نوجوانوں کی ضروریات پوری کریں
نوجوانوں کی ضروریات پوری کریں
نوجوانوں کو ایک ایسے رازدار کی ضرورت ہے جسے وہ اپنے مسئلوں اور خواہشوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ اُنہیں شریف دوستوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اُن کی اپنی شناخت کیا ہے۔ بچے اپنی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اکثر انٹرنیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔ البتہ اگر والدین ان ضروریات کو پورا کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کریں گے تو بچے ایسے دوست بنانے سے محفوظ رہیں گے جو اُن پر بُرا اثر ڈالیں گے۔
▪ نوجوان اپنے دل کی بات کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ نوجوان اکثر ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے والدین سے دل کی باتیں نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن دراصل وہ اپنی زندگی کی ہر چھوٹی موٹی بات کے بارے میں آپکو بتانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ والدین، کیا آپ اُنکی باتوں کو سننے کیلئے تیار ہیں؟—یعقوب ۱:۱۹۔
کیا آپ زندگی کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے اتنے مصروف ہیں کہ آپ کے پاس بچوں کے ساتھ باتچیت کرنے کے لئے وقت ہی نہیں رہتا؟ توپھر پاک صحائف کی اس ہدایت پر غور کریں: ’تُم بہتر چیزوں کا امتیاز کرو۔‘ (فلپیوں ۱:۱۰، کیتھولک ترجمہ) اس سے بہتر بھلا کیا بات ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے بچوں کے لئے وقت نکالیں؟
بہتیرے والدین کا خیال ہے کہ اُن کے بچے اُن سے نہیں بلکہ اپنے ہمعمروں سے دل کی باتیں کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ ایک جائزے میں ۱۲ سے لے کر ۱۸ سال کی عمر کے ۰۰۰،۱۷ طالبعلموں سے پوچھا گیا کہ اُن پر کس کا زیادہ اثر ہے، والدین کا، دوستوں کا، مشہور شخصیتوں کا، میڈیا کا یا پھر اُن کے اُستادوں کا۔ ان نوجوانوں کی تقریباً آدھی تعداد نے کہا کہ اُن پر سب سے زیادہ اثر اُن کے والدین کا ہی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو زندگی میں اچھے معیار رکھنے اور اچھے فیصلے کرنے کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایک ماں کہتی ہے: ”ہو سکتا ہے کہ آپ کی کچھ باتیں بچوں کے دلوں پر اثر نہ کریں۔ لیکن اگر آپ اپنے بچوں سے باتچیت کرنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے تو پھر آپ اُن کے دل پر اثر بھی نہیں کر سکیں گے۔“
▪ نوجوانوں کو دوستوں کی ضرورت ہے۔ ایک ۱۵ سالہ لڑکی کہتی ہے: ”زیادہتر والدین کو اس بات کا علم نہیں کہ اُن کے بچے انٹرنیٹ پر کس سے باتچیت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اِس بات میں دلچسپی لیتے ہیں۔“ لیکن اس بگڑے ہوئے زمانے میں والدین کو اس سلسلے میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بچوں کے دوست کون ہیں اور وہ انٹرنیٹ پر کن لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں؟ پاک صحائف میں یہ آگاہی پائی جاتی ہے: ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) لہٰذا آپ کو اس بات پر نظر ضرور رکھنی چاہئے کہ آپ کے بچے کس سے دوستی کرتے ہیں۔
امثال ۱۳:۲۰) جیہاں، آپ اپنے بچوں کو ایسے دوست بنانے میں مدد دے سکتے ہیں جو ان پر اچھا اثر ڈالیں گے، مثلاً ایسے دوست جو اپنے خالق کو یاد کرتے ہیں۔—واعظ ۱۲:۱۔
