ابیجان کے محنتی دھوبی
ابیجان کے محنتی دھوبی
کوٹ ڈیآئیوری سے جاگو! کا نامہنگار
ہم کوٹ ڈیآئیوری کے شہر ابیجان سے مغرب کی طرف سفر کر رہے تھے۔ مغربی افریقہ کے اس گہماگہمی والے شہر کی سیر کے دوران اچانک ہماری نظر ایک خوبصورت منظر پر پڑی۔ سرسبز میدان میں دُور دُور تک گھاس پر پھیلے اور رسیوں پر لٹکے رنگبرنگے کپڑے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم حیران تھے کہ یہ کپڑے اس طرح کیوں پھیلائے گئے ہیں؟ وہاں رہنے والے ہمارے دوستوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔ یہ دراصل فانیکو کا کام ہے۔
فانیکو محنتی دھوبیوں کی ایک برادری ہے۔ صبح سے لیکر شام تک سینکڑوں آدمی اور چند محنتی عورتیں اپنا گزربسر کرنے کے لئے دریائےبانکو پر کپڑے دھوتے ہیں۔ اُن کا یہ نام ڈائیاولا یا جولا زبان کے دو الفاظ فانی اور کو سے ملکر بنا ہے۔ یہاں فانی سے مُراد ”کپڑے“ اور کو کا مطلب ”دھونا“ ہے۔ پس ڈائیاولا لفظ فانیکو سے مُراد ہے ”ایک ایسا شخص جو کپڑے دھوتا ہے۔“
دھوبی کا کام
فانیکو کی دلچسپ زندگی کی بابت مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہم ایک دن صبحسویرے اُن کے کام کی جگہ پہنچ گئے۔ وہاں ہلچل مچی ہوئی تھی! ہر شخص بڑی پھرتی سے کام کر رہا تھا۔ دریائےبانکو کے گدلے پانی میں ہر طرف بڑے بڑے ٹائر نظر آ رہے تھے جن کے اندر پتھر رکھے ہوئے تھے۔ ہر ٹائر کے پاس ایک دھوبی کمر تک گہرے پانی میں کھڑا جھاگ بنانے، کپڑوں کو پٹکنے اور رگڑنے میں مصروف نظر آ رہا تھا۔
دھوبی سورج نکلنے سے پہلے ہی گھرگھر جا کر میلے کپڑے جمع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بعض گھر ”دھوبی گھاٹ“ سے تقریباً دو میل دُور ہوتے ہیں۔ وہ سب کپڑوں کو ہتھگاڑی پر لاد لیتا ہے یا پھر گٹھڑی بنا کر سر پر رکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد فانیکو دریائےبانکو کی طرف چل پڑتا ہے۔ جب وہ دھوبی گھاٹ پہنچتا ہے تو افریقہ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے فانیکو ہمآواز ہو کر اپنی اپنی زبان میں اُسے خوشآمدید کہتے ہیں۔ بعض دھوبیوں کو یہاں کام کرتے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام براما ہے۔ اِس کی عمر ۶۰ سال سے اُوپر ہے مگر وہ اب بھی بہت تندرستوتوانا نظر آتا ہے۔ فانیکو تین دن کے علاوہ پورا سال زوروشور سے کام کرتے ہیں۔
کپڑوں کی دھلائی دراصل ایک محنتطلب کام ہے۔ جب ایک دھوبی نے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی نیچے رکھی تو ہم اتنے زیادہ کپڑے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایک گھریلو عورت تو شاید انہیں دیکھ کر ڈر ہی جائے۔ اُس دھوبی نے کپڑوں کی گٹھڑی کھولنے کے بعد ایک ایک کرکے سب کپڑوں کو پانی میں بھگونا شروع کر دیا۔ پھر اُس نے پامآئل صابن کا ایک بڑا سا ٹکڑا لیکر جھاگ بنائی اور ایک ایک کرکے کپڑوں کو پتھر پر پٹکنا شروع کر دیا۔ بعضاوقات پکے داغ صاف کرنے کے لئے وہ کپڑے کو برش سے رگڑنے لگتا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہاں کپڑوں کی دھلائی پر کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟ ایک قمیض کے لئے سات امریکی سینٹ (تقریباً ۴ روپے) اور بستر کی چادر کے لئے ۱۴ سینٹ (تقریباً ۸ روپے) دئے جاتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گزربسر کرنے کے لئے ایک فانیکو کو اتنے زیادہ کپڑے کیوں دھونے پڑتے ہیں۔
