مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وہ خدا کے کلام کی باتوں سے محبت رکھتی تھی

وہ خدا کے کلام کی باتوں سے محبت رکھتی تھی

وہ خدا کے کلام کی باتوں سے محبت رکھتی تھی

یہ تجربہ مئی ۲۰۰۴ میں،‏ کینسر سے وفات پانے والی ایک خاتون کے خط کے بارے میں ہے۔‏ اُس نے اِس خط کو اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے لکھنا شروع کِیا تھا۔‏ لیکن اچانک زیادہ بیمار ہو جانے کی وجہ سے وہ اس کو مکمل نہ کر سکی۔‏ تاہم،‏ جنہوں نے بعد میں اُس خط کو پڑھا اُن کے آنسو بہنے لگے اور خدا پر اُن کا ایمان مزید پُختہ ہو گیا۔‏

اس خط کو لکھنے والی سوزین نے بیان کِیا کہ جب وہ ۱۴ سال کی تھی تو اُس نے امریکی ریاست کونیک‌ٹی‌کٹ میں پہلی مرتبہ یہوواہ کے گواہوں کے ایک مسیحی بزرگ کو ٹیلی‌فون کِیا۔‏ اُس نے خط میں یہ بھی بتایا کہ اُسے نوعمری کے ان سالوں کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‏ یہ خط نومبر ۲۰۰۵ میں،‏ سوزین کی والدہ کو ملا اور اُس نے اس کی ایک کاپی بناکر امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹرز بھیج دی۔‏

سوزین نے لکھا کہ اُسے کونیک‌ٹی‌کٹ کے بزرگ کا فون‌نمبر سن ۱۹۷۳ کی ٹیلی‌فون کی کتاب سے ملا تھا۔‏ اُس نے بیان کِیا،‏ ”‏یہ وہ وقت تھا جب مَیں مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالوں کو پڑھنے سے اس نتیجے پر پہنچی کہ یہی سچائی ہے۔‏ ابھی تک میری ملاقات کسی یہوواہ کے گواہ سے نہیں ہوئی تھی۔‏ مَیں نے ٹیلی‌فون کی کتاب سے اُن کے نمبر تلاش کئے اور اُس نمبر پر بات کرنے کا انتخاب کِیا جو میرے ہی علاقے کا تھا۔‏ جب مَیں نے ٹیلی‌فون پر بھائی گنرک کو بتایا کہ میری ابھی تک کسی یہوواہ کے گواہ سے ملاقات نہیں ہوئی تو وہ بہت حیران ہوئے۔‏“‏ *

ایک خلافِ‌توقع مشکل

سوزین نے اپنے خط میں بیان کِیا کہ جب وہ ۱۰ سال کی تھی تو اُسے کچھ عرصے کے لئے کونیک‌ٹی‌کٹ میں اُس کی خالہ کے پاس بھیج دیا گیا۔‏ لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد سوزین نے اپنی والدہ سے جو فلوریڈا میں اکیلی رہتی تھی کہا کہ وہ اپنی خالہ کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے۔‏ سوزین نے اپنے خط میں لکھا کہ اُس کی حالت کو ”‏سٹاک‌ہوم سنڈروم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے،‏ جس میں ایک شخص دوسروں کے دباؤ میں آ جاتا ہے۔‏“‏ اُس کے ساتھ واقعی بہت بُرا سلوک کِیا گیا۔‏

سوزین نے لکھا،‏ ”‏میری خالہ اور اُس کا شوہر مجھے بہت مارتےپیٹتے تھے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ کچھ اجنبی لوگ اُن کے گھر آیا جایا کرتے تھے۔‏ جب مَیں سکول جانے لگی تو نہ مجھے کھانے کی کوئی چیز ساتھ لیجانے کے لئے دی جاتی اور نہ میرے پاس مناسب کپڑے تھے حالانکہ امی باقاعدگی کے ساتھ پیسے بھیجا کرتی تھی۔‏ میری خالہ کی مجھے سے کچھ سال چھوٹی دو بیٹیاں تھیں اور اُن کے پاس بہت ساری چیزیں تھیں جبکہ میرے پاس ضروری چیزیں بھی نہیں تھی۔‏“‏ اُس نے واضح کِیا کہ اس بُرے سلوک کی وجہ یہ تھی کہ میری خالہ کو پتہ چل گیا کہ مَیں بائبل سیکھنے میں دلچسپی لینے لگی ہوں۔‏

سوزین کا بائبل علم میں ترقی کرنا

سوزین نے لکھا،‏ ”‏بھائی گنرک نے میری ملاقات ایک پُختہ مسیحی بہن لارا سے کرائی۔‏ وہ میرے بائبل سوالوں کے جواب دینے کے لئے میرے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارتی تھی۔‏ اکثر ہماری ملاقات اُس جگہ پر ہوتی جہاں لوگ کپڑے دھونے کے لئے آتے ہیں۔‏“‏ سوزین نے بیان کِیا کہ اس سے پہلے اُس نے کبھی خود کوئی فیصلہ نہیں کِیا تھا لیکن اس بہن کے ساتھ بات‌چیت کرنے اور بائبل پر مبنی کتاب سچائی جو باعثِ‌ابدی زندگی ہے پڑھنے کے بعد اُس نے ایسا کرنا شروع کر دیا۔‏

