غربت وبا کی طرح کیوں پھیل رہی ہے؟
غربت وبا کی طرح کیوں پھیل رہی ہے؟
پہلی صدی عیسوی میں یسوع مسیح نے کہا تھا: ”غریب غربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں۔“ (متی ۲۶:۱۱) اور واقعی یسوع کے زمانے سے لے کر آج تک لوگوں کی بڑی تعداد غربت کا شکار رہی ہے۔ لیکن ایک ایسی دُنیا میں جہاں دولت کی کمی نہیں ہے، اتنی غربت کیوں پائی جاتی ہے؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لوگ اِس لئے غربت کا شکار بنتے ہیں کیونکہ وہ زندگی میں غلط فیصلے کرتے ہیں۔ ایک حد تک یہ بات سچ ہے۔ ایسے لوگ جو شراب اور منشیات کے نشے میں غرق رہتے ہیں اور جو جوا کھیلتے ہیں وہ بآسانی اپنا سارا پیسہ اُڑا دیتے ہیں۔ لیکن ہر غریب شخص غلط اقدام اُٹھانے کی وجہ سے غربت کی دلدل میں نہیں پھنستا ہے۔
دُنیا کے صنعتی انتظام میں تبدیلیوں کی وجہ سے بہتیرے لوگ بےروزگار ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو نوکری تو کرتے ہیں لیکن اُن کا پیسہ علاج اور دوائیوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسے کروڑوں لوگ جن کی پیدائش ترقیپذیر ممالک میں ہوئی ہے، وہ اپنی کسی غلطی کی وجہ سے غریب نہیں ہیں۔ غربت کا شکار بننے والے زیادہتر لوگ ایسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں وہ خود تبدیلی نہیں لا سکتے۔
ماضی کی عبرتانگیز مثال
سن ۱۹۳۰ کے بعد دُنیا پر ایک معاشی آفت ٹوٹ پڑی۔ امریکہ میں کروڑوں لوگ بےروزگار ہو گئے اور لاکھوں دوسرے لوگ بےگھر ہو گئے۔ اُس وقت بہتیرے لوگوں کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہ تھا، لیکن کسانوں نے بےتحاشا دودھ اُنڈیل کر ضائع کر دیا اور سرکاری اہلکاروں کے کہنے پر لاکھوں مویشیوں کو بھی مار ڈالا گیا۔
بہتیرے لوگوں کے فاقہ ہونے کے باوجود کسانوں نے ایسا کیوں کِیا؟ اِس لئے کہ حکومت کے معاشی اصولوں کے مطابق پیداوار کو صرف منافع کے لئے بیچا جا سکتا تھا۔ غریب لوگوں کو دودھ، گوشت اور اناج کی بہت ضرورت تھی۔ لیکن جب ان چیزوں سے منافع کمانا ناممکن ہو گیا تو انہیں ردی کی طرح ضائع کر دیا گیا۔
اِسکے نتیجے میں بہت سے شہروں میں فساد ہونے لگے۔ چونکہ کئی لوگ اپنے گھروالوں کیلئے کھانا خریدنے کے قابل ہی نہ رہے تھے اِسلئے وہ بندوق سے لوگوں کو دھمکا کر اُن سے کھانا چھین لیتے۔ دوسرے لوگ بھوکے پیٹ سوتے۔ یہ سب واقعات امریکہ میں پیش آئے۔ دُنیا کی معاشی مشکلات کے آغاز میں اس ملک کا مالی انتظام غریب لوگوں کی مدد کو نہ آ سکا۔ حکومت کے نزدیک عوام کی ضروریات کو پورا کرنا اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ منافع کمانا۔
موجودہ حالات
اس بُرے دَور کے کچھ عرصہ بعد دُنیا کی معاشی حالت میں بہتری آنے لگی۔ اور دُنیا میں آج بہتیرے دولتمند اور کامیاب لوگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن دولت کی بہتات ہوتے ہوئے بھی غریب لوگوں کو اپنے حالات میں بہتری لانے کا موقع نہیں ملتا۔ خوراک کی کمی اور غربت کے بارے میں اتنی رپورٹیں درج کی جاتی ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں پڑھ پڑھ کر تھک گئے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے پناہگزین فاقہ رہتے ہیں، سیاستدانوں کے اشاروں
پر خوراک کو ضائع کِیا جاتا ہے، تاجر ضروریاتِزندگی کی قیمت اس حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ غریب لوگ ان چیزوں کو خرید نہیں سکتے۔ دُنیا کا معاشی انتظام کروڑوں غریب لوگوں کو نظرانداز کرتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی معاشی انتظام تمام انسانوں کی مالی ضروریات کو پورا نہیں کر پایا ہے۔ تین ہزار سال پہلے بادشاہ سلیمان نے یہ نتیجہ اخذ کِیا تھا: ”تب مَیں نے پھر کر اُس تمام ظلم پر جو دُنیا میں ہوتا ہے نظر کی اور مظلوموں کے آنسوؤں کو دیکھا اور اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا اور اُن پر ظلم کرنے والے زبردست تھے پر اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔“ (واعظ ۴:۱) حالانکہ آج کے دَور میں مالی خوشحالی بڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی غریبوں کے ساتھ بےرحمی کی جاتی ہے۔
کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو خود کو غربت کی دلدل میں سے بچا نہیں سکتے۔ لیکن ان میں سے بہتیرے لوگوں نے کامیابی سے مالی مسائل کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ یہ لوگ مستقبل کے لئے ایک شاندار اُمید رکھتے ہیں۔
[صفحہ ۵ پر بکس]
غربت کے شکنجے میں
اپنی کتاب میں ڈیوڈ شپلر نامی ایک صحافی بتاتے ہیں کہ امریکہ میں وہ لوگ کیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو غربت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ”ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنے کی وجہ سے ایک بچے کو دَمے کا دورہ پڑتا ہے۔ اُسے علاج کروانے کے لئے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جس کا خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس خرچے کو پورا کرنے کے لئے اُس کی ماں قرض اُٹھاتی ہے۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ گھاٹے میں رہتی ہے۔ اس طرح جو قرضہ اُس نے گاڑی خریدنے کے لئے لیا ہے، اُس کا سود بڑھ جاتا ہے۔ خرچے کو کم کرنے کے لئے وہ ایک پُرانی اور سستی گاڑی خریدنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پُرانی گاڑی میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خرابی رہتی ہے۔ لہٰذا وہ عورت کام پر اکثر دیر سے پہنچتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اُس کے زیادہ پیسے کمانے کے امکان بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اور وہ اپنے بچے کے ساتھ اُسی ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔“ یہ بچہ اور اُس کی ماں دُنیا کے سب سے امیرترین ملک میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی غربت ایک سائے کی طرح ہمیشہ اُن پر چھائی رہتی ہے۔
[صفحہ ۶ پر بکس]
ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں
نومبر ۱۹۹۳ میں سرکاری اہلکار بےگھر لوگوں کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے واشنگٹن ڈی.سی. میں جمع ہوئے۔ اِن لوگوں کی مدد کرنے کے لئے ان اہلکاروں کو اربوں ڈالر دستیاب تھے۔ اُن کی باتچیت جاری تھی کہ سڑک کے اُس پار ایک بےگھر عورت نے دَم توڑ دیا۔ اُس کی لاش کو اُٹھانے کے لئے پولیس افسر، ڈاکٹر، ایمبولینس والے اور آگ بجھانے والے وہاں پہنچ گئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ جس جگہ پر اس عورت نے دَم توڑا تھا وہاں پر وہ سرکاری محکمہ واقع ہے جس کی ذمہداری بےگھر لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
جب اس سرکاری محکمہ کے ایک اہلکار کا انٹرویو لیا گیا تو اُس نے وہاں جمع افسروں اور ڈاکٹروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”عجیب بات ہے کہ مرنے پر ایک شخص کو کتنی توجہ دی جاتی ہے اور جب تک وہ زندہ ہوتا ہے اُس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔“
[صفحہ ۴، ۵ پر تصویر]
سن ۱۹۳۰ کے بعد دُنیا پر ٹوٹنے والی معاشی آفت کا شکار، ایک ماں اپنے تین بچوں کے ساتھ
[تصویر کا حوالہ]
Dorothea Lange, FSA Collection, Library of Congress
[صفحہ ۶، ۷ پر تصویر]
ان کارخانوں میں کام کرنے والوں کی ماہوار تنخواہ صرف ۱۴ ڈالر [۸۵۰ روپے] ہے جبکہ وہ ہفتے میں ۷۰ گھنٹے کام کرتے ہیں
[تصویر کا حوالہ]
Fernando Moleres/Panos Pictures ©