مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا شراب پینا جائز ہے؟‏

کیا شراب پینا جائز ہے؟‏

پاک صحائف کی روشنی میں

کیا شراب پینا جائز ہے؟‏

‏”‏مے مسخرہ اور شراب ہنگامہ کرنے والی ہے اور جو کوئی ان سے فریب کھاتا ہے دانا نہیں۔‏“‏ یہ بات سلیمان نبی نے خدا کے الہام سے امثال ۲۰:‏۱ میں کہی ہے۔‏ کیا اس حوالے سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پاک صحائف میں شراب پینے کو غلط قرار دیا گیا ہے؟‏ اس حوالے کی بِنا پر کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کی نظروں میں شراب ناجائز ہے۔‏ وہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے پاک صحائف میں سے اَور بھی ایسے حوالے دیتے ہیں جن میں حد سے زیادہ شراب پینے کے بُرے نتائج کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏—‏پیدایش ۹:‏۲۰-‏۲۵‏۔‏

جو شخص حد سے زیادہ شراب پیتا ہے اکثر وہ جگر کا مریض بن جاتا ہے،‏ اپنے خاندان کو اذیت پہنچاتا ہے اور غربت کا شکار ہو جاتا ہے۔‏ شراب کے نشے کی وجہ سے لوگ شدید حادثوں کا شکار بھی ہوتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ اگر حاملہ عورت شراب پیتی ہے تو اُس کے پیٹ میں پلنے والے بچے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏ ایک انسائیکلوپیڈیا میں کہا گیا ہے کہ شاید انہی بُرے نتائج کی وجہ سے ”‏بہت سے مذاہب میں شراب پینے کو گُناہ قرار دیا گیا ہے۔‏“‏ لیکن کیا شراب پینا واقعی گُناہ ہے؟‏ کیا پاک صحائف میں حد میں رہ کر شراب پینے سے بھی منع کِیا گیا ہے؟‏

شراب کے متعلق پاک صحائف کی تعلیم

بیشک پاک صحائف میں حد سے زیادہ شراب پینے کے بُرے نتائج سے آگاہ کِیا گیا ہے۔‏ افسیوں ۵:‏۱۸ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”‏شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے۔‏“‏ امثال ۲۳:‏۲۰،‏ ۲۱ میں لکھا ہے کہ ”‏تُو شرابیوں میں شامل نہ ہو اور نہ حریص کبابیوں میں کیونکہ شرابی اور کھاؤ کنگال ہو جائیں گے۔‏“‏ اس کے علاوہ یسعیاہ ۵:‏۱۱ میں یوں کہا گیا ہے:‏ ”‏اُن پر افسوس جو صبح‌سویرے اُٹھتے ہیں تاکہ نشہ‌بازی کے درپے ہوں اور جو رات کو جاگتے ہیں جب تک شراب اُن کو بھڑکا نہ دے!‏“‏

البتہ پاک صحائف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شراب فائدہ‌مند ہو سکتی ہے اور اسے حد میں رہ کر پینے سے لطف اُٹھایا جا سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر زبور ۱۰۴:‏۱۵ میں بتایا گیا ہے کہ ”‏مے“‏ یعنی شراب خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے ”‏جو اِنسان کے دل کو خوش کرتی ہے۔‏“‏ واعظ ۹:‏۷ میں محنت‌مزدوری کرنے والے آدمی سے کہا گیا ہے کہ ”‏خوشی سے اپنی روٹی کھا اور خوشدلی سے اپنی مے پی“‏ کیونکہ یہ اُس کا اَجر ہے۔‏ پولس رسول جانتا تھا کہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن سے آرام پانے کے لئے شراب پینا فائدہ‌مند ثابت ہوتا ہے۔‏ اس لئے اُس نے تیمتھیس کو یہ نصیحت کی کہ ”‏آیندہ کو صرف پانی ہی نہ پیا کر بلکہ اپنے معدہ اور اکثر کمزور رہنے کی وجہ سے ذرا سی مے بھی کام میں لایا کر۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۲۳‏)‏ اس کے علاوہ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ شراب تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے بھی فائدہ‌مند ثابت ہوتی ہے۔‏—‏امثال ۳۱:‏۶،‏ ۷‏۔‏

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک صحائف میں شراب پینے سے بالکل منع نہیں کِیا گیا،‏ البتہ حد سے زیادہ شراب پینے یا پھر شراب کے نشے میں دُھت ہونے سے ضرور منع کِیا گیا ہے۔‏ اس وجہ سے پولس رسول نے مسیحی کلیسیا کے نگہبانوں،‏ خادموں اور ضعیف عورتوں کی تاکید کی کہ وہ ’‏زیادہ مے نہ پئیں۔‏‘‏ اس کے علاوہ اُس نے تیمتھیس کو ”‏ذرا سی مے“‏ کام میں لانے یعنی شراب پیتے وقت حد میں رہنے کی نصیحت کی تھی۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲،‏ ۳،‏ ۸؛‏ ططس ۲:‏۲،‏ ۳‏)‏ خدا کے کلام میں تمام مسیحیوں کو آگاہ کِیا جاتا ہے کہ شرابی ”‏خدا کی بادشاہی کے وارث“‏ نہ ہوں گے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