سوزین نے خط میں مزید بیان کِیا،‏ ”‏ایک جمعے کی رات مَیں نے خالہ کو بتایا کہ میری ملاقات گواہوں سے ہوئی ہے۔‏ اُس نے مجھے سزا کے طور پر ساری رات باورچی‌خانے میں کھڑا رکھا۔‏ اس کے بعد مَیں نے گواہ بننے کا پُختہ ارادہ کر لیا۔‏“‏

اُس وقت سے لیکر بھائی گنرک نے سوزین کو بائبل لٹریچر بھیجنا شروع کر دیا تاکہ وہ بائبل کی باتوں کو سمجھ سکے۔‏ سوزین نے لکھا،‏ ”‏میرے ذہن میں ۱۹۷۴ کی یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ کتاب آئی جس میں بتایا گیا تھا کہ کیسے گواہوں نے نازی جرمنی میں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران ظلم‌وستم برداشت کئے۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس وقت مَیں نے کلیسیا کے بزرگ سے گیتوں کی کیسٹ کے لئے درخواست کی تاکہ مَیں انہیں سیکھ سکوں۔‏ سن ۱۹۶۶ میں،‏ گیتوں کی کتاب ۱۱۹ گیتوں پر مشتمل تھی۔‏ ایک سال کے اندر اندر مَیں تمام گیت گانے کے قابل ہو گئی۔‏“‏

‏”‏اس دوران بھائی گنرک نے مجھے بائبل پر مبنی تقریروں،‏ ڈراموں اور اسمبلی پروگراموں کی کیسٹ بھی بھیجیں۔‏ وہ یہ چیزیں گلی نمبر ۱۰ میں ایک ٹیلی‌فون کے کھمبے کے پاس چھوڑ جاتے اور مَیں جاکر اُٹھا لیا کرتی۔‏ .‏ .‏ .‏ اب مجھے بہت زیادہ بےچینی محسوس ہونے لگی کیونکہ مَیں نے کسی اجلاس پر جائے بغیر اس حد تک ترقی کر لی تھی۔‏ اب میرے لئے اس حالت کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔‏“‏

سوزین نے کہا کہ اگلے چند سال بہت ہی مشکل تھے۔‏ اُس نے اُن دو گواہوں سے ہر طرح کا رابطہ ختم کر لیا جن سے وہ واقف تھی۔‏ تاہم پھر اُس نے بیان کِیا کہ ”‏جو گیت مَیں نے سیکھے تھے وہ مجھے ’‏پریشان‘‏ کرنے لگے۔‏“‏ مگر کیوں؟‏ ”‏اسلئےکہ مَیں گیتوں کے ان الفاظ پر پورا نہیں اُتر رہی تھی کہ ’‏یہوواہ کے خادم آرام کی زندگی نہیں چاہتے۔‏‘‏ اس بات سے واقف ہونے کی وجہ سے مجھے زیادہ شرمندگی ہو رہی تھی کہ یہ الفاظ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے ایک اذیتی کیمپ میں قید گواہوں نے تحریر کئے تھے۔‏ مجھے ایسا لگا رہا تھا کہ مَیں بہت کمزور اور بزدل ہوں اور یہوواہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‏“‏ *

آخرکار آزادی مل گئی

‏”‏جب مَیں ۱۸ سال کی ہوئی تو میری زندگی میں ایک خاص موڑ آیا۔‏ کئی سالوں سے کوئی گواہ ہمارے گھر نہیں آیا تھا کیونکہ ہم نے گواہوں کو ’‏اپنے گھر آنے سے منع کر دیا تھا۔‏‘‏ مگر اس دن ایک دوسری کلیسیا کی بہن ہمارے گھر آئی اور مَیں اُس سے بات کرنے کے قابل ہوئی کیونکہ گھر پر کوئی دوسرا شخص موجود نہیں تھا۔‏ جہاں تک مجھے یاد ہے پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ہفتہ کے دن مَیں گھر پر اکیلی تھی۔‏ یہ میرے لئے اس بات کا ثبوت تھا کہ یہوواہ خدا نے مجھے ترک نہیں کِیا۔‏ پس مَیں نے بھائی گنرک کو فون کِیا کہ مَیں ان حالات سے نکلنا چاہتی ہوں اور آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں۔‏ آخرکار،‏ مَیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔‏“‏

