مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا مسیحیت ناکام ہو گئی ہے؟‏

کیا مسیحیت ناکام ہو گئی ہے؟‏

پاک صحائف کی روشنی میں

کیا مسیحیت ناکام ہو گئی ہے؟‏

دُنیا کی آبادی کا تقریباً تیسرا حصہ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ دُنیا سیاسی طور پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بٹی ہوئی اور پُرتشدد دکھائی دیتی ہے۔‏ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مسیحیت کی تعلیم یسوع مسیح نے دی تھی اُس میں بگاڑ آ گیا ہے؟‏ یا پھر جس طریقے سے لوگوں کی اکثریت یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کرتی ہے اُس میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے؟‏

یہ مضمون اس بات کا جائزہ لے گا کہ یسوع مسیح نے دراصل اپنے پیروکاروں کو کیا تعلیم دی اور اُن کے لئے کیسا نمونہ قائم کِیا تھا؟‏ یہ نام‌نہاد مسیحیوں میں پائے جانے والے ایک عام نظریے پر توجہ دلائے گا جو مسیحیت کے حقیقی مطلب کے بالکل برعکس ہے۔‏

مسیحیت میں بگاڑ

یسوع مسیح کی موت کے بعد تقریباً چار سو سال کے اندر اندر مسیحیت میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔‏ اس بگڑی ہوئی مسیحیت کو رومی سلطنت نے بڑا پسند کِیا۔‏ جلد ہی اس نام‌نہاد مسیحی گروہ کے لوگوں کو رومی معاشرے میں سیاسی اور سماجی اعتبار سے اہم خیال کِیا جانے لگا۔‏ آگسٹین جیسے چرچ کے پیشواؤں نے اس تبدیلی پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ تعلیم دینا شروع کر دی کہ خدا کی جس بادشاہی کا انتظار تھا وہ اب آ پہنچی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ یہ پیشوا کہنے لگے کہ اُنہیں سیاسی اور مذہبی لحاظ سے جو اثرورسوخ حاصل ہے وہ زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کا باعث بنے گا۔‏ اس طرح زمینی معاملات کو چلانے کے سلسلے میں انسانی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا گیا۔‏

نتیجتاً،‏ بہتیرے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ایک مسیحی کا معاشرے کے سیاسی انتظام میں اہم کردار ہے۔‏ اس کردار کو نبھانے کے لئے اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ ایک مسیحی جس معاشرے میں رہتا ہے اُسے بعض‌اوقات اپنے اعتقادات کو اُس کے مطابق بنانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بہتیرے لوگ محبت اور صلح‌پسندی کی بابت یسوع مسیح کی تعلیمات کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جنگوں میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔‏ اسی طرح چرچ ایک طرف تو لوگوں کو خدا کی بادشاہی کے لئے دُعا کرنے کو کہتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں پر ظلم‌وتشدد کرنے والے حکمرانوں کی حمایت کرتے ہیں۔‏

یسوع مسیح نے دُہرے معیاروں والی مسیحیت کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔‏ آجکل نام‌نہاد مسیحی جس مسیحیت کی پیروی کرتے ہیں وہ انسانوں کی تشکیل دی ہوئی ہے۔‏ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی مسیحیت ناکام ہو گئی ہے۔‏ اس کا ثبوت تمام دُنیائےمسیحیت میں بائبل اُصولوں کے لئے احترام کی کمی سے ملتا ہے۔‏

یسوع مسیح کی تعلیم

بعض کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ کہا کہ ”‏جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ایسا مؤقف اختیار کرنے کی حوصلہ‌افزائی کیوں دی؟‏ اس سوال کا جواب یسوع مسیح کے عزیز شاگرد یوحنا رسول نے دیا۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

