مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اچھی مثال قائم کریں

اچھی مثال قائم کریں

ہدایت نمبر۷

اچھی مثال قائم کریں

اس ہدایت پر عمل کرنے کی اہمیت۔‏ بچے والدین کی باتوں سے اتنا کچھ نہیں سیکھتے جتنا کہ اُن کے اعمال سے۔‏ مثال کے طور پر والدین اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے اور دوسروں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کا درس دیتے ہیں۔‏ لیکن اگر والدین ایک دوسرے سے بےادبی کریں،‏ بچوں کو بُرابھلا کہیں اور آئے دن جھوٹ بولیں تو اُن کے بچے اُن سے کیا سیکھیں گے؟‏ کیا اُن کو ایسا نہ لگے گا کہ بڑوں کے لئے ایسی حرکتیں جائز ہیں؟‏ ڈاکٹر سال سویر نے ایک کتاب میں لکھا کہ چونکہ بچے ہر بات میں اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں اس لئے ”‏بچوں کو سکھانے کا بہترین طریقہ اُن کے لئے اچھی مثال قائم کرنا ہے۔‏“‏

اس ہدایت پر عمل کرنا مشکل کیوں ہے؟‏ والدین سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ اسی طرح یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا کہ ”‏زبان کو کوئی آدمی قابو میں نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۸‏)‏ اور پھر بچے بھی تو اپنے والدین کے صبر کو آزمانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‏ لیری ایک مہذب اور نرم مزاج شخص ہے۔‏ اُس کی دو لڑکیاں ہیں۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں خود بھی اس بات پر حیران تھا کہ میری بچیاں کتنی جلد مجھے آپے سے باہر کر دیتی تھیں۔‏“‏

آپ اس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کریں۔‏ اگر آپ سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اس کے ذریعے بھی اچھی مثال قائم کریں۔‏ وہ کیسے؟‏ کرِس جس کے دو بچے ہیں،‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏جب بھی مَیں غصے میں اپنے بچوں کو ڈانٹ دیتا یا پھر میرے کسی غلط فیصلے کی وجہ سے اُنہیں تکلیف اُٹھانی پڑتی تو مَیں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا اور اُن سے معافی مانگ لیتا۔‏ میری مثال سے میرے بچوں نے سیکھا ہے کہ امی ابو سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور ہم سب کو اچھے طور طریقے اپنانے کی بار بار کوشش کرنی پڑتی ہے۔‏“‏ کوسٹاس جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے،‏ کہتا ہے:‏ ”‏اگر مَیں غصے میں آ کر اپنی بچیوں سے کچھ کہہ دیتا تو مَیں اُن سے معافی مانگ لیتا۔‏ یوں اُنہوں نے بھی اپنی غلطیوں کے لئے معافی مانگنا سیکھ لیا ہے۔‏“‏

یہوواہ خدا والدین کو یوں تاکید کرتا ہے:‏ ”‏تُم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر ان کی پرورش کرو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ یقیناً آپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جو اچھی اچھی باتوں کا درس تو دیتے ہیں لیکن ان پر خود عمل نہیں کرتے۔‏ کیا آپ کو ایسے لوگوں پر غصہ نہیں آتا؟‏ بالکل اسی طرح بچوں کو بھی ایسی باتیں بہت بُری لگتی ہیں۔‏ اس لئے ہر روز خود سے پوچھیں:‏ ”‏میرے بچوں نے آج میرے اعمال سے کیا سیکھا ہے؟‏ کیا اُنہوں نے وہی باتیں سیکھی ہیں جن کی مَیں اُن کو نصیحت کرتا رہتا ہوں؟‏“‏

‏[‏صفحہ ۹ پر عبارت]‏

‏”‏تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟‏“‏—‏رومیوں ۲:‏۲۱

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

جب والدین اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگتے ہیں تو اُن کے بچے بھی معافی مانگنا سیکھتے ہیں