دُنیا کی دولت کس کے ہاتھ میں ہے؟
دُنیا کی دولت کس کے ہاتھ میں ہے؟
جہاں تک پیسے کا تعلق ہے دُنیا میں اس کی کمی نہیں۔ کیا اس بات پر یقین کرنا آپ کے لئے مشکل ثابت ہو رہا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ کچھ ممالک اتنے امیر ہیں کہ وہاں کے لوگ اپنے پیسوں کو خرچ ہی نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ۲۰۰۵ کی مجموعی عالمی پیداوار کی رقم دُنیا میں برابر بانٹ دی جاتی تو ہر شخص کے حصے میں ۰۰۰،۹ ڈالر [۰۰۰،۴۰،۵ روپے] آتے۔ اور مجموعی عالمی پیداوار کی رقم میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔
دُنیا کی اس مالی بہتات پر شاید بہتیرے لوگ حیرت کا اظہار کریں۔ اقوامِمتحدہ کے مطابق دُنیا کے تین سب سے امیر اشخاص کی کُل دولت اتنی ہے جتنی کہ دُنیا کے ۴۸ غریب ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ہے۔ اِس کے علاوہ ہر دن کروڑوں لوگ فاقہ رہتے ہیں اور اُنہیں پینے کے لئے صاف پانی بھی مہیا نہیں۔
امریکی سائنسدان ایسے لوگوں پر تحقیق کر رہے ہیں جو غربت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا غربت کی دلدل میں پھنس جانے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ امریکہ ایک دولتمند ملک ہے پھر بھی ۵ ارب امریکی اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
دُنیابھر کے بینکوں اور تجوریوں میں بےتحاشا پیسہ محفوظ ہے۔ تو پھر لوگ کروڑوں کی تعداد میں غربت کا شکار کیوں ہیں؟ دُنیا کی بڑھتی ہوئی دولت میں سے کچھ اُن کے حق میں کیوں نہیں آتا؟
[صفحہ ۳ پر عبارت]
دُنیا کے تین سب سے امیر اشخاص کی کُل دولت اتنی ہے جتنی کہ دُنیا کے ۴۸ غریب ممالک کی مجموعی قومی پیداوار
[صفحہ ۲، ۳ پر تصویر]
اینٹوں کے اس کارخانے میں کام کرنے والے بچوں کو ۳۰ روپے دن کی مزدوری ملتی ہے
[تصویر کا حوالہ]
Fernando Moleres/ Panos Pictures ©
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Giacomo Pirozzi/Panos Pictures ©