پس یسوع مسیح کی تعلیمات لوگوں کو انسانی تنظیموں کی طرف متوجہ نہیں کرتیں۔‏ اس کی بجائے یہ لوگوں کی توجہ خدا کی آسمانی بادشاہی کی طرف دلاتی ہیں جو زمین پر انصاف اور راستبازی قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ خود یسوع مسیح نے بھی اپنے زمانے کے معاشرتی نظام میں کسی قسم کا حصہ نہ لیا۔‏ اُس نے سیاسی نظام کو بھی رد کر دیا۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۵‏)‏ اُس نے جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے بھی تشدد کرنے سے منع کِیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۵۰-‏۵۳؛‏ یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ یسوع مسیح نے نہ تو کسی قسم کے ملکی قوانین ترتیب دئے اور نہ ہی شہریوں کے حقوق کی بابت کوئی اصول بیان کئے۔‏ اُس نے اپنے زمانے میں اُٹھنے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے سیاسی مؤقف اختیار نہ کِیا۔‏ مثلاً اُس نے غلاموں کے حقوق کی خاطر نہ تو کوئی اقدام اُٹھائے اور نہ ہی رومی سلطنت کے خلاف بغاوت میں یہودیوں کا ساتھ دیا۔‏

اس کا یہ مطلب نہیں کہ یسوع مسیح کو لوگوں اور اُن کے مسائل کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔‏ اُس نے لوگوں کو اپنے ساتھی انسانوں کے لئے اُن کی ذمہ‌داری کی بابت کافی کچھ سکھایا۔‏ اُس نے دیانتداری سے ٹیکس ادا کرنے کی حوصلہ‌افزائی کی اور اختیار والوں کی تابعداری پر زور دیا۔‏ (‏متی ۲۲:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ اُس نے ضرورت‌مندوں کی ذات میں دلچسپی لینے کی بابت بھی سکھایا۔‏ یسوع مسیح نے دوسروں کے لئے عزت‌واحترام،‏ ہمدردی،‏ رحم‌دلی ظاہر کرنے اور معاف کرنے والا بننے کی تعلیم دی۔‏ (‏متی باب ۵ تا ۷‏)‏ درحقیقت خدا اور پڑوسی کی محبت ہی یسوع مسیح کی تعلیمات کا مرکز ہے۔‏—‏مرقس ۱۲:‏۳۰،‏ ۳۱‏۔‏

جدید زمانے میں سچی مسیحیت

پس یسوع مسیح کے سچے پیروکار کو کیسی زندگی بسر کرنی چاہئے؟‏ اُسے یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلنا چاہئے۔‏ یسوع مسیح وفاداری کے ساتھ مُلک کے قانون کی پابندی کرنے کے باوجود سیاسی معاملات کے سلسلے میں غیرجانبدار رہا۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۴۷،‏ ۴۸‏)‏ اُس نے بہت زیادہ دباؤ کے تحت بھی مسیحی اُصولوں پر مصالحت نہیں کی تھی۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ اس تمام کے باوجود وہ خاموش تماشائی نہیں بنا رہا۔‏ یسوع مسیح کی طرح،‏ ایک سچا مسیحی بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کی فلاح‌وبہبود میں گہری دلچسپی لے گا۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۴‏)‏ دوسروں کو خوشحال زندگی گزارنے میں مدد دینے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کر دے گا۔‏ وہ اُنہیں یسوع مسیح کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے میں بھرپور مدد دے گا۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱۷‏۔‏

آجکل یہوواہ کے گواہ بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں یسوع مسیح کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ مُلک کے قانون کی پابندی کرنے والے پُرامن شہری ہونے کے باوجود اس دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ یسوع مسیح کی طرح وہ بھی آجکل کے پُرتشدد اور سیاسی جھگڑوں میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں۔‏ وہ مضبوطی کے ساتھ اس اُمید پر قائم ہیں کہ دُنیا کو درپیش مسائل کا واحد حل خدا کی بادشاہی ہے۔‏ سچی مسیحیت لوگوں کے خوشحال زندگی گزارنے اور آپس میں محبت رکھنے کا باعث بنتی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ یہ یقیناً ناکام نہیں ہوئی ہے۔‏

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ .‏ .‏ .‏

کیا مسیحیوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے؟‏—‏یوحنا ۶:‏۱۵‏۔‏

کیا یسوع مسیح نے جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے تشدد کرنے کی ہدایت کی تھی؟‏—‏متی ۲۶:‏۵۰-‏۵۳‏۔‏

سچے مسیحیوں کا شناختی نشان کیا ہے؟‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

EL COMERCIO, Quito, Ecuador