غور کریں کہ پاک صحائف میں ایک شرابی کو اتنا ہی بُرا قرار دیا گیا ہے جتنا کہ اُس شخص کو جو حد سے زیادہ کھانا کھانے کی عادت رکھتا ہے۔‏ (‏استثنا ۲۱:‏۲۰‏)‏ اگر خدا چاہتا کہ ہم شراب کا ایک گھونٹ بھی نہ لیں تو کیا وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم کھانے کا ایک نوالہ بھی نہ کھائیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اس کا مطلب ہے کہ خدا کی نظروں میں شراب پینا اتنا ہی جائز ہے جتنا کہ کھانا کھانا جائز ہے۔‏ البتہ دونوں کام حد میں رہ کر ہی کئے جانے چاہئیں۔‏ جو حد سے زیادہ شراب پیتا یا عادتاً حد سے زیادہ کھانا کھاتا ہے وہ گُناہ کرتا ہے۔‏

یسوع مسیح کی مثال

پطرس رسول نے کہا کہ یسوع مسیح ’‏ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ ہم اُس کے نقشِ‌قدم پر چلیں۔‏‘‏ یاد رہے کہ یسوع مسیح نے ’‏کوئی گُناہ نہیں کِیا۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ تو پھر یسوع مسیح شراب پینے کو کیسا خیال کرتا تھا؟‏ دلچسپی کی بات ہے کہ اُس نے اپنا پہلا معجزہ دکھاتے وقت اپنے ایک عزیز کی شادی پر پانی کو مے میں تبدیل کِیا تھا۔‏ یہ مے اتنے اعلیٰ درجے کی تھی کہ ”‏میرِضیافت“‏ نے دُلہے سے کہا:‏ ”‏ہر شخص پہلے اچھی مے خرچ کرتا ہے اور معمولی اُس وقت جب کہ سب خوب پی چکیں مگر تُو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۲:‏۹،‏ ۱۰‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

عیدِفسح کی ایک رسم میں شراب پی جاتی تھی۔‏ اس عید کے موقعے پر یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ اُس کی آنے والی موت کی یادگاری منایا کریں۔‏ اِس تقریب کا آغاز کرتے ہوئے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو مے کا ایک پیالہ دیا اور کہا:‏ ”‏تُم سب اِس میں سے پیو۔‏“‏ وہ جانتا تھا کہ جلد ہی اُسے قتل کر دیا جائے گا اس لئے اُس نے کہا کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ انگور کا یہ شِیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا۔‏ اُس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۲۷،‏ ۲۹‏)‏ یسوع مسیح مے پیتا تھا اور اُس زمانے کے لوگ اِس بات سے باخبر تھے۔‏—‏لوقا ۷:‏۳۴‏۔‏

آپ کیا کریں گے؟‏

حالانکہ پاک صحائف میں شراب پینے سے منع نہیں کِیا گیا ہے پھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ شراب پینا ہمارے لئے لازمی ہے۔‏ ایسے بہت سے حالات ہیں جن میں ہم شراب سے پرہیز کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ایک زمانے میں شراب کا عادی رہا ہے اور اُس نے اب یہ عادت چھوڑ دی ہے تو وہ جانتا ہے کہ شراب کا ایک گھونٹ بھی اُسے دوبارہ سے شراب کا غلام بنا سکتا ہے۔‏ ایک حاملہ عورت اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کی خاطر شراب پینے سے گریز کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔‏ اور اگر ہم گاڑی چلانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شراب انسان کے ہوش‌وحواس پر اثر کرتی ہے جس کی وجہ سے گاڑی کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‏ یقیناً ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے ہم خود یا پھر دوسرے لوگ خطرے میں پڑ جائیں۔‏

مسیحی کوئی ایسا کام بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے دوسرے ٹھوکر کھائیں۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۲۱‏)‏ اس لئے وہ لوگوں کو خدا کے کلام کے بارے میں سکھاتے وقت شراب نہیں پیتے۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ موسیٰ کی شریعت میں مذہبی رہنماؤں کو خدا کی خدمت کرتے وقت ”‏مے یا شراب“‏ پینے سے سختی سے منع کِیا گیا تھا۔‏ (‏احبار ۱۰:‏۹‏)‏ اس کے علاوہ کئی حکومتیں شراب پینے کی اجازت نہیں دیتیں یا پھر اس پر پابندیاں عائد کرتی ہیں۔‏ اس معاملے میں بھی مسیحی اپنے اپنے ملک کے قانون کے مطابق چلیں گے۔‏—‏رومیوں ۱۳:‏۱‏۔‏

شراب پینے یا پھر اِس سے پرہیز کرنے کا فیصلہ ہر ایک کو خود کرنا پڑے گا۔‏ البتہ خدا کے کلام میں تاکید کی گئی ہے کہ ”‏تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱‏)‏ لہٰذا ہمیں کھانے پینے کے سلسلے میں ہمیشہ حد میں رہنا چاہئے۔‏

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ .‏ .‏ .‏

▪ شراب پینے کے سلسلے میں پاک صحائف میں کس بات سے خبردار کِیا گیا ہے؟‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

▪ کیا یسوع مسیح نے شراب پی تھی؟‏—‏لوقا ۷:‏۳۴‏۔‏

▪ کھانے اور شراب پینے کے سلسلے میں مسیحیوں کو کس اصول پر عمل کرنا چاہئے؟‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱‏۔‏