اُنہیں ڈھیروں ڈھیر کپڑے دھوتے دیکھ کر شاید آپ سوچیں: ’وہ یہ کیسے یاد رکھتے ہیں کہ کونسا کپڑا کس کا ہے؟‘ ہم سوچ رہے تھے کہ شاید وہ بھی انڈیا کے دھوبیوں والا طریقۂکار استعمال کرتے ہوئے ہر کپڑے پر ایک مخصوص نمبر لگا دیتے ہیں۔ لیکن جو طریقہ فانیکو استعمال کرتے ہیں اگرچہ وہ انڈیا کے دھوبیوں سے بالکل فرق ہے توبھی اُن کی طرح انتہائی مؤثر ہے۔
ہمارے گائیڈ نے جوکہ اس پیشے سے بخوبی واقف تھا ہمیں اس سلسلے میں فانیکو کی مہارت کے بارے میں بتانے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے جب دھوبی کپڑے جمع کرنے کے لئے جاتا ہے تو وہ خاندان کے ہر شخص کے سائز پر غور کرتا ہے تاکہ وہ یاد رکھ سکے کہ کونسا کپڑا کس کا ہے۔ کوئی نشان یا ٹیگ نہیں لگایا جاتا۔ اس کے بعد وہ ایک خاندان کے ہر کپڑے پر ایک ہی جگہ گرہ لگاتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر وہ بائیں آستین پر گرہ لگاتا ہے تو اُس خاندان کے تمام کپڑوں کی بائیں آستین پر ہی گرہ لگائے گا۔ کپڑے دھوتے وقت وہ اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ ہر خاندان کے کپڑے اکٹھے رکھے جائیں۔ ہمیں یہ کام بڑا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ لہٰذا، ہم نے ایک فانیکو سے پوچھا کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اُس نے کسی کے کپڑے دوسرے کے کپڑوں میں ملا دئے ہوں۔ اُس کے انکار میں سر ہلانے سے ہم سمجھ گئے کہ ’فانیکو کبھی کپڑوں کو اِدھراُدھر نہیں ہونے دیتا!‘
کیا کوئی بھی شخص دریائےبانکو پر آکر کپڑے دھو سکتا ہے؟ جینہیں! اس کا ایک خاص طریقۂکار ہے۔ فانیکو بننے کے خواہشمند شخص کو تین ماہ کا آزمائشی وقت دیا جاتا ہے جس میں ایک تجربہکار دھوبی اُسے تربیت دیتا ہے۔ اسی وقت کے دوران وہ کپڑوں کو یاد رکھنے کی خاص مہارت حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو اُسے کوئی دوسرا کام تلاش کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، اگر نیا فانیکو مہارت حاصل کر لیتا ہے تو اُسے کچھ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد اُسے کپڑے دھونے کی جگہ دے دی جاتی ہے جسے اُس کے علاوہ اَور کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔
پامآئل صابن
دھوبی کے کام میں صابن ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا، نئے آنے والے ناتجربہکار شخص کو پامآئل صابن کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔ دھلائی کے لئے تین مختلف قسم کے صابن استعمال کئے جاتے ہیں جن کی پہچان اُن کے رنگوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً سفید اور پیلا صابن کم میلے کپڑوں کے لئے جبکہ کالا صابن زیادہ میلے کپڑوں کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ گہرے رنگ کی وجہ پامآئل ہوتا ہے جوکہ اس صابن کا خاص جُز ہے۔ ہر فانیکو روزانہ کمازکم دس صابن استعمال کرتا ہے اس لئے صابن بنانے والے اُنہیں متواتر صابن پہنچاتے رہتے ہیں۔
