڑ نمایاں ہوتے ہیں۔‏ عام طور پر ایسے ٹکڑے جو سمندری علاقوں میں واقع ہیں اُن ٹکڑوں سے زیادہ بھاری ہوتے ہیں جو خشکی میں واقع ہیں۔‏ اس لئے سمندری ٹکڑے اکثر خشکی کے ٹکڑوں کے نیچے کھسکتے ہیں۔‏ اس طرح سمندر کی تہہ میں جو نمک جمع ہوتا ہے یہ ان ٹکڑوں کے ساتھ زمین کی تہہ میں غائب ہو جاتا ہے ‏(‏۷)‏‏۔‏

کمال کی چیز

مختلف سمندروں میں نمک فرق مقدار میں پایا جاتا ہے۔‏ مثلاً خلیجِ‌فارس اور بحرِقلزم میں نمک کی مقدار تمام سمندروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ پانی بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‏ اس کے برعکس جن علاقوں میں بڑے بڑے دریا سمندر میں گِرتے ہیں یا بارش بہت زیادہ پڑتی ہے وہاں پانی میں نمک کی مقدار نسبتاً کم ہوتی ہے۔‏ برف میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔‏ اس لئے ان سمندروں میں جہاں برف پگلتی ہے وہاں بھی نمک کی مقدار کم ہوتی ہے۔‏ لیکن جب سمندر کا پانی جم کر برف بنتا ہے تو برف کی سطح کے نیچے،‏ پانی میں نمک کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔‏ تاہم،‏ دُنیا کے زیادہ‌تر علاقوں میں سمندری پانی میں نمک کی مقدار تقریباً برابر ہی ہوتی ہے۔‏

سمندر کا پانی مختلف علاقوں میں برابر کھارا بھی ہوتا ہے۔‏ پانی کی کھٹاس یا کھار کا پیمانہ پی‌ایچ (‎pH‎) کہلاتا ہے۔‏ اگر پانی کا پی‌ایچ ۷ سے کم ہے تو یہ کھٹا ہوتا ہے۔‏ اگر پی‌ایچ ۷ سے اُوپر ہے تو پانی کھارا ہوتا ہے۔‏ سمندری پانی کا پی‌ایچ عموماً ۷ اعشاریہ ۴ اور ۸ اعشاریہ ۳ کے درمیان ہوتا ہے۔‏ (‏انسانی خون کا پی‌ایچ تقریباً ۷ اعشاریہ ۴ ہوتا ہے۔‏)‏ اگر سمندری پانی کا پی‌ایچ اس سے زیادہ یا کم ہوتا تو سمندر اور اس میں رہنے والی مخلوق کو خطرہ ہوتا۔‏ اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔‏ انسانی عمل کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی‌آکسائیڈ نامی ایک گیس کی مقدار بڑھ رہی ہے۔‏ سمندر اس گیس کو جذب کر لیتا ہے جہاں اس سے کاربونک ایسڈ نامی ایک تیزاب پیدا ہوتا ہے۔‏ اس کا مطلب ہے کہ انسانی عمل کی وجہ سے سمندری پانی آہستہ آہستہ کھٹا ہوتا جا رہا ہے۔‏

سائنسدان بھی سمندر میں ہونے والے کیمیائی عمل کو پوری طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔‏ البتہ جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اس سے ہمارے خالق کی لاجواب حکمت ظاہر ہوتی ہے۔‏ واقعی،‏ خدا کو اپنی مخلوق کی پرواہ ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ اور ۲۵ پر ڈائیگرام/‏تصویریں]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

بارش

↓↓

↓↓

۴ ہوا

۱ مٹی میں پائی جانے والی معدنیات ↓ ۶ آتش‌فشاں کی راکھ

‏.................. ↓ .............................. ↓ ..........................................‏

۳ سمندر کی تہہ میں ۵ ننھی سی ↓

سمندر آتش‌فشاں کا پھٹنا سمندری مخلوقات ↓

↑ ↓ ↓

۲ گرم چشمہ ↑ ↓ ↓

↑ ↑ سمندر کی تہہ ↓ ↓

↑ ↑ ۷ →→ نیچے کھسکنے والا ٹکڑا

↑ زمین کی سطح کا ایک ٹکڑا →→

↑ →→

‏............................................................................................................................‏

