مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جنگل کی لذیذ پیداوار

جنگل کی لذیذ پیداوار

جنگل کی لذیذ پیداوار

فن‌لینڈ سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

یورپ کے شمالی ممالک میں بہت سے لوگوں کو ہرےبھرے جنگلوں میں جا کر وہاں اُگنے والے چھوٹے گول‌مول پھلوں کو جمع کرنے کا شوق ہے۔‏ شمالی یورپ کے ایک پُرانے رواج کے مطابق وہاں کے باشندوں کو جنگل کے ہر حصے میں جانے کی اجازت ہے چاہے وہ علاقہ کسی کی ملکیت ہو یا نہیں۔‏ اُنہیں صرف اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ جنگل میں تباہی نہ مچائیں اور کسی کے گھر کے زیادہ نزدیک نہ جائیں۔‏ اسی رواج پر فن‌لینڈ میں آج بھی عمل کِیا جاتا ہے۔‏ لہٰذا وہاں کے باشندے جہاں جی چاہے جا کر جنگلی پھول،‏ کھمبے اور پھل توڑ سکتے ہیں۔‏

فن‌لینڈ میں جنگل میں اُگنے والے اِن نرم پھلوں کی تقریباً ۵۰ اقسام پائی جاتی ہیں۔‏ ان میں سے ۳۷ اقسام خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔‏ اور ان میں سے تین پھل نسبتاً بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔‏ ان کا نام بِل‌بری،‏ کلاؤڈبری اور لنگون‌بری ہے۔‏—‏صفحہ ۲۴-‏۲۵ پر دئے گئے بکس کو دیکھیں۔‏

یہ شوخ رنگ پھل بڑے خوش‌ذائقہ ہیں اور یہ صحت کے لئے بہت ہی فائدہ‌مند بھی ہیں۔‏ ان کے بارے میں ایک کتاب میں یوں کہا گیا:‏ ”‏گرمی کے موسم میں اُگنے کی وجہ سے ان پھلوں کو دیر تک دھوپ میسر ہوتی ہے۔‏ اس لئے ان کے رنگ اور ذائقے پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اُن میں وِٹامن اور معدنیات بھی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔‏“‏ یہ پھل ریشہ‌دار ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اُن کو کھانے سے خون میں شکر کی مقدار کا توازن قائم رہتا ہے اور چکنائی (‏کولیسٹرول)‏ کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔‏ اس کے علاوہ ان پھلوں کو رنگ دینے والے کیمیائی مرکبات کا بھی صحت پر اچھا اثر ہوتا ہے۔‏

یہ سچ ہے کہ ان پھلوں کو توڑنے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ تو پھر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‏ اس سلسلے میں یوکا نامی ایک شخص کہتا ہے:‏ ”‏آپ ان پھلوں کو دُکان میں بھی خرید سکتے ہیں لیکن یہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔‏ ان کو خود توڑنے سے پیسے بچتے ہیں اور یہ پھل بالکل تازہ ہوتے ہیں۔‏“‏ اُس کی بیوی نینا کہتی ہے کہ ”‏جب ہم پھل توڑنے کے لئے جنگل جاتے ہیں تو ہم اپنا کھانا ساتھ لے جاتے ہیں۔‏ باہر کھلی فضا میں کھانا کھانے سے پورا خاندان لطف اُٹھاتا ہے۔‏“‏

والدین کو نینا یہ ہدایت دیتی ہے:‏ ”‏جنگل میں اپنے بچوں کی نگرانی ضرور کریں۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں دُور چلے جائیں اور آپ کو اس کا پتہ بھی نہ لگے یا پھر وہ کوئی ایسا پھل کھا لیں جو اُن کی صحت کے لئے نقصان‌دہ ہو۔‏“‏ واقعی،‏ جنگل کے ان پھلوں کی پہچان رکھنا بہت ہی اہم ہے کیونکہ ان میں سے کچھ اقسام زہریلی ہوتی ہیں۔‏

