بدلتی دُنیا میں نوجوانوں کی حفاظت کریں
بدلتی دُنیا میں نوجوانوں کی حفاظت کریں
لوگوں کے ذوق شوق میں ہمیشہ سے تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ لوگ آج جس بات کے شیدائی ہیں کل وہ اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی ہونے کی وجہ سے آجکل ایسی تبدیلیاں اَور بھی تیزی سے پیش آ رہی ہیں۔ اس بات کا خاص طور پر نوجوانوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
نوجوانوں کی زندگی میں انقلاب
جدید ٹیکنالوجی نے ایک ایسا انقلاب برپا کِیا ہے جس کی وجہ سے آج کے نوجوانوں کی زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ مثال کے طور پر بہتیرے ممالک میں نوجوان موبائل فون اور کمپیوٹر کے بغیر جینے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے لاتعداد لوگوں سے رابطہ کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک ۱۹ سالہ لڑکی کہتی ہے: ”کئی لوگ جو اپنے ماحول میں کسی سے دوستی نہیں کرتے، ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اُن کے ہزاروں دوست ہوں۔“
بِلاشُبہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے بےشمار فائدے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ان سہولیات کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ ایک پروفیسر کہتا ہے کہ ”کئی طالبعلم لیکچر سے فارغ ہوتے ہی موبائل فون پر گپیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کسی سے باتچیت کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کبھیکبھار تو مجھے لگتا ہے کہ اُن سے تنہائی کے چند لمحے بھی برداشت نہیں ہوتے۔“
کئی نوجوان تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہیں ان سہولیات کی لت پڑ گئی ہے۔ ستفانی نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی کہتی ہے کہ ”مجھے اپنی سہیلیوں کو انٹرنیٹ اور موبائل پر پیغامات بھیجنے کا جنون سا ہو گیا ہے۔ گھر پہنچتے ہی مَیں انٹرنیٹ کھولتی ہوں اور رات گئے تک اپنے دوستوں سے گپیں لگاتی ہوں۔ ایسے میں کبھیکبھار صبح کے تین بج جاتے ہیں۔“ ستفانی کو ہر مہینے ۱۰۰ تا ۵۰۰ ڈالر [۰۰۰،۶ تا ۰۰۰،۳۰ روپے] کا ٹیلیفون بِل ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ”اب تک مَیں اپنے والدین سے موبائل فون کا بِل ادا کرنے کے لئے تقریباً ۰۰۰،۲ ڈالر [۰۰۰،۲۰،۱ روپے] اُدھار لے چکی ہوں۔ مجھے یہ پیسے واپس کرنے ہیں۔ لیکن مَیں موبائل کی اتنی عادی ہو گئی ہوں کہ مَیں اس کے بغیر جی نہیں سکتی۔“
مہنگا ہونے کے علاوہ اس عادت کی وجہ سے اَور بھی مسئلے کھڑے ہوتے ہیں۔ گھریلو ماحول پر تحقیق کرتے ہوئے ایک سائنسدان نے دیکھا کہ جب والدین ملازمت سے گھر آتے ہیں تو اکثر خاندان کے دوسرے افراد موبائل یا کمپیوٹر کے استعمال میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ وہ سلام تک نہیں کرتے۔ اِس سائنسدان نے یہ بھی کہا: ”یوں لگتا ہے کہ والدین اور بچے الگ الگ دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو کمپیوٹر کی دُنیا میں مگن دیکھ کر اُن سے بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔“
پردے کے پیچھے کیا ہے؟
کئی والدین اور اساتذہ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ نوجوان انٹرنیٹ پر ویب پیجز ڈالنے میں بہت وقت صرف کر رہے ہیں۔ ان پیجز پر وہ اپنی تصویریں، ویڈیو یا روزنامے شائع کرتے ہیں۔ اس سہولت کو بلاگ کہتے ہیں۔
نوجوان بلاگ کرنے کے بہت ہی شوقین ہیں کیونکہ وہ ان کے ذریعے اپنے دوستوں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر اپنا ویب پیج ڈالنے سے نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اور نوجوانوں کو ایسا کرنا بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ عمر کے اُس مرحلے سے گزر رہے ہیں جب اُن کی شخصیت تشکیل پا رہی ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے دوسروں کے دلوں کو چھونے کی بڑی خواہش محسوس کرتے ہیں۔