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Vent: © Science VU/Visuals Unlimited; eruption: REUTERS/Japan

Coast Guard/Handout

‏.Diatoms: Dr. Neil Sullivan, USC/NOAA Corps; volcano photo: Dept

of Interior, National Park Service

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس/‏ڈائیگرام]‏

سمندری پانی میں نمکیات

حالانکہ سائنسدان تقریباً ۱۰۰ سال سے سمندری پانی پر تحقیق کرتے آ رہے ہیں پھر بھی اس میں پائے جانے والے کیمیائی مرکبات کے بارے میں اُن کا علم محدود ہے۔‏ لیکن وہ سمندری پانی میں مختلف نمکیات کی نسبتی مقدار کو جانتے ہیں۔‏ ان میں یہ مرکبات شامل ہیں:‏

‏[‏ڈائیگرام]‏

۵۵ فیصد کلورائیڈ

۶.‏۳۰ فیصد سوڈیم

۷.‏۷ فیصد سلفیٹ

۷.‏۳ فیصد مگنیشیم

۲.‏۱ فیصد کیلسیم

۱.‏۱ فیصد پوٹاشیم

۴.‏۰ فیصد بائی‌کاربونیٹ

۲.‏۰ فیصد برومائیڈ

اس کے علاوہ سمندری پانی میں بوریٹ،‏ سٹرون‌شیم اور فلورائیڈ جیسے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس/‏تصویر]‏

سمندر سے زیادہ نمکین

بعض جھیلوں کا پانی سمندر کے پانی سے بھی زیادہ نمکین ہوتا ہے۔‏ اس کی ایک مثال بہیرۂمُردار ہے جو دُنیا کی سب سے نمکین جھیل ہے۔‏ خدا کے کلام میں اس جھیل کو دریائےشور یعنی نمک کا دریا کہا گیا ہے۔‏ (‏گنتی ۳۴:‏۳،‏ ۱۲‏)‏ بہیرۂمُردار کے کناروں سے ایسا پانی جھیل میں بہتا ہے جس میں نمکیات اور معدنیات گھلی ہیں۔‏ یہ جھیل اُس علاقے میں واقع ہے جو ہماری زمین کے باقی تمام علاقوں کی نسبت سب سے نچلا ہے۔‏ اس لئے پانی صرف بھاپ بن کر اس سے نکل سکتا ہے۔‏ اور گرمی کے موسم میں اتنا پانی بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ جھیل کی سطح ایک ہی دن میں ۲۵ ملی‌میٹر [‏۱ اِنچ]‏ اُترتی ہے۔‏

اس کے نتیجے میں جھیل کے پانی میں نمک کی مقدار تقریباً ۳۰ فیصد ہوتی ہے یعنی بحیرۂروم کی نسبت دس گُنا زیادہ۔‏ نمکین پانی میٹھے پانی سے بھاری ہوتا ہے۔‏ اس لئے لوگ بہیرۂمُردار میں ہاتھ‌پاؤں مارے بغیر بھی تیر سکتے ہیں،‏ یہاں تک کہ پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار پڑھنا بھی ممکن ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس]‏

نمک اور صاف ہوا

تحقیق‌دانوں نے دریافت کِیا کہ جب آلودہ ہوا میں بادل پیدا ہوتے ہیں تو خشکی کے اُوپر ان سے بارش پڑنے کا امکان کم ہوتا ہے جبکہ سمندر کے اُوپر بارش کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‏ اس کی وجہ یوں بتائی گئی ہے کہ موجوں کی حرکت سے نمک کے چھوٹے سے اجزا ہوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔‏

جب ہوا میں موجود بھاپ گرد کے ساتھ مل جاتی ہے تو ننھے سے بوند پیدا ہوتے ہیں۔‏ یہ بہت ہی چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہوا میں اُڑتے رہتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہوا میں موجود نمک کے اجزا ان بوندوں سے مل جائیں تو کئی چھوٹے بوند ایک ہی بڑے بوند میں جمع ہو جاتے ہیں۔‏ ایک ایسا بڑا بوند زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے گِر پڑتا ہے۔‏ ہم اس کو بارش کہتے ہیں۔‏ اور بارش کے ذریعے ہوا صاف ہو جاتی ہے۔‏