ہم نے ”دھوبی گھاٹ“ سے تھوڑے فاصلے پر پہاڑی پر واقع صابن بنانے والے ایک چھوٹے سے کارخانے کا بھی دورہ کِیا۔ صابن بنانے کا اہم کام صبح چھ بجے شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والی عورتیں پہلے ہی مقامی بازار سے درکار اشیا لے آتی ہیں۔ ان میں گاڑھا یعنی جما ہوا پامآئل (روغنِتاڑ)، پوٹاشیئم ہائیڈروکسائڈ، نمک، ساورسوپ جوس، کوکونٹآئل (ناریل کا تیل) اور کوکا بٹر شامل ہیں جوکہ سب کے سب جلد تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لکڑیوں سے آگ جلا کر ان تمام اشیا کو لوہے کے ایک بہت بڑے ڈرم میں ڈال کر اُبلنے کے لئے رکھ دیتی ہیں۔ صابن کے اس آمیزے کو تقریباً چھ گھنٹے تک پکانے کے بعد وہ اسے دھات کے بنے تھالوں اور پیالوں میں ڈال دیتی ہیں۔ پھر وہ اس کے سخت ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ کئی گھنٹے بعد وہ صابن کو بڑے بڑے ٹکڑوں کی شکل میں کاٹ لیتی ہیں۔
اس کے بعد صابن تیار کرنے والی عورت صابن کے ٹکڑوں کو پلاسٹک کے ایک ٹب میں ڈال کر سر پر رکھ لیتی اور پہاڑی سے نیچے اُتر کر فانیکو کے پاس لے جاتی ہے۔ اگر دھوبی دریا میں کپڑے دھونے میں مصروف ہوں تو وہ اُن تک صابن کیسے پہنچاتی ہے؟ وہ ٹب اُٹھائے ہوئے کمر تک گہرے پانی میں اُتر جاتی اور ٹب کو پانی میں چھوڑ دیتی ہے۔ اس طرح وہ ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق صابن پہنچاتی ہے۔
کام کا اختتام
جب فانیکو دھلائی ختم کر لیتا ہے تو وہ پہاڑی کی اطراف میں جاکر دُھلے ہوئے کپڑوں کو گھاس پر پھیلا دیتا یا پھر رسیوں پر لٹکا دیتا ہے۔ یوں وہ رنگین نظارہ دکھائی دیتا ہے جو شروع میں ہماری توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اب محنتی دھوبی اپنے دنبھر کے کام سے ذرا آرام پاتا ہے۔ سہپہر کے قریب جب سارے کپڑے خشک ہو جاتے ہیں تو وہ بڑے احتیاط کے ساتھ ایک ایک کپڑے کو تہہ کرتا اور بعض کپڑوں کو کوئلوں والی استری کے ساتھ استری بھی کرتا ہے۔ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو وہ صاف اور استریشُدہ کپڑوں کی گٹھڑیاں باندھ کر اُنہیں لوگوں کے گھروں تک پہنچا دیتا ہے۔
جب ہم نے شروع میں قطاردرقطار لٹکے ہوئے کپڑے دیکھے تھے تو ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنا محنتطلب ہوگا۔ ہم بڑے خوش ہیں کہ ہماری ملاقات ابیجان کے فانیکو سے ہوئی۔ اب ہم نہ صرف دُنیابھر میں کپڑے دھونے والے مردوں اور عورتوں کے کام سے واقف ہو گئے ہیں بلکہ اس کی بہت قدر بھی کرتے ہیں۔
[صفحہ ۱۸ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
کوٹ ڈیآئیوری
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
صابن بنانے والی ایک عورت صابن بیچ رہی ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر کا حوالہ]
PhotriMicroStock™/C. Cecil