البتہ کئی لوگ ان بلاگ پیجز پر اپنے بارے میں غلط معلومات فراہم کرتے ہیں۔ وہ خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر ظاہر کرتے ہیں جس کی طرح بننے کا وہ خواب دیکھتے ہیں۔ امریکہ میں رہنے والا ایک ۱۵ سالہ لڑکا کہتا ہے کہ ”میرے ایک ہمجماعت نے اپنے بلاگ میں اپنے بارے میں لکھا کہ اُس کی عمر ۲۱ سال ہے اور وہ لاس ویگاس کا رہنے والا ہے۔“ دراصل یہ نوجوان شہر لاس ویگاس سے تقریباً ۶۰۰،۱ کلومیٹر [۰۰۰،۱ میل] کے فاصلے پر رہتا ہے۔
ایسی غلطبیانی انٹرنیٹ پر عام ہے۔ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک ۱۸ سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ ”انٹرنیٹ پر سب کچھ ممکن ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں اس لئے آپ جیسا بھی چاہیں روپ اپنا سکتے ہیں۔ خود کو دلکش بنانے کے لئے آپ اپنے بارے میں گڑھی ہوئی کہانیاں سنا سکتے ہیں۔ آپ ایسی تصویریں بھی ڈال سکتے ہیں جن میں آپ نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہیں یا آپ ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جو آپ اصل میں کبھی پہننے یا کرنے کی جرأت نہ رکھتے۔ آپ ایسی باتیں بھی لکھ سکتے ہیں جو آپ کسی کے روبرو ہوتے ہوئے زبان پر نہ لاتے۔ انٹرنیٹ ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے چھپ کر آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ آپ اصل میں کون ہیں۔“
انٹرنیٹ کے فائدے ضرور ہیں لیکن اس کے خطرے بھی ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بچے انٹرنیٹ کو کن باتوں کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر کتنا وقت صرف کر رہے ہیں؟ اس وقت کو محدود کرنے کے لئے آپ کونسے قدم اُٹھا رہے ہیں؟ * (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) یاد رکھیں کہ انٹرنیٹ پر نوجوانوں کو طرح طرح کے خطروں کا سامنا ہے۔ یہ کس قسم کے خطرے ہیں؟
انٹرنیٹ کے خطرات
چونکہ لوگ انٹرنیٹ پر اپنا بھیس بدل سکتے ہیں اس لئے ایسے لوگ بھی اسے استعمال کرتے ہیں جو بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کو اُس
وقت ان لوگوں کے جال میں پھنسنے کا خطرہ ہے جب وہ انٹرنیٹ پر اپنے بارے میں معلومات ڈالتے ہیں یا پھر ان سے ملاقات کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ایک کتاب کے مطابق کئی لوگوں کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ اتنا خطرناک نہیں ہے کیونکہ ”بچوں کا اپنے گھر یا پھر محلے میں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بننے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ البتہ بہت سے والدین اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ کمپیوٹر کے ذریعے ایسے بیہودہ لوگوں کو اُن کے گھر تک رسائی حاصل ہے جو آسانی سے اُن کے بچوں کی معصومیت پر وار کر سکتے ہیں۔“انٹرنیٹ پر نوجوانوں کو ایک اَور خطرے کا سامنا بھی ہے۔ کئی نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے دوسروں کو تنگ کرتے، ستاتے، یہاں تک کہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ کئی لوگ تو کسی کو ذلیل کرنے کی خاطر ہی ایک ویب پیج ڈالتے ہیں یا پھر کسی کو بدنام کرنے کے لئے ای میل اور بلاگ لکھتے ہیں۔ ایک ایسے ادارے کا ڈائریکٹر جو انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے تحفظ کے لئے مشورے فراہم کرتا ہے، اُس کا کہنا ہے کہ ۱۰ سے ۱۴ سالہ بچوں میں سے ۸۰ فیصد کو انٹرنیٹ پر اس طرح سے ستایا گیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ بچوں میں چھیڑچھاڑ ہمیشہ سے ہی رہی ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کی بدولت افواہیں اور جھوٹی معلومات پھیلانا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ کئی نوجوان تو موبائل فون کی مدد سے چھپ کر اپنے ہمجماعتوں کی تصویریں ایسی حالت میں کھینچتے ہیں جن سے وہ بہت شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ نوجوان اِن تصویروں کو انٹرنیٹ پر ڈالتے ہیں جہاں دوسرے لوگ ان کو دیکھ کر مزے لیتے ہیں۔