اپریل ۱۹۷۷ میں،‏ سوزین ایک دوسری جگہ منتقل ہو گئی۔‏ اُس نے اپنے خط میں مزید لکھا:‏ ”‏اگلے سال کے دوران مَیں تمام اجلاسوں اور اسمبلیوں پر حاضر ہونے اور منادی میں حصہ لینے کے قابل ہو گئی۔‏ مَیں نے پھر سے اپنی والدہ کے ساتھ رابطہ کِیا۔‏ اُنہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان تمام سالوں کے دوران میرے ساتھ اسقدر بُرا سلوک ہوا۔‏ یہ سب کچھ جاننے کے بعد وہ بہت زیادہ غمزدہ ہو گئی۔‏ اُنہوں نے فوری طور پر میرے لئے تمام ضروری چیزوں کا بندوبست کِیا۔‏ امی جان چند سال پہلے ہی فلوریڈا سے آلاسکا منتقل ہوئی تھی۔‏ جب اُنہوں نے بائبل سچائی میں بہت زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی تو مَیں ۱۹۷۸ میں اُن کے پاس آلاسکا چلی گئی۔‏ بالآخر،‏ وہ گواہ بن گئیں اور آج تک اپنے ایمان پر قائم ہیں۔‏

‏”‏جب مَیں نے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کِیا تو بھائی گنرک نے بہن‌بھائیوں کے ایک گروپ کو امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز کا دورہ کرانے کا بندوبست بنایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ جانے کی دعوت دی۔‏ یہ میری زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ تھا جو کبھی کسی نے مجھے دیا ہو۔‏ اس دورے نے مجھے تاحیات یہوواہ کی تنظیم کی قدر کرنے کے قابل بنایا۔‏ یہ وہ تمام باتیں تھیں جو مَیں بتانا چاہتی تھی۔‏ مَیں نے یہ سب مختصراً اس لئے لکھا ہے کیونکہ مَیں خط کو بعد میں مکمل کروں گی۔‏“‏

اُوپر دئے گئے بیانات ساڑھے چھ صفحات پر مشتمل خط سے لئے گئے ہیں۔‏ اپنے خط کے آخر پر سوزین نے لکھا:‏ ”‏پچھلے مہینے جب مَیں ہسپتال میں داخل تھی تو میری حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔‏ میرا خیال تھا کہ اب مَیں زندہ نہیں رہونگی۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی کہ اگر مجھے دو ہفتوں کیلئے صحت مل جائے تو مَیں کچھ خاص کام کرنا چاہتی ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ مجھے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی اُمید نہیں تھی لیکن جو سال مَیں نے سچائی میں گزارے وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا جسکی شاید ہی کسی شخص نے توقع کی ہو۔‏“‏

اس خط میں نہ تو کوئی اختتامی الفاظ لکھے ہوئے تھے اور نہ ہی اسے ارسال کِیا گیا تھا۔‏ جن کو یہ خط ملا وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ یہ خط کس کو بھیجا جانا چاہئے۔‏ جیسےکہ اُوپر بیان کِیا گیا بالآخر یہ خط سوزین کی والدہ کو ارسال کر دیا گیا۔‏

سوزین کے بارے میں مزید معلومات

اپریل ۱۴،‏ ۱۹۷۹ میں،‏ سوزین کے بپتسمے کے بعد اُس کی والدہ واپس فلوریڈا چلی گئی۔‏ سوزین نے آلاسکا رہنے کا فیصلہ کِیا اور جنوبی پول کی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی۔‏ اس کے تھوڑی دیر بعد اُس نے کُل‌وقتی خدمت شروع کر دی۔‏ سن ۱۹۹۱ میں،‏ وہ فلوریڈا چلی گئی اور ایک کلیسیائی بزرگ اور کُل‌وقتی خادم کے ساتھ شادی کر لی۔‏ سوزین کی موت کے کچھ دیر بعد ہی اُس کے شوہر کی بھی وفات ہو گئی۔‏

سوزین اور اُس کا شوہر ہردلعزیز اور پیارا جوڑا تھا۔‏ اُنہوں نے سوزین کی بیماری کے باوجود کُل‌وقتی خدمت کو ہر ممکن حد تک جاری رکھا۔‏ اُنہوں نے کوئی ۲۰ سال سے زیادہ عرصہ تک خدا کی خدمت کی۔‏ سوزین کے جنازے کی رسم تو فلوریڈا میں ہوئی لیکن ٹیلی‌فون کے ذریعے جنوبی پول کی کلیسیا کو بھی اس میں شریک کِیا گیا۔‏

سوزین کا خط ہمیں خدا کے خادموں کے طور پر حاصل ہونے والی روحانی برکات اور قیامت کی شاندار اُمید کی اَور زیادہ قدر کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ یہ تجربہ اس بات کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ یہوواہ خدا اُن سب کے قریب ہے جو اُس کے نزدیک آتے ہیں!‏—‏یعقوب ۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 سن ۱۹۹۳ میں،‏ بھائی گنرک اور اُس کی بیوی ایک حادثے میں وفات پا گئے۔‏

^ پیراگراف 13 یہوواہ کی حمد کے گیت گائیں،‏ گیت ۲۹‏،‏ ”‏آگے بڑھو اَے گواہو!‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر عبارت]‏

‏”‏جو سال مَیں نے سچائی میں گزارے وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا جس کی شاید ہی کسی شخص نے توقع کی ہو“‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

جب سوزین دس سال کی تھی

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

سوزین اپنے شوہر جیمز سایمور کے ساتھ