یورپ کے شمالی ممالک کے زیادہ‌تر باشندوں کی طرح یوکا اور نینا کو بھی جنگل کی سیر کرنے کا بہت شوق ہے۔‏ نینا کہتی ہے کہ ”‏مجھے جنگل کی تازہ ہوا اور پُرسکون فضا بہاتی ہے۔‏ اس ماحول میں مَیں تازہ‌دم ہو جاتی ہوں۔‏ میرے بچوں کو بھی جنگل کی سیر کرنے کا بڑا شوق ہے۔‏“‏ یوکا اور نینا کہتے ہیں کہ جنگل کی خاموش فضا میں سوچ‌بچار کرنے یا پھر آپس میں بات‌چیت کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔‏

جنگل کے یہ پھل اُس وقت زیادہ مزےدار اور غذائت‌بخش ہوتے ہیں جب وہ تازہ ہوتے ہیں۔‏ لیکن یہ جلد ہی خراب ہو جاتے ہیں۔‏ پُرانے زمانے میں لوگ ان پھلوں کو اپنے تہ‌خانوں میں ذخیرہ کرکے سردی کے موسم میں بھی ان کا مزہ لیتے تھے۔‏ آجکل لوگ انہیں فریزر میں رکھتے ہیں یا پھر ان کا مُربا یا شربت تیار کر لیتے ہیں اور یوں موسمِ‌سرما میں بھی ان سے لطف‌اندوز ہوتے ہیں۔‏

سویڈن کے ایک مصنف نے جنگل کے ان پھلوں کے بارے میں لکھا:‏ ”‏جب سردی کا موسم اپنے عروج پر ہوتا ہے تو ان پھلوں کا مُربا کھانے کا لطف دوبالا ہوتا ہے چونکہ اس کو چکھتے ہی گزرے ہوئے موسمِ‌گرما کی یاد تازہ ہوتی اور آنے والے موسمِ‌گرما کے انتظار میں شدت پیدا ہوتی ہے۔‏“‏ ان پھلوں کے طرح طرح کے استعمال ہوتے ہیں۔‏ ناشتہ کرنے کے لئے ان کو دہی،‏ دَلیا یا کورن‌فلیکس میں ملا کر کھایا جاتا ہے۔‏ ان سے پیسٹریاں اور میٹھا تیار کِیا جاتا ہے۔‏ اور ان سے جیلی بنا کر انہیں دوسرے کھانوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔‏

بہت سے لوگ ان پھلوں کو دُکان میں خریدنا پسند کرتے ہیں۔‏ لیکن ذرا خود کو جنگل کی پُرسکون فضا میں،‏ میٹھی میٹھی تازہ ہوا کا مزہ لیتے ہوئے ان شوخ رنگوں والے پھلوں کو توڑتے ہوئے تصور کریں۔‏ یہ ان شیریں پھلوں کو مُفت میں حاصل کرنے کا کیا ہی عمدہ طریقہ ہے۔‏ واقعی زبورنویس نے خدا کی حمد کرتے ہوئے خوب کہا کہ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تیری صنعتیں کیسی بےشمار ہیں!‏ تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔‏ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۰۴:‏۲۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر بکس/‏تصویریں]‏

بِل‌بری

اس میٹھے پھل کو بہت ہی پسند کِیا جاتا ہے۔‏ اس سے چٹنی،‏ مُربا،‏ جیلی،‏ شربت اور پیسٹریاں بنائی جاتی ہیں۔‏ جب تازہ تازہ بِل‌بری پر دودھ ڈال کر کھایا جاتا ہے تو یہ بہت ہی لذیذ ہوتا ہے۔‏ لیکن ایک بات ضرور یاد رکھیں:‏ ان کو کھانے سے ہونٹ اور زبان نیلی ہو جاتی ہے۔‏ اگر کوئی اس پھل کو چھپ کر بھی کھائے تو وہ ضرور پکڑا جاتا ہے اس لئے اسے چغل‌خوروں کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