مسئلہ کس حد تک بگڑ گیا ہے؟
امریکہ میں عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ایک محکمہ نے انٹرنیٹ کے خطرات کے بارے میں والدین کو ایک خط ڈالا۔ اس خط میں والدین کو آگاہ کِیا گیا کہ ”اُن بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو انٹرنیٹ کو غلط باتوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔“ خط میں خاص طور پر اس بات سے آگاہ کِیا گیا کہ بچے اور نوجوان انٹرنیٹ پر اپنے بارے میں معلومات اور تصویریں ڈال رہے ہیں۔ اس معلومات میں اکثر ایسے لوگ دلچسپی لیتے ہیں جو بچوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس خط میں آگے بیان کِیا گیا ہے: ”والدین، یہ نہ سوچیں کہ آپ کے بچے خطرے میں نہیں ہیں۔ اُن کو خطروں سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ بات جان لیں کہ آپ کے بچے انٹرنیٹ کو کن باتوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور وقتاًفوقتاً اُن کے ساتھ ملکر اِسے استعمال کریں۔“
بہت سے والدین اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ اُن کے بچے انٹرنیٹ کو کن باتوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک خاتون جو اس بات سے آگاہ رہتی ہے کہ اُس کی ۱۶ سالہ بیٹی انٹرنیٹ کو کن کاموں کے لئے استعمال کرتی ہے، وہ کہتی ہے: ”اگر والدین کو معلوم ہوتا کہ اُن کے بچے انٹرنیٹ پر کونسی معلومات پیش کر رہے ہیں اور کن موضوعات پر باتچیت کر رہے ہیں تو وہ سخت پریشان اور نہایت شرمندہ ہوتے۔“ انٹرنیٹ کے استعمال پر تحقیق کرنے والی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ بعض نوجوان انٹرنیٹ پر ایسی تصویریں ڈالتے ہیں جن میں وہ بےحیا اور بازاری نظر آتے ہیں۔
حقائق پر غور کریں
یہ بات سچ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی گزارنے کا انداز بدل گیا ہے۔ توپھر کیا ماہرین اور والدین اِس حقیقت کو نظرانداز کرکے انٹرنیٹ کے خطرات کو بڑھاچڑھا کر بیان کر رہے ہیں؟ ذرا ان حقائق پر غور کریں۔ دُنیا کے چند ملکوں میں ۱۵ سے لے کر ۱۷ سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کا ایک تہائی حصہ جنسی تعلقات بڑھا چکا ہے۔ اور ۱۳ سے لے کر ۱۹ سالہ نوجوانوں کی آدھی تعداد سے زیادہ نے جنسی حرکتیں کی ہیں۔
(نیویارک ٹائمز میگزین) واقعی کمپیوٹر پر نوجوان آسانی سے خفیہ ملاقاتیں طے کر سکتے ہیں اور والدین کو اس کا گمان تک نہیں ہوتا۔ ایک جائزے کے مطابق ۵ لڑکیوں میں سے ۴ کہتی ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر جلد ہی مخالف جنس کے ساتھ ملاقات کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں۔
ان بگڑتے ہوئے حالات میں ٹیکنالوجی کا کس حد تک ہاتھ ہے؟ ایک رسالے کے مطابق ”موبائل فون اور انٹرنیٹ کے پردے پیچھے نوجوان آسانی سے طے کر سکتے ہیں کہ وہ جنسی تعلقات بڑھانے کے لئے کب اور کہاں ملیں گے۔“ایسی ملاقاتوں کے دوران کئی لڑکیاں جنسی تشدد کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ ایک امریکی پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ”حال ہی میں ایسی لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو جنسی زیادتی کا شکار بن گئی ہیں۔“ یہ لڑکیاں بدکار لوگوں کا شکار کیسے بن جاتی ہیں؟ پولیس افسر مزید بتاتی ہے کہ ان میں سے بہت سی لڑکیوں نے ان اجنبیوں سے انٹرنیٹ پر باتچیت کی جس کے نتیجے میں وہ اُن سے ملاقات کرنے پر راضی ہو گئیں۔
”دُنیا کی حکمت“ سے خبردار رہیں
بہت سے ممالک کے اخباروں اور رسالوں میں نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ اُن کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ جنسی تعلقات بڑھانے سے باز آئیں۔ البتہ ان میں نوجوانوں کو یہ ہدایت بھی دی جاتی ہے کہ اگر وہ جنسی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں تو وہ ایسے طریقے اپنائیں جن سے اُن کو بعد میں پریشانی نہ اُٹھانی پڑے۔ اخبارنویسوں کا خیال ہے کہ ”نوجوان ہمارے کہنے پر جنسی تعلقات بڑھانے سے باز تو نہیں آئیں گے۔ اس لئے ہم ان کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ایسے تعلقات بڑھاتے وقت سمجھ سے کام لیں۔“