جن والدین کو اپنے بچوں کی فکر ہے وہ اُنہیں بُری صحبت میں نہیں پڑنے دیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی یاد رکھیں گے کہ بچوں کو دوستوں کی ضرورت ہے۔ کس قسم کے دوستوں کی؟ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا۔“ (یہوواہ خدا ہر کسی کو اپنے دوستوں میں شامل نہیں کرتا۔ اسی طرح ہمیں بھی دوست بناتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ (زبور ۱۵:۱-۵؛ افسیوں ۵:۱) یہ زندگی کا ایک نہایت اہم سبق ہے کہ ہمیں صرف ایسے لوگوں سے دوستی کرنی چاہئے جو ہمیں نیکی کی راہ پر چلنے میں مدد دے سکیں۔ ایسے والدین جو خود اس بات پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بھی اس پر عمل کرنا سکھاتے ہیں۔—۲-تھسلنیکیوں ۳:۶، ۷۔
▪ نوجوانوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کی پہچان کیا ہے۔ بچوں کی شخصیت بچپن اور نوجوانی میں ڈھالی جاتی ہے۔ ایسے میں اُن میں مختلف صفات پیدا ہوتی ہیں اور اُن کو اپنی شخصیت کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ پاک صحائف کی ایک مثل کے مطابق ”بچہ . . . اپنی حرکات سے پہچانا جاتا“ ہے۔ (امثال ۲۰:۱۱) اس وجہ سے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں اچھے اصول اور قدریں نقش کریں۔—استثنا ۶:۶، ۷۔
اس سلسلے میں ذرا ایک تمثیل پر غور کریں۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو اُن کے والدین اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کے کپڑے پہنیں گے۔ اس طرح وہ اپنے بچوں کو یہ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کونسا لباس مناسب اور حیادار ہوتا ہے۔ لیکن جب اُن کا بچہ ۳۰ سال کا ہو جاتا ہے تو کیا والدین تب بھی یہ فیصلہ کریں گے کہ اُسے کونسے کپڑے پہننے چاہئیں؟ جینہیں، کیونکہ اس عمر میں وہ یہ فیصلہ خود کر سکتا ہے۔ خدا اپنے کلام میں یہ تاکید کرتا ہے کہ ”نئی انسانیت کو پہن۔“ (کلسیوں ۳:۱۰) اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کو یسوع مسیح کی طرح بننے یعنی اُس کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب والدین ”تربیت اور نصیحت دے دے کر“ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو وہ ان کو نئی انسانیت پہننا سکھاتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۴) اُمید ہے کہ آپ کے بچے بڑے ہو کر بھی ”نئی انسانیت“ کو پہنے رکھیں گے کیونکہ وہ ایسا کرنے کے فائدے جان گئے ہیں۔—استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰۔
خود سے پوچھیں: ”میرے بچے خدا کے کلام میں پائے جانے والے اصولوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ مَیں اُن کو ’پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گذارنا‘ کیسے سکھا سکتا ہوں؟“ (ططس ۲:۱۲) اس سلسلے میں یہی کافی نہیں کہ آپ کے بچے ہر بات میں آپ کا کہنا مانیں۔ جو بچہ محض آپ کو خوش کرنے کے لئے آپ کا کہنا مانتا ہے شاید وہ دُنیا کو خوش کرنے کے لئے اُس کا بھی کہنا مانے گا۔ اس وجہ سے اپنے بچوں کو عقل سے کام لینا یعنی ”معقول“ فیصلے کرنا سکھائیں۔ (رومیوں ۱۲:۱) اُن کو سمجھائیں کہ پاک صحائف کے اصولوں پر عمل کرنا ہمارے لئے فائدہمند کیوں ہے۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
بےشک اِس دَور میں نوجوانوں کی ضروریات پوری کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن اس کا اَجر بڑا ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کے دلودماغ میں اچھے اصول نقش کریں گے تو یقیناً وہ بڑے ہو کر بھی ان پر چلنے کا فیصلہ کریں گے۔ تب آپ زبورنویس کی اس بات کی ہاں میں ہاں ملا سکیں گے کہ ’اولاد یہوواہ خدا کی طرف سے میراث ہے۔‘—زبور ۱۲۷:۳۔
[صفحہ ۹ پر تصویریں]
اپنے بچوں کو ایسے دوستوں کا انتخاب کرنا سکھائیں جو اپنے خالق کو یاد کرتے ہیں