قاعدے مقرر کریں اور ان پر عمل کرائیں
ہدایت نمبر۴
قاعدے مقرر کریں اور ان پر عمل کرائیں
اس ہدایت پر عمل کرنے کی اہمیت۔ معاشرے پر تحقیق کرنے والے ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ ”درحقیقت اس میں بچوں ہی کی بہتری ہے کہ اُن کے لئے کچھ قاعدے مقرر کئے جائیں اور اُنہیں بتایا جائے کہ اِن پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اُنہیں کونسی سزا دی جائے گی۔ ایسے قاعدوں کے بغیر بچے خودغرض اور بےدل ہو جاتے ہیں اور وہ خاندان کے باقی افراد کو بھی چین سے جینے نہیں دیتے۔“ خدا کے کلام میں والدین کی یوں حوصلہافزائی کی گئی ہے: ”جو [اپنی اولاد] سے محبت رکھتا ہے بروقت اُس کو تنبیہ کرتا ہے۔“—امثال ۱۳:۲۴۔
اس ہدایت پر عمل کرنا مشکل کیوں ہے؟ بچوں کے لئے قاعدے مقرر کرنے اور پھر ان پر عمل کرانے میں وقت لگتا ہے۔ ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ بچے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش میں رہیں گے کہ ان قاعدوں میں کتنی چُھوٹ ہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ والدین اپنی بات کے پکے ہوں۔ مائیک اور سونیا جن کی دو بیٹیاں ہیں، وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”چھوٹے بچوں کی بھی اپنی اپنی شخصیت، سوچ اور خواہشات ہوتی ہیں۔ وہ فطری طور پر بُری عادتوں کو اپنانے میں زیادہ تیز ہوتے ہیں۔“ حالانکہ مائیک اور سونیا کو اپنی بچیوں سے بےحد پیار ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ”ہر بچہ وقتاًفوقتاً ضدی اور خودغرض ہوتا ہے۔“
آپ اس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ والدین کو اپنے بچوں سے اس طرح پیش آنا چاہئے جس طرح یہوواہ خدا بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اُس نے بنی اسرائیل کے لئے اپنی محبت یوں ظاہر کی کہ اُس نے اُنہیں حکم دئے اور اُن کو اِن پر عمل کرنے کی تاکید بھی کی۔ (خروج ۲۰:۲-۱۷) یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ ان حکموں پر عمل نہ کرنے پر اُن کو کونسی سزا دی جائے گی۔—خروج ۲۲:۱-۹۔
والدین چند ایسے قاعدوں کو طے کر سکتے ہیں جن پر اُن کے بچوں کو ضرور عمل کرنا ہوگا۔ کیوں نہ ان کی فہرست تیار کریں۔ بعض والدین کا خیال ہے کہ اس فہرست کو پانچ یا چھ سے زیادہ قاعدوں پر مشتمل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر فہرست میں بہت سے قاعدے درج ہوں گے تو ان کو یاد رکھنا اور ان پر عمل کرانا مشکل ہو جائے گا۔ فہرست میں ہر قاعدے کے بعد اُس سزا کو بھی درج کریں جو اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بچے کو دی جائے گی۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ سزا غلطی کے لئے مناسب ہو۔ اس کے علاوہ سزا کو صرف دھمکی کے طور پر فہرست میں شامل نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو یہ سزا دینے کے لئے تیار بھی ہوں۔ وقتاًفوقتاً قاعدوں کی اس فہرست پر نظر ڈالیں تاکہ گھر کے تمام افراد کو، یہاں تک کہ والدین کو بھی یاد رہے کہ اُن سب سے کن باتوں پر عمل کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
اگر آپ کا بچہ ان قاعدوں میں سے کسی ایک کو توڑتا ہے تو اُس کو جلد سزا دیں۔ لیکن ایسا کرتے وقت جذباتی نہ ہوں۔ اگر آپ غصے میں ہیں تو بچے کی تنبیہ کرنے یا اُسے سزا دینے سے پہلے اپنے غصہ کو ٹھنڈا کریں۔ (امثال ۲۹:۲۲) البتہ سزا دینے میں بہت دیر بھی نہ لگائیں۔ سزا کے سلسلے میں بچے کے ساتھ بحث میں نہ پڑیں۔ اُسے وہ ہی سزا دیں جو پہلے سے طے کی گئی تھی ورنہ بچہ خود کو آپ کے مقرر کئے ہوئے قاعدوں کا پابند نہیں سمجھے گا۔ اس سلسلے میں خدا کے کلام میں کہا گیا ہے: ”چُونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اس لئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“—واعظ ۸:۱۱۔
آپ اَور کن طریقوں سے اپنے بچوں کی بھلائی کے لئے اپنے اختیار کو استعمال کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۶ پر عبارت]
”بلکہ تمہارے کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو۔“—متی ۵:۳۷