نوجوانوں کے لئے ایک مشہور ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کِیا گیا جس میں جنسی تعلقات بڑھانے کے سلسلے میں نوجوانوں کو تین مشورے دئے گئے: (۱)یاد رکھیں کہ لڑکی حاملہ ہو سکتی ہے۔ (۲)آپ کو جنسی بیماری لگ سکتی ہے۔ (۳)اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ دونوں ذہنی طور پر ایک ایسا قدم اُٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ پھر مضمون میں کہا گیا: ”یہ آپ ہی کا فیصلہ ہے کہ آیا آپ جنسی تعلقات بڑھائیں گے یا نہیں۔“ اس مضمون میں والدین سے مشورہ لینے پر زور نہیں دیا گیا۔ اور نہ ہی اس میں بتایا گیا کہ آیا جنسی تعلقات بڑھانا نوجوانوں کے لئے غلط ہے یا نہیں۔
خدا کی نظروں میں اِس ”دُنیا کی حکمت“ بیوقوفی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۰) یقیناً والدین اپنے بچوں کی پرورش دُنیا کی سوچ کے مطابق نہیں کرنا چاہتے ہیں جو آئے دن بدلتی رہتی ہے۔ توپھر اس خطرناک دَور میں آپ اپنے بچوں کی راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟ معاملے کا حل یہ نہیں کہ آپ اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرنے سے منع کریں۔ اس کی بجائے ان سہولیات کے استعمال میں اپنے بچوں کی راہنمائی کریں اور اسی کوشش میں رہیں کہ آپ کے بچے دل سے آپ کی راہنمائی کو قبول کریں۔ (امثال ۴:۲۳) یہ بھی جان لیں کہ آپ کے بچے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے اس لئے شوقین ہیں کہ وہ ان کے ذریعے اپنی چند خاص ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان سہولیات کی نسبت والدین اُن ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرنے کے قابل ہیں۔ یہ کس قسم کی ضروریات ہیں؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 انٹرنیٹ کے استعمال سے منع کرنے کی بجائے والدین کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اُن کے بچے انٹرنیٹ پر کیا دیکھتے اور کرتے ہیں۔ یہ جان کر وہ اپنے بچوں کو ”نیکوبد میں امتیاز“ کرنا سکھا سکتے ہیں۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) اس سے بچوں کو تب بھی فائدہ ہوگا جب وہ بڑے ہو جائیں گے۔
[صفحہ ۴ پر عبارت]
”گھر پہنچتے ہی مَیں انٹرنیٹ کھولتی ہوں اور . . . اپنے دوستوں سے گپیں لگاتی ہوں۔ ایسے میں کبھیکبھار صبح کے تین بج جاتے ہیں“
[صفحہ ۵ پر عبارت]
”انٹرنیٹ پر سب کچھ ممکن ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں اسلئے آپ جیسا بھی چاہیں روپ اپنا سکتے ہیں“
[صفحہ ۷ پر عبارت]
”اگر والدین کو معلوم ہوتا کہ اُن کے بچے انٹرنیٹ پر کونسی معلومات پیش کر رہے ہیں اور کن موضوعات پر باتچیت کر رہے ہیں تو وہ سخت پریشان اور نہایت شرمندہ ہوتے“
[صفحہ ۶ پر بکس/تصویر]
انٹرنیٹ کا جال ایک لڑکی کی زبانی
”انٹرنیٹ پر میرے سکول کا ویب پیج ہے جس کے ذریعے ہم اساتذہ اور طالبعلموں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ پہلے تو مَیں ہفتے میں ایک گھنٹہ اس ویب پیج پر صرف کرتی تھی۔ لیکن پھر مَیں روزانہ اس کے ذریعے لوگوں سے باتچیت کرنے لگی۔ مجھے اس کی اتنی عادت پڑ گئی کہ مَیں سارا وقت اسی کے بارے میں سوچتی رہتی۔ مَیں سکول کا کام نہ کرتی۔ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے وقت مَیں تقریروں پر دھیان نہ دیتی۔ یہاں تک کہ مَیں اپنی سہیلیوں کو بھی نظرانداز کرنے لگی۔ جب میرے والدین کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ مَیں انٹرنیٹ پر کتنا وقت صرف کر رہی ہوں تو اُنہوں نے اِس وقت کو محدود کر دیا۔ شروع میں تو مَیں اُن سے خفا تھی کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی سختی تھی۔ لیکن اب مَیں اُن کی شکرگزار ہوں۔ اُن کی مدد سے مَیں اس عادت پر غالب آ گئی۔ مَیں کبھی دوبارہ سے انٹرنیٹ کی غلامی میں نہیں پڑنا چاہتی ہوں۔“—بیانکا۔