کلاؤڈبری

یہ پھل اکثر ایسے علاقوں میں اُگتا ہے جہاں دلدل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔‏ فن‌لینڈ میں یہ پھل شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔‏ اس میں وِٹامن اے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ مالٹے کی نسبت اس میں تین سے لے کر چار گُنا زیادہ وِٹامن سی ہوتا ہے۔‏ لوگ اس پھل کو ’‏دلدلی علاقوں کا سونا‘‏ بھی کہتے ہیں۔‏ اس پھل سے میٹھی ڈشیں اور ایک خاص قسم کا لذیذ شربت تیار کِیا جاتا ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Reijo Juurinen/Kuvaliiteri

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

لنگون‌بری

یہ پھل فن‌لینڈ اور سویڈن کے باشندوں کے پسندیدہ پھلوں میں سرفہرست ہے۔‏ اس کی جیلی تیار کی جاتی ہے۔‏ اس کے علاوہ اس شوخ سُرخ رنگ کے پھل سے چٹنی،‏ شربت اور پیسٹریاں بھی بنائی جاتی ہیں۔‏ یہ پھل کھٹا ہوتا ہے اور اس کھٹاس کی وجہ سے دیر تک تازہ رہتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس]‏

محنت کا پھل میٹھا ہوتا ہے

جنگل میں جا کر وہاں کے پھل توڑنے سے بہت لوگ دلی سکون حاصل کرتے ہیں۔‏ * لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔‏ پاسی اور ٹویرے نامی ایک شادی‌شُدہ جوڑا فن‌لینڈ کے علاقے لیپ‌لینڈ میں رہتا ہے۔‏ یہ دونوں میاں‌بیوی اپنے استعمال کے لئے اور بازار میں فروخت کرنے کے لئے جنگل میں پھل توڑنے جاتے ہیں۔‏ ایسے میں کبھی‌کبھار مچھروں کے غول کے غول اُن پر حملہ‌آور ہوتے ہیں۔‏ ٹویرے کہتی ہے کہ ”‏مچھر ہمارے مُنہ اور ہماری آنکھوں تک میں گھس آتے ہیں۔‏“‏ مناسب لباس پہننے اور خاص لوشن لگانے سے ان مچھروں پر ایک حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‏

جنگل میں سیر کرنے کے بھی خطرے ہوتے ہیں۔‏ خاص طور پر جب آپ کسی دلدلی علاقے میں ہوتے ہیں تو چلتے چلتے اچانک ہی آپ کا پاؤں کیچڑ میں دھنس جاتا ہے۔‏ پاسی اور ٹویرے کہتے ہیں کہ جنگل کے پھل توڑنے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ آپ کو گھنٹوں بھر دب کر بیٹھ کر یا پھر جھک کر کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پیٹھ اور ٹانگیں دُکھنے لگتی ہیں۔‏

پاسی کہتا ہے کہ ”‏کئی پھل جنگل کے خاص علاقوں میں اُگتے ہیں۔‏ ایسے علاقے تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اکثر ہم ایک ایسی جگہ تلاش کرتے کرتے ہی تھک جاتے ہیں۔‏“‏ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پھلوں کو صاف کرنے میں بھی خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔‏

ان تمام وجوہات کی بِنا پر کئی لوگ جنگل کے ان پھلوں کو جنگلی جانوروں کے لئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‏ لیکن پاسی اور ٹویرے کی طرح بہت سے لوگ ہر سال ان پھلوں کی تلاش میں جنگلوں اور دلدلی علاقوں کی زیارت کرتے ہیں۔‏ وہ جنگل میں جا کر ان پھلوں کو توڑنے کے اتنے شوقین ہیں کہ وہ ایسا کرنے کے لئے طرح طرح کی مشکلات جھیلنے کو تیار ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 25 یاد رکھیں کہ جنگل میں اُگنے والے تمام پھل خوراک کے طور پر نہیں استعمال ہو سکتے۔‏ ان میں سے چند اقسام زہریلی ہوتی ہیں اور اس وجہ سے ان پھلوں کی پہچان رکھنا بہت ہی اہم ہوتا ہے۔‏